Tag: فرانسیسی ناول نگار

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جسے کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جسے کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا

    آپ نے کبھی "کہانیوں کا کارخانہ” بھی سنا ہے۔ یہ الفاظ ایک بہت بڑے فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ڈوما نے پہلے ڈرامے لکھے، پھر کہانیاں لکھیں۔ کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہونی شروع ہوئیں تو اس نے خود لکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیبوں کو پیسے دے کر بھی لکھوانا شروع کیا۔ اسی لیے اس کو کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا تھا۔

    آج اس فرانسیسی ادیب کا یومِ وفات ہے اور یہ تعارفی سطور اس کے مشہور ناول کے اردو ترجمہ کے پیش لفظ سے لی گئی ہیں جو مسعود برکاتی صاحب نے لکھا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور فرانسیسی ناول لکھنے والے کو نصیب نہیں ہوئی۔ ڈوما نے پانچ سو کے قریب ناول لکھے۔ اس کی کئی کتابیں فرانس سے باہر بھی مشہور ہیں۔ کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے اور آج بھی ان کو پوری دنیا میں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ڈوما نے تاریخ کو کہانی کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈوما کی چند کتابیں ”تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ ڈوما نے اپنی کہانیوں سے خوب کمایا، مگر جب وہ 1870ء میں مرا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

    اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہے۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ یقین نہیں آتا، لیکن پڑھنے والا ہر وقت آگے کیا ہوا کو جاننے کے شوق میں پڑھتا چلا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ادیب کہا جاتا ہے جسے بعد میں دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔ اس نے 5 دسمبر 1870ء کو وفات پائی۔ الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک قصبہ میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لکھنے لکھانے کا شغف اپنایا اور ایک ڈرامہ نویس کے طور پر سفر شروع کیا۔ بعد کے برسوں میں اس نے جو کہانیاں‌ لکھیں وہ بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں اور ان کی دل چسپی کہانی کے انجام بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں‌ قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات کی وجہ سے اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    الیگزینڈر ڈوما کا باپ پہلا افریقی فرانسیسی جنرل تھا جس نے فرانس کی طرف سے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور فوجی کارنامے سرانجام دیے۔ اس کی ماں افریقی تھی۔ بعد میں فرانس میں سیاسی صورت حال بدلی اور نپولین کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی تو وہاں‌ غلامی کا بھی دوبار رواج پڑا اور تعصب و نسلی منافرت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نپولین ذاتی طور پر افریقوں کے سخت خلاف تھا اور چوں کہ ڈوما کا باپ ایک افریقی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اسے بھی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ مصنّف نے اپنے باپ کی ان تمام تکالیف کو اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ الیگزنڈر ڈیوما نے اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مشکلات پر مضامین بھی لکھے۔ خود الیگزینڈر ڈوما کی زندگی پر مبنی ایک فلم متنازع قرار پائی۔ انیسویں صدی کے اس افریقی فرانسیسی مصنّف کے روپ میں اس فلم میں ایک گورے کو دکھایا گیا جس پر نسل پرستی کی بحث چھڑ گئی۔ یہ 2010ء کی بات ہے اور اس فلم کا نام ” لا ائیٹو ڈیوما” تھا۔ ڈوما کا کردار ایک معروف فرینچ اداکار جراد ڈیپارڈیو کو دیا گیا اور اس کے لیے اداکار کو اپنا جسم کالا کرنا پڑا جس پر کہا گیا کہ فرینچ فلم انڈسٹری نے انیسویں صدی کے ایک عظیم ناول نگار کو دانستہ طور نیچا دکھانے کے لیے ان پر مبنی فلم میں ایک سفید فام کا انتخاب کیا۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کوئی فرینچ اور افریقی مشترکہ کردار کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔

    ڈوما فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر درجنوں فلمیں‌ بنائی‌ جاچکی ہیں‌۔

  • ‘ہیومن کامیڈی’ سے شہرت پانے والے بالزاک کا تذکرہ

    ‘ہیومن کامیڈی’ سے شہرت پانے والے بالزاک کا تذکرہ

    بالزاک شاید دنیا کا واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ لکھنا چاہتا تھا اور اپنا نام ان لوگوں میں شامل کروانے کا خواہش مند تھا جنھیں ان کے کام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ بالزاک اس مقصد میں کام یاب رہا۔ اس کا نام فرانسیسی زبان کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شامل ہے۔

    اونورے بالزاک 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ بالزاک نے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازم ہوگیا۔ لیکن اس دوران لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ پبلشنگ اور پرنٹنگ کی طرف بھی گیا، لیکن مالی آسودگی نصیب نہ ہوئی اور پھر ادب تخلیق کرنا ہی اس کا مشغلہ ٹھیرا۔ بالزاک نے متعدد شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، جن میں اس کے ناولوں کی تعداد 97 ہے۔ بوڑھا گوریو اس کا ایک مقبول ناول ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی کو کزن سے محبت ہو جاتی ہے۔ فرانسیسی ناول نگار ہنری ڈی بالزاک کی یہ تخلیق انقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں‌ جنم لیتے نئے رحجانات کے پس منظر میں ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے اور جزئیات نگاری بھی کمال کی ہے۔

    اونورے بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک واقعہ بھی نہایت دل چسپ ہے اور یہ وہ موقع تھا جب اس گھر میں اس کی بہن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، بالزاک کے تمام رشتے دار ایک کمرے میں موجود تھے جہاں مصنّف نے اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ انھیں پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب وہ خاموش ہوا اور منتظر تھا کہ اب یہ سب اس کی تعریف کریں گے تو بالزاک کو شدید مایوسی ہوئی۔ سب نے کہا "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان مصنّف نے اس بات کو مسئلہ نہیں بنایا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور ایک دن ایسا آیا جب فرانس میں اس کا چرچا ہوا اور بعد میں‌ دنیا بھر میں بالزاک کو مصنّف اور ناول نگار کے طور پر شہرت ملی۔ بالزاک نوٹ بک اور پنسل ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرانس کی تاریخ کو ناولوں میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ جہاں بھی جاتا تھا، بالخصوص وہاں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا تھا اور بعد میں ان پر اپنے کرداروں کے ساتھ کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا اور کسی ناول میں انہی درختوں کے درمیان یا گرد و نواح میں اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقی اور سچّی کہانی معلوم ہوتی۔ بالزاک چاہتا تھا کہ وہ ہر سال دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے لکھے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

    بالزاک لمبے فقرے لکھتا ہے اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔ بالزاک کو اس کے طرزِ تحریر سے زیادہ اس لیے ایک بڑا ادیب کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور یہ کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے ایسا کام لوں گا کہ لوگ فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اونورے بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کر دکھائی اور فرانسیسی معاشرے میں انسانوں‌ کا گویا پوسٹ مارٹم کردیا۔ اس نے جو کردار تخلیق کیے، آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور یہی نہیں‌ بلکہ وہ ایسے کردار تھے جو ہمیں اپنے معاشرے میں بھی ملیں گے۔

    اس کی وجہِ شہرت ہیومن کامیڈین کے عنوان کے تحت اس کی تخلیقات کی اشاعت بنا اور قارئین پر کھلا کہ اونورے بالزاک نے واقعی معاشرے کے ہر شعبے سے کردار، ہر گلی کوچے سے واقعات سمیٹے تھے جن سے سبھی واقف تھے، لیکن بالزاک نے انھیں بہت خوبی سے بیان کیا، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کو بیان کرتے ہیں۔

    بالزاک 18 اگست 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کا نام فرانس کے مقبول ناول نگاروں‌ میں‌ شامل ہے اور اس کی تخلیقات بڑے ذوق شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اور مقبول ادیب کہا جاتا ہے جس کی کہانیوں اور ڈراموں کا متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔

    5 دسمبر 1870ء کو وفات پانے والے الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک علاقے میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو ایک ڈرامہ نویس کے طور پر منوایا اور بعد کے برسوں میں کہانیاں‌ لکھیں۔ اس کی کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    فرانس میں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور ناول نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ مختلف زبانوں‌ جن میں اردو بھی شامل ہے، ترجمہ کیا گیا۔ ڈوما کے ناولوں کو آج بھی دنیا بھر میں نہایت شوق اور دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا شوق اور تجسس بڑھاتے ہیں۔ اس کی کہانیاں‌ حیرت انگیز دنیا میں‌ لے جاتی ہیں‌ جہاں قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    ڈوما کی چند کہانیوں‌ میں‌ "تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” اردو میں‌ ترجمہ ہوکر بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے اپنی کہانیوں‌ سے شہرت ہی نہیں دولت بھی کمائی، لیکن موت کے وقت وہ مالی مسائل سے دوچار تھا۔

    خاص طور پر اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز اور دل چسپ ہیں کہ قاری اس کہانی کو ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا اور واقعات کا تسلسل اسے صفحہ پلٹنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ اپنے وقت کا یہ مقبول کہانی کار آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر متعدد فلمیں‌ بھی بنائی‌ گئیں‌ جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔