Tag: فارغ بخاری

  • فارغ بخاری: اردو اور پشتو ادب کا نمایاں نام

    فارغ بخاری: اردو اور پشتو ادب کا نمایاں نام

    فارغ بخاری ترقّی پسند شاعر تھے اور ادبی صحافت میں‌ نمایاں مقام رکھتے تھے انھوں نے زبان اور شعری ہیئت میں متعدد نئے تجربات کیے اور اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا جن میں خاکے، تنقیدی مضامین اور تراجم بھی شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے غزل جیسی مقبول صنف سخن میں بھی ہیئت اور تکنیک کا منفرد تجربہ کیا اور اپنی شعری تخلیقات کو ’’غزلیہ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں‌ نقّادوں‌ کے سامنے رکھا۔

    وہ اردو ہی نہیں‌ پشتو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا۔ 11 نومبر 1917ء کو پیدا ہونے والے فارغ بخاری کا اصل نام سید میر اکبر شاہ تھا۔ فارغ بخاری نظریاتی طور پر ترقّی پسند تھے جس زمانے میں کمیونسٹ اور انقلابی فکر کے حامل اہلِ‌ قلم اور بالخصوص اس تحریک سے وابستہ شعرا اور ادیبوں‌ کو جبر اور پابندیوں کا سامنا تھا، فارغ بخاری کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

    پشتو اور اردو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے فارغ بخاری کی خدمات اور گراں قدر کام آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے رضا ہمدانی کے ساتھ کئی علمی، تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کام کیا۔ ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صداؤں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ انھوں‌ نے شخصی خاکے بھی تحریر کیے اور خاکوں‌ پر مشتمل مجموعے البم کے علاوہ کتابیں مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    فارغ بخاری نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مشرقی زبانوں کے کئی امتحانات پاس کیے۔ عملی زندگی میں انھوں نے اردو زبان میں ادبی صحافت کی۔ وہ ماہنامہ ’نغمۂ حیات‘ اور ہفت روزہ ’شباب‘ کے مدیر رہے اور ’سنگ میل‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔ فارغ بخاری کی ایک غزل کا مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

  • ڈاکٹر مقصود زاہدی: ایک بے داغ، دل آویز شخصیت

    ڈاکٹر مقصود زاہدی: ایک بے داغ، دل آویز شخصیت

    کچھ دوست اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق کچھ لکھنا چاہو تو سوائے قصیدے کے اور کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ گہری دوستی، انتہائی قربت، شب و روز کی بے تکلف صحبتوں، ذہنی رشتوں اور نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود برسوں کی ہم سفری میں بھی ان کی کوئی ایسی چوری ہم پکڑ نہیں سکتے جس پر جی کھول کر قہقہہ لگانے کا موقع میسر آئے۔ کوئی ایسی گمراہی نظر نہیں آتی جو ان کے لئے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ ڈاکٹر مقصود زاہدی ایک ایسی ہی بے داغ دل آویز شخصیت ہے۔

    وہ کوئی ایسا گہرا آدمی بھی نہیں جس کے اندر تہ خانوں میں اپنے معاشقوں اور آوارگیوں کو پالنے کے لچھن ہوں اور ان تہ خانوں کے چور دروازوں تک رسائی جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو۔ وہ تو پیٹ کا اتنا ہلکا ہے کہ پہلی ملاقات ہی میں آپ کو اپنے دوستوں، ملاقاتیوں، یہاں تک کہ اپنے مریضوں کو بوالعجبیاں تک سنا ڈالے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کے بعض ممنوع ابواب کے علاوہ اور کوئی بات بھی کسی سے نہیں چھپاتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنی افتادِ طبع کے باعث چھپا ہی نہیں سکتا۔ پھر اسے اپنی پارسائی و پاک بازی کا بھی کوئی گھمنڈ نہیں رہا۔ وہ ایک شریف اور مہذب آدمی ضرور ہے۔ لیکن ایسا گیا گزرا بھی نہیں۔ نہ خشک ملّا ہے، نہ بے رنگ سوشلسٹ، نہ صراط المستقیم کی پیمائش کرنے والا مسلمان، نہ اخلاق کا مبلغ، نہ جمالیاتی حس سے کورا فلسفی، نہ جہالت کا دوست، نہ عقل کا دشمن، اس نے منہ زور جوانی کا طوفانی دور بھی گزارا ہے۔ شکل و صورت بھی لاکھوں میں ایک ہے، ہم نے اسے ڈھلتی عمر میں دیکھا اور سچ پوچھئے تو ایک ادیب شاعر یا نظریاتی انسان کے طور پر نہیں (کہ اس وقت تک ہم پر اس کے جوہر نہیں کھلے تھے) بلکہ اپنے خوب رُو دوستوں میں اضافے کے طور پر اسے قبول کیا۔ سرخی سپیدی تو نظرِ بد دور اس ساٹھے پاٹھے دور میں بھی اس کے حسین و جمیل چہرے پر ٹھاٹھیں مارتی محسوس ہوتی ہے۔ جوانی میں نہ جانے کیا قیامت ہو گا۔

    وہ قیام پاکستان کے بعد لٹ لٹا کر یہاں پہنچا۔ اس وقت وہ سب کچھ ہار کر قلندر بن چکا تھا، لیکن ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن فکر و نظر کی روشنی تھی، علم کی دولت تھی، اس نے راولپنڈی میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا، ٹیوشنیں پڑھائیں، کتابوں کی دکان تھنکرز کارنر کے نام سے کھولی۔ آخر برما شیل میں معقول ملازمت مل گئی اور کچھ عرصہ بعد وہ تبدیل ہو کر پشاور آگیا۔ اس وقت اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک گول مٹول پیارا سا بچہ بھی جنم لے چکا تھا۔ پشاور آتے ہی اس نے یہاں کے اہلِ قلم سے فرداً فرداً مل کر اپنا تعارف کرایا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے نظریاتی رشتوں نے سارے فاصلے سمیٹ کر ہمیں قریب تر کر دیا تھا۔ دفتری اوقات کے بعد اس کا زیادہ وقت میرے ساتھ ہی گزرتا۔ ان دنوں ابھی اس کے حالات اچھے نہیں تھے لیکن میں نے اسے کبھی حالات کا رونا روتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔

    زاہدی کے آنے سے پشاور کی ادبی فضا چمک اٹھی۔ تنقیدی نشستوں میں ہماہمی پیدا ہو گئی اور لکھنے والوں میں ایک تخلیقی لہر سی دوڑ گئی۔ ایک دفعہ مشہور ادبی ماہنامہ’’ساقی‘‘ کے مدیر و مالک شاہد احمد دہلوی مرحوم ایک ریڈیو پروگرام کے سلسلے میں پشاور وارد ہوئے۔ زاہدی اور ان کے نہایت گہرے اور دیرینہ مراسم تھے۔ اس نے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور مجھے بھی بلایا۔ پہلی دفعہ زاہدی کا ٹھکانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک شکستہ حال مکان تھا جس میں بجلی تک نہیں تھی۔ گھر کا سامان دو چارپائیوں اور چند ایک ٹوٹے پھوٹے برتنوں پر مشتمل تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ہم نے ایک بوریے پر بیٹھ کر لالٹین کی مدھم روشنی میں کھانا کھایا۔ لیکن اس کی خود اعتمادی نے بڑا متاثر کیا۔ زاہدی نے نہ تو کوئی معذرت کی۔ نہ شرمندگی محسوس کی، بلکہ اس کی تلافی کچھ اس طرح اپنی سدا بہار مسکراہٹ، جادو اثر گفتگو اور لطیفوں اور چٹکلوں سے کی کہ کسی اور طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہ دیا۔ سارے وقت بچوں کی طرح اس کے فلک شگاف قہقہے گونجتے رہے۔

    میرے معاشی حالات جو کبھی اچھے نہیں رہے، ان دنوں بھی دگرگوں تھے۔ لیکن زاہدی کی حالت دیکھ کر اپنے مصائب بھول گیا اور وہاں سے جا کر کئی دنوں تک اس آہنی انسان کے عزم اور حوصلے کی داد دیتا رہا۔ مجھے زندگی کے متعلق اس کے اس رویے سے ایک نئی روشنی ملی۔ بعد میں اسی جگہ ہم نے لالٹین کے ٹمٹماتے اجالے میں اپنی زندگی کے بعض نہایت اہم فیصلے کیے۔ دلوں کے چراغ جلا کر بجلی کی کمی کو پورا کیا۔ علم و آگہی کی ضیا سے ذہنوں کو منور کیا۔ اپنی فکری الجھنوں کو سلجھا کر ذاتی اور کائناتی رشتوں کو استوار کیا۔ سماجی شعور اور عصری بصیرت حاصل کی۔ غمِ ذات کی حد بندیاں توڑ کر انسانی سوچ کے ہمہ گیر فلسفے کو اپنایا، اس وقت کہیں جا کر مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ زاہدی ان افلاس زدہ حالات میں فلگ شگاف قہقہے لگانے کی ہمّت کیسے کرتا ہے، اپنے ذاتی دکھوں کو اہمیت کیوں نہیں دیتا، اور حالات کی ستم ظریفی نے جو پہاڑ اس پر توڑے ہیں، ان کی شکوہ گزاری کو قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھتا؟

    ہمیں اپنی دوستیوں کی وسعت پر بڑا فخر ہے، لیکن زاہدی کے تعلقات کا طول و عرض دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ پورے برصغیر ہندو پاک میں شاید ہی کوئی ایسی قابل ذکر ادبی سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیت ایسی ہو گی جس سے اس کی اچھی خاصی راہ و رسم نہ ہو، سید مطلبی فرید آبادی سے قائداعظم تک، علامہ اقبال سے احمد ندیم قاسمی تک، علامہ عبدالسلام، نیازی سے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تک، اور مولوی عبدالحق سے دادا امیر حیدر تک سیکڑوں ہزاروں بڑی شخصیتوں کو اس نے اتنے قریب سے دیکھا ہے اور وہ ان کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے کہ اگر اس نے یاداشتوں کا یہ خزینہ محفوظ نہ کیا تو وطن عزیز کی ادبی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا نہایت قیمتی حصہ ضائع ہو جائے گا، کیونکہ ان عظیم حضرات کے متعلق موجودہ دوستوں میں سے کسی کو بھی صحت کے ساتھ ان تفصیلات کا علم نہیں جن کا عینی شاہد زاہدی ہے۔

    زاہدی شروع ہی سے ادب کا ایک ذہین قلم کار تھا۔ اس نے ایک ایسے پُرآشوب دور میں آنکھ کھولی جب برصغیر میں جنگ آزادی کی تحریک اپنے پورے عروج پر تھی اور انگریز سامراج کی غلامی سے گلو خلاصی کے لیے ہر نوجوان دار و رسن کی آزمائش سے گزرنے کو بے تاب تھا۔ پھر تلاشِ روزگار کے لیے اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ وہ شہر شہر قریہ قریہ سرگرداں پھرتا رہا۔ اس آوارہ گردی میں اسے محنت و سرمایہ کی کش مکش کا نہایت تلخ تجربہ ہوا‘ طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواریوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اس زہر کو اپنے رگ و پے میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا۔ پھر تقسیمِ ملک کے ساتھ ہی مذہبی اور نسلی فسادات کے الاؤ سے گزر کر وہ پاکستان پہنچا۔ آگ اور خون کے اس سیلاب میں اُس نے ہزاروں، لاکھوں بے گناہوں کو مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہنستے بستے شہروں کی تباہی اور پُر امن گھرانوں کی بربادی کے مناظر نے اس کے احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
    پاکستان آ کر اسے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی کمینگیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ خوف ناک واقعات ایک ہوش مند انسان کو پاگل بنانے کے لیے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن اس کی سوچ ایک ترقی پسند دانشور کی سوچ تھی۔ انسانی شرف پر غیر متزلزل یقین اور اس انقلاب میں کشت و خون کے اقتصادی، معاشی اور طبقاتی اسباب کے شعور نے اسے زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیا اور وہ محنت و ہمّت جو اس کی گھٹی میں پڑی تھی اس کے لیے ایک نئی زندگی کے آغاز کا سہارا بنی۔

    زاہدی ایک عرصے تک افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور نقاد کے طور پر ادبی حلقوں سے متعارف رہا۔ پھر اچانک اُس نے رباعیات و قطعات لکھ کر لوگوں کو چونکا دیا۔ پھر اس کی نظمیں اور غزلیں چھپنے لگیں۔ میں اس کی ادبی، سیاسی، سماجی بصیرت اور غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ہمیشہ قائل رہا، لیکن مجھے اس کی شعر گوئی کے متعلق کبھی حسنِ ظن نہیں تھا۔ جب پہلی دفعہ اس کی رباعیات میری نظر سے گزریں تو سب سے زیادہ اچنبھا مجھے ہوا اور میں نے اسے لکھا۔ ’’شاعری کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کرو، نثر تمہارا میدان ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو، اسی میں تمہارا بھلا ہے۔‘‘میرے اس فقرے نے جیسے اس پر تازیانے کا کام کیا اور وہ زیادہ زور و شور اور پوری لگن سے لکھتا رہا۔ اور آخر رباعیات و قطعات میں اس نے اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لیا۔

    پھر ماہنامہ کتاب میں اس کے چند ادبی خاکے سامنے آئے تو دوستوں کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ خاکے نہ صرف بھرپور اور معلومات افزا تھے بلکہ ایک منفرد اسلوب کے حامل بھی تھے۔ زبان کی چاشنی کے علاوہ ان خاکوں میں زاہدی کا غیر معمولی سیاسی و سماجی شعور رچا بسا تھا۔

    زاہدی کی صحبت گزرے ہوئے دنوں کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندی کے جراثیم پہلے سے میرے اندر موجود تھے اور اپنے معاصرین سے میری سوچ خاصی مختلف تھی لیکن اس نے مجھے انسانی قدروں سے روشناس کرایا، قلم کے استعمال میں اپنی ذمے داری کا احساس دلایا، فنی سفر میں نئی روشنیوں کی راہ دکھائی اور میری سوچ کو وسعت دے کر بے کراں بنا دیا۔

    (معروف ادیب، شاعر اور نقّاد فارغ بخاری کے مضمون سے چند اقتباسات جس میں انھوں نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم اور دوست مقصود زاہدی کے فن اور شخصیت کو پیش کیا ہے)

  • فارغ بخاری: ترقی پسند شاعر اور ادیب کا تذکرہ

    فارغ بخاری: ترقی پسند شاعر اور ادیب کا تذکرہ

    اردو اور علاقائی ادب و ثقافت میں اپنے تخلیقی کام کی وجہ سے مقام و مرتبہ پانے والوں میں فارغ بخاری بھی شامل ہیں جو ادیب، شاعر اور نقّاد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پشتو زبان میں ادب تخلیق کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا اور پشتو ان کی مادری زبان تھی۔

    فارغ بخاری نے جس زمانے میں آنکھ کھولی وہ برصغیر میں سیاسی، سماجی اور ادب میں بھی بڑی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ ادیب اور شعراء روایتی موضوعات اور افسانوی باتوں سے نکل کر حقیقت پسندی اور عام مسائل کو بھی اپنی تخلیقات میں سمو رہے تھے۔ فارغ بخاری نے بھی اسی کا اثر قبول کیا۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے اور اس زمانے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ ان کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ 11 نومبر 1917ء کو پیدا ہونے والے فارغ بخاری نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔ فارغ بخاری کو ان کی ادبی اور ثقافتی خدمات پر حکومت پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

    فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
    منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

    دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
    راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

    رات کا کرب ہے گلبانگ سحر کا خالق
    پیار کا گیت ہے یہ درد اجالوں کے لیے

    شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
    اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے

  • اردو اور پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر فارغ بخاری کا تذکرہ

    اردو اور پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر فارغ بخاری کا تذکرہ

    فارغ بخاری نظریاتی طور پر ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ انھوں نے موضوع، زبان اور شعری ہیئتوں کو نئے تجربات سے آشنا کیا اور اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    ان کا ایک نمایاں تجربہ غزل کی صنف میں‌ ہے۔ اپنے شعری مجموعے ’’غزلیہ‘‘ میں انھوں نے غزل کی ہیئت اور تکنیک کا نیا انداز نقّادوں‌ کے سامنے رکھا۔

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری نے 14 اپریل 1997ء کو وفات پائی۔ وہ پشاور سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے ترقّی پسند تحریک سے وابستگی کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پیدا ہوئے۔ پشتو اور اردو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے ان کی بیش بہا خدمات اور گراں قدر کام آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے رضا ہمدانی کے ساتھ کئی علمی، تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کام کیا اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ فارغ بخاری نے شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان کے عنوان سے نثر میں‌ یادگار چھوڑی ہیں۔

    انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے مشرقی زبانوں کے کئی امتحانات پاس کیے۔ عملی زندگی میں انھوں نے اردو ادبی صحافت کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ ماہنامہ ’نغمۂ حیات‘ اور ہفت روزہ ’شباب‘ کے مدیر رہے اور ’سنگ میل‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ فارغ بخاری کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    یہی ہے دورِ غم عاشقی تو کیا ہوگا
    اسی طرح سے کٹی زندگی تو کیا ہوگا

  • فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے فارغ بخاری ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

    فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
    راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

    سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
    منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

    شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
    اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے