Tag: فتح قسطنطنیہ

  • مسلمانوں اور رومیوں‌ کے مابین چپقلش اور جنگوں پر مبنی فلمیں

    مسلمانوں اور رومیوں‌ کے مابین چپقلش اور جنگوں پر مبنی فلمیں

    تاریخِ عالم میں بالخصوص عظیم الشّان سلطنتوں کے حالات اور جنگوں کے واقعات عام دل چسپی کا موضوع رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دورِ‌ جدید میں دنیا کی ہر بڑی فلمی صنعت نے اس پر فلمیں بنائی ہیں۔ ہوسِ اقتدار اور دیگر سیاسی وجوہ کے علاوہ مذہبی بنیادوں پر دنیا کی مختلف اقوام میں چپقلش اور جنگوں کو بھی فلم سازوں نے موضوع بنایا۔ انہی میں رومیوں اور عربوں کے درمیان لڑائیاں اور بڑی جنگیں بھی شامل ہیں۔

    زمانۂ قدیم کی عظیم سلطنتِ روما میں مسیحیت کو سرکاری یا شاہی مذہب کے طور پر اپنانے کے بعد عرب مسلمانوں سے جنگیں تاریخ کا حصّہ ہیں۔ مؤرخین کے مطابق سلطنتِ روما کو اس کے شہنشاہوں اور اشرافیہ کی اخلاقی برائیوں اور سیاسی کم زوریوں کے علاوہ مختلف قبائل کی آپس کی لڑائیوں نے بھی انتشار اور ابتری کا شکار کر رکھا تھا اور پھر جنگوں میں عرب مسلمانوں‌ سے شکست کے بعد کئی علاقے بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ سلطنتِ روما جو مغربی رومی اور مشرقی بازنطینی سلطنت میں‌ تقسیم ہوچکی تھی، وہاں یہ جنگیں ساتویں صدی میں خلافتِ راشدہ اور اموی دور میں شروع ہوگئی تھیں۔ یورپی علاقوں‌ میں مسلمانوں کے ساتھ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں جو جنگیں لڑی گئیں، وہ دنیا کی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔ مغربی رومی سلطنت جرمنوں کے ہاتھوں برباد ہوئی جب کہ بازنطینی سلطنت کو فتحِ قسطنطنیہ کے ساتھ عثمانیوں‌ نے مٹا کر رکھ دیا۔

    اس حوالے سے پاکستانی فلم انڈسٹری نے پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں متعدد فلمیں بنائیں۔ مسلم رومن کشمکش اور جنگیں اس وقت ایک مرغوب موضوع تھا۔ یہ فلمیں عام طور پر افسانوی کرداروں پر مشتمل ہوتی تھیں اور جنگ و جدل اور رقص و سرود پر مشتمل کاسٹیوم فلمیں ہوتی تھیں جو عام مسلمانوں‌ کے مذہبی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتی تھیں۔ یہاں‌ ہم ایسی ہی چند فلموں‌ کا ذکر کررہے ہیں‌ جن کی کہانی مسلمانوں‌ اور رومیوں کے درمیان جنگ و جدل پر مبنی تھی یا ان میں سلطنتِ روم کے عیسائی کردار نظر آتے ہیں۔

    گلفام
    یہ 1961ء کی وہ فلم ہے جس کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے۔ گلفام ایک سپر ہٹ نغماتی فلم تھی اور اسے ایک بڑی فلم کہا جاتا ہے جس میں اداکار درپن نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ مسرت نذیر اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ اداکار نذر نے فلم گلفام میں ڈبل رول کیا تھا جس میں ایک رومن شہنشاہ کا رول بھی تھا۔ فلم گلفام کے دو گیت بہت مقبول ہوئے تھے جن میں سے ایک منیر حسین کا گیت "اٹھا لے آپ ہی خنجر اٹھا لے” اور دوسرا سلیم رضا کا گیت "یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو، یہ ادائیں، سب مل کے تیری مست جوانی کو سجائیں” تھا۔

    بغاوت
    یہ وہ فلم تھی جس میں سدھیر اور بیگم شمی نے کام کیا تھا۔ اس میں مسلمانوں اور رومیوں کے دور کے سیاسی و سماجی حالات اور ان دونوں اقوام کے درمیان جنگ کی منظر کشی کی گئی تھی۔ بغاوت 1963ء کی ایک مشہور فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم میں ولن اور رومن جرنیل کے بہروپ میں اداکار اکمل نے کام کیا تھا۔ وہ بعد میں پنجابی فلموں کے سپر اسٹار بنے تھے۔

    مجاہد
    1965ء کی مشہور پاکستانی فلم مجاہد بھی رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش اور مذہبی اعتبار سے دشمنی پر مبنی فلم تھی۔ اس فلم کے ہیرو سدھیر تھے جب کہ ولن کا کردار محمد علی نے نبھایا تھا۔ ملکی تاریخ کے اعتبار سے خاص بات یہ ہے کہ فلم 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ایک ترانہ بھی شامل تھا جو اس وقت کا مقبول ترین جنگی ترانہ ثابت ہوا جس کے بول تھے: "ساتھیو، مجاہدو، جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔”

    عادل
    یہ بطور فلم ساز لیجنڈری اداکار محمد علی کی پہلی فلم تھی جو 1966ء میں انھوں نے بنائی۔ اس فلم میں وہ ایک رومی سپاہی بنے ہیں جو اسلام قبول کرلیتا ہے۔ فلم میں‌ دکھایا گیا ہے کہ یہ رومی سپاہی مذہب کی طرف مائل ہورہا ہے۔ پھر وہ ایک گیت سن کر خدا کی وحدانیت اور اسلام کی حقانیّت کو تسلیم کرلیتا ہے جس کے بول تھے: "راہی بھٹکنے والے، پڑھ لا الہ کے اجالے” یہ گیت مہدی حسن کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    مذکورہ فلموں کے علاوہ روم کی عیسائی سلطنتوں اور مسلمانوں کے درمیان چپقلش کی عکاس اور جنگ و جدل کے مناظر سے بھرپور دیگر فلموں میں الہلال، سجدہ، کافر، شبستان وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

  • فتحِ قسطنطنیہ اور سلطان محمد فاتح

    فتحِ قسطنطنیہ اور سلطان محمد فاتح

    عثمانی حکم رانوں کی تاریخ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے انھیں عالمِ اسلام میں وہ عزّت و احترام اور مقام و مرتبہ عطا کیا جس کی مثال دی جاتی ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔

    قسطنطنیہ کی فتح ایک تاریخ ساز اور عظیم تبدیلی ثابت ہوئی جس کے ساتھ ہی نہ صرف صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ممکن ہوا بلکہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر اس فتح نے خطّے کو ایک نئی سمت اور شکل دے دی۔ 3 مئی 1481ء کو محمد فاتح وفات پاگئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں مدفون ہیں۔

    محققین لکھتے ہیں‌ کہ قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر اس فتح‌ کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گئی تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور اسی کے بعد اگلی چار صدیوں تک عثمانیوں کی تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بڑے حصّوں پر حکومت قائم رہی۔

    مسلمان فتحِ قسطنطنیہ کا خواب سات سو سال سے دیکھ رہے تھے اور اس عرصہ میں انھیں متعدد فوجی مہمّات میں ناکامی ہوئی تھی۔ اس فتح کے بعد امورِ‌ سلطنت میں اپنے حُسنِ انتظام اور اپنی قابلیت کی بناء پر کیے گئے کئی فیصلوں اور اقدامات کی بدولت بھی محمد ثانی الفاتح نے شہرت پائی۔ ان کا دورِ حکومت برداشت اور رواداری کے لیے مشہور تھا۔ سلطان 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ نوجوان تھے جب انھیں امورِ‌ سلطنت اور عثمانی فوج کی قیادت کا موقع ملا اور فتح قسطنطنیہ کے وقت وہ محض 21 برس کے تھے۔ سلطان کی فوج نے کئی روزہ محاصرے اور گولہ باری کے بعد قسطنطنیہ فتح کیا جس کے بارے میں اطالوی طبیب نکولو باربیرو آنکھوں دیکھا حال یوں‌ بیان کرتا ہے کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    مشہور ہے کہ فاتح کی حیثیت سے سلطان محمد شہر اپنے سفید گھوڑے پر سوار داخل ہوئے اور اس کی زمین سے مٹھی خاک اٹھا کر اپنی پگڑی پر ڈالی۔ محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ ان کے دور میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں انھوں نے بھی حصہ لیا اور اس موقع پر وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور حربی تربیت حاصل کی۔

    محمد ثانی نے یورپ کی طرف بھی پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ عثمانی فوج کو شکست بھی ہوئی، لیکن سلطان کے دور میں‌ سلطنت وسعت بھی پاتی رہی۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و فنون کے شیدائی اور قابل و ہنر مند شخصیات کے بڑے قدر داں اور سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلا تفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

  • فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں انھیں‌ وہ عزّت، احترام اور مقام و مرتبہ دیا جو بہت کم سلاطین کو نصیب ہوا ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔ محمد فاتح کو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایسے حکم راں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کی فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و ہنر کے قائل اور علما و ہنر مندوں کے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

    محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔