Tag: فانوس

  • فانوس نما بالیاں جو کانوں میں پہننے کے بعد روشن ہوجائیں گی

    دنیا بھر میں یوں تو فیشن کے نت نئے اور انوکھے ٹرینڈز اپنائے جاتے ہیں، تاہم کچھ انداز ایسے ہوتے ہیں جو نہایت ہی اچھوتے اور منفرد ہوتے ہیں۔

    امریکا کی ایک نوجوان خاتون آرٹسٹ نے حقیقتاً روشن ہونے والی فانوس کی شکل کی بالیاں تخلیق کی ہیں۔

    نیویارک شہر کی رہائشی ڈیانا کلڈرسیکو ایک باصلاحیت ٹیکنیکل ڈیزائنر اور فیشن پر مبنی تصاویر اور خاکے بناتی ہیں جبکہ انہیں فانوس نما ایئر رنگز (کانوں کی بالیاں) بنانے میں خصوصی مہارت حاصل ہے، یہ ایئر رنگز حقیقتاً فانوس کی طرح ہی روشن ہوتی ہیں۔

    ان چھوٹی سی فانوس نما بالیوں میں سے ایک عجیب سی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔

    ڈیانا نے یہ حیرت انگیز دھاتی زیور پیتل، اسٹرلنگ سلور، 14 قیراط سونا اور گلاس کرسٹل سے تخلیق کیا ہے اور اس میں ایک جادوئی تاثر پیدا کرنے کے لیے روشنی خارج کرنے والی لیڈ کا استعمال کیا ہے جسے ایک چھوٹی سی بیٹری سے توانائی فراہم کی جاتی ہے۔

    یہ بیٹری ایئر رنگز پہننے والی خاتون کے کانوں کے پیچھے چھپی ہوتی ہے، ڈیانا کے تیار کردہ اس منفرد انداز کی بالیوں کی اس وقت قیمت 128 سے 158 امریکی ڈالر فی جوڑی ہے۔

    یہ قیمت ان شاندار اور پرکشش بالیوں کی بناوٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے، ڈیانا نے اس کی ایک سال کی وارنٹی کی بھی پیشکش کی ہے۔

  • یو اے ای کی جامع مسجد کے شان دار فانوس، اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار

    یو اے ای کی جامع مسجد کے شان دار فانوس، اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار

    ابوظبی: متحدہ عرب امارات کی شیخ زاید جامع مسجد کے فانوس اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار ہیں، اس مسجد میں دنیا کے 7 منفرد، بڑے اور شان دار فانوس نصب ہیں۔

    یو اے ای میں واقع جامع الشیخ زاید الکبیر کے نام سے دنیا کی اس عظیم اور حسین ترین جامع مسجد کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ان فانوسوں کو دیکھ کر اسلامی آرٹ کی داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ مسجد کے فانوسوں اور قالینوں کے ڈیزائن میں ایسی ہم آہنگی کا اہتمام کیا گیا ہے، کہ فانوس کے ٹکڑے دیکھنے میں رنگین قطروں جیسے لگتے ہیں، اور زائرین کو ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت قالین پر گر جائیں گے، دوسری طرف قالین، فانوس کے رنگوں کو منعکس کرنے والے حوض کا تاثر دیتا ہے۔

    اس جامع مسجد کے بڑے ہال میں 3 گنبد ہیں، جن میں دیو ہیکل تین فانوس لگے ہوئے ہیں، ان سے چھوٹے سائز کے 4 فانوس وی آئی پی ہال، الذھور ہال اور بڑے ہال کے پہلو میں واقع ہالز میں آویزاں کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق بڑے فانوس کا وزن 12 ٹن کے لگ بھگ ہے، اس کا قطر 10 میٹر ہے، اونچائی 15.5 میٹر ہے جب کہ بڑے ہال میں اس سے چھوٹے حجم کے 2 فانوسوں میں ہر ایک کا وزن 8 ٹن، اونچائی 12.5 میٹر اور قطر 7 میٹر ہے، ان میں 9 ہزار 500 بلب لگے ہوئے ہیں۔

    جامع مسجد کے اہل کار سالم السویدی کا کہنا ہے کہ ان فانوسوں کی صفائی، تزئین و مرمت پر 45 افراد کی ٹیم مامور ہے، جب کہ ڈیڑھ مہینے تک روزانہ 12 گھنٹوں تک ان کی صفائی کی جاتی رہی۔ ان کا کہنا تھا فانوسوں کی تجدید کا کام جدید ترین عالمی معیار کے مطابق انجام دیا گیا ہےاور شیخ زاید جامع مسجد کے جمالیاتی عناصر مربوط سائنٹیفک سسٹم کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں۔

  • ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی خوبصورت اور قدیم روایت

    ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی خوبصورت اور قدیم روایت

    رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی تمام مسلمان ممالک میں رنگ و نور اور روشنیوں کی بہار آجاتی ہے۔ ہر ملک کے لوگ اپنے رواج اور طریقہ کار کے مطابق گلیوں، بازاروں اور عوامی مقامات کی سجاوٹ کرتے ہیں اور انہیں روشنیوں سے سجاتے ہیں۔

    مصر میں رمضان المبارک میں لالٹین جلانا اور ان سے چراغاں کرنا ایک نہایت قدیم اور خاص روایت ہے۔

    لالٹین جسے عربی میں فانوس بھی کہا جاتا ہے، یوں تو مصر میں سارا سال فروخت ہوتی ہے، لیکن رمضان المبارک میں اس کی فروخت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ہر طرف گھروں اور بازاروں میں چھوٹے بڑے خوبصورت اور رنگین فانوس روشن نظر آتے ہیں۔

    فانوس سے چراغاں کی تاریخ

    قدیم مصری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب فاطمی خلیفہ المعز الدین اللہ پہلی بار مصر آئے تو اہل مصر نے گلی کوچوں میں فانوس جلا کر ان کا استقبال کیا۔ یہ سنہ 969 عیسوی کا بتایا جاتا ہے۔

    یہ دن ماہ رمضان کا تھا اور بعض کتابوں میں یکم رمضان کا دن تھا۔

    اس وقت تک فانوس یا لالٹین کو صرف رات کے وقت گھر سے باہر نکلتے ہوئے روشنی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خلیفہ کے استقبال کے بعد فانوس کا استعمال خوشی اور استقبال کا استعارہ بن گیا۔

    اس کے اگلے برس سے ماہ رمضان میں فانوسوں سے چراغاں کرنے کا رجحان شروع ہوا جو آگے چل کر ایک اہم رواج کی صورت اختیار کرگیا۔

    خلیفہ کی آمد کے کچھ عرصے بعد جب مصر میں فاطمی خلافت کا آغاز ہوا تو خلیفہ الحاکم نے حکم جاری کیا کہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے کی حصہ کی صفائی کریں اور رات کے وقت وہاں فانوس نصب کریں تاکہ گلیاں اور راستے روشن رہیں۔

    یہ فانوس ساری رات جلانے کا حکم تھا۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے تھے۔

    ایک اور حکم خواتین کی سہولت کے لیے جاری کیا گیا کہ رات کے وقت خواتین اس وقت تک گھروں سے باہر نہ نکلیں جب تک ان کے ساتھ کوئی نو عمر لڑکا (یا مرد) لالٹین تھامے، انہیں روشنی دکھاتا ہوا ان کے ساتھ نہ چلے۔

    اس زمانے میں ماہ رمضان میں خواتین کے رات دیر تک گھروں سے باہر رہنے کا بھی رواج تھا۔

    یہ خواتین خاندان کی کسی ایک بزرگ خاتون کے پاس جمع ہوجاتیں اور اس محفل میں تاریخی قصے سنے اور سنائے جاتے۔ ہر گھر سے ایک خادم گھر کی خواتین کے ساتھ موجود ہوتا جو واپسی میں ان کے آگے روشن فانوس لے کر چلتا۔

    ساتھ ہی اس وقت گلیوں کے گشت پر معمور سپاہیوں کے لیے بھی فانوس کی موجودگی ضروری قرار دی گئی۔

    ان تمام احکامات نے فانوس سازی کے فن کو بطور صنعت پھیلانے کا آغاز کیا۔ فانوس بنانا باقاعدہ صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کرگیا اور اس میں وقت کے ساتھ جدتیں پیدا کی جانے لگیں جن کے تحت مختلف رنگ، جسامت اور ہیئت کے فانوس بنائے جانے لگے۔

    اب جبکہ جدید دور میں بجلی کی سہولت میسر ہے، تو فانوس ایک ضرورت سے زیادہ آرائش اور زیبائش کی شے بن گیا ہے تاہم ماہ رمضان میں فانوس جلانا مصر کی روایات کا اہم حصہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔

    مصر کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی فانوس اور لالٹین سے چراغاں کر کے ماہ رمضان کا استقبال کیا جاتا ہے۔

    مضمون بشکریہ: العربیہ ڈاٹ نیٹ

  • ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی قدیم روایت

    ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی قدیم روایت

    رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی تمام مسلمان ممالک میں رنگ و نور اور روشنیوں کی بہار آجاتی ہے۔ ہر ملک کےلوگ اپنے رواج اور طریقہ کار کے مطابق گلیوں، بازاروں اور عوامی مقامات کی سجاوٹ کرتے ہیں اور انہیں روشنیوں سے سجاتے ہیں۔

    مصر میں رمضان المبارک میں لالٹین جلانا اور ان سے چراغاں کرنا ایک نہایت قدیم اور خاص روایت ہے۔

    لالٹین جسے عربی میں فانوس بھی کہا جاتا ہے، یوں تو مصر میں سارا سال فروخت ہوتی ہے، لیکن رمضان المبارک میں اس کی فروخت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ہر طرف گھروں اور بازاروں میں چھوٹے بڑے خوبصورت اوررنگین فانوس روشن نظر آتے ہیں۔


    فانوس سے چراغاں کی تاریخ

    قدیم مصری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب فاطمی خلیفہ المعز الدین اللہ پہلی بار مصر آئے تو اہل مصر نے گلی کوچوں میں فانوس جلا کر ان کا استقبال کیا۔ یہ سنہ 969 عیسوی کا بتایا جاتا ہے۔

    یہ دن ماہ رمضان کا تھا اور بعض کتابوں میں یکم رمضان کا دن تھا۔

    اس وقت تک فانوس یا لالٹین کو صرف رات کے وقت گھر سے باہر نکلتے ہوئے روشنی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خلیفہ کے استقبال کے بعد فانوس کا استعمال خوشی اور استقبال کا استعارہ بن گیا۔

    اس کے اگلے برس سے ماہ رمضان میں فانوسوں سے چراغاں کرنے کا رجحان شروع ہوا جو آگے چل کر ایک اہم رواج کی صورت اختیار کرگیا۔

    خلیفہ کی آمد کے کچھ عرصے بعد جب مصر میں فاطمی خلافت کا آغاز ہوا تو خلیفہ الحاکم نے حکم جاری کیا کہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے کی حصہ کی صفائی کریں اور رات کے وقت وہاں فانوس نصب کریں تاکہ گلیاں اور راستے روشن رہیں۔

    یہ فانوس ساری رات جلانے کا حکم تھا۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے تھے۔

    ایک اور حکم خواتین کی سہولت کے لیے جاری کیا گیا کہ رات کے وقت خواتین اس وقت تک گھروں سے باہر نہ نکلیں جب تک ان کے ساتھ کوئی نو عمر لڑکا (یا مرد) لالٹین تھامے، انہیں روشنی دکھاتا ہوا ان کے ساتھ نہ چلے۔

    اس زمانے میں ماہ رمضان میں خواتین کے رات دیر تک گھروں سے باہر رہنے کا بھی رواج تھا۔

    یہ خواتین خاندان کی کسی ایک بزرگ خاتون کے پاس جمع ہوجاتیں اور اس محفل میں تاریخی قصے سنے اور سنائے جاتے۔ ہر گھر سے ایک خادم گھر کی خواتین کے ساتھ موجود ہوتا جو واپسی میں ان کے آگے روشن فانوس لے کر چلتا۔

    ساتھ ہی اس وقت گلیوں کے گشت پر معمور سپاہیوں کے لیے بھی فانوس کی موجودگی ضروری قرار دی گئی۔

    ان تمام احکامات نے فانوس سازی کے فن کو بطور صنعت پھیلانے کا آغاز کیا۔

    فانوس بنانا باقاعدہ صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کرگیا اور اس میں وقت کے ساتھ جدتیں پیدا کی جانے لگیں جن کے تحت مختلف رنگ، جسامت اور ہیئت کے فانوس بنائے جانے لگے۔

    اب جبکہ جدید دور میں بجلی کی سہولت میسر ہے، تو فانوس ایک ضرورت سے زیادہ آرائش اور زیبائش کی شے بن گیا ہے تاہم ماہ رمضان میں فانوس جلانا مصر کی روایات کا اہم حصہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔

    مصر کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی فانوس اور لالٹین سے چراغاں کر کے ماہ رمضان کا استقبال کیا جاتا ہے۔

    مضمون بشکریہ: العربیہ ڈاٹ نیٹ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔