Tag: فانی بدایونی کی شاعری

  • فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    ان کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص فانی۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا، جب کہ فلسفہ و تصوّف بھی ان کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔

    کہتے ہیں فانی عشق کی بدولت غم سے دوچار ہوئے اور یہ غم انھیں تصوّف تک لے گیا اور تصوّف نے اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھایا۔ یہاں‌ ہم اپنے باذوق قارئین کو فانی کے اُس شعری وصف کی جانب متوجہ کررہے ہیں جسے "اسلامی تلمیحات” کہنا چاہیے۔

    فانی بدایونی اللہ کے انصاف سے امید رکھتے ہیں۔ اپنے بد اعمال یا گناہوں کی وجہ سے مایوس نہیں ہوتے، کیوں کہ وہ ربِّ کائنات کو پردہ رکھنے والا سمجھتے ہیں اور اس سے عفو و درگزر کے طالب ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔

    امیدِ عفو ہے ترے انصاف سے مجھے
    شاہد ہے خود گناہ کہ تُو پردہ پوش تھا

    یہ شعر اس یقینِ کامل کا مظہر ہے جس میں‌ انسان ہونے کے ناتے اضطراب اور بے چینی تو ہے، لیکن شاعر جانتا ہے کہ حقیقی مددگار اور مشکلات کو آسان کرنے والی ذات وہی ہے۔

    یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
    لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے!

    روزِ‌ محشر حساب ہو گا، خطا کاروں، گناہ گاروں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی، لیکن شاعر کو یہ یقین ہے کہ جہاں ﷲ کا قہر اور غضب ہوگا وہیں اس کی رحمت بھی اپنے بندوں پر سایہ فگن ہوگی اور یہی خیال انھیں مایوس اور غم زدہ نہیں ہونے دیتا۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔

    کس طرف جوشِ کرم تیری نگاہیں اٹھیں
    کون محشر میں سزاوارِ عتاب آتا ہے

    اور اسی ذیل میں ایک جداگانہ احساس اور یقین میں‌ ڈوبا ہوا فانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو۔

    منہ ڈھانپ لیا جوشِ ندامت کے اثر سے
    خورشیدِ قیامت نے مرے دامنِ تر سے

    فانی نے اپنی شاعری میں قرآنی آیات، بعض تراکیب بھی استعمال کی ہیں یا نہایت لطیف انداز سے ان کا اشارہ دیا ہے اور ان سے بھرپور معنٰی اور مفہوم پیدا کیا ہے۔

    لوح دل کو غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
    ’’کن‘‘ ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

    طُور تو ہے ربِّ ارنی کہنے والا چاہیے
    لن ترانی ہے مگر نہ آشنائے گوش ہے

    قرآن اور احادیث میں‌ دعا کی اہمیت اور فضیلت کا بہت ذکر کیا گیا ہے۔ فانی کو قرآن سے تقویت ملتی ہے کہ ﷲ بندے کی دُعا سنتا ہے اور انھوں نے اس لفظ "دعا” سے اپنے اشعار میں‌ خوب استفادہ کیا۔ فانی کا یہ شعر پڑھیے۔

    میں دعا موت کی مانگوں تو اثر پیدا کر
    ورنہ یارب شبِ فرقت کی سحر پیدا کر

    اسی مضمون میں فانی کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے دعا اور ہاتھوں کی اہمیت یا اس عضو سے نوازنے پر ربِّ کائنات کا شکر ادا کیا ہے۔

    ازل میں اہلِ دل نے بابِ رحمت سے نہ کیا پایا
    دعا پائی، دعا کے واسطے دستِ دعا پایا

    (سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • حکیم وجاہت حسین اور فیروز دونوں تعلیم سے نابلد تھے!

    حکیم وجاہت حسین اور فیروز دونوں تعلیم سے نابلد تھے!

    فانی صاحب کا ناندیڑ تبادلہ ہو گیا، مگر وہ اس تبادلے سے خوش نہ تھے۔ پھر ان کے ملکی اورغیر ملکی ہونے کا قصہ چلا۔ اس نے انھیں اور بھی مضمحل بنا دیا۔

    آخری صدمہ شریکِ زندگی کی وفات کا پہنچا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔ وہ پیکرِ حزن و یاس پہلے ہی تھے، اس صدمے نے انھیں مجسم حُزن و یاس بنا دیا۔

    ان کے دو صاحب زادے تھے۔ حکیم وجاہت حسین اور فیروز۔ دونوں تعلیم سے نابلد تھے۔ یہ صدمہ انھیں اور کھائے جاتا تھا۔

    اسی زمانے میں ان کی شہزادہ نواب معظّم جاہ بہادر متخلص بہ شجیع کے دربار میں رسائی ہوئی۔ صدق جائسی، شاہد، ماہر القادری ان کے دربار سے وابستہ ہو چکے تھے کہ ان کے دربار کی رونق فانی صاحب بنے۔

    نواب معظّم جاہ بہادر رات کے راجا تھے۔ شب کے آٹھ بجے سے رات کے تین بجے تک ان کی محفلیں شعروشاعری اور بذلہ سنجی سے رونق پاتی تھیں۔

    فانی بوڑھے ہو چکے تھے۔ وہ رات کی شب بیداریوں سے زچ آچکے تھے۔ کبھی کبھی رات کی بیداریوں سے تنگ آکر کہتے کہ مقدر میں یہ بھی لکھا تھا۔

    ایک روز میں شام کو ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، قدوسی صاحب خوب آئے۔ میں نے اپنا قطعۂ تاریخِ وفات کہا ہے۔ غالب مرد اور بمرد کی تبدیلی اس میں نہیں ہوگی۔

    میں نے کہا ابھی آپ کو بہت جینا ہے اور اردو ادب کی خدمت کرنی ہے۔ بولے یہ تو ٹھیک ہے، لیکن سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ آپ بھی سن لیجیے اور یاد رکھیے۔

    او از جہاں گزشت کہ آخر خدا نبود
    او آں چناں بزیست تو گوئی خدانداشت
    طغیانِ ناز بیں کہ بلوحِ مزارِ اُو
    ثبت است سالِ رحلتِ فانیؔ خدانداشت

    آخر وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ فانیؔ صاحب بیمار پڑے۔ کئی مرتبہ میں ان کی علالت میں مزاج پُرسی کو گیا۔ پیچش میں مبتلا تھے۔ آخر 1941ء میں اس یگانہ روزگار شاعر نے عالمِ بقا کی راہ اختیار کی۔

    فانی کی تجہیز و تکفین کا انتظام نواب معظّم بہادر کی طرف سے ہوا اور اس گنجینۂ شاعری کو حضرت یوسف صاحب، شریف صاحب کے بیرونی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    (نام وَر ادیب اور مشہور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی کی کتاب میری زندگی کے پچھتر سال سے ایک ورق)