Tag: فاطمہ ثریا بجیا

  • یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    فاطمہ ثریا بجیا کا نام لبوں پر آتا ہے تو ہماری اقدار، تہذیبی روایات کے ساتھ وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جس میں ایک نسل کی تربیت ہوئی اور آج وہ سب ہمارے لیے ایک ماضی بن چکا ہے۔ بجیا کو پاکستان کے ہر گھر میں‌ جو عزّت و احترام اور پیار ملا، وہ شاذ ہی کسی کا مقدر بنتا ہے۔

    بجیا سب کی نظر میں‌ نہایت محترم اور سب کے لیے شفیق ہستی تھیں۔ فاطمہ ثریا کے نام سے بجیا کی عرفیت ایسی جڑی کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی انھیں بجیا ہی پکارنے لگے۔ وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ مصنؑفہ اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے شہرت پانے والی بجیا ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے کی فرد تھیں اور اس خاندان کا ہر فرد علم و فنون اور ادب میں کسی نہ کسی حیثیت میں ممتاز ہوا۔ فاطمہ ثریا بجیا بطور ڈرامہ نگار، ناول نگار اور ادیبہ بے حد مقبول ہوئیں۔

    آج فاطمہ ثریا بجیا کی برسی ہے۔ 10 فروری 2016ء کو بجیا اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لے رخصت ہوگئی تھیں۔ ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ فاطمہ ثریا بجیا نے یکم ستمبر 1930ء کو ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد کے ضلع کرناٹک میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آگیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے کبھی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کی مگر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اہلِ قلم شخصیات میں‌ اپنا شمار کروایا۔ بجیا اپنے والدین کی بڑی بیٹی تھیں۔ والد اور دادا کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بجیا کے کندھوں پر آگئی۔ انھوں نے تمام بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا اور تعلیم و تربیت کا دور مکمل ہوا تو وہ سب اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھے اور خاص طور فن و ادب کی دنیا میں جداگانہ حیثیت حاصل کی۔ ان میں ایک نام انور مقصود کا ہے، ان کی ایک بہن زہرہ نگاہ معروف شاعر ہیں، زبیدہ طارق کو لوگوں‌ نے زبیدہ آپا کے نام سے کوکنگ ایکسپرٹ کے طور پر پہچانا۔ بجیا نے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی بدولت خوب نام پایا اور اپنی فکر اور نئی نسل کی تربیت کے لیے اپنے مشفقانہ اور پیار بھرے انداز کے لیے مشہور ہوئیں۔ بجیا کے ناولوں کی تعداد آٹھ بتائی جاتی ہے اور ایک ہی ناول کی اشاعت ممکن ہوسکی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی سیریل لکھے اور ان کے مقبول ڈراموں میں عروسہ، شمع، انا، زینت، بابر، افشاں، گھر ایک نگر اور آرزو شامل ہیں۔ بجیا نے اپنے ڈراموں میں کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر خاصی توجہ دی۔ ان کے ڈراموں میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور خونی رشتوں کے درمیان تعلق اور رویوں کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہی اثر آفرینی ناظرین کو بجیا کے ڈراموں کے سحر میں مبتلا کر دیتی تھی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا 1960ء میں اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئیں جب ان کی کراچی جانے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی، اور اتفاقیہ طور پر بجیا نے پی ٹی وی اسلام آباد اسٹیشن کا دورہ کیا جہاں ہدایت کار آغا ناصر نے انھیں ملازمت کی پیشکش کی۔ 1966ء میں بجیا نے آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا لیکن پھر ڈرامہ نگاری کی طرف آگئیں۔ بجیا کا طویل دورانیے کا پہلا ڈرامہ مہمان تھا۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کئی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی بجیا کو اعزازات دیے گئے۔ 2012ء میں بجیا کی ایک سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی۔

    آج بجیا کو ہم سے بچھڑے نو سال بیت چکے ہیں لیکن ان کی یاد اب بھی دل میں تازہ ہے۔

  • فاطمہ ثریا بجیا: پاکستان کی نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار کی برسی

    فاطمہ ثریا بجیا: پاکستان کی نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار کی برسی

    ’’بجیا‘‘ سب کی نظر میں‌ محترم اور سب کے لیے ایک شفیق ہستی تھیں۔ ان کے نام سے یہ عرفیت ایسی جڑی کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی انھیں بجیا ہی پکارتے۔

    فاطمہ ثرّیا بجیا برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ مصنؑفہ اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے شہرت پانے والی بجیا نہایت شائستہ آداب، نرم گفتار، منکسرُ المزاج خاتون مشہور تھیں جو پاکستان میں تہذیب اور روایت کی روشن مثال تھیں۔ بجیا کا تعلق ہندوستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ فاطمہ ثریا بجیا کو اردو ڈرامے کی آبرو کہا جاتا ہے، انھوں نے یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی تھی۔ 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا۔ بجیا اور ان کے بہن بھائی پاکستان میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوئے اور نام و مقام بنایا۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا انہی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے مشہور اور مقبول ترین ڈراموں میں شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی تحریر کیے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور 70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘،’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    انھوں نے 86 سال کی عمر میں 10 فروری 2016ء کو وفات پائی۔ انھیں کینسر کا موذی مرض لاحق تھا۔

  • ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ’’بجیا‘‘ سب کے لیے محترم اور سب کی نظر میں‌ شفیق و مہربان ہستی تھیں۔ فاطمہ ثرّیا کے نام سے بجیا کا لفظ ایسا جڑا کہ ہر چھوٹا بڑا انھیں عزّت و احترام سے بجیا پکارتا تھا۔

    وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ شائستہ آداب، نرم گفتار، منکسرُ المزاج، مہذّب اور مہربان بجیا کا تعلق بھی ہندوستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ بجیا نے 10 فروری 2016ء کو وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا۔ بجیا اور ان کے بہن بھائی پاکستان میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوئے اور خوب نام و مقام بنایا۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا انہی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرۂ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی تحریر کیے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    انھوں‌ نے کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔

  • مشہور ناول نگار اے آر خاتون کا یومِ وفات

    مشہور ناول نگار اے آر خاتون کا یومِ وفات

    24 فروری 1965ء کو اردو کی نام وَر ناول نگار اے آر خاتون اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ ان کا اصل نام امت الرّحمٰن خاتون تھا۔ اے آر خاتون کے متعدد ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا جو بے حد مقبول ہوئے۔

    اے آر خاتون کا تعلق دہلی سے تھا جہاں‌ وہ 1900ء میں پیدا ہوئیں۔ انھیں ابتدائی عمر ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور گھر پر اپنی تعلیم مکمل کرنے والی اے آر خاتون نے اپنے شوق اور ادب میں دل چسپی کو مضمون نگاری کی شکل میں دوسروں کے سامنے رکھا۔ اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر ان کے مضامین معروف رسالہ عصمت میں شایع ہونے لگے۔

    1929ء میں ان کا پہلا ناول شمع منظرِ عام پر آیا جسے برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور اقدار کے پس منظر میں‌ اور اس کے طرزِ تحریر کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔ اسی ناول کی مقبولیت نے انھیں مزید لکھنے پر آمادہ کیا اور پھر ایک ناول تصویر شایع ہوا جو قارئین میں مقبول ہوا۔ اس کے بعد اے آر خاتون نے افشاں، چشمہ، ہالا جیسے ناول لکھے جنھوں نے ہر سطح پر مقبولیت حاصل کی اور ان کا خوب چرچا ہوا۔

    اے آر خاتون نے برصغیر کے مسلمان معاشرے کی جھلکیاں اور تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے بناؤ اور بگاڑ کو خاندانوں اور معاشرے کے مختلف کرداروں کے ذریعے اپنے قارئین کے سامنے رکھا اور یہی ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور یہاں‌ بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پی ٹی وی نے اے آر خاتون کے ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جنھیں ہر خاص و عام اور ہر طبقے کے ناظرین نے نہایت پسند کیا اور یہ کہانیاں مقبول ثابت ہوئیں۔

  • برصغیر کی عظیم ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا کی برسی

    برصغیر کی عظیم ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا کی برسی

    10 فروری 2016ء کو تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی پانچویں برسی ہے۔

    فاطمہ ثریا بجیا کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں اور 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آبسا تھا۔ ان کا پورا گھرانہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہے۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا اسی گھرانے کے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ آج بھی ان کے تحریر کردہ ڈرامے بلاامتیازِ جنس و طبقہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرہ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی فنّی مہارت سے اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں بجیا ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئی تھیں۔

  • فاطمہ ثریا بجیا کوہم سے بچھڑے دوبرس بیت گئے

    فاطمہ ثریا بجیا کوہم سے بچھڑے دوبرس بیت گئے

    کراچی : پاکستان ٹیلی ویژن کے شمع اور افشاں جیسے مشہور ڈراموں کی خالق فاطمہ ثریا بجیا کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے، فاطمہ ثریا بجیا ایک عہد ایک تہذیب اور ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے تک اردو ادب کے دامن میں اپنے نایاب فن پارے ٹانکنے کے بعد دو برس قبل 85 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    ایک ایسی شخصیت جن کی تحریر کے ساتھ لوگوں کے دل دھڑکتے تھے، وہ سراپا سادگی کا نمونہ تھیں اورادبی دنیا کی معروف شخصیت فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت کی۔

    بجیا یکم ستمبر انیس سو تیس کوحیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آکر آباد ہوا، فاطمہ ثریا بجیا نے انیس سو ساٹھ میں پی ٹی وی سے ناطہ جوڑا، انہوں نے آگہی شمع، افشاں سمیت کئی مشہور ڈرامے لکھے جنہوں نے مقبولیت اور پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کئے۔

    ان کے لکھے گئے ڈراموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی کافی مقبولیت حاصل رہی ہے۔

    فاطمہ ثریا بجیا کو ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جس میں جاپان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    واضح رہے کہ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

    زبیدہ آپا بھی رواں سال5جنوری کو جہان فانی سے کوچ کرگئیں،اس کے علاوہ بجیا فاطمہ ثریا بجیا سندھ میں مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔ 

     

  • فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے

    فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے

    ادب کی دنیا میں عہد کا درجہ رکھنے والی فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے‘ آپ طویل عرصے تک اردو ادب کے دامن میں اپنے نایاب فن پارے ٹانکنے کے بعد گزشتہ برس 85 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا پاکستان ٹیلی وژن اورادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں اوران کا نام ناول نگاری، ڈراما نگاری کے حوالے سے بے پناہ مشہور ہے۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اوراسٹیج پر بھی کام کیا جب کہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدرہیں۔

    محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اورزبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

    ابتدائی زندگی

    بجیا یکم ستمبر1930ء کو بھارتی شہر حیدرآباد کے ضلع کرناٹک میں پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن سنہ 2007ء میں اپنی تحریروں کی بدولت عبداللہ دادابھائی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پرڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی۔

    پاکستان ہجرت

    ایک غیرملکی ویب سائٹ وائس آف امریکہ کو دئیے گئے انٹرویو مں انہوں نے ہجرت سے متعلق کہا کہ ’’پاکستان ہجرت کی تاریخ مجھے ازبر ہے کیوں کہ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی کا انتقال ہوا تھا اور 18 اکتوبر کو ان کے چہلم کے دن ہم پاکستان آئے تھے‘‘۔

    قلم سے رشتہ

    بجیا نے 14 برس کی عمر میں 250 صفحات پر مشتمل ایک مکمل ناول تحریر کیا تھا، جس کی 1000 کاپیاں چھپیں تھیں۔ پھر جس دور میں انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا شروع کیا اس وقت ڈرامے کی ایک قسط کے صرف ڈھائی سو روپے انہیں ملا کرتے تھے۔حالانکہ بقول بجیا ”حیدرآباد دکن میں ان کے یہاں 60ملازم ہوا کرتے تھے۔“ ان باتوں کا ذکر مرحومہ اکثر اپنے انٹرویوز میں بھی کیا کرتی تھیں۔

    فاطمہ ثریا کا پہلا ڈرامہ ’قصہ چہار درویش‘ تھا جو انہوں نےملک میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے صرف ایک سال بعد یعنی آج سے 52 سال پہلے سنہ 1965میں لکھا تھا۔

    ’قصہ چہاردرویشن‘ اسلام آباد سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا جس نے خوب شہرت پائی۔ اس قدر کہ بجیا کو اس کے بعد مسلسل ڈرامے تخلیق کرنا پڑے۔’الف لیلیٰ‘، ’بنو عباس‘ وغیرہ اسی دور کے لازوال ڈرامے ہیں، جبکہ بجیا نے ٹیلی فلمز بھی لکھیں اور اس کا آغاز ’چندن کا پلنا‘ سے کیا تھا۔

    بجیا کا یہ کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ہی مطبوعہ ناولز کو ڈرائی تشکیل کی صورت بخشی۔ مثلاً ’شمع‘، ’افشاں‘، ’عروسہ‘ اور ’تصویر کائنات‘ وغیرہ جن کی مصنفہ اے آر خاتون اور اسما خاتون تھیں۔ لیکن، انہیں بجیا نے ٹی وی ڈرامے کا روپ دیا اورامر کردیا جبکہ ’آگہی‘ اور ’انا‘ سمیت انہوں نے ایک سینکڑوں ڈرامے لکھے۔

    بجیا ’پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن‘ سے بھی کئی سال تک وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں اور اسی عرصے میں انہوں نے ایک جاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ میں تخلیق کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کو 11 پاکستانی زبانوں میں متعارف بھی کروایا۔

    ان خدمات کے عوض انہیں 1999ء میں جاپان کے شہنشاہ کی طرف سے خصوصی طور پر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ملکی ایوارڈز کی بات کریں تو انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت انگنت ایوارڈ مل چکے تھے۔

    بیماری اورانتقال

    فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھیں جس کے سبب ان کی زندگی کے آخری ایام گھر اوربستر تک محدود رہتے ہوئے گزرے۔ بالاخر10 فروری 2016 کوداعی اجل کی پکارپرلبیک کہتے ہوئے ادب، علم و آگہی، اخلاق و مروت اورمہرووفا کی پیکربجیا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ فاطمہ ثریا بجیا کو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    fatima-suraya-bajya-post-2

  • ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا انتقال کر گئیں

    ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا انتقال کر گئیں

    کراچی: ایک عہد تمام ہوا سب کی بجیا سب کواداس کرگئیں ڈرامہ نگاری کامنفرد نام فاطمہ ثریا بجیاانتقال کرگئیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر1930میں بھارتی شہرحیدرآباد میں پیدا ہوئیں معروف ادیب وڈرامہ نگارانورمقصود کی بہن تھیں معروف ادیبہ فاطمہ ثریابجیا کو1997میں تمغہ حسن سے نوازا گیا تھا۔

    فاطمہ ثریا بجیا جاپان کااعلیٰ سول ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں فاطمہ ثریا بجیا کو2012میں صدرپاکستان نے ہلال امتیاز سے نوازا تھا۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے مشہور ڈراموں میں شمع،افشاں،عروسہ،تصویر،زینت شامل ہیں فاطمہ ثریابجیاسندھ میں مشیربرائےتعلیم کی حیثیت سےخدمات انجام دےچکی ہیں۔

  • کراچی: نوابشاہ حادثے میں جاں بحق بچوں کی یاد میں شمعیں روشن

    کراچی: نوابشاہ حادثے میں جاں بحق بچوں کی یاد میں شمعیں روشن

    کراچی میں ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر نوابشاہ حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دعائیہ تقریب اور شمعیں روشن کی گئی ۔

    ایم کیوایم کے زیر اہتمام نائن زیرو میں نوابشاہ حادثے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے دعائیہ تقریب کی گئی جس میں فنکاروں ،اداکاروں اور مختلف جامعات کے اساتذہ ،طلبہ وطلبات اورفنکاروں اداکاروں نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ بس حادثے کی تحقیقات کی جائے۔

      مشہور ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا نے والدین سے مطالبہ کیا کہ ان گاڑیوں کو چیک کریں جن گاڑیوں میں وہ اپنے بچوں کو اسکول بھجتے ہیں ۔

    مشہور ومعروف کرکٹر شاہد خان آفریدی نے نوابشاہ حادثہ ایک بڑا واقعہ تھا ،شاہد آفریدی نے کہا کہ ملک کے لئے ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا ، دعائیہ تقریب کے بعد شرکا نے شمعیں روشن کرکے جاں بحق ہونے والے بچوں سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔