Tag: فراق گورکھپوری

  • شاعری اور تنقیدی مضامین سے اردو ادب کو مالا مال کرنے والے فراق گورکھپوری

    شاعری اور تنقیدی مضامین سے اردو ادب کو مالا مال کرنے والے فراق گورکھپوری

    اردو کے عہد ساز شاعر، مایہ ناز نقاد فراق گورکھپوری کی تصانیف ادبی دنیا کے لیے وہ خزانہ ہیں جس سے ہم آج بھی استفادہ کررہے ہیں۔ فراق نے شاعری اور تنقید کے میدان میں اپنی فکر و بصیرت اور ذہنِ رسا سے ادب کو نئے رجحانات دیے اور اپنے موضوعات کو وقیع بنایا۔ فراق گورکھپوری 1982 میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص فراق اور وہ اپنے آبائی علاقے کی نسبت سے گورکھپوری کہلائے۔ رگھو پتی سہائے 28 اگست 1896ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے ایک شاعر منشی گورکھ پرشاد المتخلص بہ عبرت کے بیٹے تھے۔ والد اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ یوں فراق کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا تھا اور گھر پر ہی انھوں نے اردو اور فارسی زبانیں‌ سیکھیں۔

    فراق نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد انگریزی زبان میں ایم اے کیا اور پھر سول سروسز کا امتحان پاس کرلیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ فراق کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

    بھارت کے اس شاعر اور نقاد کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ اردو ہی نہیں انگریزی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا۔ انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    نئی دہلی میں‌ وفات پانے والے فراق گورکھپوری کو بھارت میں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں عہد ساز شاعر اور اردو ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند فراق کی علمی قابلیت اور ادبی حیثیت پر لکھتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔ اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔ میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔ ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘ خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوا تھا۔ آنجہانی فراق گورکھپوری کے فنِ شاعری اور ان کے کلام پر کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور اردو زبان و ادب کے بڑے نقادو‌ں نے فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے رگھو پتی سہائے المروف بہ فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو منشی گورکھ پرشاد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ فراق کو ان زبانوں کی تعلیم گھر پر ہی دی گئی اور بعد میں فراق نے باقاعدہ مکتب میں‌ داخلہ لیا۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور نقّاد کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا۔

  • فراق صاحب کی موت، جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا!

    فراق صاحب کی موت، جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا!

    جو شخص کل جوش کے گزرنے پر پھوٹ کر رو رہا تھا، وہ آج گزر گیا اور اب وہی بات جو اس نے جوش کے اٹھ جانے پر کہی تھی اس کے بارے میں درست ٹھہری ہے۔

    اک ستون اور گرا ایک چراغ اور بجھا

    آگے پیچھے اردو شاعری کے دو ستون گرے، دو چراغ بجھے۔

    ویسے تو جوش اور فراق دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اپنے عہد کے چراغ تھے مگر دونوں کی روشنی میں بہت فرق تھا۔ جوش پر ایک روایت ختم ہو رہی تھی، فراق سے ایک عہد شروع ہو رہا تھا۔ پابند نظم میں جتنا کچھ اظہار ہونا تھا ہو لیا۔ اب وہ آگے نہیں چل سکتی تھی کہ نئی نظم شروع ہو چکی تھی۔ جوش کے ساتھ اس نظم کا سفر تمام ہوا۔ مگر فراق صاحب جہاں سے شروع ہوئے وہاں سے غزل کا نیا سفر شروع ہوا۔ فراق صاحب کو نئی غزل کا باپ کہنا چاہیے۔

    اس صدی کی تیسری دہائی میں ہماری شاعری میں نئی نظم نے اپنا ڈنکا بجایا۔ اس وقت یوں لگتا تھا کہ تخلیقی اظہار کی ساری ذمہ داری نئی نظم نے سنبھال لی ہے، غزل بس مشاعرے کی ضرورتیں پوری کیا کرے گی مگر اسی دہائی میں غزل کے ساتھ ایک واقعہ گزر گیا۔ فراق صاحب غزل گوئی تو پچھلی دہائی سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ مگر اس دہائی میں آ کر ان کی غزل نے ایک عجیب سی کروٹ بدلی۔ اس کروٹ کا اچھے خاصے عرصے تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ مشاعرے جگر صاحب لوٹ رہے تھے۔ اس نقار خانے میں فراق کی دھیمی آواز کہاں سنی جا سکتی تھی ادھر ادبی رسالوں میں بھی بہت شور تھا۔ نظمِ آزاد کا شور انقلابی شاعری کا شور، فراق کی دھیمی آواز یہاں بھی دبی دبی تھی۔ نئی نظم والے اس وقت بہت زور دکھا رہے تھے انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ دھیمی آواز ان کی نئی شاعری کے لیے موقع کی منتظر تھی۔ ادب میں نئے رجحان کے طاقت بننے کا عمل بھی عجب ہوتا ہے۔ اکثر یوں ہوا ہے کہ کوئی نیا رجحان ابھرا اور ایک عرصہ تک اکیلی آواز طاقت پکڑ کر عہد کا رجحان بن گئی۔ فراق صاحب کی غزل میری دہائی میں اور ہمسر دہائی سے نکل کر 1947ء تک مشاعروں اور نئی نظم کے ہنگاموں کے بیچ اکیلی آواز تھی۔ بس 47ء میں جب تقسیم کا واقعہ نما ہوا تو اچانک اس اکیلی آواز کے ہمنوا پیدا ہو گئے۔ ہمنواؤں نے اس آواز کو عہد کی آواز بنا دیا۔

    یہ بھی عجب ہوا کہ فراق صاحب ہندستان میں رہے اور ہمنوا پاکستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے ابھرنے کے ساتھ ناصر کاظمی کی غزل ایک نئی آواز بن کر ابھری۔ اردگرد اور آوازیں ابھریں اور اب غزل نے پھر سے اپنے عہد کے ساتھ پیوست ہو کر تخلیقی اظہار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ لیکن اگر فراق صاحب نے اتنے عرصے تک اس میں اپنی جان کو نہ کھپایا ہوتا تو اس میں یہ توانائی کیسے پیدا ہوتی۔

    اس ایک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے

    اور پھر عسکری صاحب نے اعلان کیا کہ ’’اب جو غزلیں لکھی جا رہی ہیں ان میں فراق کا دیا ہوا طرزِ احساس گونجتا ہے۔ فراق کے محاورے سنائی دیتے ہیں، فراق کی آواز لرزتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے غزل گو شعراء کے یہاں میر اور غالب کا احساس اور محاورہ جا بجا لپک اٹھتا ہے۔ پچھلے تین چار سال میں جو غزل کا احیاء ہوا ہے وہ 75 فیصد فراق کا مرہون منت ہے۔ فراق کی شاعری نے اردو میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔‘‘

    فراق صاحب کی غزل کی وہ کروٹ جسے ہم نئی غزل سے عبارت کرتے ہیں عسکری صاحب کی دانست میں 28ء سے شروع ہوتی ہے۔ مگر فراق صاحب تو دوسری دہائی کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئے تھے اس عرصہ کو ہم کس کھاتے میں ڈالیں اور اس کی توجیہ کیسے کریں۔

    بات یہ ہے کہ بڑا شاعر پیدا ہوتے ہی بڑا شاعر نہیں بن جاتا یا اگر کسی شاعر کو کسی نئے رجحان کا نقیب بنتا ہے تو شروع ہی سے اسے یہ حیثیت حاصل نہیں ہو جاتی۔ ابتدائی مراحل میں تو بس کچھ پر چھائیاں نظر آتی ہیں۔ اپنے اصل مقام تک پہنچنے کے لیے اسے ریاضت کے ایک پورے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ فراق صاحب کا 38ء تک کا زمانہ شاعری کی ریاضت کا زمانہ ہے۔ یہ ریاضت کس نوعیت کی تھی۔ اس کا اندازہ فراق صاحب کی اکیلی اردو غزل کی روایت سے استفادے پر قانع نہیں تھے۔ مختلف ادبی روایتوں اور مختلف تہذیبی سر چشموں سے اپنے آپ کو سیراب کر رہے تھے ان کا یہ بیان دیکھیے۔

    ’’میری شاعرانہ شخصیت و وجدان کی تخلیق و نشو و نما میں بہت سے اثرات شامل تھے۔ پہلا اثر سنسکرت ادب اور قدیم ہندو تہذیب کے وہ آدرش تھے جن میں مادی کائنات اور مجازی زندگی پر ایک ایسا معصوم اور روشن خیال ایمان ہمیں ملتا ہے جو مذہبی عقائد سے بے نیاز ہو کر اور بے نیاز کر کے شعور میں انتہائی گہرائی پیدا کر دیتا ہے۔

    اس ضمن میں فراق صاحب کا یہ موقف بھی سنتے چلئے کہ اردو شاعری نے عربی اور فارسی سے تو بہت فیض اٹھایا ہے مگر اسے دوسری زبانوں کے ادب اور تہذیبوں میں جو آفاقی عناصر ہیں انہیں بھی اپنے اندر سمو نا چاہیے بالخصوص کالی داس، بھر تری ہری اور تلسی داس سے شناسا ہونا چاہیے۔ خیر اب ان کا دوسرا بیان دیکھیے۔

    ’’میری جستجو یہی رہی کہ شروع سے لے کر اب تک کی اردو غزل میں ان اشعار کو اپنی روحانی اور نفسیاتی غذا بناؤں جن میں روشن خیالی اور شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ قدیم یونانی تہذیب اور دوسری قدیم تہذیبوں میں جو اعلیٰ ترین فکریات مجھے مل سکیں، انہیں بھی میرے شعور اور لہجے نے اپنایا پھر جدید مغربی ادب کے جواہر پاروں نے میری زندگی اور شاعری کو مالا مال کیا۔ ‘‘

    دیکھیے کہ کس طرح ایک شاعر مختلف ادبی روایتوں سے مختلف تہذیبوں سے اپنی تخلیقی روح کے لیے غذا حاصل کر رہا ہے اور اپنے فکر و احساس میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ عمل چھوٹا عمل تو نہیں ہے اس میں وقت تو لگتا ہی تھا اور اتفاق یا اردو شاعری کی روح کا انتظام دیکھیے کہ یہ عمل ٹھیک اس برس جا کر تکمیل کو پہنچتا ہے جب علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔

    علامہ اقبال کا حوالہ میں نے یہ سوچ کر دیا کہ اس بیسوی صدی میں ہماری شعری روایت میں بلکہ ہماری ادبی روایت میں وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے کچھ اس طور شاعری میں قدم رکھا کہ مغرب کے فکر و فلسفہ سے بھی پوری طرح سیراب تھے اور مشرق کی بالخصوص اسلام کی فکری روایت میں بھی رچے بسے تھے۔ اس طور پر انہوں نے اردو شاعری کی فکری بنیادوں کو پختہ کیا۔ وہ دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں کہ ایک دوسرا شاعر اسی طور مشرق و مغرب کی عملی، ادبی اور تہذیبی روایات سے فیض پا کر غزل سراہوتا ہے یعنی اقبال کے بعد فراق دوسرے شاعر ہیں جو ایک بڑے دماغ کے ساتھ ایک علمی کمک کے ساتھ اور ایک وسیع قلب و نظر کے ساتھ اردو شاعری کی دنیا میں داخل ہوئے اسی لیے اگر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنے تعزیتی بیان میں فراق صاحب کو اردو ادب کا ہمالیہ پہاڑ کہا ہے تو اس میں ایسا مبالغہ نہیں ہے اور میں نے تو یہاں صرف فراق کی غزل کا ذکر کیا ہے۔ دوسری اصناف میں فراق نے کیا کہا ہے اور اردو تنقید کو اس شخص نے کیا دیا ہے، اس کا تو ذکر آیا ہی نہیں مگر یہ تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے گھاٹ گھاٹ علم کا اور ادب کا پانی پیا ہو وہ جب تنقید لکھنے بیٹھا ہو گا تو اس نے کیا کچھ دیا ہو گا۔

    اس پس منظر میں دیکھیے پھر سمجھ میں آتا ہے کہ فراق صاحب کی موت اردو ادب کے لیے کتنا بڑا سانحہ ہے سچ مچ جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا۔

    ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
    شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

    (اردو کے ممتاز فکشن رائٹر، صاحبِ طرز ادیب انتظار حسین کی ایک تحریر)

  • فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات

    فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات

    پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔

    ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔

    میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔

    ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘

    خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    (بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند کے قلم سے)

  • ’’سمندر‘‘ اور جی دار مقرّر

    ’’سمندر‘‘ اور جی دار مقرّر

    دوسری جنگِ عظیم ختم ہو چکی تھی لیکن فضاء میں بم کے دھماکوں کی گونج باقی تھی۔برطانوی سامراج کا دَم اکھڑ تو رہا تھا لیکن جس طرح بجھتے ہوئے چراغ کو لو بھڑک اٹھتی ہے۔ اسی طرح برطانوی استبداد کا جبر بھی کچھ بڑھ گیا تھا۔

    1945ء کے اواخر کا یہ زمانہ ایسا تھا جب ایک طرف گورکھپور ہڑتالوں، فائرنگ، آزاد ہند فوج، جواہر لال نہرو کی تقاریر، ظہیر لاری، رضوان احمد کی لیگی سیاست کے چرچے تھے تو دوسری طرف ملک میں فرقہ وارانہ رنگ بھی ابھر رہا تھا اور ہر دو کے سلسلہ میں بھی اختلافی باتیں شروع ہو چکی تھیں۔ ایسے زمانہ میں سینٹ اینڈریوز کالج گورکھپور کے وسیع کمپاونڈ میں ایک مشاعرہ ہوا جس میں شمسی میاں صاحب نے نظم ’’سمندر‘‘ کے عنوان سے پڑھنی چاہی تھی مگر کچھ ہی شعر پڑھ پائے تھے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے انھیں روک دیا۔ بس پھر کیا تھا ہنگامہ ہو گیا۔ مشاعرہ درہم برہم ہونے لگا۔

    سجاد ظہیر اور جگر مراد آبادی نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اس رویہ پر احتجاج کیا۔ ایک صاحب تقریر کرنے کھڑے ہوئے لیکن تقریر سننے سے پہلے ہی لوگوں نے انھیں ہوٹ کرنا شروع کر دیا مگر جی دار مقرر تھا۔ چند لمحے تک اس کے اور سامعین کے درمیان ہوٹنگ کی بیت بازی ہوتی رہی لیکن دھیرے دھیرے مقرر کی پاٹ دار آواز کی خصوصی سحر کارانہ کیفیت مجمع کی ملی جلی آوازوں پر چھاتی چلی گئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مقرر فراق گورکھپوری ہیں جو ہیں گورکھپور کے ہی لیکن رہتے الہ آباد میں ہیں۔ انگریزی پڑھاتے ہیں اور اردو کے شاعر ہیں۔

    فراق صاحب ہندی کے خلاف برٹش گورنمنٹ کے خلاف اور پبلک کے خلاف تقریر کرتے رہے۔ بیچ میں اپنے شعر بھی سناتے رہ گئے اور لفظیت کے لسانی پہلو پر بھی روشنی ڈالتے گئے۔ ایک فقرہ ابھی تک یاد ہے۔

    ’بخار میں بیت ہے۔‘ ان کی اس تقریر کے دوران قہقہے بھی ابھرتے تالیاں بھی بجیں۔ ونس مور بھی ہوا۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک جادوگر ہے جس نے مسحور کر رکھا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے کئی مترنم غزلیں گونج چکی تھیں اور فراق صاحب کی تقریر کے بعد نوجوان شمسی مینائی نے اپنی نظم سمندر بھی پڑھی اور جگر صاحب جنہوں نے کچھ ہی دن پہلے توبہ کی تھی۔ اپنی وہ غزل بھی پڑھی جس کے چند شعر یاد آ گئے۔

    وہ تاب ہستی نہ ہوش مستی کہ شکر نعمت ادا کریں گے
    خزاں میں جب ہے یہ اپنا عالم بہار آئی تو کیا کریں گے
    جدھر سے گزریں گے سرفروشانہ کارنامے سنائیں گے ہم
    وہ اپنے دل کو ہزار روکیں میری محبت کو کیا کریں گے
    خود اپنے ہی سوز باطنی سے نکال ایک شمع غیر فانی
    چراغ دیر و حرم تو اے دل جلا کئے ہیں بجھا کریں گے

    لیکن یہ ہوا کہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد جب سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو راستے میں نہ جگر صاحب کا ذکر تھا نہ سجاد ظہیر اور شمسی مینائی کا بلکہ موضوع گفتگو فراق صاحب تھے۔ ان کی تقریر میں ہندی کے بارے میں تحقیر آمیز رویہ ان کے گرما گرم فقرے اور پھر ان کے کردار کی مستانہ تفرقوں پر بے محابہ تبصرہ ہو رہا تھا اور آج 37 برس بعد خیال آتا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ انفرادیت، بھیڑ چال والی نفسیات کا رخ موڑ سکتی ہے۔

    فراق صاحب اس دور میں غزل گو کی حیثیت سے بہت مقبول نہ تھے۔ حسرت زندہ تھے۔ فالی کی غزلیں لاثانی پن چکی تھیں اور پھر جگر صاحب کی قد آور شخصیت تھی جن کے ساتھ غزل گو شاعر کا ابھرنا تقریباً ناممکن تھا اور پھر یوں بھی وہ دور غزل کا نہیں نظم کا تھا۔

    الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد جن احباب سے قربت رہی ان میں مصطفی حسین زیدی ( تیغ الہ آبادی) فراق صاحب کی شاعری سے بہت متاثر تھے اور فراق صاحب نے مصطفی زیدی کے قطعات کے پہلے مجموعہ زنجیریں پر تعارفی مقدمہ بھی لکھا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تیغ صاحب انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال کے طالب علم تھے اور جب میں بی اے میں آیا تو وہ انٹر کے آخری سال میں تھے۔

    میں فراق صاحب کا طالب علم نہیں تھا۔ انگریزی کلاس میں وہ اردو کے شعر سنایا کرتے تھے۔

    ان سے بارہا ملا، مشاعروں میں ادبی محفلوں میں۔ دو مشاعروں میں اپنے ساتھ بھی لے گیا لیکن مجھے زیادہ تقرب کبھی حاصل نہ ہو سکا۔ تحسین نا شناس انھیں میر و غالب انیس و اقبال پر ترجیح دیتے لیکن مجھے ان کی شاعرانہ شخصیت مصحفی کی یاد دلاتی تھی۔ اس فرق کے ساتھ مصحفی مقرر نہیں تھے۔ ورنہ مصحفی کے تذکرے فراق صاحب کی تنقیدیں، مصحفی کا غزل کا تقلیدی انداز، فراق صاحب کا غزل میں میر، فانی ، آرزو ، ریاض خیرآبادی کے اثرات قبول کرنا، مصحفی کی مثنویوں پر میر کا اثر، فراق کی نظموں اور رباعیات پر جوش کا اثر، مصحفی کی جنس زدگی اور فراق کی جنسی کجروی، مصحفی کے اپنے ہم عصروں سے میر کے اور فراق صاحب کے اثر لکھنوی اور علی سردار جعفری سے ادبی مباحث۔

    جس بے خوفی حیرت اور بے باکی کے ساتھ وہ ہزاروں کے مجمع کو پھٹکارتے تھے۔ بڑے بڑے لیڈروں کو ڈانٹ دیتے تھے اور پھر انھیں سے خراج تحسین بھی حاصل کرتے تھے۔ یہ انھیں کا وصف تھا اور اسی نے انھیں اردو کا واحد دانشور بنا دیا تھا جس کی ذات میں اتنی صفات جمع ہو گئی تھیں کہ ان کے کردار کا یہ پہلو ان کے کردار کے سلسلہ کی بہت ساری لغزشوں پر حاوی ہوتا تھا۔

    (مجاور حسین رضوی کی یادیں‌ اور باتیں)

  • عہد ساز شاعر اور تنقید نگار فراق گورکھپوری کا تذکرہ

    عہد ساز شاعر اور تنقید نگار فراق گورکھپوری کا تذکرہ

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت تخلّص سے جڑی تو فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں ایک عہد ساز شاعر اور اردو زبان و ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوگیا تھا۔

    رگھو پتی سہائے نے 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں منشی گورکھ پرشاد کے گھر آنکھ کھولی جو شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون بھی تھے۔ انھوں‌ نے گھر پر اپنے بیٹے کو ان زبانوں کی تعلیم دی اور بعد میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعروادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی اور وہ اپنے وقت کے اہم شاعر اور نقّاد تھے۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    بھارت میں‌ فراق گورکھپوری کو پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • اردو کے بارے میں گنوار کی رائے

    اردو کے بارے میں گنوار کی رائے

    فراق گورکھپوری ایک عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے۔ اردو زبان کے جن شعرا نے جدید شاعری میں اپنی انفرادیت کے سبب جو شہرت اور مقبولیت سمیٹی، ان میں فراق کا نام سرِ فہرست ہے۔

    فراق کے بارے میں‌ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ، اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا اور نئی شاعری کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

    ہندوستان میں‌ اردو اور ہندی زبان کا تنازع نیا نہیں۔ آج بھی بھارت میں‌ اردو کی مخالفت میں‌ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس میں‌ ہندی کے چند مصنّفین نے فراق کے سامنے اردو کی مخالفت کی تھی اور سخت جواب پایا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک مرتبہ ہندی کے چند ادیبوں کی محفل میں فراق کا جانا ہوا، ادھر ادھر کی باتوں کے بعد گفتگو کا رخ ہندی اور اردو کی طرف مڑ گیا۔ ہندی کے ایک ادیب نے کہا۔

    ’’فراق صاحب! اردو بھی کوئی زبان ہے۔ اس میں گل و بلبل کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ ہلکی پھلکی اور گدگدی پیدا کرنے کے علاوہ سنجیدہ اور اونچے قسم کی فلاسفی سے متعلق باتیں اس زبان میں ادا نہیں کی جاسکتیں۔ آپ بڑے شاعر ضرور ہیں ، لیکن اردو ایک گھٹیا زبان ہے۔‘‘

    فراق نے تحمّل اور سنجیدگی سے ان کی بات سنی، پھر ایک سگریٹ سلگایا اور کہا: ’’ہر گنوار انسان، خوب صورت چیز کے بارے میں وہی کہتا ہے، جو آپ نے اردو کے بارے میں فرمایا ہے۔‘‘

  • دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    ہندوستان کے بٹوارے اور تقسیم کے کئی سال بعد بھی بھارت میں متعصب اور انتہا پسند حلقوں کی جانب سے اردو کی مخالفت میں باقاعدہ مہم چلائی گئی اور ہر سطح پر اردو بولنے اور لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔

    اس زمانے میں اردو بولنا اور لکھنا جیسے جرم تھا اور یہ سوچ مذہبی شخصیات اور عوام ہی تک محدود نہیں‌ تھی بلکہ علم و دانش اور ادب سے وابستہ افراد نے بھی اس حوالے سے تنگ نظری اور پستی کا ثبوت دیا، لیکن بعض عالی دماغ اور روشن نظریات و خیالات رکھنے والی شخصیات نے اسے علم دشمنی اور صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کا قتل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔

    معروف ہندوستانی ادیب رتن سنگھ نے اسی حوالے سے بیسویں صدی کے نام وَر شاعر، ادیب اور نقّاد فراق گورکھپوری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو ہم یہاں اپنے باذوق قارئین اور علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘فراق صاحب ریڈیو کے پروڈیوسر ایمریٹس تھے، اُن دنوں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی ریکارڈنگ کے لیے اُنہیں فیس کا چیک دیا جائے۔ ایسی صورت میں فراق صاحب کو یہ سمجھانا ایک ٹیڑھی کھیر تھی۔

    اس معاملے کے حل کے لیے میں نے ایک صورت یہ نکال لی کہ الٰہ آباد سے لکھنؤ آنے کا کرایہ اور ڈی اے وغیرہ دے دیا جائے۔ میں یہی کرتا تھا۔

    فراق صاحب اسی پر ہی ریکارڈنگ کے لیے راضی ہوجاتے تھے، لیکن ایک بار ایک نئی قسم کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔

    فراق صاحب کو اُردو زبان اور اس کے مستقبل کے بارے میں بولنا تھا۔ اس کے بارے میں باتیں کرتے کرتے وہ اتنی کڑوی باتیں بھی کر گئے کہ اگر اُنہیں نشر کردیتا تو واویلا کھڑا ہوجاتا۔

    ہزاری پرساد دیویدی اور نہ جانے کس کس کو اُردو کے حق سے محروم رکھنے کی شکایت کرتے ہوئے اُنہوں نے صاف صاف کہا کہ اے ہندوﺅ! میری مراد آر ایس ایس والے ہندوﺅں سے ہے، اور میں اُنہی کے لب و لہجے میں کہہ رہا ہوں کہ اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، پاکستان دشمن ہو رہا ہے۔ اگر دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، اپنے ملک میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں۔ اُن کی زبان نہیں سمجھوگے تو بھی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی باتیں کرکے فراق صاحب چلے گئے۔

    پھر الٰہ آباد سے مجھے لکھا کہ بھائی جو کچھ میں نے کہا ہے، اس کو براڈ کاسٹ کرنے کی ذمے داری تمہاری ہے۔ دیکھ لینا غور سے۔’

  • عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    اردو کے نام وَر شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری 3 مارچ 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوتا تھا۔ اردو ادب میں فراق کو تنقید کے حوالے سے بھی اہم مقام حاصل ہے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ وہ 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون اور اچھّے شاعر تھے۔ اسی علمی و ادبی ماحول میں فراق کی تعلیم و تربیت ہوئی اور وہ بھی اردو زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    وہ اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور شاعری کے ساتھ نقد و نظر کے میدان میں بھی اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ فراق نے اردو شاعری میں‌ اپنے تنقیدی میلانات کو کتابی شکل دی جس کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی کتاب اردو کی عشقیہ شاعری کے علاوہ حاشیے بھی تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔

    فراق اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ ان کا سب سے جدا اور اپنا ہی رنگ ان کے کلام سے جھلکتا ہے۔ فراق کو عہد ساز شاعر بھی کہا جاتا ہے جب کہ تنقید کے میدان میں‌ بھی ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    دلّی میں‌ وفات پاجانے والے فراق گورکھپوری کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات دیے تھے۔

  • فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے…

    فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے…

    فراق گورکھپوری ایک عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے۔ انھیں اپنے دور میں‌ جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ کم ہی شعرا کو نصیب ہوئی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثّر کیا، اور نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ حسن و عشق کے شاعر تھے، لیکن نہ صرف جذبات و احساسات کی ترجمانی کی بلکہ شعور و ادراک اور جمالیاتی احساس کے حوالے سے بھی اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔ ان کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    غزل
    بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
    تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

    نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
    تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

    طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
    ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

    خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
    اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

    ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
    مری باتیں بہ عنوانِ دگر وہ مان لیتے ہیں

    تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
    ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

    زمانہ وارداتِ قلب سننے کو ترستا ہے
    اسی سے تو سَر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

    فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
    کبھی ہم جان لیتے ہیں، کبھی پہچان لیتے ہیں