Tag: فرخ آباد

  • جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

    جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

    اردو ادب میں استادی شاگردی کی روایت بہت پرانی ہے۔

    پرانے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ جس طرح کوئی شخص استاد کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر بڑھئی یا لوہار نہیں بن سکتا، اسی طرح شاعر بننے کے لیے بھی کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنا ضروری ہے۔ گویا قلم گھسنا بھی رندہ پھیرنے اور ہتھوڑا چلانے جیسا کام تھا۔

    دلّی اور لکھنؤ میں ایک ایک استاد کے سیکڑوں شاگرد تھے، اور پھر فارغ الاصلاح شاگردوں کے بھی شاگرد ہوتے تھے جو اپنے استاد کے استاد کو دادا استاد کہتے تھے۔ اس طرح ہر شاعر کے دو شجرہ ہائے نسب ہوتے تھے جن میں سے ایک کا باپ سے اور دوسرے کا استاد سے تعلق ہوتا تھا۔ باپ والے شجرے کو کوئی نہیں پوچھتا تھا مگر استاد والے شجرۂ نسب کے بغیر مشاعرے میں شرکت کی اجازت نہیں ملتی تھی۔

    پرانے استادوں میں مصحفی استاذُ الااساتذہ تھے۔ ان کے شاگردوں، اور پھر شاگردوں کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جن دنوں وہ لکھنؤ میں مقیم تھے، اس شہر کے آدھے سے زیادہ شاعر انہی کے سلسلۂ سخن سے تعلق رکھتے تھے۔ شہر کے باقی شعرا انشاءُ اللہ خاں انشا کے شاگرد تھے۔ دونوں استادوں میں جب جھگڑا ہوا تو ان کے شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھال لیں۔ بعض بااثر لوگوں کے دخل دینے سے بات آگے نہ بڑھی ورنہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک باب ”شہیدانِ سخن“ کے عنوان سے کہا جاتا جس میں ان شاعروں کے حالات درج ہوتے جو اس جھگڑے میں کام آتے۔

    پرانے زمانے میں بڑے بڑے نوابوں اور امیروں کو بھی شاعری کا شوق تھا کیونکہ اس زمانے میں بٹیر بازی اور مرغ بازی کی طرح شاعری بھی ایک تفریح کا درجہ رکھتی تھی۔ نواب اور امیر عموماً موزوں طبع نہیں ہوتے تھے، اس لیے کسی نامور شاعر کو صیغۂ شاعری میں ملازم رکھ لیتے تھے۔ یہ شاعر استاد کہلاتا تھا جس کا کام اپنے شاگرد یعنی آقائے ولی نعمت کے نام غزلیں لکھنا ہوتا تھا۔ بعض استاد نوکری نہیں کرتے تھے، کھلے بازار میں غزلیں بیچتے تھے۔

    مصحفی کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنا کلام ان کے نام سے موجود ہے، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے فروخت کر دیا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر میر سوز نے البتہ دانش مندی سے کام لیا۔ وہ ایک عرصہ تک فرخ آباد میں وہاں کے ایک بڑے عہدے دار مہربان خان رند کے پاس صیغۂ شاعری میں ملازم رہے۔ استاد اور شاگردوں کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں کے دیوانوں میں بہت سی غزلیں مشترک ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ سوز اپنے شاگرد کو جو غزل لکھ کر دیتے، اسے اپنے دیوان میں بھی درج کر لیتے تھے۔

    پرانے زمانے میں بڑا شاعر اسے نہیں سمجھا جاتا تھا جس کا کلام سب سے اچھا ہو، بلکہ اسے اچھا شاعر مانا جاتا تھا جس کے شاگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں غالب کے شاگرد صفیر بلگرامی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے پاس ایک رجسٹر تھا جس میں وہ شاگردوں کے نام اور شاگرد ہونے کی تاریخ درج کرتے تھے۔ آخر آخر شاگرد بنانے کا شوق اتنا بڑھا کہ اگر کوئی ملاقات کے لیے آتا تھا تو اس کا نام بھی شاگردوں کے رجسٹر میں لکھ لیتے تھے۔ ان کے بیٹے کی شادی میں جتنے مہمان شریک ہوئے ان کے نام بھی انہوں نے اس رجسٹر میں درج کر لیے۔ اس طرح ایک دن میں سو سے زیادہ لوگوں نے ان کی شاگردی قبول کی۔

    (از قلم مشفق خواجہ)

  • بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی میں بلا کر باپ نے 20 بچوں کو یرغمال بنا لیا

    بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی میں بلا کر باپ نے 20 بچوں کو یرغمال بنا لیا

    آگرہ: بھارتی ریاست اتر پردیش میں مسلح شخص نے بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی کا جھانسہ دے کر محلے کے بچوں کو بلایا اور انہیں یرغمال بنا لیا، پولیس کے ہاتھوں ملزم کی ہلاکت کے بعد مشتعل ہجوم نے ملزم کی بیوی کو بہیمانہ تشدد کر کے مار ڈالا۔

    یہ دہشت ناک واقعہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر فرخ آباد میں پیش آیا، مسلح شخص جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے چھوٹ کر آیا تھا، نے 20 بچوں کو یرغمال بنا لیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے بچوں کو اپنی بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی کا کہہ کر بلایا اور اس کے بعد انہیں یرغمال بنا لیا۔

    مقامی افراد کو جب اس کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تاہم سبھاش باتھم نامی اس عادی مجرم نے گھر کے اندر سے فائرنگ شروع کردی۔

    ملزم کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوا۔ مقامی افراد نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی اور موقع کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ گھر کے اندر ملزم کی بیوی اور 1 سالہ بیٹی بھی موجود تھی اور ملزم نے انہیں بھی یرغمال بنا لیا۔ اس دوران ملزم نے ایک 6 ماہ کی بچی جو وہاں موجود بچوں میں شامل تھی، 7 گھنٹے بعد بالکونی کے ذریعے پڑوسیوں کے حوالے کی۔

    پولیس کے مطابق ملزم سمجھتا تھا کہ اس پر اس سے قبل لگایا جانے والا قتل کا الزام جھوٹا تھا اور اسے اس قتل کے الزام میں پولیس کے حوالے کرنے میں پڑسیوں کا ہاتھ تھا، ممکنہ طور پر اس نے پڑوسیوں سے بدلہ لینے کے لیے یہ سب کیا۔

    بچوں کو چھڑانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی تو ملزم نے انہیں فائرنگ اور بم سے اڑانے کی دھمکیاں دینی شروع کیں، اس نے پولیس کی طرف ایک کم شدت کا بم بھی پھینکا جس سے 3 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

    ملزم کے خطرناک ارادے دیکھتے ہوئے پولیس نے سخت ایکشن شروع کیا اور 11 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس ان کاؤنٹر کا اختتام ملزم کی موت پر ہوا۔ تمام بچوں کو بحفاظت چھڑا کر معمولی میڈیکل چیک اپ کے بعد انہیں ان کے والدین کے حوالے کردیا گیا۔

    ملزم

    ملزم کی موت کے بعد مشتعل مقامی افراد اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کی بیوی پر بہیمانہ تشدد کیا، پولیس عورت کو بچانے میں ناکام رہی جس کے بارے میں غیر واضح تھا کہ آیا وہ بھی ملزم کے ساتھ تھی یا خود بھی یرغمالیوں میں شامل تھی۔

    ملزم کی بیوی کو اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ اس سے قبل ہی دم توڑ گئی۔

    واقعے کے دوران تمام بھارتی میڈیا نے براہ راست نشریات چلائیں اور اس دوران کئی چینلز نے ملزم کو پیشکش کی کہ وہ اپنے مطالبات انہیں بتائے، وہ انہیں حکام بالا تک پہنچانے میں مدد کرسکتے ہیں۔

    اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بچوں کے بحفاظت چھڑائے جانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور آپریشن میں شامل پولیس ٹیم کو 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔