Tag: فرانسیسی حکومت

  • چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    اگست 1944ء میں پیرس کے عوام نازی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ان کی قیادت فرانس کی آزادی کے متوالے راہ نما اور وہ مزاحمت کار کر رہے تھے جنھیں‌ پیرس کی عورتوں اور پادریوں کی حمایت اور ان کا ساتھ بھی حاصل تھا۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اس کی اتحادی افواج نے فرانس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پیرس میں بڑے پیمانے پر قید وبند کے سلسلے کے ساتھ قتل و غارت گری ہوئی، لیکن عظیم قوم پرست راہ نما چارلس ڈیگال کی قیادت میں‌ فرانسیسی عوام نے اپنی خود مختاری اور آزادی کی جنگ لڑی اور کام یاب ہوئے۔

    سٹی ہال کے باہر ڈیگال نے کہا تھا کہ ’پیرس مشتعل ہوا، پیرس ٹوٹا اور پیرس شہید ہو گیا، لیکن پیرس آزاد ہو گیا، خود ہی آزاد ہو گیا اور اس کے لوگوں نے اسے آزاد کیا۔‘

    چارلس ڈیگال نے روپوشی اختیار کی، جلا وطنی کاٹی اور وطن سے دور رہے، لیکن اپنے عوام اور فوج کو متحد و منظّم کرکے اس خواب کو پورا کر دکھایا جس کے لیے انھوں نے کئی قربانیاں‌ دی تھیں اور جب پیرس آزاد ہوا تب فرانسیسیوں کا یہ محبوب لیڈر وطن لوٹا جہاں ٹاؤن ہال کے سامنے اپنا مشہورِ زمانہ خطاب کیا۔ ڈیگال نے مزاحمت کاروں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں اور دوسرے جاں‌ نثار فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    ڈیگال کو 1958ء میں ملک کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 1969ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے 9 نومبر 1970ء کو وفات پائی۔ چارلس ڈیگال نے فرانس میں 22 نومبر 1890ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلق ایک رومن کیتھولک خاندان سے تھا۔ ڈیگال کے والد تاریخ اور ادب کے پروفیسر تھے۔

    چارلس ڈیگال کا شمار ان قوم پرست قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدی میں‌ دنیا سے اپنے عزم و استقلال کو منوایا۔ انھیں بہترین فرانسیسی جنرل اور قوم کے مدبّر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد ڈیگال نے بڑی ذہانت اور حکمتِ‌ عملی سے کام لیا اور اپنی فوج اور عوام سے رابطہ برقرار رکھا، ان کے پیغامات فرانس کے عوام تک پہنچتے جن میں‌ وہ عوامی اتحاد کو سڑکوں پر نکلنے اور فرانسیسی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے رہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈیگال فرانس میں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ سیاسی افراتفری اور جنگ کے زمانے میں جب انتشار اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی افواج نے فرانس پر اپنا تسلط جمانا چاہا اور وہاں‌ جرمن نواز حکومت قائم ہوگئی تو ڈیگال نے جنگ کا اعلان کردیا۔

    ابتدا میں انھیں اور مزاحمت کاروں کو شکست ہوئی لیکن ڈیگال کا اصرار تھا کہ فرانس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی آزاد اور خود مختاری ناگزیر ہے۔ وہ ایسے زبردست قوم پرست راہ نما تھے جنھوں نے قومی مفاد کے لیے کسی کی پروا نہ کی۔ اس زمانے میں ان کی برطانیہ اور امریکا سے محاذ آرائی بھی ہوئی، لیکن ڈیگال اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔

    چارلس ڈیگال کا ایک اور کارنامہ آزادی کے بعد 1945ء میں فرانس کو اقوامِ متحدہ کی مستقل نشست پر براجمان کروانا تھا۔ جنگ کے بعد وہ فرانس کی عبوری حکومت میں‌ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، مگر سیاسی تنازعات کی وجہ سے 1946ء میں‌ مستعفی ہوگئے۔ تاہم 1947ء میں‌ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔ بعد میں‌ یہ جماعت انتشار کا شکار ہو کر کم زور پڑگئی تھی، لیکن اپنی وفات تک ڈیگال فرانس کے عوام کی حمایت اور ان کی محبوبیت سے محروم نہیں ہوئے۔

    چارلس ڈیگال دیانت داری اور عزم و استقلال کا پیکر تھے جو دنیا بھر میں قوم پرستوں کے لیے مثالی راہ نما بن کر ابھرے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرانس کے مشہور فلسفی سارتر نے الجزائر کی جنگِ آزادی کی حمایت کی تو ڈیگال پر اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا، لیکن اس راہ نما نے کہا کہ فرانس سارتر ہے اور سارتر فرانس ہے، یہ نہیں‌ ہوسکتا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔

    ڈیگال سمجھتے تھے کہ فرانس کی حکومت اور قوم کو کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں‌ کرنا چاہیے، کیوں‌ کہ وہ خود ایک بڑی طاقت ہیں۔ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس کی تعمیرِ نو میں‌ زبردست کردار ادا کیا۔ ہر سال آنجہانی چارلس ڈیگال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد پیرس میں ان کے مقبرے پر حاضری دیتی ہے۔

  • عوامی احتجاج ’عفریت‘ بن گیا ہے، فرانسیسی حکومت

    عوامی احتجاج ’عفریت‘ بن گیا ہے، فرانسیسی حکومت

    پیرس : فرانسیسی حکام نےحالیہ احتجاج سے متعلق کہا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرے اب عفریت بن چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تیل کے نرخوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج نے پورے فرانس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، فرانسیسی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں نے ’عفریت کو جنم دیا ہے‘۔

    وزیر داخلہ کرسٹوپی کیسٹینر نے خبر دار کیا ہے کہ رواں ہفتے کے اختتام پر ’زرد تحریک‘ کے تحت ہونے والے مظاہروں میں شدت پسند عناصر متاثر کرسکتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام نے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے مظاہروں میں پُرتشدد واقعات سے خوفزدہ ہوکر پیرس میں موجود سیاحتی جگہوں کوبند کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ تین ہفتوں سے جاری مظاہرے پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے لیکن احتجاج شدت اختیار کرگیا جب مظاہرین نے تعلیمی نظام میں تبدیلی سمیت دیگر مسائل پر آواز اٹھائی۔

    وزیر داخلہ کرسٹوپی کیسٹینر نے کہا ہے کہ ہفتے کے اختتام پر سیاحتی جگہوں کے لیے بڑے پیمانے پر سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔

    فرانسیسی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 89 ہزار پولیس افسران کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ 12مسلح گاڑیوں(بکتر بند) اور 8 ہزار پولیس افسران کو دارالحکومت میں تعینات کیا گیا ہے۔

    پیرس کی پولیس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیمپس ایلسیز میں واقع دکانیں اور ریستورانت بند رکھے جائیں اور کچھ عجائب گھروں کو بند کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سویٹزرلینڈ کی سرحد سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فرایسیسی علاقے مونٹ بیلیارڈ میں مظاہروں کے دوران پولیس اور طلبہ میں ہونے والی جھڑپوں کے باعث ایک طالب علم شدید زخمی ہوا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مُل ہاؤس میں مظاہرہ کرنے والے طالب علموں کے تشدد سے ایک پولیس افسر کو شدید زخم آئے ہیں جسے اسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے۔

    اے ایف پی نیوز کا کہنا ہے کہ حکام نے ملک جنوبی حصّے میں ’زرد جیکٹ‘ تحریک کے تحت احتجاج کرنے والے مظاہرین سے 28 پیٹرول بم اور 3 دیسی ساختہ بموں کو قبضے میں لیاہے۔

    فرانسیسی وزیر داخلہ نے میڈیا کو بتایا کہتین ہفتے قبل مظاہروں نے ’عفریت(جن) کو جنم دیا تھا جو ان کے چنگل سے فرار ہوچکا ہے‘یعنی احتجاج اب خود مظاہرین کے قابو سے باہر ہوچکا ہے۔

    فرانس میں احتجاج، حکومت مستقبل کے حوالے سے اندیشوں کا شکار

    خیال رہے کہ گذشتہ روز فرانسیسی پولیس نے اسکولنگ سسٹم کی تبدیلی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر تشدد کیاتھا جس کے بعد فریقین کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آئیں اور مشتعل مظاہرین نے دو گاڑیوں کو نذر آتش کیاتھا۔

    پولیس نے احتجاج کرنے والے 140 طلبہ کو حکومت مخالف تحریک چلانے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار بھی کیاتھا۔

    واضح رہے کہ فرانسیسی حکومت اب خود اعتراف کر چکی ہے کہ پیٹرول نرخوں میں اضافے پر 2 ہفتے قبل شروع ہونے والی ’زرد جیکٹ‘ تحریک آسانی سے دھیمی ہونے والی نہیں ہے۔

    فرانس: 8 دسمبر کے احتجاجی مظاہرے سے حکومت خوف زدہ، فوج طلب کرنے پر غور

    فرانس میں زرد جیکٹ احتجاجی تحریک پیٹرول کے نرخوں میں اضافے پر شروع ہوئی تھی تاہم اب اس نے حکومت کے سامنے ٹیکس نظام کی تبدیلی، ریٹائرمنٹ کی عمر میں تخفیف ، تعلیمی نظام میں تبدیلی سمیت 40 مطالبات رکھ دیے ہیں۔

  • فرانس: پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس 6 ماہ کے لیے معطل، مظاہرین کا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان

    فرانس: پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس 6 ماہ کے لیے معطل، مظاہرین کا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان

    پیرس: فرانس میں لاکھوں مظاہرین کا احتجاج رنگ لے آیا، فرنچ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق فرانسیسی حکومت نے مہنگائی پر شدید احتجاج کرنے والے مظاہرین کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا ہے۔

    [bs-quote quote=”حکومت جب تک مطالبات حتمی طور پر نہیں مانتی احتجاج جاری رہے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”مظاہرین”][/bs-quote]

    تاہم احتجاجی مظاہرین نے وزیرِ اعظم ایمانوئیل میکرون کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت جب تک مطالبات حتمی طور پر نہیں مانتی احتجاج جاری رہے گا۔

    خیال رہے کہ پیرس سمیت فرانس کے مختلف شہروں میں پیٹرول پر اضافی ٹیکس اور مہنگائی کے خلاف احتجاج جاری ہے، جس پر حکومت کو فیول پر عائد اضافی ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

    اس احتجاج کے دوران اب تک تین افراد ہلاک اور پولیس اہل کاروں سمیت چار سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، ایمبولینس ڈرائیورز نے بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا اور ایمبولینسز کھڑی کر کے سڑکیں بند کر دیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  مظاہروں میں ناخوشگوارواقعات باعث شرمندگی ہیں‘ فرانسیسی وزیردفاع


    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پُر تشدد مظاہروں کی وجہ سے پیرس میدان جنگ میں تبدیل ہونے کے بعد حکام تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں، مظاہرین نے توڑ پھوڑ بھی کی اور درجنوں عمارتوں اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا۔

    فرانسیسی وزیرِ دفاع فلورینس پارلے نے احتجاج اور پُر تشدد مظاہروں کو فرانس کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا۔ حکومت ایمرجنسی کے نفاذ پر بھی غور کر چکی ہے، 2 دسمبر کو حکومتی ترجمان بنجامن گریویکس نے ایک ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صورتِ حال میں ایمرجنسی کا اعلان ایک ممکنہ آپشن ہو سکتا ہے۔

  • پرتشدد مظاہرے ، فرانسیسی حکومت کا فیول پراضافی ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ

    پرتشدد مظاہرے ، فرانسیسی حکومت کا فیول پراضافی ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ

    پیرس : فرانس کی حکومت نے فیول پرعائد اضافی ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ، وزیراعظم ٹیکس واپس لینے کااعلان کریں گے، فیول پراضافی ٹیکس واپس لینے کے لئے مظاہرے کئے جارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پیرس سمیت فرانس کے مختلف شہروں میں پیڑول پراضافی ٹیکس اورمہنگائی کے خلاف احتجاج  جاری ہے ، فرانس کی حکومت نے فیول پرعائد اضافی ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

    فرانسیسی میڈیا کے مطابق وزیراعظم ٹیکس واپس لینے کا اعلان کریں گے۔

    خیال رہے فرانس میں فیول پراضافی ٹیکس واپس لینے کے لئے مظاہرے کئے جارہے ہیں، احتجاج کے دوران تین افراد ہلاک اورپولیس اہلکاروں سمیت چارسوسے زائد افراد زخمی ہوئے، ایمبولینس ڈرائیورزنے بھی مہنگائی کیخلاف احتجاج میں حصہ لیا اورایمبولینسزکھڑی کرکے روڈبند کردیں۔

    مزید پڑھیں : مظاہروں میں ناخوشگوارواقعات باعث شرمندگی ہیں‘ فرانسیسی وزیردفاع

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے پیرس میدان جنگ میں تبدیل ہونے کے بعد حکام تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں، احتجاج کرنے والے افراد نے مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ کی اور درجنوں عمارتوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کردیا تھا ، بعد ازاں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے وزیراعظم کو سیاسی رہنماؤں اور مظاہرین سے مذاکرات کرنے کا حکم دیا تھا۔

    فرانسیسی وزیر دفاع نے مظاہروں میں پرتشدد واقعات کوشرمندگی کا باعث قراردیا تھا جبکہ فرانسیسی وزیرداخلہ کی مظاہرین کی جانب سے پولیس پرتشدد کی مذمت کی تھی۔

    یاد رہے حکومت کے پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس نہ لینے پرآٹھ دسمبرکوبڑے مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے اور حکام نے مختلف علاقوں میں سیکورٹی میں اضافہ کردیا گیا تھا۔