Tag: فرانسیسی مصور

  • فرانس کے ایڈگر ڈیگا اور ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کی کہانی

    فرانس کے ایڈگر ڈیگا اور ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کی کہانی

    ایڈگر ڈیگا کو بچپن ہی سے ڈرائنگ کا شوق تھا۔ 18 سال کی عمر میں‌ اس نے اپنے گھر کے مخصوص کمرے کو ایک اسٹوڈیو کی شکل دے دی تھی۔ بعد کے برسوں میں ڈیگا نے ایک تاثر پسند مصور اور مجسمہ ساز کی حیثیت سے نام پیدا کیا اور پہچان بنائی۔

    ایڈگر ڈیگا نے فرانس کے عظیم شہر پیرس کے ایک باثروت گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کا سنِ پیدائش 1834ء تھا۔ ڈرائنگ اور آرٹ میں‌ اس کی دل چسپی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور اس نے پینٹنگ بنانے کا شوق اپنا لیا۔ ابتدائی زمانے میں اس نے تاریخی واقعات کی منظر کشی کی، لیکن جلد اس کا نظریہ اور رجحان مختلف ہو گیا۔ ڈیگا ایسے مصوّر کی حیثیت سے مشہور ہوا جس کا شمار امپریشن ازم کے بانیوں‌ میں‌ کیا جاتا ہے۔

    فرانس کے اس مصوّر نے پینٹنگ اور ڈرائنگ ہی نہیں‌ مجسمہ سازی میں بھی خاص مقام حاصل کیا۔ اس نے اپنی زندگی میں کُل 150 مجسمے تراشے تھے۔ ڈیگا نے مجسموں کی تیّاری میں موم، مٹّی اور چونے کا استعمال کیا تھا۔ اب ان میں سے اکثر مجسمے خراب اور برباد ہوچکے ہیں۔ تاہم ان کی نقل تانبے کے مجسموں کی صورت میں‌ محفوظ کرلی گئی اور فن پاروں کی اس نقل کی نمائشیں بھی منعقد کی جاچکی ہیں۔

    1917ء میں ڈیگا کا انتقال ہوگیا۔ وہ اپنی زندگی میں مصوّر کے طور پر نام و مقام بنا چکا تھا، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مشہور آرٹسٹ کے شاہ کار مجسموں کی اس وقت تک کوئی نمائش منعقد نہیں ہوئی تھی۔ اس کا صرف ایک ہی مجسمہ لوگوں کے سامنے آیا تھا جسے ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    اس کی پینٹنگ میں خاص طور پر محوِ‌ رقص لڑکیاں اور اجتماعی پرفارمنس کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

  • پیئرآگسٹ رینوار: درزی کا بیٹا جو فنِ مصوّری میں نام وَر ہوا

    پیئرآگسٹ رینوار: درزی کا بیٹا جو فنِ مصوّری میں نام وَر ہوا

    فنِ مصوّری کی ایک صنف ایکسپریشنزم (تاثراتی آرٹ) بھی ہے جس میں دنیا کے کئی آرٹسٹوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام کمایا۔ فرانس کا پیئرآگسٹ رینوار بھی ان میں سے ایک ہے جسے پیرس کے مقبول آرٹسٹوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے فن پاروں کی انفرادیت ہلکے اور اجلے رنگ ہیں۔

    وہ 25 فروری 1841ء کو پیدا ہوا۔ اس کے والد درزی تھے اور پیرس میں مقیم تھے۔ وہیں رینوار نے ڈرائنگ اور موسیقی میں دل چسپی لینا شروع کی، لیکن معاشی حالات نے 13 برس کی عمر میں اسے ایک کارخانے میں کام کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں وہ برتنوں پر نقش و نگار بناتا تھا۔

    اس عرصے میں ڈرائنگ اور مصوّری میں اس کی دل چسپی بڑھتی رہی اور 1862ء میں اس نے چارلس گلیئر سے آرٹ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔

    اس زمانے میں مشہور مصوّروں میں کلاڈ مونے، الفرڈ سسلی اور فریڈرک بازیل وہاں آیا جایا کرتے تھے جن سے اس نوجوان آرٹسٹ کی بھی ملاقات ہونے لگی۔ ان کی فن سے متعلق گفتگو اور مختلف فن پارے دیکھ کر رینوار نے بہت کچھ سیکھا۔

    وہ پیرس کی آرٹ گیلریوں اور عجائب گھر جاکر فن پاروں کا مطالعہ کرتا اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس دوران وہ تصویریں‌ بھی بناتا رہا جن میں‌ گہرے رنگ استعمال کرتا تھا۔ دراصل رینوار ابتدائی زمانے میں کوربے سے متاثر تھا اور اپنی تصویروں میں کافی گہرا رنگ استعمال کرنے لگا تھا۔ چند سال کے دوران پیرس کے آرٹسٹوں سے اس کی دوستی ہوگئی۔ اسے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اور وہ سیکھتا چلا گیا، 1868ء میں رینوار اور مشہور مصوّر کلاڈ مونے اکثر دریائے سین کے کنارے تصویر کشی کرتے دیکھے جاتے تھے۔

    رینوار بھی پیرس کے آرٹسٹوں اور شائقین کو متوجہ کرنے میں کام یاب ہو گیا اور پھر اس کے فن پارے نمائش کے لیے گیلریوں میں سجنے لگے۔ وہ انیسویں صدی کے اواخر میں مصوّر کی حیثیت سے مقبول ہوچکا تھا۔ اس نے متعدد ممالک کے دورے کیے اور نام ور مصوّروں سے ملاقات اور ان کا کام قریب سے دیکھا۔

    فرانس کے اس مشہور مصوّر نے تین دسمبر 1919ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ دی۔