Tag: فرانز کافکا

  • فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ کے جن اہلِ قلم اور ادیبوں نے اپنے تخلیقی کام کی وجہ سے نام و مرتبہ پایا اور دنیا بھر میں پہچانے گئے، ان میں سے ایک فرانز کافکا بھی ہے کافکا اپنے دور کا ایک نابغہ تھا جسے ستائش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا بلکہ وہ اپنی زندگی میں گویا گوشۂ گمنامی میں رہا اور اگر اس کا ایک دوست ‘وعدہ خلافی’ نہ کرتا تو شاید دنیا کافکا کو نہ جان پاتی۔

    فرانز کافکا ایک اعلیٰ‌ پائے کا ادیب تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ بعد از مرگ اس کی تحریریں جلا دی جائیں۔ لیکن آج وہ سب تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے کافکا اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔

    عالمی شہرت یافتہ جرمن افسانہ نگار کی کہانیاں بشمول اردو دنیا کی متعدد زباںوں میں ترجمہ کی گئیں۔ کافکا کے چند ادھورے ناول، افسانے اور اس کے تحریر کردہ خطوط بھی دنیا کے سامنے لائے گئے اور عین جوانی میں دارِ فانی سے کوچ کر جانے والے فرانز کافکا نے جیسے دوبارہ جنم لیا۔ فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو قارئین نے بہت سراہا اور ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کی تماثیل جرمنی اور دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

    تین جون 1924ء کو کافکا چالیس سال کی عمر میں چل بسا تھا۔ کافکا کی پیدائش 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں ہوئی۔ وہ یہودی گھرانے کا فرد تھا۔ کافکا نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کافکا کا خیال تھا کہ والدین اسے پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ کافکا ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم ہوگیا تھا۔ وہ نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوکر سب سے گریزاں رہا۔ کافکا نے شادی بھی نہیں‌ کی تھی۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کافکا نے ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔اس کے ساتھ قانون کی پریکٹس بھی شروع کردی۔ لیکن اسے ہمیشہ محرومی اور کم تر ہونے کا احساس ستاتا رہا۔ اس جرمن ادیب نے ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی مگر بچ گیا اور پھر اس کے دوست نے اس کو سنبھالا۔ بعد میں کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوا۔

    کافکا کی ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے جس کے مترجم مقبول ملک ہیں۔

    ایک فلسفی ہمیشہ اسی جگہ کے ارد گرد گھومتا رہتا تھا جہاں بچے کھیلتے تھے۔ وہ جب کبھی بھی یہ دیکھتا کہ کسی بچے کے پاس لٹو ہے، تو وہ جھاڑیوں کے پیچھے تاک لگا کر بیٹھ جاتا۔ جیسے ہی لٹو گھومنے لگتا، فلسفی دوڑ کر جاتا اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا۔

    وہ اس بات کی کوئی پروا نہ کرتا کہ بچے اسے اپنے کھلونے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ لٹو کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہو جاتا، تو جب تک لٹو گھومتا رہتا، فلسفی بھی خوش رہتا۔ لیکن پھر ایک ہی لمحے میں وہ لٹو کو زمین پر پٹخ دے مارتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اسے یقین تھا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا علم اور شعور، مثلاً گھومتے ہوئے لٹو کا بھی، عمومی آگہی کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے وہ خود کو بڑے مسائل پر غور و فکر میں مصروف نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کرنا محنت اور نتائج کے حوالے سے اسے غیر سود مند لگتا۔

    اسے لگتا تھا کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے چھوٹے پن کا بھی اگر واقعی علم ہو جائے، تو سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو وہ خود کو صرف ایک گھومتے ہوئے لٹو کے ساتھ ہی مصروف رکھتا تھا۔

    یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ جب کوئی لڑکا لٹو کو گھمانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتا، تو اسے امید ہو جاتی کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب لٹو گھومتا تو اپنے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ وہ جیسے جیسے اس کا پیچھا کرتا، اس کی امید شعور میں بدلتی جاتی۔

    لیکن پھر جیسے ہی وہ لکڑی کے اس فضول سے گول ٹکڑے کو ہاتھ میں لیتا تو اس کا جی متلانے لگتا۔ تب بچوں کی وہ چیخ پکار اور احتجاج بھی، جنہیں وہ تب تک سن نہیں پاتا تھا، اچانک اس کے کانوں کے بہت اندر تک پہنچنے لگتے۔ یہی چیخ پکار اور احتجاج اس کے وہاں سے فرار کا سبب بنتے، اسی طرح گرتے پڑتے، جیسے کسی لڑکے نے گھمانے کے لیے کوئی لٹو بڑے پھوہڑ انداز میں زمین پر پھینک دیا ہو۔

  • سَمت (فرانز کافکا کی حکایت)

    سَمت (فرانز کافکا کی حکایت)

    معروف جرمن ادیب فرانز کافکا کو جیتے جی تو پذیرائی اور شہرت نہیں ملی مگر بعد از مرگ اسے بہترین کہانی کار اور شان دار تمثیل نگار کے طور پر یاد کیا گیا۔ یہ شہرت بھی اس لیے نصیب ہوئی کہ وہ شخص جسے کافکا نے وصیت کی تھی کہ وہ اس کی تخلیقات کو مرنے کے بعد نذرِ‌ آتش کردے، ایسا نہیں کرسکا۔ یوں عالمی ادب میں کافکا کو پہچان ملی۔ کافکا کو پڑھنا سہل نہیں۔ اس کی گہری فکر اور حکایات ہم سے فہم اور بصیرت کا تقاضا کرتی ہیں۔

    فرانز کافکا کی یہ حکایت ملاحظہ کیجیے:

    ’تاریک بھول بھلیوں میں دوڑتا ہوا ایک چوہا شکوہ کناں تھا کہ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ گزرے دنوں میں جدھر چاہتا تھا دوڑتا پھرتا تھا مگر اب دیواریں اس قدر سکڑ گئی ہیں کہ میں اپنے بل کے آخری حصّے تک آپہنچا ہوں۔ آگے چوہے دان لگا ہوا ہے، اس کے بعد میں کہاں جاؤں گا۔

    چوہے کے عقب میں آنے والی بلّی نے کہا، تمہیں صرف راستہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ چوہے نے سمت تبدیل کی اور سیدھا بلّی کے منہ میں جا پہنچا۔

  • کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا کی بیش تر تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے آج عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنی موت سے قبل اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے اس پر عمل نہیں کیا تھا!

    جرمنی کے اس معروف افسانہ نگار اور کہانی کار کے متعدد ادھورے ناول، افسانوں اور خطوط کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور عین جوانی میں دم توڑنے والے کافکا اور اس کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ جرمنی میں کافکا کی تماثیل آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بیسویں صدی کے اس بہترین افسانہ نگار کی وفات تین جون 1924ء کو ہوئی۔ اس کی عمر 40 سال تھی۔ وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ وہ ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم اور نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوچکا تھا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ اس نے زندگی میں ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی تھی، مگر بچ گیا تھا اور بعد میں‌ اس کے دوست نے اسے سنبھالا۔ کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا اور اس دور میں‌ اس مرض کے ہاتھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔

    فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

    کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

  • ‘ایک شاہی پیغام…’

    ‘ایک شاہی پیغام…’

    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصّہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سَر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکّے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔

    اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

    (جرمن زبان میں تحریر کردہ فرانز کافکا کی ایک تمثیل کا اردو ترجمہ)

  • فرانز کافکا کا تذکرہ جس کی ایک وصیت پر عمل نہیں کیا گیا

    فرانز کافکا کا تذکرہ جس کی ایک وصیت پر عمل نہیں کیا گیا

    فرانز کافکا جرمنی کا ایک مشہور ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کا تماثیل بہت مقبول ہوئیں اور پسِ مرگ اس کی شہرت کا سبب بنیں۔ اسے بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تین جون 1924ء کو کافکا نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ اس ادیب نے کبھی شادی نہیں‌ کی اور مشہور ہے کہ اس نے اپنی کچھ تخلیقات کو نذرِ آتش کردیا تھا اور کئی مسوّدے اپنے ایک دوست کے سپرد کرتے ہوئے وصیت کی تھی کہ اس کی موت کے بعد انھیں آگ میں جھونک دے، لیکن اس دوست نے کافکا کی وصیّت پر عمل نہ کیا۔ کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

    زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ ایک موقع پر اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی، مگر اس کے دوست نے کسی طرح اسے سنبھال لیا۔ وہ تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا۔

    فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

  • گیارہ بیٹے…

    گیارہ بیٹے…

    میرے گیارہ بیٹے ہیں۔ پہلا بیٹا بظاہر بہت سیدھا، مگر سنجیدہ اور چالاک ہے۔ اگرچہ میں اسے اپنے دوسرے بچوں کی طرح ہی پیار کرتا ہوں۔ لیکن میں اسے شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجہ نہیں دیتا۔ اس کی سوچ کا عمل مجھے بہت سادہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر وقت حرکت میں رہتا ہے یا بس ایک ہی نقطے کے گرد گھومتا ہے، اپنی ہی سوچ کے ننھے دائروں میں۔

    دوسرا بیٹا خوش شکل اور دبلا پتلا ہے۔ اسے تیغ زنی کی مشق کرتے ہوئے دیکھنا ایک سانس روک دینے والا منظر ہے۔ وہ چالاک بھی ہے، لیکن جہاں دیدہ بھی۔ اس نے سیاحت بہت کی ہے، اور اسی لیے حتیٰ کہ ہمارا قصبہ بھی اسے اپنے اتنے رازوں میں شریک کرلیتا ہے، جتنے رازوں سے یہاں رہنے والے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خوبی صرف اس کی سیاحتوں یا لازمی طور پر صرف انھی کے باعث نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کی اپنی قابلِ تقلید فطرت کا ایک جوہر ہے جس کی توصیف مثال کے طور پر ہر وہ شخص کرتا ہے جس نے کبھی اس کی نقل اتارنے کی کوشش کی ہو۔ یوں کہیے کہ جیسے وہ پانی میں نہایت شان دار اونچی چھلانگ لگاتا ہے لیکن کبھی کبھی چھلانگ لگانے کے بجائے اچانک نیچے بیٹھ جاتے اور معذرت کے انداز میں بازو ہوا میں پھیلا لیتے ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود کہ مجھے ایسے بیٹے کا باپ ہونے پر خوشی محسوس ہونی چاہیے اس کے ساتھ میرا تعلق خوش گوار نہیں ہے۔

    اس کی بائیں آنکھ داہنی آنکھ سے کچھ چھوٹی ہے اور مسلسل جھپکتی رہتی ہے۔ یقینا ایک معمولی نقص۔ لیکن اس سے اس کے چہرے پر دلیری کا تاثر ابھرتا ہے جو کسی اور طرح سے ممکن نہیں۔ نہ ہی خود پر انحصار کرنے کی اس کی ناقابلِ تقلید عادت کے پیشِ نظر کسی نے کبھی اس کی چھوٹی آنکھ اور اس کے جھپکنے کے انداز کو دیکھا یا اس پر غور کیا ہے۔ لیکن میں، اس کا باپ، اس عیب کو شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ میری پریشانی کا سبب اس کا جسمانی عیب نہیں ہے بلکہ روح میں در آنے والا اس عیب سے جڑا انتشار ہے۔ خون میں شامل ہوجانے والا زہر، اپنی فطری اہلیتوں کی معراج حاصل کرنے کی نااہلیت جسے صرف میں محسوس کر سکتا ہوں۔ لیکن یہی بات اسے پھر سے میرا بیٹا ثابت کرتی ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ عیب ہمارا خاندانی عیب ہے۔ بس اس میں یہ بہت نمایاں ہے۔

    میرا تیسرا بیٹا بھی خوب صورت ہے لیکن اس کی خوب صورتی میرے معیار کے مطابق نہیں۔ وہ کسی گلوکار کی طرح حسین ہے۔ خم دار ہونٹ، خواب ناک آنکھیں، ایک متناسب سر جو مؤثر ہونے کے لیے پس منظر میں اسٹیج کے پردے کا متقاضی ہوتا ہے، ٹانگیں جو نفاست سے حرکت کرتی ہیں اور بوجھ اٹھانے کی اہل نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی آواز کا زیر و بم جو مکمل اور گونج دار ہے۔ یہ فوری آپ کو اپنے اثر میں لیتا ہے۔ ماہرِ فن اسے بغور سنتا ہے۔ لیکن پھر اچانک ہی اس کا سانس ٹوٹ جاتا ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر مجھے پر بات ترغیب دیتی ہے کہ اپنے اس بیٹے کو شہرت کی دنیا میں لاؤں۔ لیکن میں اسے پس منظر میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ وہ خود بھی اپنی حالت پر قانع ہے، اپنے نقائص کے ادراک کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی معصومیت کے باعث وہ موجودہ زمانے سے مطمئن بھی نہیں ہے۔ وہ اکثر اداس رہتا ہے اور کوئی بات اسے خوش نہیں کرپاتی۔

    میرا چوتھا بیٹا شاید سب سے زیادہ یار باش آدمی ہے۔ اپنے دور کا صحیح ترین نمائندہ۔ وہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ وہ عام درجے پر کھڑا ہو کر آسانی سے عام لوگوں سے مکالمہ کر سکتا ہے اور ہر کوئی اس سے متفق ہو جانے کی ترغیب محسوس کرتا ہے۔ اس کی حرکات آزادانہ ہیں اور اس کے فیصلے بے بنیاد ہوتے ہیں۔ اس کے بہت سے مقولے بار بار دہرائے جانے کے لائق ہوتے ہیں، اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو حیرت انگیز انداز میں زمین سے بلند ہو، ایک چڑیا کی طرح ہوا کو چیرتا جائے۔ لیکن اس سب کچھ کے بعد کسی بے کار شے کی مانند کسی ویرانے میں واپس آ گرے۔ ایسے ہی خیالات مجھے دق کرتے ہیں جب میں اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

    میرا پانچواں بیٹا مہربان اور نرم گفتار ہے۔ جتنا ہونہار ہے، اس سے زیادہ ہی اس نے زندگی میں پایا۔ کبھی اتنا منکسر المزاج ہوجاتا ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرا شخص خواہ مخواہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ معاشرے میں اس نے کچھ شہرت بھی کمائی۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا تو میں کوئی واضح جواب نہیں دے پاؤں گا۔ شاید اس کی معصومیت نے اس دنیا کے بنیادی انتشار میں اپنے لیے راہ ہموار کی۔ معصوم تو وہ ہے۔غالباً حد سے زیادہ معصوم۔ ہر کسی کا دوست۔ شاید حد سے زیادہ دوست۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے اچھا نہیں لگتا جب اس کی تعریف کی جا رہی ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تعریف کرنا شاید دنیا کا گھٹیا ترین مشغلہ ہے کہ اس سے کسی کو بھی سرفراز کیا جا سکتا ہے جو اتنا ہی تعریف کے قابل ہو جتنا میرا یہ بیٹا ہے۔

    میرا چھٹا بیٹا پہلی نظر میں بظاہر سب بیٹوں سے زیادہ سمجھ دار معلوم ہوتا ہے۔ وہ بہت باتونی بھی ہے۔ اسی لیے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو وہ ناقابل فہم اداسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر وہ مرکزِ توجہ رہے تو اپنی بے تکان باتوں سے اس کا خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اس میں خود فراموشی کا گہرا رجحان موجود ہے۔ دن کی روشنی میں وہ اکثر اپنے خیالات کے الجھاؤ سے لڑتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ بیمار ہوئے بغیر، اگرچہ اس کی صحت بہت اچھی ہے، وہ کبھی کبھار خاص طور پر شام کے جھٹ پٹے میں ڈگمگا جاتا ہے۔ لیکن اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ کبھی نہیں گرتا۔ شاید اس کی جسمانی افزائش اس مظہر کی وجہ ہے۔ وہ اپنی عمر کی نسبت دراز قد ہے۔ یوں وہ دیکھنے میں عام طور پر بہت بے ڈھنگا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ اور پیر غیر معمولی طور پر خوب صورت ہیں۔ اس کی پیشانی بھی بد ہیئت ہے۔ اس کی جلد اور ہڈیوں کی ساخت اپنی نمو میں کہیں نامکمل رہ گئی ہے۔

    میرا ساتوں بیٹا غالباً باقی بیٹوں میں میرے سب سے قریب ہے۔ لوگوں کو اس کی قدر کرنی نہیں آتی۔ وہ میرے بیٹے کی حسِ مزاح کا فہم نہیں رکھتے۔ میں اس کی بے جا تعریف نہیں کر رہا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ بہت اہم شخص نہیں ہے۔ اگر دنیا میں اس کی قدر نہ کرسکنے کے سوا اور کوئی خامی نہ ہو تو پھر بھی وہ بے قصور ہے۔ اپنے خاندانی حلقے میں مجھے اس کے بغیر رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ، وہ روایتوں کے لیے بیک وقت بے اعتباری اور عقیدت محسوس کرتا ہے اور ان دونوں جذبوں کو جیسا کہ کم از کم مجھے محسوس ہوتا ہے، ایک ناقابلِ مسابقت اکائی میں یکجا کر دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ کسی بھی عام انسان کی نسبت کم جانتا ہے کہ اس کام یابی کو کیسے استعمال کرے۔

    میری خواہش ہے کہ وہ عیال دار ہو۔ اس کے بچّوں کے بچّے ہوں لیکن بد قسمتی سے اس کے طرزِ زندگی سے لگتا ہے وہ شاید کبھی میری خواہش پوری نہیں کر پائے گا۔ خود اطمینانی کے ساتھ جسے میں جانتا اور اس بات پر کفِ افسوس بھی ملتا ہوں، اور جو لوگوں کی اس کے بارے میں رائے سے غیر معمولی طور پر مختلف ہے، وہ ہر جگہ اکیلا ہی جاتا ہے۔

    میرا آٹھوں بیٹا غم کا پروردہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کیوں؟ ہمیشہ مجھ سے دور رہتا ہے۔ لیکن میری پدرانہ محبت مجھے اس سے باندھے رکھتی ہے۔ اس کے دکھ میں وقت کے گزران سے کافی تخفیف ہوئی ہے۔ وہ ایک بہت مختلف انداز میں زندگی گزارتا ہے۔ اس نے مجھ سے اپنا ہر تعلق منقطع کر رکھا ہے۔ اور خاص طور پر اپنے سخت سَر، چھوٹے کسرتی جسم کے ساتھ ، کہ اس کی ٹانگیں بچپن میں بہت نحیف تھیں جو شاید اس دوران میں بہتر ہوچکی ہیں، وہ زندگی کے جس میدان میں جائے گا، کام یاب ہوگا۔ کئی مواقع پر میں نے اسے واپس بلانے کا سوچا، تاکہ پوچھوں کہ اس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے، کیوں اس نے خود کو اپنے باپ سے مکمل جدا کر رکھا ہے اور زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے؟لیکن وہ اتنا دور جا چکا ہے اور اس دوران میں اتنا وقت گزر چکا ہے کہ جیسا سب کچھ ہے۔

    میرا نواں بیٹا بہت باوقار ہے اور، جنھیں عورتیں محبت آمیز آنکھیں کہتی ہیں، ویسی آنکھیں اس کی ہیں۔ اتنی محبت آمیز کہ ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ مجھے بھی اپنا اسیر کر لیتی ہیں۔ حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ ایک گیلا اسفنج اس غیر زمینی عظمت کو دھو ڈالنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن اس لڑکے کے متعلق عجیب بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو جھانسہ دینے کی کوشش نہیں کرتا۔

    میرے دسویں بیٹے کو ایک خود غرض انسان تصور کیا جاتا ہے۔ میں اس مفروضے کو یکسر ردّ یا قبول نہیں کروں گا۔ خاص طور پر جو کوئی اسے خود سے دگنی عمر کے شخص کے تکلف کے ساتھ آتا دیکھتا ہے۔ ذرا اس کی گفتگو سنیے۔ فہم و فراست، اعلیٰ بصیرت اور پاکیزہ صاف گوئی، طنزیہ گرم جوشی کے ساتھ واضح سوالات، کائنات سے مکمل ہم آہنگ، ایسی موافقت جو ناگزیر طور پر گردن کو اکڑا دیتی اور جسم کو غرور سے بھر دیتی ہے۔

    میرا گیارھواں بیٹا ایک نفیس الطبع انسان ہے، شاید میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ نحیف۔ لیکن اس کی کم زوری پُرفریب ہے۔ کیوں کہ کبھی کبھار وہ بہت مضبوط اور متحرک ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایسی خصوصیات نہیں ہیں جو ایک باپ کے دل کو راحت دیں۔ یہ خاندانوں کو تباہ کرنے کے درپے ہوتی ہیں۔ بعض اوقات وہ مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے کہنا چاہ رہا ہو، ’’ابو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    تب میں سوچتا ہوں ’’تم آخری شخص ہو گے جس پر میں کبھی اعتماد کروں گا۔‘‘

    یہ میرے گیارہ بیٹے ہیں۔

    (’’کافکا کہانیاں‘‘ سے انتخاب، مترجم: محمد عاصم بٹ)

  • یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    فرانز کافکا کو بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ تین جون 1924ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کافکا نے 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور یہی اس کا مذہب رہا۔ کافکا نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    فرانز کافکا ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کی کہانیوں میں تمثیلی انداز متاثر کن ہے۔ مشہور ہے کہ کافکا نے اپنی کچھ تخلیقات کو خود نذرِ آتش کردی تھیں جب کہ اپنے ایک دوست کو یہ وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد اس کے مسوّدے جلا دے، لیکن دوست نے اس کی وصیّت پر عمل نہیں‌ کیا۔ شاید وہ نہ چاہتا ہو کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن موت کے بعد جب یہ تخلیقات سامنے آئیں تو ان کی ادبی حیثیت اور کافکا کے مرتبے پر بھی بات ہوئی۔

    فرانز کافکا کے ناولوں ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ ناول کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے۔

    کافکا نے زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھیں اور پھر دنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہاں ہم کافکا کی ایک مشہور تمثیل نقل کررہے ہیں جسے جرمن زبان سے مقبول ملک نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    "ایک شاہی پیغام”
    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مُکے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔

    لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔ اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

  • گدھ (ایک تمثیل)

    گدھ (ایک تمثیل)

    ایک گدھ میرے پاؤں پر اپنی چونچ سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ میرے جوتے اور جرابیں وہ پھاڑ چکا تھا۔ اب اس کے حملوں کا ہدف میرے پاؤں تھے۔

    وہ بار بار میرے پاؤں کا گوشت ادھیڑنے کی کوشش کرتا، زمین سے کچھ ہی اوپر بڑی بے چینی سے پرواز کرتے ہوئے میرے ارد گرد ایک چکر لگاتا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔

    ایک شخص وہاں سے گزرا، تو پہلے اس نے کچھ دیر کے لیے یہ سارا منظر دیکھا، پھر مجھے پوچھنے لگا کہ میں اس گدھ کو کیوں برداشت کر رہا تھا۔

    ’’میں تو اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتا،‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آیا اور اس نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ میں ظاہر ہے اس کو یہاں سے بھگا دینا چاہتا تھا۔ میں نے تو اس کا گلا دبانے کی بھی کوشش کی لیکن ایسے کسی جانور میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ تو چھلانگ لگا کر میرے چہرے تک آ جانا چاہتا تھا۔ تب میں نے اپنے پاؤں ہی کی قربانی دینا بہتر سمجھا۔ اب تو وہ بھی قریب قریب چیتھڑے بن چکے ہیں۔‘‘

    ’’آپ نے اجازت ہی کیوں دی کہ آپ کو اس طرح اذیت پہنچائی جائے۔‘‘ اس شخص نے کہا، ’’ایک گولی اور گدھ کا کام تمام۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا آپ ایسا کرنا چاہیں گے؟‘‘

    ’’بڑی خوشی سے۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’مجھے صرف گھر جا کر اپنی بندوق لانا ہو گی۔ کیا آپ صرف آدھ گھنٹہ انتظار کر سکتے ہیں؟‘‘

    ’’یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے کہا اور کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو گیا، جیسے میں درد سے پتھرا گیا تھا۔

    پھر میں بولا، ’’براہِ مہربانی، آپ یہ کوشش ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں بس گیا اور آیا۔‘‘

    گدھ یہ ساری گفتگو سکون سے سنتا رہا تھا اور اس دوران اس کی نظریں بار بار میرے اور اس شخص کے درمیان حرکت میں رہی تھیں۔ اسی لمحے مجھ پر آشکار ہوا کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔

    وہ اڑا، رفتار پکڑنے کے لیے تھوڑا سا نیچے ہو کر کافی پیچھے تک گیا اور نیزہ پھینکنے والے کسی کھلاڑی کی طرح اپنی چونچ سے وار کرتے ہوئے میرے منہ کے راستے میرے اندر دور تک اتر گیا۔

    پیچھے گرتے گرتے مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھے رہائی مل گئی تھی۔ وہ میرے اندر کی تمام گہرائیوں کو بھر دینے اور تمام کناروں سے باہر تک پھیل جانے والے خون میں یوں ڈوب گیا تھا کہ وہ بچ ہی نہیں سکتا تھا۔

    (گزشتہ صدی کے بہترین ناول نگاروں میں سے ایک فرانز کافکا کی اس تمثیل کے مترجم مقبول ملک ہیں)