Tag: فراعین مصر

  • حضرت موسیٰ، فرعون اور اردو ادب

    حضرت موسیٰ، فرعون اور اردو ادب

    امریکہ کا مشہور انشاء پرداز آسبورن لکھتا ہے، ”تلمیحات کیا ہیں؟ ہماری قوم کے قدموں کے نشان ہیں جن پر پیچھے ہٹ کر ہم اپنے باپ دادا کے خیالات، مزعومات، اوہام، رسم و رواج اور واقعات وحالات کے سراغ لگا سکتے ہیں۔”

    اردو ادب میں‌ تلمیحات دیو مالائی، مذہبی قصوں، عقائد، تاریخی واقعات کے علاوہ عام کہانیوں اور افسانوں سے ماخوذ ہیں۔ یہ انبیاء کے واقعات، فرشتوں کے تذکرے، جنّت اور دوزخ کے قصّوں اور مشاہیر کی زندگی سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہاں‌ ہم حضرت موسیٰ اور ان کی پیغمبری کے واقعات اور فرعون کے تذکرے پر مبنی سیّد وحید الدّین سلیم کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں جو معلومات افزا بھی ہے اور دل چسپ بھی۔

    حضرت موسیٰ بھی نہایت جلیلُ القدر پیغمبر تھے۔ ان پر توریت نازل ہوئی۔ ان کا لقب کلیمُ اللہ ہے۔ ان کے زمانہ میں جو فرعون مصر پر حکم راں تھا، وہ نہایت سرکش اور مغرور تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ کاہنوں اور نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس کو ہلاک کرنے والا بنی اسرائیل میں پیدا ہوگا۔ بنی اسرائیل کی حالت اس زمانہ میں نہایت زبوں تھی۔ وہ مصر میں غلامی اور مزدوری کی خدمتیں انجام دیتے تھے۔ فرعون نے پیش گوئی سن کر بنی اسرائیل کے بچّوں کو ہلاک کرنا شروع کیا۔

    حضرت موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے ان کو ایک گہوراہ میں ڈال کر دریا کی نذر کر دیا۔ یہ گہوارہ بہتے بہتے فرعون کے محل تک پہنچا۔ فرعون کی بیوی نے اس کو دریا سے نکلوایا۔ بچّے کی شکل دیکھ کر رحم آیا۔ پالنے کا عزم مصمم کر لیا۔ فرعون کو اس بچّے پر اپنے قاتل کا شبہ ہوا۔ چاہا کہ ہلاک کر ڈالے مگر فرعون کی بیوی حائل ہوئی۔

    فرعون نے اس بچّے کا امتحان عجیب طریقے سے کیا۔ ایک طشت لعلوں سے اور ایک طشت انگاروں سے بھرا سامنے لایا گیا۔ فرعون کا خیال تھا کہ اگر یہ بچّہ وہی ہے جو میرا قاتل ہو گا تو انگاروں پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ جب بچّے نے ہاتھ لپکایا، تو قریب تھا کہ لعلوں کے طشت پر پڑے مگر فرشتے نے ہاتھ کھینچ کر انگاروں کے طشت پر رکھ دیا۔ ایک انگار اٹھایا اور جھپ سے منھ میں رکھ لیا۔ ہاتھ کی ہتھیلی اور زبان دونوں جل گئیں۔ ہاتھ کا سفید داغ بعد میں یدِ بیضا کے معجزہ سے تبدیل کر دیا گیا۔ مگر زبان میں لکنت ساری عمر باقی رہی۔ حضرت موسیٰ کے لیے دودھ پلانے والی عورت کی تلاش ہوئی، تو ان کی والدہ ہی کو یہ موقع ملا اور انہوں نے ماں ہی کے دودھ سے پرورش پائی۔

    ہوش سنبھالنے پر حضرت موسیٰ نے شہزادوں کی طرح تعلیم پائی۔ مصری کاہنوں نے اپنے تمام علوم ان کو سکھائے۔ ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ دراصل فرعون کے بیٹے نہیں ہیں اور نہ قبطی ہیں، بلکہ اسرائیلی نسل کے ہیں۔ ان کو اپنی قوم سے ہمدردی اور قبطی قوم سے نفرت ہو گئی۔ ایک دن ایک قبطی ایک اسرائیلی پر ظلم کر رہا تھا۔ یہ واقعہ دیکھ کر انہیں غصہ آیا اور قبطی کو جان سے مار ڈالا۔ پھر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ عرب کی سرحد پر پہنچے، تو مدین کے ایک کنویں پر چند نوجوان عورتوں کو انہوں نے پانی بھرتے دیکھا۔ پیاس شدت کی تھی۔ پانی مانگا۔ جواب ملا کہ ہم اپنے مویشیوں کو سیراب کر لیں تو تمہاری خبر لیں۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم مجھے پانی پلا دو، میں تمہارے مویشیوں کو پانی کھینچ کر پلا دوں گا۔ انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا۔

    یہ نوجوان لڑکیاں مدین کے پیغمبر شعیب کی بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اس نوجوان کا تذکرہ کیا۔ حضرت شعیب نے بلا کر کہا کہ اگر تم بارہ برس تک ہمارے قبیلے کی بکریاں چراؤ تو ہم اپنی لڑکی سے شادی کر دیں گے۔ حضرت موسیٰ نے منظور کر لیا۔ بارہ برس کی خدمت کے بعد شادی ہو گئی، اپنی بیوی کو ساتھ لے کر چلے۔

    راستہ میں وادی ایمن ملی، جو کوہِ طور کے دامن میں ہے۔ بیوی حمل سے تھیں۔ رات وہیں بسر کی، اسی وقت وضعِ حمل ہوا۔ آگ کی ضرورت تھی۔ سامنے پہاڑ پر روشنی دکھائی دی۔ آگ لینے اس طرف بڑھے۔ دیکھا ایک درخت سر تا پا روشن ہے، مگر آگ کا نام نہیں۔

    درخت میں سے آواز آئی: میں تیرا خدا ہوں۔ تو وادیٔ مقدس میں ہے۔ اپنی جوتیاں اتار دے۔ موسیٰ نے کہا ربّ ارنی یعنی اے خدا تو اپنا دیدار مجھے دکھا۔ جواب ملا: لن ترانی، یعنی تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ پھر جب تجلّیِ ربّانی کا ظہور ہوا، تو موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پہاڑ لرز گیا، بلکہ جل کر سرمہ ہو گیا۔

    اس واقعہ کی طرف حسبِ ذیل تلمیحات میں اشارہ کیا گیا ہے: تجلّیِ طور، شعلۂ طور، نخلِ طور، شمعِ طور، شجرِ طور، نخلِ موسیٰ، جلوۂ طور، نخلِ ایمن، شمعِ ایمن۔ وادیٔ ایمن، نورِ سینا۔ وادیٔ سینا، شعلۂ سینا، طورِ سینا۔ سرمۂ طور۔ ربّ ارنی۔ لن ترانی۔ خر موسیٰ۔ ( یعنی موسیٰ غش کھا کر گر پڑے) ہوش میں آئے تو حضرت موسیٰ کو حکم ہوا، تم اور تمہارے بھائی ہارون دونوں مل کر فرعون کو میرا پیغام پہنچاؤ۔ اسی وقت حضرت موسیٰ کو دو معجزے عطا ہوئے۔ ایک یہ کہ جب وہ اپنے عصا کو زمین پر ڈال دیتے تھے تو وہ اژدہا بن جاتا تھا۔ دوسرا یہ کہ جب وہ اپنا ہاتھ گریبان میں سے نکال لیتے تھے، تو آفتاب کی طرح چمکنے لگتا تھا۔ پہلے معجزے کی طرف عصائے موسیٰ اور عصائے کلیم کے الفاظ سے اور دوسرے معجزے کی طرف دستِ کلیم، دستِ موسیٰ اور یدِ بیضا کے الفاظ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔

    کوہِ طور سے چل کر حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے ساتھ مصر میں آئے۔ فرعون نے اپنے جادوگروں کو مقابلے کے لیے پیش کیا، مگر حضرت موسیٰ اپنے عصا اور یدِ بیضا کی مدد سے غالب آئے۔ بڑی دقتوں اور مقابلوں کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرایا اور ان کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عصا کی ایک جنبش سے دریا پھٹ گیا اور پایاب ہو گیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ پار اتر گئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں عین اس وقت پہنچا جب کہ دریا پایاب تھا اور بنی اسرائیل پار ہو چکے تھے۔ وہ بھی اپنے لشکر کو ہمراہ لے کر دریا میں اتر گیا، مگر جب بیچ میں پہنچا تو جو پانی سمٹ گیا تھا، پھر پھیل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔ شاعروں نے اس دریا کا نام نیل بتایا ہے، گو کہ وہ مؤرخین کے نزدیک بحرِ قلزم تھا۔

    دریا سے پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے اس جنگل میں پہنچے جس کو تیہ بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ یہاں چالیس برس تک رہے۔ ہر چند بنی اسرائیل کو اکسایا کہ فلسطین پر حملہ کرو اور فرعون کے گورنروں کو نکال کر خود اپنے وطن پر قابض ہو، مگر مدتِ دراز تک غلامی کی زندگی بسر کرنے کے سبب ان کی ہمّتوں اور جرأتوں نے جواب دے دیا تھا۔ اس جنگل میں بنی اسرائیل کی گزران جس چیز پر تھی، اس کا نام من و سلویٰ بتایا گیا ہے۔ عام خیال ہے کہ یہی بہشتی نعمتوں کا خوان تھا، جو ہر روز فرشتوں کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا اور اسی عام خیال پر شاعری کا مدار ہے۔

    حضرت موسیٰ اکثر کوہِ طور پر جاتے اور خدا سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔ اسی مقدس پہاڑ پر ان کو توریت کے صحیفے عطا ہوئے۔ ایک دفعہ جب وہ کوہِ طور پر گئے ہوئے تھے، ایک شخص نے جس کا نام سامری تھا، سونے کا ایک بچھڑا بنایا، جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ حضرت موسیٰ کی قوم نے اس کو پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت موسیٰ جب واپس آئے تو غضب ناک ہوئے اور بچھڑے کو جو شعرا کی زبان میں گوسالۂ سامری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جلا کر خاک کر ڈالا۔

  • انطونی کی خودکُشی اور ملکۂ مصر قلوپطرہ کی موت

    انطونی کی خودکُشی اور ملکۂ مصر قلوپطرہ کی موت

    قلو پطرہ دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں کئی قصّے اور کہانیاں مشہور ہیں۔ اسے داستانوں میں سمیٹا گیا۔ اس کے حُسن، عشق اور پھر موت کو بھی افسانہ بنایا گیا اور شاید رہتی دنیا تک قلو پطرہ اسی طرح ‘زندہ’ رہے۔

    قبلِ مسیح کا یہ کردار دنیا بھر میں تاریخ اور افسانوی ادب کا حصّہ ہے جب کہ جدید دور میں قلو پطرہ پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک ڈرامے میں اس کردار کے بارے میں‌ لکھا تھا؛

    "قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔ اس کا حُسن کئی انقلابوں، اور خونریزیوں کا باعث ہوا۔ اس ساحرہ کے حُسن و عشق کے قصّے جہاں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں، وہاں تمام دنیا کو معلوم ہیں۔”

    "قلو پطرہ مصر کے نالائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی تھی۔ یہ بادشاہ 80 قبل مسیح تک حکمران رہا۔ اپنی سترہ برس کی بیٹی قلوپطرہ کے سر پر اپنا زنگ خوردہ تاج رکھ کر اُس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔”

    "ملکۂ مصر قلوپطرہ فاتحوں کی فاتح تھی۔ اس نے جولیس سیزر کو، اس کی موت کے بعد مارک انطونی کو جس کے ہاتھ میں ان دنوں دنیا کی باگ ڈور تھی، اپنے حُسن و جمال سے مسحور کیا۔”

    "اس حسین قاتلہ نے انطونی کو تو ہمیشہ کے لیے تباہی کے سیلاب میں بہا دیا۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ انطونی نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ رویّہ سے مجبور ہو کر اس کے بھائی اوکتے ویانوس کی سخت توہین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔ پارتھنیوں پر فتح حاصل کر کے اوکتے ویانوس نے انطونی کے روم کو مکمل طور پر تاراج کرنے کی کوشش کی اور اسکندیہ کی پرانی عظمت کو زبردست دھکا لگایا۔ اس نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ روم کی سلطنت کا اصل حق دار قلوپطرہ اور اس کا بیٹا سیرزین ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر اوکتے ویانوس اور انطونی کی جماعتوں میں جنگ ناگزیر تھی۔ چنانچہ اکتی ایم کے مقام پر ایک معرکہ خیز جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں قلوپطرہ بھی شریک تھی مگر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی اور اسکندریہ میں پناہ لی۔ انطونی شکست کھا کر واپس چلا آیا جہاں اس نے اپنی وفادار فوجوں کو دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کی۔”

    "انطونی اور قلوپطرہ اب محسوس کرنے لگے تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ دونوں کے دلوں پر غم و الم کی گھٹائیں چھا گئیں لیکن ایک آرزو ابھی تک ان کے دلوں میں باقی تھی کہ انجام کار ان کا ملاپ ہو جائے۔”

    "انطونی لیبیا سے ناامید ہو کر اسکندریہ آیا۔ اس اثنا میں اوکتے ویانوس کی فوجیں اسکندریہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں۔ انطونی نے ایک بار پھر اپنی کھوئی طاقت اور دلیری سے کام لے کر دشمن کا مقابلہ کیا لیکن فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔بالکل تنہا دل میں ہزارو ں حسرتو ں کا خون لیے محل میں آیا تو قاصد نے خبر دی کہ قلوپطرہ نے خو دکشی کر لی۔ یہ دراصل قلوپطرہ کی ایک چال تھی۔ اسے ڈر تھا کہ انطونی اس کی غداری پر خشمگیں ہو گا لیکن قلوپطرہ کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ چال اس کے عاشق پر بہت مہلک اثر کرے گی۔ انطونی دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایک عورت کی محبت اس سے بڑھ گئی۔ چنانچہ جوش میں آکر اس نے اپنے سینے میں تلوار بھونک لی۔”

    "جب قلوپطرہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے بڑی منتوں سے اپنے عاشق کو کہلا بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو وہ اس کے پاس چلا آئے۔ چنانچہ انطونی کے ملازم اپنے زخمی آقا کو اُٹھا کر اس عمارت کے دروازے تک آئے جہاں قلو پطرہ نے خود کو چُھپا رکھا تھا۔ قلوپطرہ نے خوف سے دروازہ نہ کھولا۔ ایک کھڑکی سے رسیاں نیچے پھینکی گئیں جن کی مدد سے زخمی انطونی کو کمرے کے اندر لایا گیا۔”

    اس افسانوی روداد سے آگے ڈرامہ کے طرز پر مکالمے ہیں جس کے اختتام پر ملکۂ مصر قلوپطرہ کو سانپ ڈس لیتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے۔

    زیرِ نظر ادب پارے سعادت حسن کی کتاب بعنوان "جنازے” سے لیے گئے ہیں جو دراصل ریڈیو کے لیے تحریر کردہ ان کے فیچرز پر مشتمل ہے۔ منٹو نے یہ فیچرز مشہور ہستیوں کی موت کے عنوان سے لکھے تھے جن میں قلوپطرہ بھی شامل تھی۔

    کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ انطونی کی خودکشی کی خبر سن کر پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ بھی خود کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔ قلوپطرہ کے دور اور اس کی زندگی سے متعلق محققین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اسے بھی صدیوں پرانی داستانوں اور افسانوں نے مشکوک بنادیا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں، قلوپطرہ 30 ویں صدی قبلِ مسیح میں 39 برس کی عمر میں وفات پا گئی تھی۔ وہ مصر کی ملکہ تھی۔

    محققین کے مطابق قلوپطرہ سلطنتِ روم میں اقتدار کے جھگڑے میں الجھی رہی اور اس کی موت زہریلے سانپ کے کاٹنے سے ہوئی تھی۔ مشہور ہے کہ اس نے خود کو سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔

    شہرۂ آفاق قلوپطرہ فرعون ملکہ تھی جس کے ہوش رُبا حسن نے سلطنتِ روم کے نام ور جرنیلوں کو اپنی ذہانت اور سیاسی تدبّر سے شکست دی، وہ سلطنتِ روم پر قابض ہونا چاہتی تھی۔

    اس کے لیے قلوپطرہ نے ہر سازش کی اور ہر موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کے عشق کا پہلا شکار روم کا شہرۂ آفاق حکم راں جولیس سیزر تھا، جو اس عورت کے خاوند سے اس کا ایک جھگڑا نمٹانے کے لیے بطور ثالث مصر آیا تھا، مگر اسے قلوپطرہ نے اپنی زلفوں کا اسیر بنالیا اور اس کی قربت اختیار کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے روم میں قیام پذیر ہوئی۔

    جب جولیس سیزر قتل ہوا تو قلوپطرہ نے اس کے نائب جنرل انطونی سے تعلقات استوار کرلیے، مگر اسے بھی دھوکا دیا اور پھر انطونی کی خودکشی کے بعد خود بھی موت کو گلے لگا لیا۔