Tag: فانی بدایونی

  • فانی بدایونی:‌ اردو کا حزنیہ شاعر

    فانی بدایونی:‌ اردو کا حزنیہ شاعر

    1941ء میں‌ آج ہی کے روز اردو کے نام وَر شاعر شوکت علی خان جو فانیؔ بدایونی کے نام سے مشہور ہیں، یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ فانی بدایونی اپنی حزنیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام ہجر کی وارداتوں، غمِ روزگار، رنج و الم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔

    کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ وہ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت بدایونی کا لاحقہ استعمال کیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں مکتب گئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔

    کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب و مختلف حلقوں میں‌ کلام سنانے لگے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا اور معاش کے حوالے سے تنگی کا سامنا رہنے لگا جس نے انھیں یاسیت کی طرف دھکیل دیا۔ اسی عرصے میں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور ناکامی کے بعد بری طرح ٹوٹ گئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کی خاطر جگہ جگہ قسمت آزماتے رہے۔ آخر فانی حیدر آباد دکن پہنچ گئے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر دنیا سے چلے گئے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب آل احمد سرور ان کے بارے میں‌ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

    "فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔”

    "ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔”

    "کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔”

    "فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔”

    "فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔”

    "فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔”

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    "وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔”

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرع کا جواب کہاں

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    "ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔”

    "1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔”

    فانی بدایونی کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا

    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

  • فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔

    ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔

    کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔

    فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔

    فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

    فراقؔ نے ان کی تصویر کے متعلق کہا ہے کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی تصویر میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرے کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔ فراقؔ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    جب پرسشِ حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
    کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

    یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
    سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہوجاتا ہے

    اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
    جب نام مرا آجاتا ہے، کچھ ذکرِ وفا ہو جاتا ہے

    پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے رنج و الم مٹ جاتے ہیں
    جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہوجاتا ہے

    مطلع میں فانیؔ کے مزاج کی سچی تصویر ملتی ہے۔

    فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرعے کا جواب کہاں

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔

    1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔

    (جدید اردو تنقید کے لیے ممتاز آل احمد سرور کے مضمون فانی شخصیت اور شاعری سے اقتباسات، سرور خود بھی شاعر تھے جن کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے)

  • فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    ان کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص فانی۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا، جب کہ فلسفہ و تصوّف بھی ان کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔

    کہتے ہیں فانی عشق کی بدولت غم سے دوچار ہوئے اور یہ غم انھیں تصوّف تک لے گیا اور تصوّف نے اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھایا۔ یہاں‌ ہم اپنے باذوق قارئین کو فانی کے اُس شعری وصف کی جانب متوجہ کررہے ہیں جسے "اسلامی تلمیحات” کہنا چاہیے۔

    فانی بدایونی اللہ کے انصاف سے امید رکھتے ہیں۔ اپنے بد اعمال یا گناہوں کی وجہ سے مایوس نہیں ہوتے، کیوں کہ وہ ربِّ کائنات کو پردہ رکھنے والا سمجھتے ہیں اور اس سے عفو و درگزر کے طالب ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔

    امیدِ عفو ہے ترے انصاف سے مجھے
    شاہد ہے خود گناہ کہ تُو پردہ پوش تھا

    یہ شعر اس یقینِ کامل کا مظہر ہے جس میں‌ انسان ہونے کے ناتے اضطراب اور بے چینی تو ہے، لیکن شاعر جانتا ہے کہ حقیقی مددگار اور مشکلات کو آسان کرنے والی ذات وہی ہے۔

    یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
    لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے!

    روزِ‌ محشر حساب ہو گا، خطا کاروں، گناہ گاروں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی، لیکن شاعر کو یہ یقین ہے کہ جہاں ﷲ کا قہر اور غضب ہوگا وہیں اس کی رحمت بھی اپنے بندوں پر سایہ فگن ہوگی اور یہی خیال انھیں مایوس اور غم زدہ نہیں ہونے دیتا۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔

    کس طرف جوشِ کرم تیری نگاہیں اٹھیں
    کون محشر میں سزاوارِ عتاب آتا ہے

    اور اسی ذیل میں ایک جداگانہ احساس اور یقین میں‌ ڈوبا ہوا فانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو۔

    منہ ڈھانپ لیا جوشِ ندامت کے اثر سے
    خورشیدِ قیامت نے مرے دامنِ تر سے

    فانی نے اپنی شاعری میں قرآنی آیات، بعض تراکیب بھی استعمال کی ہیں یا نہایت لطیف انداز سے ان کا اشارہ دیا ہے اور ان سے بھرپور معنٰی اور مفہوم پیدا کیا ہے۔

    لوح دل کو غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
    ’’کن‘‘ ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

    طُور تو ہے ربِّ ارنی کہنے والا چاہیے
    لن ترانی ہے مگر نہ آشنائے گوش ہے

    قرآن اور احادیث میں‌ دعا کی اہمیت اور فضیلت کا بہت ذکر کیا گیا ہے۔ فانی کو قرآن سے تقویت ملتی ہے کہ ﷲ بندے کی دُعا سنتا ہے اور انھوں نے اس لفظ "دعا” سے اپنے اشعار میں‌ خوب استفادہ کیا۔ فانی کا یہ شعر پڑھیے۔

    میں دعا موت کی مانگوں تو اثر پیدا کر
    ورنہ یارب شبِ فرقت کی سحر پیدا کر

    اسی مضمون میں فانی کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے دعا اور ہاتھوں کی اہمیت یا اس عضو سے نوازنے پر ربِّ کائنات کا شکر ادا کیا ہے۔

    ازل میں اہلِ دل نے بابِ رحمت سے نہ کیا پایا
    دعا پائی، دعا کے واسطے دستِ دعا پایا

    (سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • حکیم وجاہت حسین اور فیروز دونوں تعلیم سے نابلد تھے!

    حکیم وجاہت حسین اور فیروز دونوں تعلیم سے نابلد تھے!

    فانی صاحب کا ناندیڑ تبادلہ ہو گیا، مگر وہ اس تبادلے سے خوش نہ تھے۔ پھر ان کے ملکی اورغیر ملکی ہونے کا قصہ چلا۔ اس نے انھیں اور بھی مضمحل بنا دیا۔

    آخری صدمہ شریکِ زندگی کی وفات کا پہنچا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔ وہ پیکرِ حزن و یاس پہلے ہی تھے، اس صدمے نے انھیں مجسم حُزن و یاس بنا دیا۔

    ان کے دو صاحب زادے تھے۔ حکیم وجاہت حسین اور فیروز۔ دونوں تعلیم سے نابلد تھے۔ یہ صدمہ انھیں اور کھائے جاتا تھا۔

    اسی زمانے میں ان کی شہزادہ نواب معظّم جاہ بہادر متخلص بہ شجیع کے دربار میں رسائی ہوئی۔ صدق جائسی، شاہد، ماہر القادری ان کے دربار سے وابستہ ہو چکے تھے کہ ان کے دربار کی رونق فانی صاحب بنے۔

    نواب معظّم جاہ بہادر رات کے راجا تھے۔ شب کے آٹھ بجے سے رات کے تین بجے تک ان کی محفلیں شعروشاعری اور بذلہ سنجی سے رونق پاتی تھیں۔

    فانی بوڑھے ہو چکے تھے۔ وہ رات کی شب بیداریوں سے زچ آچکے تھے۔ کبھی کبھی رات کی بیداریوں سے تنگ آکر کہتے کہ مقدر میں یہ بھی لکھا تھا۔

    ایک روز میں شام کو ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، قدوسی صاحب خوب آئے۔ میں نے اپنا قطعۂ تاریخِ وفات کہا ہے۔ غالب مرد اور بمرد کی تبدیلی اس میں نہیں ہوگی۔

    میں نے کہا ابھی آپ کو بہت جینا ہے اور اردو ادب کی خدمت کرنی ہے۔ بولے یہ تو ٹھیک ہے، لیکن سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ آپ بھی سن لیجیے اور یاد رکھیے۔

    او از جہاں گزشت کہ آخر خدا نبود
    او آں چناں بزیست تو گوئی خدانداشت
    طغیانِ ناز بیں کہ بلوحِ مزارِ اُو
    ثبت است سالِ رحلتِ فانیؔ خدانداشت

    آخر وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ فانیؔ صاحب بیمار پڑے۔ کئی مرتبہ میں ان کی علالت میں مزاج پُرسی کو گیا۔ پیچش میں مبتلا تھے۔ آخر 1941ء میں اس یگانہ روزگار شاعر نے عالمِ بقا کی راہ اختیار کی۔

    فانی کی تجہیز و تکفین کا انتظام نواب معظّم بہادر کی طرف سے ہوا اور اس گنجینۂ شاعری کو حضرت یوسف صاحب، شریف صاحب کے بیرونی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    (نام وَر ادیب اور مشہور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی کی کتاب میری زندگی کے پچھتر سال سے ایک ورق)

  • مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    فانیؔ بدایونی یوں تو مشرقی تہذیب کے بڑے دلدادہ تھے، لیکن انھیں اردو رسمُ الخط سے سخت چڑ تھی۔

    اس کے برعکس وہ رومن رسمُ الخط کے بڑے حامی تھے چنانچہ اپنی غزلیں انگریزی ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرتے تھے۔ اس موضوع پر ان میں اور مولوی صاحب (مولانا ابوالخیر مودودی) میں خوب خوب بحثیں ہوتی تھیں۔ مولوی صاحب سے فانی کی دلیلوں کو جواب نہ بن پڑتا تو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتے اور فانی کو جی بھر کر برا بھلا کہتے مگر فانی ہنستے رہتے تھے۔

    فانی کو مولوی صاحب کو چھیڑنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ چناں چہ مولوی صاحب سے ملنے جاتے تو تین چار غزلیں رومن رسم الخط میں ٹائپ کر کے ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔

    مولوی صاحب فانی سے بڑی محبت سے ملتے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد تان لامحالہ فانی کی شاعری پر ٹوٹتی۔ مولوی صاحب کہتے کوئی نئی چیز لکھی ہو تو سناؤ۔ فانی مسکرا کر ٹائپ شدہ غزلیں جیب سے نکالتے اور مولوی صاحب کی طرف بڑھا دیتے اور مولی صاحب ان کاغذوں کو یوں اٹھا کر پھینک دیتے گویا اچانک بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

    فانی ہنستے ہوئے تمام کاغذ فرش سے اٹھا لیتے اور غزلیں سنانے لگتے۔ غزلیں سن کر مولوی صاحب کا غصہ فرو ہو جاتا تھا۔

    (اقتباس از شہرِ نگاراں مصنف سبطِ حسن)

  • ذکر جب  چھڑ‌ گیا قیامت کا!

    ذکر جب چھڑ‌ گیا قیامت کا!

    ہمارے مخدوم و محترم، اردو فارسی کے ممتاز اسکالر پیر حسام الدین راشدی (مرحوم) کو آثارِ قدیمہ، ادب اور ثقافت سے خاص دل چسپی تھی۔

    وہ ہر مسئلے پر کھینچ تان کر اپنی گفتگو قدیم ادب اور ثقافت تک لے جاتے تھے۔

    ایک محفل میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور پیر حسام الدین راشدی دونوں موجود تھے۔

    پیر حسام الدین راشدی صاحب قدیم ثقافت کی اہمیت پر بات کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی نے پیر صاحب کی باتیں سنتے سنتے فرمایا۔
    جی چاہتاہے کہ فانی بدایونی کے اس شعر میں تھوڑا تصرف کرلوں۔

    ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
    بات پہنچی تری جوانی تک

    پیر صاحب نے کہا۔ بہت خوب صورت شعر ہے، ایسا نہ ہو کہ آپ کے تصرف سے شعر خراب ہوجائے۔

    ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا اور انھوں نے شعر برجستہ یوں پڑھا۔

    ذکر جب چھڑ گیا ثقافت کا
    بات پہنچی موہنجو ڈارو تک

    (ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مضمون سے ایک اقتباس)

  • فانی بدایونی: وکالت کے پیشے سے بیزار شاعر کی کہانی!

    فانی بدایونی: وکالت کے پیشے سے بیزار شاعر کی کہانی!

    شوکت علی خاں نے 1879 میں بدایوں کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ عربی اور فارسی سیکھنے کے دوران شعروادب سے لگاؤ ہو گیا اور خود بھی شاعری کرنے لگے۔ اس دنیا میں فانیؔ کے تخلص سے شہرت پائی۔

    فانی نے بی اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور والد کے اصرار پر وکالت شروع کی، لیکن اس پیشے سے کوئی دل چسپی نہ تھی، اس لیے بیزار ہو کر گھر بیٹھ گئے۔

    والد کا انتقال ہوا تو غربت اور تنگ دستی نے آ گھیرا. اسی زمانے میں‌ حیدرآباد دکن سے بلاوا آیا تو وہاں چلے گئے اور محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے۔ ان کا انتقال 1941ء میں ہوا۔

    اردو ادب کے نام ور شعرا اور نقادوں نے فانیؔ بدایونی کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا
    تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
    آؤ دیکھو نا تماشا مِرے غم خانے کا
    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا
    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانی
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا
    ہر نَفس عمرِ گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
    زندگی نام ہے مَر مَر کے جیے جانے کا