Tag: فرانسیسی فوجیوں‌ کو خطوط

  • فرانسیسی فوجیوں‌ کو لکھے گئے درد بھرے خطوط نے 265 برس بعد سینے چیر ڈالے

    فرانسیسی فوجیوں‌ کو لکھے گئے درد بھرے خطوط نے 265 برس بعد سینے چیر ڈالے

    پیرس: ملک کی سلامتی کے لیے میدان جنگ میں آگ اور خون سے کھیلنے والے فوجیوں کے دلوں کو جو واحد چیز قرار پہنچاتی ہے، اور جس کا وہ سب سے زیادہ انتظار کرتے ہیں، وہ ان کے گھروں سے آنے والے وہ خطوط ہوتے ہیں، جنھیں پڑھ کر وہ اپنے سُن ہونے والے جسموں میں زندگی کی حرارت دوڑتی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    لیکن 18 ویں صدی میں 1760 کی دہائی میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان 7 سالہ جنگ کے دوران جانوں کے نذرانے دینے والے نیوی سیلرز کو ان کے پیاروں نے جو خطوط بھیجے ان میں سے کئی کبھی ان تک نہیں پہنچ سکے، برطانوی رائل نیوی نے یہ خطوط اپنے قبضے میں لے لیے تھے، اور پھر 265 برس بعد جب ان درد بھرے خطوط کو کھولا گیا تو ان تحریروں نے سینے چیر ڈالے۔

    1758 میں فرانس کے ایک تہائی نیوی سیلرز کو انگریزوں نے پکڑ لیا تھا، سات سالہ جنگ کے پورے عرصے میں انگریزوں کے ہاتھوں تقریباً 65 ہزار قید ہوئے، کچھ بیماری اور غذائی قلت سے مر گئے جب کہ دوسروں کو رہا کر دیا گیا تھا، برطانیہ اور فرانس کے مابین تنازعہ 1763 میں ختم ہوا۔

    لیفٹیننٹ کی بیوی کا خط

    اے ایف پی کے مطابق 1758 میں ایک فرانسیسی جنگی جہاز کے لیفٹیننٹ لوئس چیمبرلین کی بیوی میری ڈوبوسک نے اپنے شوہر کو لکھا ’’میں آپ کو لکھتے ہوئے پوری رات گزار سکتی ہوں، میں آپ کی ہمیشہ کے لیے وفادار بیوی ہوں۔ شب بخیر، یہ آدھی رات ہے، اب میں سونے جا رہی ہوں۔‘‘

    کیمبرج یونیورسٹی کے محققین کے مطابق میری ڈوبوسک کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے شوہر کے جہاز کو انگریزوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا، لیفٹیننٹ لوئس کو یہ خط کبھی موصول نہیں ہوا اور اگلے ہی سال ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا۔

    نوجوان سیلر کی والدہ کا درد بھرا خط

    27 جنوری 1758 کے ایک خط میں نارمنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیلر نکولس کوئسنل کی 61 سالہ والدہ مارگریٹ ان سے خطوط کے جواب نہ دینے کی شکایت کر رہی تھیں۔ انھوں نے لکھا ’’میں خود سے زیادہ تمھارے بارے میں سوچتی ہوں، جو بھی حالات ہوں، میں تمھیں رب کی برکتوں سے بھرے نئے سال کی مبارک دیتی ہوں۔‘‘

    والدہ نے لکھا ’’مجھے لگتا ہے کہ میں قبر میں جانے والی ہوں، میں تین ہفتوں سے بیمار ہوں، میری نیک تمنائیں ورین (جہاز کے ایک ساتھی) کو پہنچاؤ، یہ صرف اس کی بیوی ہے جو مجھے تمھاری خبریں پہنچاتی ہے۔‘‘

    خطوط

    برطانوی حکام نے جب یہ خطوط قبضے میں لیے تو بعد میں انھیں محفوظ شدہ دستاویزات میں رکھ دیا گیا، پھر کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ریناؤڈ موریکس کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے محسوس کیا کہ ان نجی خطوط کو پڑھنے والے وہ پہلے شخص ہیں، یہ ایک بہت جذباتی لمحہ تھا۔

    موریکس نے کہا ’’خطوط واحد ذریعہ ہوتے تھے جن کے ذریعے اہل خانہ فوجی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘