Tag: فتح اللہ گولن

  • ترکی میں سینئر افسران سمیت 168 افراد گرفتار

    ترکی میں سینئر افسران سمیت 168 افراد گرفتار

    انقرہ: ترکی میں سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں کی نئی لہر اٹھی ہے، سینئر افسران سمیت 168 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترک حکومت نے خدمت تحریک کے رہنما فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک سے رابطے کے شبہے میں سینئر فوجی افسران سمیت مزید 168 افراد گرفتار کر لیے ہیں۔

    یاد رہے کہ منگل کے روز ترک حکام نے جلا وطن مذہبی رہنما کی جماعت کے ساتھ رابطے کے شبہے میں حاضر سروس افسران کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا، تین سال قبل ترکی میں صدر طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد سے گرفتاریوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  فتح اللہ گولن سے تعلق کا شبہ، 128 ترک فوجیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری

    میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ گرفتاریوں میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو ‘بائی لاک’ ٹیکسٹ میسجنگ ایپلی کیشن استعمال کر رہے تھے، یہ اپیلی کیشن فتح اللہ گولن نیٹ ورک سے منسلک افراد ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ ترک حکام نے فتح اللہ گولن پر صدر رجب طیب اردوان کے خلاف 15 جولائی 2016 کو بغاوت کی کوشش کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ تین سال سے جاری کریک ڈاؤن میں اب تک ہزاروں افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق 77 ہزار افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی جلد شروع کی جائے گی، جن پر تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی میں حصہ لینے کا الزام ہے۔

  • ترکی: گولن سے تعلق کی بنیاد پر سو سے زائد افراد کی گرفتاری کے احکامات

    ترکی: گولن سے تعلق کی بنیاد پر سو سے زائد افراد کی گرفتاری کے احکامات

    انقرہ: ترکی میں‌ فتح اللہ گولن سے تعلق کی بنیاد پر سو سے زائد افراد کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے گئے.

    تفصیلات کے مطابق ترک حکومت نے 122مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ہے.

    استنبول، ازمیر اور قونیا سے جاری ہونے والے اعلامیوں کے مطابق ان افراد کا تعلق فتح‌ اللہ گولن سے تھا اور یہ افراد 2016 کی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث تھے۔

    ترک سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے ان افراد کی گرفتاری کے لیے ازمیر سمیت 17 دیگر صوبوں میں چھاپے مارے ہیں۔

    اعلامیہ کے مطابق ان 122 افراد میں چالیس حاضر سروس فوجی بھی شامل ہیں، جب کہ کچھ افراد کو ماضی میں فوج سے برطرف کیا گیا تھا.

    خیال رہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو تقریباً تین سال گزر چکے ہیں. یہ واقعہ جولائی 2016 میں‌ پیش آیا تھا.

    اس بغاوت کے الزام میں اب تک 77 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کرکے میں جیل بھیجا جا چکا ہے۔

    ترکی میں باغی گروہ کی اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنانے میں عوام نے کلیدی کردار ادا کیا. عوام سڑکوں پر نکل کر ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے.

  • فتح اللہ گولن سے تعلق کا شبہ، 128 ترک فوجیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری

    فتح اللہ گولن سے تعلق کا شبہ، 128 ترک فوجیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری

    انقرہ: ترک حکام نے جلا وطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی جماعت سے کے ساتھ رابطے کے شبے میں حاضر سروس 128 فوجیوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی میں حاضرسروس ان فوجیوں کو جلا وطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی جماعت ’گولن تحریک‘ کے ساتھ رابطے یا وابستگی کے شبے میں حراست میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ فوجیوں پر سنہ 2016 میں ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

    ترک میڈیا کے مطابق پولیس مذکورہ فوجیوں کی گرفتاری کےلیے چھاپے مار رہی ہے تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ جن فوجیوں کی گرفتار کے احکامات جاری ہوئے ان میں سے آدھے اہلکار مغربی ساحلی علاقے ازمیر جبکہ باقی فوجی ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رسان ادارے کا کہنا ہے کہ استنبول کا دفتر استغاثہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ترک فوج کے مختلف شعبوں کے خفیہ آئمین کے توسط سے فتح اللہ گولن کے ساتھ رابطے استوار کیے ہوئے ہیں۔

    انقرہ حکومت کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ گولن کے بے شمار حامی اس وقت ریاست کے مختلف اداروں میں سرایت کر چکے ہیں، جن میں خفیہ محکمے بھی شامل ہیں۔

    ترک صدر رجب طیب اردوگان کی حکومت گولن کے ساتھ رابطے رکھنے کے الزام میں 77 ہزار افراد کو گرفتار کرچکی ہے جن پر مقدمات چلائے جارہے ہیں جبکہ حکومت ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین کو ملازمت سے بھی فارغ کرچکے ہیں

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترک حکام آئندہ بھی مزید کارروائیاں کی جائیں گی۔

    خیال رہے کہ سال 2016 میں ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے سول حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد پورے ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹنے سے 200 سے زائد افراد ہلاک اور 2 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

    ترکی: ناکام فوجی بغاوت کے بعد اہلکاروں کی گرفتاریاں بدستور جاری

    یاد رہے کہ 18 جولائی 2016 کو ترکی میں فوج کے باغی گروہ نے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کی تھی جسے عوام نے ناکام بنادیا تھا، اس دوران عوام سڑکوں پر نکل کر آئے اور فوجی ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے جس کے بعد ترک فوج کے باغی ٹولے نے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست تسلیم کی تھی اور پھر انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

  • استنبول : فتح اللہ گولن تعلق کا الزام، تین سو ترک فوجیوں کی گرفتاریوں کے وارنٹ جاری

    استنبول : فتح اللہ گولن تعلق کا الزام، تین سو ترک فوجیوں کی گرفتاریوں کے وارنٹ جاری

    استنبول : ترک حکام نے فتح اللہ گولن کے ساتھ تعلق اور فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں مزید 300 فوجیوں کی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق ترک حکومت نے سنہ 2016 میں صدر رجب طیب اردوگان کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے مبینہ قائد فتح اللہ گولن کے ساتھ کے شبے میں 3 کرنلز، 8 میجرز اور لیفٹیننٹ سمیت 295 حاضر سروس فوجیوں کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔

    ترک پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ پولیس نے فتح اللہ گولن نیٹ ورک سے منسلک مسلح افواج کے اہلکاروں و افسران کی فون کالز کی تحقیقات کے بعد رات 1 بجے گرفتاریوں کا آغاز کیا تھا تاہم ابھی حراست میں لیے گئے اہلکاروں کی تعداد نہیں منظر عام پر نہیں لائی گئی۔

    دوسری جانب ترک پولیس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے 59 شہروں میں باغیوں کے خلاف کیے گئے آپریشن کے دوران مسلح افواج کے ڈیڑھ سو فوجیوں کو حراست میں لیا۔

    واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کئی برسوں سے خود ساختہ طور پر امریکا میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان پر سنہ 2016 میں دستوری حکومت کا تختہ الٹنے اور مسلح افواج کے اہلکاروں و افسران کو حکومت کے خلاف بڑھکانے کا الزام ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں اب تک 55 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد کو ملازمت سے برطرف کیا جاچکا ہے۔

  • پاکستان میں چلنے والے  فتح گولن کے ادارے بند کرنے کی استدعا کرتے ہیں.ترک سفیر

    پاکستان میں چلنے والے فتح گولن کے ادارے بند کرنے کی استدعا کرتے ہیں.ترک سفیر

    اسلام آباد : پاکستان میں ترکی کے سفیر نے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان دوست ملک ہے جو فتح اللہ گولن کے تحت چلائے جانے والے تمام اداروں کو بند کردے گا کیوں کی فتح اللہ گولن ترکی میں انتشار چاہتے ہیں اور لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ترکی کے سفیر صادق بابر نے ترکی میں ہونے والی پیش رفت پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ انقرہ نے دوست ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ممالک میں گولن گروپ کی سرگرمیوں کو روکیں،حکومتِ پاکستان سے توقع کرتے ہیں کہ دوست ملک ہونے کے ناطے سے وپ فتح گولن کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کو فی الفور بند کر کے شکریہ کا موقع دیں گے۔

    بغاوت کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ترک حکومت کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے گولن تحریک تھی جو اس وقت بھی امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں اور وہیں سے اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے ترک میں انتشار اور بغاوت پھیلانا چاہتے ہیں۔

    ترک سفیر نے کہا کہ پاکستان میں گولن کے تحت چلائے جانے والے اداروں کے حوالے سے ترک حکومت پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور پاکستان کے ساتھ ہر شعبے میں ہمارے اچھے تعلقات ہیں،واضح رہے کہ پاکستان میں گولن کے زیر انتظام پاک ترک سکول چل رہے ہیں۔

    ترک سفیر نے ترک حکومت کی جانب سے لگائے ایمرجنسی کے نفاذ پر تنقید کرنے والے مغربی میڈیا کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ مغرب کے دوہرے معیار پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں اور واضح کردینا چاپتا ہوں کہ جس روز ترک پارلیمنٹ نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی روز فرانس میں عائد ایمرجنسی کی مدت میں اضافہ کیا گیا لیکن فرانس کی جانب سے عائد ایمرجنسی پر چپ سادھی میڈیا ترکی میں ایمرجنسی پر چراغ پا نظر آتی ہے جو مغربی میڈیا کے کھلے تضاد کا ثبوت ہے۔

  • گولن کی فوجی بغاوت کی سرپرستی کے الزام کی سختی سے تردید

    گولن کی فوجی بغاوت کی سرپرستی کے الزام کی سختی سے تردید

    نیویارک: امریکا میں رہائش پذیر سابق ترک لیڈر اور عالم فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت کی فکری سربراہی کا الزام مسترد کردیا۔

    گزشتہ شب ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی جانب سے سرکاری عمارتوں، ایئرپورٹس اور پلوں پر قبضہ کرنے کے بعد بغاوت کا اعلان کردیا گیا اور ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ ترک صدر طییب اردگان کی اپیل پر ترک عوام بڑی تعداد میں باہر نکل آئی اور فوجی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ باغی فوجیوں نے عوام پر گولیاں بھی برسائیں جس میں 161 شہری جاں بحق ہوگئے۔

    gulen-2

    ترک صدر نے اس بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس بغاوت کے پیچھے فکری طور پر ان کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کرنے والے باغی گولن کی تعلیمات سے متاثر تھے اور پنسلوانیا سے ہدایات لے رہے تھے۔

    تاہم فتح اللہ گولن نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا۔

    فتح اللہ گولن نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’ہم پچھلی کئی دہائیوں میں فوجی حکومتوں کے بدترین دور دیکھ چکے ہیں۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کسی فوجی بغاوت کی سرپرستی کی جائے‘۔

    ترکی میں فوجی بغاوت کی سیاہ تاریخ *

    انہوں نے کہا کہ بے شک وہ اردگان کو پسند نہیں کرتے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر وہ ایک بدترین نظام کی حمایت کریں۔ ’حکومت انتخابات کے ذریعہ آزادنہ طور پر قائم ہونی چاہیئے، جبر و تشدد کے ذریعہ نہیں‘۔

    انہوں نے ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی ظاہر کی۔

    امریکا میں مقیم 74 سالہ فتح اللہ گولن ایک زمانے میں طیب اردگان کے قریبی اتحادی تھے۔ وہ انا طولیہ میں واقع ایک چھوٹی سی بستی کوروجک میں پیدا ہوئے۔

    gulen-1

    گولن کو مارچ 1971 میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر ایک خفیہ تنظیم کے ذریعے لوگوں کے دینی جذبات ابھار کر ملکی نظام کی اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کا الزام تھا۔ 6 ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد وہ عام معافی کے قانون کے تحت رہا ہوئے اور پھر سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے لگے۔ 1990 میں گولن نے اپنی تحریک، تحریک حزمت کا آغاز کیا جس کی باز گشت نہ صرف ترکی بلکہ دیگر ممالک میں بھی سنی جانے لگی۔

    وہ 1999 میں غداری کا الزام لگنے کے بعد امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اب گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    دنیا بھر میں ہونے والی فوجی بغاوتیں *

    چند ماہ قبل ترکی کی ایک عدالت میں فتح اللہ گولن کا ٹرائل شروع کیا گیا ہے۔ ان پر طیب اردگان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کرنے اور بغاوت کا الزام ہے۔ فتح اللہ گولن پر کئی سابق پولیس اہلکاروں کے ہمراہ مل کرایک دہشت گرد گروپ تشکیل دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

    فتح اللہ گولن کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد 60 سے زائد ہے جن کا 35زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔