Tag: فرانسیسی ادب

  • شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    یہ فلابیئر تھا جس نے موپساں کو موپساں بنایا۔ 17 برس کے موپساں کو اس کی ماں نے بلند پایہ ادیب فلابیئر کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور پھر موپساں نے ایک مصنّف اور افسانہ نگار کے طور پر دنیا بھر میں شہرت پائی۔ آج انیسویں صدی کے اسی مصنّف کا یومِ‌ وفات ہے۔ موپساں کو جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ اس نے فقط 42 سال کی عمر پائی اور 1893ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جوڑا زیادہ عرصہ ساتھ نہ چل سکا اور موپساں کی ماں نے طلاق لے لی۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا تھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت میں‌ ممکن ہوا تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے اس زمانے میں شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی ان کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار تھا۔ ایک مرض لاحق ہونے کے بعد موپساں تیزی سے موت کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے ناولوں اور 60 سے زائد کہانیوں کو عالمی ادب میں شاہ کار کہا جاتا ہے۔

  • مادام بواری کے خالق گستاؤ فلابیر کا تذکرہ

    مادام بواری کے خالق گستاؤ فلابیر کا تذکرہ

    گستاؤ فلابیر انیسویں صدی کا ناول نگار اور ڈراما نویس تھا جسے حقیقت پسند مکتبِ فکر کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول مادام بواری کے سبب مشہور بھی ہوا اور اسے مطعون بھی کیا گیا۔ اس ناول کی اشاعت پر فلابیر کو مذہبی اور سماجی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے، جنسی کج روی اور بے حیائی اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچانے کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    گستاؤ فلابیر کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ اس کا باپ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور بیک وقت مختلف مکتب ہائے فکر کا پرچارک تھا۔ اس کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا۔ اس کی ماں کا خاندان بھی اعلٰی تعلیم یافتہ تھا۔ فلابیر کی ابتدائی تعلیم علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ ہوئی، مگر 1841 میں وہ اپنے والد کی خواہش پر قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے پیرس چلا گیا۔ اسی زمانے میں وہ ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوا اور اسے مرگی کا مرض تشخیص ہوا۔ 1946 میں‌ فلابیر کے والد کی وفات کے بعد اس کی بہن بھی وفات پاگئی۔ فلابیر اور اس کی ماں نے اپنے گھر میں‌ یتیم بچوں کی پرورش کی اور ان کے درمیان اپنی زندگی گزاری۔

    فلابیر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا اور اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس نے اس علم اور مشاہدے میں‌ اضافہ کیا۔ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوا اور یہاں بھی کمرشل فکشن کے بجائے معیاری ادب تخلیق کیا۔ اس نے اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے پر خاص توجہ دی اور اس میں‌ کام یاب رہا۔

    فلابیر نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ وہ اپنے ایک ناول کا آدھا کام کرچکا تھا کہ 1880 میں آج ہی کے دن مرگی کا دورہ پڑنے سے وفات پا گیا۔ فلابیر نے پانچ ناول لکھے جو اس کے اسلوب کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ مادام بواری اس کا بہت مشہور ناول ہے جو 1857 میں‌ شایع ہوا۔ اس ناول کا کئی زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوچکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ یہ ایک مقامی عورت کے معاشقوں کے المیوں کی روداد ہے۔ مادام بواری کو نہایت عمدہ اور معیاری تخلیق قرار دیا جاتا ہے جس کی ہیروئن ایما بواری غریب ہونے کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی جرات رکھتی ہے۔ تاہم اس کی رومان بھری آرزوؤں کو روایت اور سماج کی وجہ سے المیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    آج انیسویں صدی کے مشہور مصنّف اور افسانہ نگار موپساں کا یومِ‌ وفات ہے۔ اسے جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گایے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں پیدا ہوا۔ اس نے زندگی کی فقط 42 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور چھے جولائی 1893ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ 11 سال کا تھا جب اس کے والدین میں‌ علیحدگی ہوگئی اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ شعر و ادب کی دلدادہ خاتون تھی جس نے اپنے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھانے اور تربیت کی غرض سے
    فلابیئر کو سونپ دیا جو مشہور اور بلند پایہ ادیب تھا، اس کی صحبت نے موپساں کو بھی بڑا تخلیق کار بنا دیا۔

    موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اسے باکمال قرار دیا تھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں میں وقت گزارتے ہوئے اس نے تخلیق اور مشاہدے کا سفر بھی طے کیا۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس نے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے گریجویشن مکمل کی اور فلابیئر کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے ادب اور صحافت کے میدان میں کام یابیاں سمیٹیں۔ ناول اور افسانہ نویسی کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    اس کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے اور نام وری کے ساتھ اس نے دولت بھی کمائی۔ تاہم بدقسمتی سے جنسی بے راہ روی کے ہاتھوں بیماری کے بعد موت کے منہ میں‌ چلا گیا۔

    اس نے مختلف قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں اور کئی افسانوں کے مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے جب کہ اس کی 60 سے زائد کہانیوں کو شاہ کار تصوّر کیا جاتا ہے۔

  • "چوری چکاری سیکھو اور جو ہاتھ آئے اس میں دوسروں کو شریک کرو!”

    "چوری چکاری سیکھو اور جو ہاتھ آئے اس میں دوسروں کو شریک کرو!”

    آج پاکستان اور یہاں‌ کے عوام کو جن مسائل اور معاشرتی خرابیوں کا سامنا ہے، اور لوگ کرپٹ نظام کے ساتھ ملک کے بالا دست اور بااختیار طبقے کی من مانیوں اور خود پر ہونے والی زیادتیوں کو جھیل رہے ہیں، مراکش کے عوام بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکار ہیں۔

    مراکش کبھی فرانس کی ایک کالونی تھا۔ اپنی سرزمین کو فرانس کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے وہاں کے عوام نے سخت جدوجہد کی اور ہزاروں جانیں قربان کرکے 1956ء میں آزادی حاصل کی تھی۔ طاہر بن جلون کا تعلق شمالی افریقا کے مغربی کنارہ پر واقع اسی اسلامی ملک مراکش سے ہے۔

    طاہر بن جلون نے 1944ء میں شہر فاس میں‌ آنکھ کھولی۔ شروع ہی سے علم و ادب کے شائق اور شیدا تھے۔ انھوں نے مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا شروع کردیا اور بعد کے برسوں میں ایک ناول نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔

    مراکش میں‌ طاہر فلسفہ پڑھاتے تھے، لیکن جب وہاں سرکاری طور پر عربی زبان نافذ کی گئی تو انھوں نے ترکِ وطن کا فیصلہ کیا اور فرانس چلے گئے، جہاں فرانسیسی میں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کے ناول نہ صرف انگریزی میں بلکہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔

    طاہر بن جلون نے اپنے ناولوں میں مراکش کے معاشرے کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ خاصی حد تک پاکستانی سماج سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ناول L’ Homme rompu جسے محمد عمر میمن نے اردو قالب میں ’کرپشن‘ کے نام سے ڈھالا ہے، قابلِ‌ ذکر ہے۔

    یہاں‌ ہم طاہر بن جلون کے اسی ناول سے اقتباس اپنے ادب دوست قارئین کی نذر کررہے ہیں۔ یہ چند سطور ایک سچّے، کھرے انسان اور کسی بھی معاشرے کے ایسے فرد کا فلسفۂ حیات ہمارے سامنے لاتی ہیں، جو باضمیر اور اپنے سماج اور لوگوں سے مخلص ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "یہ درست ہے کہ میں، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں، کبھی بھی دوسروں کی ڈگر سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر سکا ہوں۔ ہم آہنگ ہونا کیا ہے؟ یہی نا کہ جو سب کرتے ہیں وہی کرنے لگو، ضرورت پڑنے پر آنکھ پر پردہ ڈال لو، اپنے اصول اور آدرش ایک طرف ڈال دو، مشین کو گھومنے سے نہ روکو۔ مختصر یہ کہ چوری چکاری سیکھو اور جو ہاتھ آئے اس میں دوسروں کو شریک کرو۔ ذاتی طور پر، میں یہ نہیں کر سکتا۔

    مجھے تو یہ بھی پتا نہیں کہ جھوٹ کیسے بولا جاتا ہے۔ میں زیرک نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ جسے ’مشین‘ کہتے ہیں، وہ ہم جیسے لوگوں سے نہیں چل سکتی۔ میں ریت کا وہ ذرّہ ہوں جو اس میں جا گھستا ہے اور یہ کھسکھسانے لگتی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے یہ کام بھاتا ہے۔ یہ بڑا نادر اور باقیمت کام ہے۔ میں نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا ہے، خواہ میری بیوی بچے اتنے آرام سے نہ رہتے ہوں۔ یہ میرا فخر اور میری مسّرت ہے، لیکن جانتا ہوں کہ اس سے ان کا بہت زیادہ بھلا نہیں ہوتا۔”

  • نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    18 جنوری 1978ء اردو کے نام ور نقّاد محمد حسن عسکری کا یومِ وفات ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آئے اور کچھ عرصے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرلی جہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور کراچی میں علمی و ادبی کاموں اور سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا جہاں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

    محمد حسن عسکری نے بطور ادیب ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    ان کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘ ، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔ ایّامِ زیست کے اواخر میں انھوں نے مفتی محمد شفیع‌ صاحب کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا جس کی ایک جلد ہی مکمل ہوسکی۔

    محمد حسن عسکری کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آخری جماعت

    آخری جماعت

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختہ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

    (فرانسیسی ادیب الفونزے ڈاؤڈٹ کی اس کہانی کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    سفر کا سب سے دل چسپ پہلو مختلف لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی ملاقاتیں کبھی کبھی پورا سفر یادگار بنا دیتی ہیں۔

    ماضی کی یادیں ہماری عمر ایک بار پھر برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ نہ جانے کتنوں نے سفر کی راتیں، رَت جگوں میں بسر کی ہوں گی۔ کسی دور افتادہ گاﺅں میں جہاں ابھی اسٹیم انجن نہیں پہنچا ہے، تمام رات کوچ کا سفر اور کوچ کے سفر میں کسی خوب صورت خاتون کی ہم سفری۔

    کوچ کی مٹیالی روشنی میں اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں۔ وہ حُسن جو تمام راستے صرف جھلک دکھاتا رہا ہے، وہ حُسن جو راستے میں کہیں سے دفعتا سوار ہو کے آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے اور جب سحر نمودار ہونے لگتی ہے، کتنا اچھا لگتا ہے، اپنی ہم سفر کو نیند سے بیدار ہوتے دیکھنا پھر وہ اپنی نشست پر محتاط ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ اس کی توجہ آپ پر نہیں بلکہ راستے کے قدرتی مناظر پر ہے۔

    میری یادداشت میں سفر کے ایسے کئی لمحے محفوظ ہیں جو آج بھی مجھے ایک سرور انگیز بے چینی عطا کرتے ہیں۔

    ان دنوں میں فرانس کے ایک دور دراز پہاڑی سلسلے میں پیدل سفر کر رہا تھا۔ یہ سلسلہ نہ بہت اونچا تھا نہ ہی بنجر، میں نے ابھی ایک مختصر پہاڑی عبور کی تھی اور اب ایک چھوٹے سے ریستوران میں داخل ہو رہا تھا، میری نظر ایک ضعیف عورت پر پڑی۔ ایک اجنبی، کوئی قابلِ ذکر شخصیت بھی نہیں۔ وہ تنہا ایک میز پر بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔

    کھانے کا آرڈر دے کے میں نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔ اس کی عمر تقریباً ستّر سال ہوگی۔ نکلتا ہوا قد جوانی کی دل کشی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر نظر آرہے تھے، سفید بال سلیقے سے پرانے فیشن کے مطابق بنائے گئے تھے۔ اس کا لباس انگریز سیاح عورتوں جیسا تھا، یہ لباس اس کی شخصیت سے قدرے مختلف تھا جیسے اب لباس کی اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہ رہ گئی ہو۔

    اسے دیکھ کر ایک قدیم روایتی خاتون ذہن میں ابھرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی اور چہرے پر حوادثِ زمانہ کے زخم صاف نظر آتے تھے۔ میں نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ یہ اکیلی ان تکلیف دہ پہاڑی سلسلوں میں کیوں گھوم رہی ہے؟ میں ابھی اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کھانا ختم کیا اور بل ادا کرکے شال درست کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    باہر ایک گائیڈ اس کا منتظر تھا۔ میں ان دونوں کو دور تک وادی کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے بعد میں ایک وسیع سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ سبزہ زار کے کنارے کنارے شفاف دریا بہہ رہا تھا۔ منظر اتنا خوش نما تھا کہ وہیں بیٹھ جانے کو دل چاہ رہا تھا، معاً میں نے اسی عورت کو دیکھا۔

    وہ دریا کے کنارے نظریں نیچی کیے ایک مجسمے کی طرح ساکت کھڑی تھی۔ وہ دریا کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس کی گہرائی میں کچھ تلاش کررہی ہو۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے ہوں۔ مجھے دیکھ کر وہ تیزی سے درختوں کے قریب کھڑے ہوئے گائیڈ کی طرف چلی گئی۔

    دوسرے دن شام کے وقت میں سیورولز کے قلعے کی سیر کررہا تھا۔ یہ قدیم قلعہ وادی کے درمیان ایک اونچے ٹیلے پر ایک دیو ہیکل مینار کی طرح کھڑا تھا۔

    میں اکیلا کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ اچانک ایک دیوار کے پیچھے مجھے کسی سائے کا گمان ہوا اور کسی ہیولے کی جھلک دکھائی دی جیسے اس ویران قلعے کے کسی مکین کی بے چین روح ہو۔ میں کچھ ڈرا، لیکن پھر ایک دَم میرا ڈر جاتا رہا۔ میں نے اسے پہچان لیا یہ وہی عورت تھی۔

    وہ رو رہی تھی، زار و قطار رو رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں رومال تھا جس سے وہ بار بار آنسو پونچھتی۔ میں نے لوٹ جانا مناسب سمجھا، لیکن ابھی میں پلٹنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کیا۔

    ”ہاں موسیو! میں رو رہی ہوں، لیکن ہمیشہ نہیں روتی ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔“

    ”معاف کیجیے گا خاتون! میں آپ کی خلوت میں مخل ہوا۔“ میں شرمندگی سے ہکلانے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔

    ”ہاں…. نہیں۔“ اس نے کہا۔

    وہ رومال آنکھوں پر رکھ کے ہچکیاں لینے لگی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں، خود پر قابو پایا اور اپنی روداد سنانے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنا غم کسی دوسرے کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہے جیسے غم کا بوجھ تنہا سہارنا اب اس کے لیے مشکل ہو۔

    ”یادش بخیر، ایک زمانہ تھا کہ میں بہت خوش و خرم تھی، میرا اپنا ایک گھر تھا، میرے اپنے شہر میں، لیکن اب میں وہاں اپنے گھر جانا نہیں چاہتی، وہاں وقت گزارا اتنا کرب ناک ہے کہ اب میں ہمیشہ سفر میں رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔

    وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ ”میرا ایک بیٹا تھا، میرے اس حال زار کی وجہ وہی ہے، اسی کے باعث میں اس حالت کو پہنچی ہوں مگر آہ، بچے کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں جان سکتے، انسان کے پاس خوشی کا کتنا مختصر وقت ہوتا ہے، میں اگر اپنے بیٹے کو اب دیکھوں تو شاید ایک نظر میں اسے پہچان بھی نہ سکوں۔

    ”آہ، میں اس سے کتنا پیار کرتی تھی، کتنا چاہتی تھی اسے، ہر وقت اسے سینے سے لگائے رہتی، اسے ہنستاتی، بہلاتی پوری پوری رات جاگ کر اسے سوتے ہوئے دیکھتی رہتی، لوگ مجھے دیوانی سمجھتے، میرا مذاق اڑاتے لیکن میں ایک پل بھی اسے خود سے جدا نہ کرتی، میں نے اس کے بغیر کہیں آنا جانا ترک کر دیا، کیا کرتی اس سے الگ ہو کر مجھے چین ہی نہیں آتا تھا۔

    وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بورڈنگ میں داخل کرادیا اس کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا، وہ میرا نہیں رہا۔ اوہ میرے خدا! وہ صرف اتوار کو آتا اور بس۔

    ”پھر وہ پیرس چلا گیا، وہاں کالج میں اس کا داخلہ ہوگیا، اب وہ سال میں صرف چار مرتبہ آتا، میں ہر دفعہ اس میں نمایاں تبدیلی دیکھتی ہر بار وہ کچھ زیادہ بڑا ہوجاتا، میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑھتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ رہی تھی، ہر بار وہ جب بھی آتا پہلے سے بدلا ہوا لگتا، اب وہ بچہ نہیں تھا لڑکا تھا، میں اس کا بچپنا کھو بیٹھی تھی، یہ دولت مجھ سے لوٹ لی گئی تھی، اگر وہ میرے ساتھ ہی رہتا تو جو محبت اسے مجھ سے ہوتی وہ اتنی آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی تھی۔

    ”میں اسے سال میں صرف چار بار دیکھتی تھی۔ ذرا غور کرو، ہر دفعہ اس کی آمد پر اس کا جسم اس کی آنکھیں، اس کی حرکتیں اس کی آواز، اس کی ہنسی وہ نہیں رہتی تھی جو گزشتہ آمد کے موقع پر ہوتی تھی۔ ہر دفعہ وہ نیا بن کر آتا۔

    ایک سال وہ آیا تو اس کے گالوں پر بال آگئے تھے، میں حیرت زدہ رہ گئی اور تم یقین کرو، غم زدہ بھی ہوئی، کیا یہی میرا ننھا سا منا سا بچہ ہے، میری کوکھ سے جنم لینے والا جس کے سر پر ملائم ملائم گھنگریالے بال تھے۔ میرا پیارا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا جسے میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گھٹنوں پر سلاتی تھی، یہ طویل قامت نوجوان نہیں جانتا کہ اپنی ماں کو کیسے پیار کیا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ مجھ سے صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ یہ اس کا فرض ہے۔

    ذرا غور کرو، وہ اپنی ماں سے محبت ایک ڈیوٹی سمجھ کر کرتا تھا، وہ مجھے ماں کہہ کر صرف اس لیے پکارتا تھا کہ یہی روایت تھی۔

    میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر میرے ماں باپ کی باری آئی، پھر میں اپنی دو بہنوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، موت کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ کام ختم کرلے تاکہ پھر ایک طویل مدت تک اسے دوبارہ نہ آنا پڑے۔ پورے خاندان میں وہ صرف ایک یا دو افراد اس لیے زندہ چھوڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی یاد میں زندگی بھر روتے رہیں۔

    ”میں بھی تنہا زندہ رہی، میرا جوان بیٹا بہت فرض شناس تھا۔ میں اس کے پاس چلی گئی، لیکن اب وہ ایک نوجوان مرد تھا، اس کے اپنے مشاغل تھے، اپنی مصروفیات تھیں، اس نے مجھے یہ احساس دلانا شروع کردیا کہ میں اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہوں۔ آخر میں وہاں سے لوٹ آئی۔ اس کے بعد میں نے اسے زیادہ نہیں دیکھا، نہ دیکھنے کے برابر دیکھا۔

    ”اس نے شادی کرلی، میں بہت خوش تھی۔ ماں بھی عجیب ہوتی ہے۔ اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اب ہم پھر ایک ساتھ رہ سکیں گے، میں اپنے پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلوں گی، ننھے ننھے گلابی گلابی روئی کے گالے اپنی گود میں پروان چڑھاﺅں گی۔

    میں وہاں پہنچی اس کی بیوی ایک انگریز لڑکی تھی، وہ روز اول سے مجھے ناپسند کرتی تھی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اس کے شوہر کو اس سے زیادہ چاہتی ہوں اس طرح ایک دفعہ پھر مجھے اس کے گھر سے نکلنا پڑا، میں ایک بار پھر تنہا رہ گئی، ہاں موسیو! میں ایک بار پھر بالکل تنہا رہ گئی تھی۔

    پھر وہ انگلستان چلا گیا، اپنی بیوی کے والدین کے پاس، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میں نے حسرت سے سوچا اب وہ ان کا ہو کر رہے گا جیسے وہ میرا نہیں ان کا بیٹا ہو، انھوں نے اسے مجھ سے چھین لیا، چرا لیا، وہ وہاں سے ہر ماہ مجھے خط لکھتا، شروع شروع میں کبھی کبھی وہ مجھ سے ملنے بھی آتا، لیکن اب اس نے آنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔

    ”اب مجھے اپنے بیٹے کو دیکھے ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ آخری بار جب میں نے اسے دیکھا تھا تو اس کے چہرے پر جھریاں سی پڑنے لگی تھیں اور بالوں میں کہیں کہیں سفیدی جھلکنے لگی تھی، میں اسے اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گئی تھی، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ آدمی، یہ تقریباً بوڑھا آدمی میرا بیٹا ہے! ماضی کا چھوٹا سا گلابی گلابی گل گوتھنا سا۔

    ”اب میں شاید اسے کبھی نہ دیکھ سکوں۔ اب میں اپنا تمام وقت سفر میں گزارتی ہوں، کبھی مشرق میں، کبھی مغرب میں، بالکل تنہا جیسے تم دیکھ رہے ہو۔“

    اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”گڈ بائی موسیو!“ مجھے رخصت کر کے وہ وہیں راستے میں کھڑی رہ گئی، میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا، کچھ دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا وہ ایک ٹیلے پر کھڑی دور افق میں دیکھ رہی تھی، جیسے کچھ تلاش کررہی ہو، تیز ہوا سے اس کے کندھے پر پڑی ہوئی شال کا ایک سرا اور اس کا اسکرٹ کسی جھنڈے کی طرح لہرا رہا تھا۔

    ( فرانسیسی ادیب موپساں‌ کی کہانی کا اردو ترجمہ)