Tag: فرانسیسی ادیب

  • آخری جماعت (فرانسیسی ادب سے انتخاب)

    آخری جماعت (فرانسیسی ادب سے انتخاب)

    الفونزے ڈاؤڈٹ (Alphonse Daudet) نے افسانے اور ناول بھی لکھے، شاعری بھی کی۔ فرانس کا یہ ادیب اور شاعر 1897ء میں‌ چل بسا تھا۔

    ڈاؤڈٹ کی ایک کہانی کا اردو ترجمہ ہم یہاں بعنوان آخری جماعت نقل کررہے ہیں۔ اسے منور آکاش نے اس قالب میں ڈھالا ہے۔ کہانی پڑھیے۔

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختۂ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

  • وہ کتاب جسے لائبریری سے ہٹا دیا گیا!

    وہ کتاب جسے لائبریری سے ہٹا دیا گیا!

    بحیثیت ادیب اور شاعر تو آرسن ہاؤسے کی تخلیقات اسے کوئی مقام و مرتبہ نہیں دلوا سکیں، لیکن دنیا بھر میں اس کے ایک ناول کا تذکرہ اس لیے ہوا کہ اس کی جلد بندی کے لیے انسانی جسم کی کھال استعمال کی گئی تھی۔

    ہاؤسے کا تعلق فرانس سے تھا جہاں وہ 1815ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اسکالر کے طور پر بھی فرانس میں پہچانا گیا۔ ہاؤسے 26 فروری 1896ء کو انتقال کر گیا تھا۔ اس نے کئی ناول لکھے اور مختلف موضوعات پر مضامین رقم کیے جن پر مشتمل ایک کتاب 1880ء کے وسط کی ہے اور یہی وہ کتاب ہے جس کی جلد انسانی کھال سے تیار کی گئی۔

    یہ کتاب مصنف آرسن ہاؤسے نے اپنے دوست ڈاکٹر لدووک باؤلینڈ کو دے دی تھی۔ اس کا عنوان Des destinées de l’âme (روح کی تقدیر) تھا۔ یہ کتاب 1930 میں ہیوٹن لائبریری کی زینت بن گئی۔

    2014 میں انکشاف ہوا کہ یہ انسانی کھال سے مجلّد ہے اور یہ انکشاف دنیا کی مشہور اور معتبر ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ”ہارورڈ یونیورسٹی“ کی جانب سے کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے پاس لائبریری میں ایک ایسی کتاب موجود ہے کہ جس کی جلد پر ایک عورت کی کھال چڑھائی گئی ہے۔یونیورسٹی میں اس کتاب کا معائنہ سائنسدانوں نے کیا اور تصدیق کی کہ اس کی جلد انسانی کھال سے بنی ہوئی ہے۔

    یہ کام مصنف نے نہیں کیا بلکہ ہاؤسے تو یہ کتاب اپنے دوست کو سونپ کر چند سال بعد ہی چل بسا تھا۔ اس کی جلد ہاؤسے کے دوست ڈاکٹر باؤلینڈ نے بنوائی تھی اور اس کے لیے ایک ایسی ذہنی مریضہ کی پیٹھ کی کھال استعمال کی گئی جس کی موت واقع ہوگئی تھی اور لاش کو لاوارث قرار دے دیا گیا تھا۔

    یہ کوئی پہلی کتاب نہیں جس کی جلد انسانی کھال سے تیار کردہ ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ جلد بندی کے فن میں انسانی کھال کا استعمال سولھویں صدی کے اوائل تک کیا جاتا رہا اور اس کے لیے ’اینتھروپوڈرمک ببلیوپیگی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ ماہرین کے مطابق انیسویں صدی میں ایسے حوالے ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پھانسی پانے والے افراد کے جسم طبی تجزیوں کے لیے بھیجے جاتے تھے اور اس دوران ان کے جسم کی جو کھال الگ کر لی جاتی تھی، اسے جلد سازی کے لیے
    بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    ہاؤسے کی کتاب ’روح کی تقدیر‘ میں مصنف کے دوست ڈاکٹر باؤلینڈ کا لکھا ہوا ایک نوٹ بھی ملا جس میں لکھا تھا کہ اس کتاب کی زیبائش کو بڑھانے کے لیے اسے کسی بھی مہر کے زیور سے آراستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ’میں نے انسانی جلد کا یہ ٹکڑا ایک عورت کی پیٹھ سے لیا تھا۔‘ اس کے مطابق ’انسانی روح پر لکھی گئی یہ کتاب اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی جلد بھی انسانی کھال سے ہی بنائی جائے۔‘ یہ واضح ہے کہ مریضہ سے اجازت لیے بغیر اس کے جسم کا یہ حصہ لے کر اسے کتاب کی جلد بندی میں استعمال کیا گیا تھا اور اب اسے لائبریری سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    ہاؤسے کی یہ کتاب دراصل روح اور حیات بعد از مرگ کے مسائل پر اس کے خیالات کی عکاس ہے۔

  • بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک شاید دنیا کا وہ واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا نام اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور اُسے فرانسیسی ادب کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔

    اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے بالزاک کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور بالزاک نے ایک حقیقت نگار کے طور پر قلم تھام لیا۔ وہ اُن اہلِ قلم میں سے ایک تھا جنھوں‌ نے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دیا اور اسی وصف کی بناء پر بالزاک کو فرانس میں بہت پسند کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں جب کہ فرانس کے عظیم فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور اس کی بدولت ادب اور فلم کی دنیا میں بالزاک کے پیش رو بھی اس سے بہت متأثر نظر آئے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس اور مضطرب ہوگیا اور اپنے انہی مسائل کے ساتھ وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں قارئین نے بے حد سراہا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کی ایک انفرادیت اس کے لمبے فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک نے 18 اگست 1850ء کو پیرس میں وفات پائی، اسے دنیا سے گزرے ایک صدی اور کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایک حقیقت نگار کے طور پر آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔

  • شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    یہ فلابیئر تھا جس نے موپساں کو موپساں بنایا۔ 17 برس کے موپساں کو اس کی ماں نے بلند پایہ ادیب فلابیئر کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور پھر موپساں نے ایک مصنّف اور افسانہ نگار کے طور پر دنیا بھر میں شہرت پائی۔ آج انیسویں صدی کے اسی مصنّف کا یومِ‌ وفات ہے۔ موپساں کو جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ اس نے فقط 42 سال کی عمر پائی اور 1893ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جوڑا زیادہ عرصہ ساتھ نہ چل سکا اور موپساں کی ماں نے طلاق لے لی۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا تھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت میں‌ ممکن ہوا تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے اس زمانے میں شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی ان کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار تھا۔ ایک مرض لاحق ہونے کے بعد موپساں تیزی سے موت کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے ناولوں اور 60 سے زائد کہانیوں کو عالمی ادب میں شاہ کار کہا جاتا ہے۔

  • مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کے حامی سارتر کی کہانی

    مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کے حامی سارتر کی کہانی

    ژاں پال سارتر نے نوبل انعام وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کر کے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ آج اسی سارتر کا یومِ وفات ہے جس نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول نہیں‌ کیا تھا۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس کے اس عظیم فلسفی، دانش وَر، ڈراما اور ناول نگار اور محقق نے 1980ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ سارتر کو سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں اس کے افکار اور نظریات کی وجہ سے بڑا مقام و درجہ حاصل ہے اور دنیا بھر میں اسے پہچانا جاتا ہے۔

    1905ء سارتر کا سنِ پیدائش ہے اور وہ ایک سال کا تھا جب اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگیا۔ اس کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ بھی تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارا دن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتا اور اپنے ملک کی سیاسی، سماجی حالت پر غور کرتا رہتا تھا۔اسی مطالعے اور غور و فکر کی عادت نے سارتر کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ ژاں پال سارتر نے اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ اسے نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق جنون کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ فنونِ لطیفہ میں سارتر کی دل چسپی اس قدر تھی کہ وہ خود بھی بہت اچھا گلوکار اور پیانو نواز تھا۔ کھیلوں میں سارتر نے باکسنگ میں‌ غیر معمولی دل چسپی لی اور خود بھی اچھا باکسر رہا۔

    جب دنیا سارتر کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوئی تو سارتر کو فرانس کا ضمیر کہا۔ اس کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے اسے انسانوں کے درمیان وہ بلند مرتبہ اور مقام عطا کیا جس نے دنیا بھر میں انسانوں کو متاثر کیا۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگیا، لیکن اس معذوری کے باوجود ایک بھرپور زندگی گزاری۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

    وہ درس وتدریس سے منسلک تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج نے سارتر کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک سال تک نظر بند رکھا تھا۔ ایک دن موقع ملتے ہی سارتر فرار ہونے میں کام یاب ہوگیا اور بعد میں‌ جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا تو اس کے خلاف سارتر مزاحمت میں پیش پیش رہا۔ جنگ کے بعد وہ بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک بن گیا اور ایک جریدہ نکالا، جو بہت مقبول ہوا۔ اس جریدے میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوتی رہیں جو ملک میں نظریاتی بنیادوں پر انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں۔ سارتر کو فلسفۂ وجودیت کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

    ژاں پال سارتر نے جہاں اپنی فکر سے اور سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے عملی طور پر جدوجہد کی تھی، وہیں ادب کے میدان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی بھرپور اظہار کیا۔ اس کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا تھا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کا زبردست حامی تھا، لیکن کسی جماعت اور گروہ سے وابستہ نہیں رہا۔ سارتر نے جنگ کے خلاف تحریکوں میں سرگرم کارکن کی طرح اپنا کردار نبھایا۔ الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف سارتر نے آواز بلند کی اور اس سلسلے میں‌ ہونے والے بڑے مظاہروں میں اسے ہمیشہ صفِ اوّل میں‌ دیکھا گیا۔

    مشہور ہے کہ جب مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کی حمایت پر فرانس میں‌ ژاں پال سارتر کو گرفتار کیا گیا اور اس کی اطلاع ملی تو ملک کے حکم ران ڈیگال نے بے اختیار کہا، سارتر تو فرانس ہے، اسے کون قید میں رکھ سکتا ہے اور اسی وقت جیل کے دروازے کھلوا دیے۔

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    آج انیسویں صدی کے مشہور مصنّف اور افسانہ نگار موپساں کا یومِ‌ وفات ہے۔ اسے جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گایے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں پیدا ہوا۔ اس نے زندگی کی فقط 42 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور چھے جولائی 1893ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ 11 سال کا تھا جب اس کے والدین میں‌ علیحدگی ہوگئی اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ شعر و ادب کی دلدادہ خاتون تھی جس نے اپنے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھانے اور تربیت کی غرض سے
    فلابیئر کو سونپ دیا جو مشہور اور بلند پایہ ادیب تھا، اس کی صحبت نے موپساں کو بھی بڑا تخلیق کار بنا دیا۔

    موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اسے باکمال قرار دیا تھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں میں وقت گزارتے ہوئے اس نے تخلیق اور مشاہدے کا سفر بھی طے کیا۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس نے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے گریجویشن مکمل کی اور فلابیئر کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے ادب اور صحافت کے میدان میں کام یابیاں سمیٹیں۔ ناول اور افسانہ نویسی کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    اس کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے اور نام وری کے ساتھ اس نے دولت بھی کمائی۔ تاہم بدقسمتی سے جنسی بے راہ روی کے ہاتھوں بیماری کے بعد موت کے منہ میں‌ چلا گیا۔

    اس نے مختلف قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں اور کئی افسانوں کے مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے جب کہ اس کی 60 سے زائد کہانیوں کو شاہ کار تصوّر کیا جاتا ہے۔

  • ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایملی زولا کی موت ایک حادثہ تھی۔ یہ 1902 کی بات ہے جب‌ وہ گہری نیند میں اس جہانِ رنگ و بُو کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ اس کی موت بظاہر ایک مستری کی غلطی کے سبب واقع ہوئی تھی۔

    اس حادثے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    ایملی زولا فرانس کا معروف ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840 ہے۔

    ایملی زولا متعدد محکموں میں کلرک کے طور پر کام کرنے کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا اور شہرت کا سفر شروع کیا۔ وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ تھا۔ اس نیچرلسٹ ادیب نے موپساں جیسے نام ور اور دیگر ہم عصر ادیبوں کے ساتھ اپنی کہانیاں‌ چھپوائیں اور خوب شہرت سمیٹی۔ دنیا بھر کے نقاد مانتے ہیں کہ فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ ایملی زولا کو پڑھا گیا۔

    وہ کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری تھا۔ زولا نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ فرانس کے صدر کے نام 1898 میں لکھے گئے ایک خط کی صورت سامنے آیا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کی وجہ سے دنیا میں فرانس کی بڑی بدنامی ہوئی۔ حکومت نے زولا پر مقدمہ کر دیا اور اسے عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لے لی۔

    اس خط کا پس منظر وہ سازش تھی جس میں‌ پھنسائے گئے ایک یہودی کیپٹن نے کسی طرح‌ اس کے خلاف زولا کی مدد حاصل کی اور درخواست کی کہ وہ اِس سازش کو بے نقاب کرے۔ اس پر فرانس میں‌‌ خوب بحث ہوئی اور کیپٹن کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا گیا، یہی نہیں بلکہ اسے پورے اعزازات سمیت بری کر دیا گیا اور یوں‌ یہ کیس ختم ہوا تو زولا بھی واپس پیرس آ گیا۔

    وہ وطن واپسی کے بعد اپنے تخلیقی کام میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے کیے کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، لیکن عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، لیکن ریاست اس کا وجود برداشت نہ کرسکی اور مشہور ہے کہ اسے "قتل” کروایا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن غلطی سے چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا اور زولا کے کمرے میں‌ کوئلوں کی گیس بھر گئی۔ وہ دَم گھٹنے سے مر گیا۔ سب نے اسے ایک حادثہ ہی مانا تھا، لیکن زولا کی موت کے دس سال بعد مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اسی نے ارادتآ زولا کے گھر کی چمنی کو بند کیا تھا اور یوں‌ گیس بھرنے سے اس کی موت ہوگئی۔

  • وکٹر ہیوگو سے ملیے

    وکٹر ہیوگو سے ملیے

    وکٹر ہیوگو دنیائے ادب کے ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہے جن کا نام اور کام صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی زندہ ہے۔

    وکٹر ہیوگو کا وطن فرانس ہے۔ اس لکھاری نے ناول نگاری، ڈراما نویسی اور شاعری بھی کی اور ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔

    وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور شاعر و ادیب ہی نہیں صحافی اور سیاست داں بھی تھا۔

    اُنیسویں صدی کے اس نام ور لکھاری کی شہرت کا سفر بہ طور شاعر شروع ہوا تھا، اور بعد میں ناول نگار کے طور پر مقبولیت حاصل کی۔

    اس فرانسیسی ادیب کا ایک ناول لیس مزرایبل عالمی ادب میں عظیم اور بڑا ناول شمار ہوتا ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر ناولوں کی شہرت اور مقبولیت بھی آج تک برقرار ہے۔

    وکٹر ہیوگو نے اس دور میں سماجی حقائق اور رویوں کے ساتھ اور معاشرے کے مخلتف روپ کو اپنی تخلیقات میں‌ پیش کیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    وکٹر ہیوگو کے مشہورِ زمانہ ناول مزرابیل کا انگریزی کے علاوہ 22 مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس میں اردو بھی شامل ہے۔ اس ناول کے لیے وکٹر ہیوگو نے 1845 میں قلم تھاما تھا اور کہتے ہیں یہ 1861 میں مکمل ہوا۔

    وکٹر ہیوگو کا سنِ پیدائش 1802 ہے اور اس کی زندگی کا یہ سفر 1885 تک جاری رہا۔