Tag: فرعون

  • مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصری تہذیب اور اس کے قدیم ادوار اور وہاں دریافتوں‌ کا جو سلسلہ جاری ہے، اس نے دنیا کو حیران کر رکھا ہے اور لوگ قدیم مصر اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں جاننے میں‌ گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اہرامِ مصر کے بعد وہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی حالات یقیناً اہلِ علم ہی نہیں عام لوگوں‌ کے لیے بھی دل چسپ موضوع ہے۔

    قدیم مصر میں عورت کا کردار اور مقام بھی اہم موضوع ہے اور محققین نے اس حوالے سے بعض تاریخی دستاویزات، مخطوطوں اور دریافت شدہ دیگر اشیاء کی مدد سے یہ جانا ہے کہ اس دور میں عورت کو معاشرے میں کس طرح دیکھا جاتا تھا۔ یہاں‌ ہم مختلف خطّوں کے محققین کی مستند کتب کے اردو تراجم سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جن میں قدیم مصر میں عورتوں کا مقام واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    تاریخی دستاویزات کے مطابق ایک دور میں عورتوں کو مرد سے کم تر درجہ میں رکھا گیا تھا جب کہ اس کے اگلے دور میں ان کو مرد کے برابر کے حقوق دے دیے گئے تھے۔ کچھ عورتیں تو باقاعدہ ریاستوں کی ملکہ تک بنائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ شاہی خاندان کی عورتوں کو شادی کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت لینی پڑتی تھی جب کہ عام عورتیں اپنی مرضی سے شادی کر لیا کرتی تھیں۔ قدیم مصری عورتوں کی سماجی درجہ بندی اور ان کے حالات کچھ اس طرح تھے:

    شاہی خاندان کی عورتیں
    شاہی خاندان کی عورتوں کی قدیم مصری معاشرے میں بہت اہمیت تھی۔ ان کی طاقت فراعین مصر کے برابر تو نہیں تھی لیکن شاہی عورتوں کا سرکاری نظام میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ یہ عورتیں یا تو فرعون کی بیویاں ہوتیں یا اس کی باندیاں۔ ایک وقت میں فرعون بہت ساری بیویاں اور باندیاں رکھا کرتے تھے۔ ان عورتوں میں سے فراعین ایک عورت کو اپنا خاص مشیر بنا لیا کرتے تھے۔ اکثر یہ خاص عورت فرعون کی بہن یا سوتیلی بہن ہوتی تھی جس سے وہ نکاح کر لیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق اس طرح‌ شاہی خون پاک رہتا اور حکومت بھی ان کے پاس رہتی تھی۔

    یہ خاص عورتیں فرعون کے ساتھ مل کر تمام شاہی کاموں میں اس کی معاونت کرتی تھیں۔ سفارتی معاملات میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان عورتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی جنگ اندرونِ خانہ چلتی رہتی تھی اور اکثر یہ خواتین محل میں فساد برپا کرتی رہتی تھیں۔ بعض عورتیں تو اتنی طاقتور ہوگئی تھیں کہ انہوں نے پورے مصر کی حکومت تک سنبھال لی تھی لیکن ایسے واقعات شاذ و نادر ہی رونما ہوئے تھے۔

    حرم کی عورتیں
    مصر کا ہر فرعون اپنے لیے خاص عورتوں کا ایک حرم قائم رکھتا تھا جو فرعون کو سکون و عیاشی کی سہولیات میسر کرنے کے لیے مختص تھا۔ ان عورتوں کی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی جو غیر ملکی ہوتیں اور جنگ کے بعد غلام بنا کر یا پھر کسی غلام منڈی سے خرید کر یا فرعون کی منشا کے مطابق کسی کے بھی گھر سے اٹھا کر لائی جاتی تھیں۔ یہ عورتیں ناچنے، گانے، اور دیگر حرم کے مشاغل میں ماہر ہوا کرتی تھیں۔ ان کے فرائض میں یہ بات شامل تھی کہ بادشاہ کو دربار میں بھی محظوظ کریں۔ بادشاہ کے حرم میں صرف کنیزیں اور قیدی عورتیں ہی نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شرفا کی بیٹیاں اور وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو بطور تحفہ بادشاہ کے پاس بھیجی جاتی تھیں۔

    چونکہ حرم میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اس لیے ایک عورت کو فرعون کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار ہی رات گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ اگر کوئی باندی فرعون کو پسند آجاتی تو پھر فرعون اس کو اپنے آس پاس رکھتا تھا۔ اگر فرعون کی بیوی اس کو لڑکا جن کر نہ دے پاتی تو فرعون اپنی من پسند باندی کے ساتھ تعلق قائم کر کے اس سے اولاد حاصل کرتا اور یہ لڑکا شہزادہ کہلاتا اور اسے بعد میں تخت پر بٹھایا جاتا۔

    عورتوں کی ذمہ داریاں
    اکثر عورتوں کا کام گھر سنبھالنا اور اولاد کی پرورش کرنا تھا۔ دیگر عورتیں یا تو دائی بن جاتیں، یا کپڑے بنانے والے کارخانوں میں کام کرتیں یا پھر گریہ کرنے والی، حاتھور دیوتا کی کاہنہ یا پجارن، یا پھر جسم فروشوں کے بازار میں کام کرنے لگ جاتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو اس کی جنس کے مطابق کام دیا جاتا تھا اور یہ کام وقتا ًفوقتاً تبدیل بھی کر دیا جاتا تھا۔ ان کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ طبیب بھی بننے دیا جاتا اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو پھر ان کو صرف بچوں کی دیکھ بھال، ناچنے، گانے اور مردوں کا دل بہلانے کے کام میں لگا دیا جاتا تھا۔

    غلام کی مالکن
    قدیم مصر میں عام رواج تھا کہ عورتیں غلام کے طور پر صرف عورتوں کو ہی رکھتی تھیں لیکن بعض کو مرد غلام رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ یہ مرد غلام عموماً ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے رکھے جاتے اور اگر وہ غلام ایسا نہ کرتے یا کسی اور عورت کے ساتھ ناجائز تعلق بناتے تو ان کو مارا پیٹا جاتا اور سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

    شادی
    زرخیزی چاہے انسانوں میں ہو یا جانوروں میں یا فصل کی پیداوار میں، قدیم مصریوں کے نزدیک اس کی بہت اہمیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مصری لوگ جلد سے جلد شادی کر کے بچّے پیدا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ مصریوں کے ہاں محرمات سے شادی کی اجازت تھی اور شاہی خاندان تو اکثر اسی رسم کو اپنایا کرتے تھے۔ اس دور میں‌ بہن بھائی کے درمیان شادی کا عام رواج تھا۔ اس کے علاوہ فرعون اپنی سلطنت کو اپنے ہی خاندان میں رکھنے کے لیے اپنی ماں، بیٹی اور دیگر محرمات کو بھی اس تعلق میں اپنا لیتے تھے۔

    شادی کے لیے کوئی مذہبی یا قانونی رسوم ادا نہیں کی جاتی تھیں۔ اکثر نکاح والدین کی باہم رضامندی سے مقرر ہوتے اور سارے معاملات پہلے طے کر لیے جاتے تھے۔ کچھ مقامات پر محبت کی شادیاں بھی ہوئیں لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔ جب لڑکا پندرہ سے بیس سال کا ہوتا اور لڑکی بارہ سے چودہ سال کی ہوجاتی تو ان کی شادی کردی جاتی تھی۔ بادشاہ ایک سے زائد شادیاں کر سکتا تھا لیکن عام لوگ صرف ایک ہی شادی کرتےتھے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کو اجازت تھی کہ وہ ایک محبوبہ یا باندی رکھ لیں جس سے خواہش کے مطابق تسکین پوری کرسکیں۔

    علیحدگی
    شادی کے وقت دولھا دلھن یہ گمان کرتے کہ ان کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہے گا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہو پاتا تھا۔ ان میں سے کچھ جوڑوں کے درمیان طلاق بھی واقع ہو جاتی تھی۔ طلاق کے بعد مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے۔ طلاق قانونی طریقہ سے ہوتی تھی جس کے بعد مرد اور عورت کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ اگر مرد عورت کو طلاق دیتا تو اس پر واجب تھا کہ وہ عورت کا تمام جہیز واپس لوٹا دے بلکہ کچھ معاملات میں تو اس کا دگنا بھی لوٹانے کا کہا جاتا تھا۔ اگر عورت طلاق دیتی تو اس پر واجب تھا کہ جو اسے شادی کے وقت مرد کی طرف سے تحفہ ملا ہو، اس کی آدھی مقدار واپس کرے۔ طلاق کے بعد بھی مرد پر واجب تھا کہ وہ عورت کو نان نفقہ دیتا رہے جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے۔

    لباس
    مصری لباس میں زمانہ کےساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ قدیم سلطنت کے دور میں عورتیں اور مرد نیم برہنہ رہتے تھے۔ جسم کا بالائی حصہ بالعموم کھلا رہتا تھا۔ پروہتوں کو بھی مجسموں میں نیم برہنہ دکھایا گیا ہے۔ سلطنت وسطی اور سلطنت جدید میں کُرتے، تہبند اور دستار کا اضافہ ہوا تھا۔ عورتوں کے لباس میں کُرتے اور تہبند کےعلاوہ ایک لمبا چوڑا دوپٹہ بھی شامل کیا گیا تھا جو شانے اور سینے پر پھیلا ہوتا مگر کھلا رہتا تھا۔ اونچے طبقے کی عورتیں ایک قسم کا تاج پہنتی تھیں۔ لباس پر گاڑھے اور زردوزی کا کام ہوتا تھا۔ بالوں کو تراشنے اور مانگ نکالنے کے بھی مختلف طریقے رائج تھے۔ رؤسا کے کپڑے بالعموم باریک دھاگے کے ہوتے تھے جن پر زر کا کام کیا جاتا تھا۔ منقش اور چھپے ہوئے کپڑوں کا استعمال بھی عام تھا۔ مرد و عورت دونوں مصنوعی بال کی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ اونچے طبقے میں چپلوں کا رواج تھا۔غرض مصری زندگی میں نفاست اور خوش سلیقگی کے ساتھ ساتھ نزاکت اور عریانیت بھی آگئی تھی۔

    (ماخذ: مختلف محققین کی کتب کے اردو تراجم)

  • مصر: لاش کو حنوط کرنے والی فرعون کے دور کی اشیا دریافت

    مصر: لاش کو حنوط کرنے والی فرعون کے دور کی اشیا دریافت

    قاہرہ: مصر میں ایک مقبرے سے فرعون کے دور کی ایسی اشیا دریافت کی گئی ہیں جو اس دور میں حنوط کرنے یعنی ممی بنانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

    اردو نیوز کے مطابق مصر میں نوادرات اتھارٹی نے ہفتے کے روز دارالحکومت قاہرہ کے قریب سقارہ قریہ سے فرعونی مقبرے سے دریافت ہونے والی ورکشاپ اور قدیم مقبروں کی نقاب کشائی کی ہے۔

    سقارہ کے قبرستان کے وسیع و عریض علاقے میں یہ خاص قسم کی نوادرات پائی گئی ہیں، یہ علاقہ قدیم مصر کے دارالحکومت منف کا حصہ ہے اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔

    مصر میں نوادرات کی سپریم کونسل کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے بتایا کہ ایسی قدیم ورکشاپس میں انسانوں اور خاص اہمیت کے حامل جانوروں کی ممی بنائی جاتی تھیں۔

    مصطفیٰ وزیری نے مزید وضاحت کی کہ ان نوادارت کا تعلق 30 ویں فرعونی خاندان (380 قبل مسیح سے 343 قبل مسیح) اور بطلیمی دور (305 قبل مسیح سے 30 قبل مسیح) کے زمانے سے ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ورکشاپ کے اندر، ماہرین آثار قدیمہ کو مختلف رسومات میں استعمال کیے جانے والے مٹی کے برتن اور دیگر اشیا ملی ہیں جو بظاہر ممی بنانے میں استعمال ہوتی رہی ہیں۔

    مصر میں سقارہ آثار قدیمہ کے سربراہ صابری فاراج نے بتایا ہے کہ دریافت شدہ باقیات اور مقبرے قدیم مصر کی سلطنت کے اعلیٰ عہدیدار اور ان کے ساتھیوں کے ہیں۔

    واضح رہے کہ مصر کی حکومت نے حالیہ برسوں میں بین الاقوامی میڈیا، سفارت کاروں اور سیاحوں کے لیے آثار قدیمہ کی نئی دریافتوں کو بہت زیادہ روشناس کروایا ہے۔

    بتایا جاتا ہے کہ یہاں دریافت ہونے والی ایسی قدیم باقیات سے ملک میں سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔

  • اہرام کا میر محاسب

    اہرام کا میر محاسب

    ممتاز افسانہ نگار نیّر مسعود افسانہ اور رمز سے بھری ہوئی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی یہ کہانی ایک صاحبِ اقتدار شخص کی طاقت اور غرور کے انجام کو بیان کرتی ہے جو قدیم دور کے اہرام کو ایک چیلنج سمجھ کر توڑنے کے لیے مزدور اکٹھا کرتا ہے، مگر ناکام ہونے کے بعد اپنا شہر چھوڑ کر اسی ویرانے میں چلا جاتا ہے جہاں وہ اہرام موجود ہے۔

    بڑے اہرام کی دیواروں پر فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہیں۔

    اس سے یہ بدیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عمارت کو فرعون نے بنوایا ہے۔ لیکن اس سے ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہونے سے پہلے اہرام کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ مگر کتنے پہلے؟ چند ماہ؟ یا چند سال؟ یا چند صدیاں؟ یا چند ہزار سال؟ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اہرام کی عمارت فرعون سے بیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی تو اس دعوے کی تردید اس کے سوا کوئی دلیل نہ ہوگی کہ اہرام پر فرعون کا نام کندہ ہے، لیکن یہی دلیل اس کا ثبوت ہوگی کہ نام کندہ ہوتے وقت یہ عمارت بنی ہوئی موجود تھی۔

    کب سے بنی ہوئی موجود تھی؟ اس سوال کا جواب دینے سے مؤرخ بھی قاصر ہیں اور تعمیرات کے ماہر بھی۔ مؤرخ اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی تعمیر کی دستاویزیں نہیں ہیں، اور ماہر اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی عمر کا پتا لگانے والے آلات نہیں ہیں۔ ان کے ترقی یافتہ آلات نہ یہ بتا سکے ہیں کہ اہرام اپنی کتنی عمر گزار چکا ہے اور نہ یہ بتا سکے ہیں کہ ابھی اہرام کی کتنی عمر باقی ہے۔ البتہ یہ آلات ماضی اور مستقبل دونوں سمتوں میں اہرام کے بہت طویل سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    تعمیرات کے ماہروں نے یہ تخمینہ ضرور لگا لیا ہے کہ اہرام کے اطراف کی زمینوں اور خود اہرام کی عمارت کے رقبے کے لحاظ سے اس کے بنانے میں زیادہ سے زیادہ کتنے آدمی ایک ساتھ لگ سکتے تھے، اور زیادہ سے زیادہ آدمی کم سے کم کتنی مدت میں اہرام کو مکمل کر سکتے تھے، اور یہ کم سے کم مدت کئی سو سال کو پہنچتی ہے۔ لیکن خلیفہ کے وقت میں اہرام کی ایک سل پر یہ عبارت کندہ پائی گئی۔

    ’’ہم نے اسے چھ مہینے میں بنایا ہے، کوئی اسے چھ مہینے میں توڑ کر تو دکھا دے۔‘‘

    خلیفہ کو غصہ آنا ہی تھا۔ مزدور بھرتی ہوئے اوراہرام پر ایک طرف سے کدالیں چلنا شروع ہوئیں۔ مگر ہوا صرف یہ کہ کدالوں کی نوکیں ٹوٹ گئیں اورپتھروں سے چنگاریاں سی اڑ کر رہ گئیں۔ خلیفہ کو اورغصہ آیا۔ اس نے اہرام کے پتھروں کو آگے سے گرم کرایا۔ جب پتھرخوب تپنے لگے تو ان پر ٹھنڈا ٹھنڈا سرکہ پھینکا گیا۔ چٹ چٹ کی آواز اور پتھروں میں پتلی پتلی لکیریں کھل گئیں۔ ان لکیروں پر نئی کدالیں پڑنا شروع ہوئیں اور پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے الگ ہونے لگے۔ خلیفہ کو تسلّی ہوئی اوروہ دارُالخلافہ کو لوٹ گیا۔ اس کے پیچھے یہ حکم رہ گیا کہ چھ مہینے تک دن رات میں کسی بھی وقت کام روکا نہ جائے۔

    چھٹا مہینہ ختم ہوتے ہوتے خلیفہ پھر اپنے امیروں کے ساتھ اہرام کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اتنے دن میں اہرام سے صرف ایک چھوٹی دیوار بھر پتھر الگ کئے جا سکے تھے۔ ان پتھروں کے پیچھے ایک طاق نمودار ہوا تھا جس میں پتھر کا تراشا ہوا ایک مرتبان رکھا تھا۔ مرتبان خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور خلیفہ نے اسے خالی کرایا تو اس میں سے پرانی وضعوں کے سونے کے زیور اور قیمتی پتھر نکلے۔ پھر دیکھا گیا کہ پتھر کے مرتبان پر بھی ایک عبارت کندہ ہے اور خلیفہ کے حکم سے یہ عبارت پڑھی گئی:

    ’’تو تم اسے نہیں توڑ سکے۔ اپنے کام کی اجرت لو اور واپس جاؤ۔‘‘

    اس وقت خلیفہ طاق کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے اہرام کا مخروطی سایہ بیابان میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ خلیفہ مڑا اورآہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا جہاں اہرام کا سایہ ختم ہو رہا تھا۔ خلیفہ تھوڑا اور آگے بڑھ کر رکا۔ اب زمین پر اس کا بھی سایہ نظر آنے لگا۔ بیابان کی دھوپ میں صرف سائے کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ اہرام کی چوٹی پر کھڑا ہے۔ لیکن اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں تھا۔ خلیفہ واپس آ کر پھر طاق کے سامنے کھڑا ہوا اور اب اس نے حکم لکھوایا کہ چھ مہینے کی اس مہم کے اخراجات کا مکمل حساب پیش کیا جائے۔ اس نے ایک اور حکم لکھوایا کہ مرتبان سے نکلنے والے خزانے کی قیمت کا صحیح تخمینہ لگایا جائے۔

    مشہور ہے کہ خزانے کی قیمت ٹھیک اس رقم کے برابر نکلی جو اہرام کا طاق کھولنے کی مہم پر لگی تھی اور اس میں ایسی بات مشہور ہو جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ یہ بات حسابات مکمل ہونے سے پہلے ہی مشہور ہوگئی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں وہ میر محاسب فراموش کر دیا گیا جس کے ذمے یہ دونوں حساب کتاب تھے۔

    اس کے بارے میں مشہور تھا کہ خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں تک کا شمار رکھتا ہے۔ حساب کی فردوں کے پلندے اس کے آگے رکھے جاتے اور وہ ایک نظر میں ان کے میزان کا اندازہ کر لیتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جمع تفریق کی غلطیاں اپنے آپ کاغذ پر اچھل کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ خلیفہ سے زیادہ اس کے میر محاسب سے خوف زدہ رہتے تھے۔ دارُالخلافہ کے لوگ ایک دوسرے کو کبھی ہنسانے کے لئے، کبھی ڈرانے کے لئے بتاتے تھے کہ میر محاسب کے دل میں جذبوں کی جگہ اور اس کے دماغ میں خیالوں کی جگہ اعداد بھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بلکہ وہ بات جس کی طرف یہ بات اشارہ کرتی ہے، کچھ بہت غلط بھی نہیں تھی، کم سے کم اس حساب کی رات تک۔

    اس رات اس کے سامنے دونوں حسابوں کی فردیں کھلی رکھی تھیں اور اس نے ایک نظر میں اندازہ کر لیا تھا کہ دونوں حساب قریب قریب برابر ہیں۔ تاہم اس نے ضروری سمجھا کہ دونوں فردوں کی ایک ایک مد کو غور سے دیکھ لے۔ اس کے مستعد ماتحتوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اندراجات کئے تھے۔ کسی بھی مد کی رقم میں کوئی کمی بیشی نہیں تھی۔ حاصل جمع نکالنے کے لئے اس نے مرتبان والے خزانے کی فرد پہلے اٹھائی۔ لیکن جب وہ حاصل جمع لکھنے لگا تو اس کا قلم رکا اور اسے محسوس ہوا کہ اس نے جوڑنے میں کہیں غلطی کر دی ہے۔ اس نے پھر حساب جوڑا اور دیکھا کہ اب حاصل جمع کچھ اور ہے، لیکن اس کو پھر غلطی کر جانے کا احساس ہوا اور اس نے پھر حساب جوڑا اور حاصل جمع کو کچھ اور ہی پایا۔ آخر اس فرد کو ایک طر ف رکھ کر اس نے طاق کھولنے کی مہم والی فرد اٹھائی، مگر یوں جیسے اپنے کسی شبہے کی تصدیق چاہتا ہو، اور واقعی اس فرد کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس کے سامنے دو فردیں اورچھ سات یا اورزیادہ حاصل جمع تھے۔ الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ فردوں کو یوں ہی چھوڑ کر وہ باہر نکل آیا۔ کوئی سوال اس کو پریشان کررہا تھا۔ کوئی سوال اس تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن اعداد کے ہجوم میں اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔

    باہر چاندنی میں کھڑے کھڑے جب اس کے پاؤں شل ہونے لگے اورہتھیلیوں میں خون اتر آیا تب اسے احساس ہوا کہ اعداد کا ہجوم اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دور ہوتے ہوئے اعداد اسے انسانوں کی ٹولیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ دو اور دو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کا حاصل جمع ہے، جسے وہ پہچان نہیں پایا کہ چار ہے یا کچھ اور۔ اس آخری ٹولی کے گزر جانے کے بعد وہ اندر واپس آیا۔ اس نے دونوں فردوں کو تلے اوپر رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ ان کا حاصل جمع ایک نکلے گا یا الگ الگ؟ پھر سوچنے لگا کہ خود وہ دونوں کو ایک چاہتا ہے یا الگ الگ؟ اور پھر یہ کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے؟ تب اچانک اس کو پتا چلا کہ یہی وہ سوال ہے جو اعداد کے ہجوم میں راستہ ڈھونڈ رہا تھا، خلیفہ کیا چاہتا ہے؟

    باقی ماندہ رات اس نے یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے۔ صبح ہوتے اسے نیند آگئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ خلیفہ اور فرعون ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اہرام کی پرچھائیں کے سرے کی طرف جارہے ہیں اور اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوتے ہی میں سمجھ لیا کہ خواب دیکھ رہا ہے، اور اپنی آنکھ کھل جانے دی۔

    دن ڈھل رہا تھا جب اس نے دونوں فردوں کو جلا کر راکھ کیا، اپنے ایک غلام کا خچر کسا، غلام ہی کی پوشاک پہنی اور باہر نکلا۔ بازاروں میں بے فکر ے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ٹولیاں بنائےگشت کر رہے تھے۔ اس دن شہر میں گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا، سب ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ طاق کھولنے کی مہم پر صرف ہونے والی رقم اور مرتبان کے خزانے کی قیمت میں ایک جو کا فرق بھی نہیں نکلا ہے اور یہ کہ یہ حساب میر محاسب کا نکالا ہوا ہے جو خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں کا شمار رکھتا ہے۔

    وہ واپس لوٹنے کے لئے گھر سے نہیں نکلا تھا۔ اس نے خچر کو ایڑ لگائی، بازاروں کو پیچھے چھوڑا اور خود کو اس بیابان میں گم کر دیا جہاں ہوا میں ریت کے ذرّے چنگاریوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین پر اہرام اپنا مخروطی سایہ ڈالتا ہے۔

  • حضرت موسیٰ، فرعون اور اردو ادب

    حضرت موسیٰ، فرعون اور اردو ادب

    امریکہ کا مشہور انشاء پرداز آسبورن لکھتا ہے، ”تلمیحات کیا ہیں؟ ہماری قوم کے قدموں کے نشان ہیں جن پر پیچھے ہٹ کر ہم اپنے باپ دادا کے خیالات، مزعومات، اوہام، رسم و رواج اور واقعات وحالات کے سراغ لگا سکتے ہیں۔”

    اردو ادب میں‌ تلمیحات دیو مالائی، مذہبی قصوں، عقائد، تاریخی واقعات کے علاوہ عام کہانیوں اور افسانوں سے ماخوذ ہیں۔ یہ انبیاء کے واقعات، فرشتوں کے تذکرے، جنّت اور دوزخ کے قصّوں اور مشاہیر کی زندگی سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہاں‌ ہم حضرت موسیٰ اور ان کی پیغمبری کے واقعات اور فرعون کے تذکرے پر مبنی سیّد وحید الدّین سلیم کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں جو معلومات افزا بھی ہے اور دل چسپ بھی۔

    حضرت موسیٰ بھی نہایت جلیلُ القدر پیغمبر تھے۔ ان پر توریت نازل ہوئی۔ ان کا لقب کلیمُ اللہ ہے۔ ان کے زمانہ میں جو فرعون مصر پر حکم راں تھا، وہ نہایت سرکش اور مغرور تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ کاہنوں اور نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس کو ہلاک کرنے والا بنی اسرائیل میں پیدا ہوگا۔ بنی اسرائیل کی حالت اس زمانہ میں نہایت زبوں تھی۔ وہ مصر میں غلامی اور مزدوری کی خدمتیں انجام دیتے تھے۔ فرعون نے پیش گوئی سن کر بنی اسرائیل کے بچّوں کو ہلاک کرنا شروع کیا۔

    حضرت موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے ان کو ایک گہوراہ میں ڈال کر دریا کی نذر کر دیا۔ یہ گہوارہ بہتے بہتے فرعون کے محل تک پہنچا۔ فرعون کی بیوی نے اس کو دریا سے نکلوایا۔ بچّے کی شکل دیکھ کر رحم آیا۔ پالنے کا عزم مصمم کر لیا۔ فرعون کو اس بچّے پر اپنے قاتل کا شبہ ہوا۔ چاہا کہ ہلاک کر ڈالے مگر فرعون کی بیوی حائل ہوئی۔

    فرعون نے اس بچّے کا امتحان عجیب طریقے سے کیا۔ ایک طشت لعلوں سے اور ایک طشت انگاروں سے بھرا سامنے لایا گیا۔ فرعون کا خیال تھا کہ اگر یہ بچّہ وہی ہے جو میرا قاتل ہو گا تو انگاروں پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ جب بچّے نے ہاتھ لپکایا، تو قریب تھا کہ لعلوں کے طشت پر پڑے مگر فرشتے نے ہاتھ کھینچ کر انگاروں کے طشت پر رکھ دیا۔ ایک انگار اٹھایا اور جھپ سے منھ میں رکھ لیا۔ ہاتھ کی ہتھیلی اور زبان دونوں جل گئیں۔ ہاتھ کا سفید داغ بعد میں یدِ بیضا کے معجزہ سے تبدیل کر دیا گیا۔ مگر زبان میں لکنت ساری عمر باقی رہی۔ حضرت موسیٰ کے لیے دودھ پلانے والی عورت کی تلاش ہوئی، تو ان کی والدہ ہی کو یہ موقع ملا اور انہوں نے ماں ہی کے دودھ سے پرورش پائی۔

    ہوش سنبھالنے پر حضرت موسیٰ نے شہزادوں کی طرح تعلیم پائی۔ مصری کاہنوں نے اپنے تمام علوم ان کو سکھائے۔ ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ دراصل فرعون کے بیٹے نہیں ہیں اور نہ قبطی ہیں، بلکہ اسرائیلی نسل کے ہیں۔ ان کو اپنی قوم سے ہمدردی اور قبطی قوم سے نفرت ہو گئی۔ ایک دن ایک قبطی ایک اسرائیلی پر ظلم کر رہا تھا۔ یہ واقعہ دیکھ کر انہیں غصہ آیا اور قبطی کو جان سے مار ڈالا۔ پھر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ عرب کی سرحد پر پہنچے، تو مدین کے ایک کنویں پر چند نوجوان عورتوں کو انہوں نے پانی بھرتے دیکھا۔ پیاس شدت کی تھی۔ پانی مانگا۔ جواب ملا کہ ہم اپنے مویشیوں کو سیراب کر لیں تو تمہاری خبر لیں۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم مجھے پانی پلا دو، میں تمہارے مویشیوں کو پانی کھینچ کر پلا دوں گا۔ انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا۔

    یہ نوجوان لڑکیاں مدین کے پیغمبر شعیب کی بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اس نوجوان کا تذکرہ کیا۔ حضرت شعیب نے بلا کر کہا کہ اگر تم بارہ برس تک ہمارے قبیلے کی بکریاں چراؤ تو ہم اپنی لڑکی سے شادی کر دیں گے۔ حضرت موسیٰ نے منظور کر لیا۔ بارہ برس کی خدمت کے بعد شادی ہو گئی، اپنی بیوی کو ساتھ لے کر چلے۔

    راستہ میں وادی ایمن ملی، جو کوہِ طور کے دامن میں ہے۔ بیوی حمل سے تھیں۔ رات وہیں بسر کی، اسی وقت وضعِ حمل ہوا۔ آگ کی ضرورت تھی۔ سامنے پہاڑ پر روشنی دکھائی دی۔ آگ لینے اس طرف بڑھے۔ دیکھا ایک درخت سر تا پا روشن ہے، مگر آگ کا نام نہیں۔

    درخت میں سے آواز آئی: میں تیرا خدا ہوں۔ تو وادیٔ مقدس میں ہے۔ اپنی جوتیاں اتار دے۔ موسیٰ نے کہا ربّ ارنی یعنی اے خدا تو اپنا دیدار مجھے دکھا۔ جواب ملا: لن ترانی، یعنی تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ پھر جب تجلّیِ ربّانی کا ظہور ہوا، تو موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پہاڑ لرز گیا، بلکہ جل کر سرمہ ہو گیا۔

    اس واقعہ کی طرف حسبِ ذیل تلمیحات میں اشارہ کیا گیا ہے: تجلّیِ طور، شعلۂ طور، نخلِ طور، شمعِ طور، شجرِ طور، نخلِ موسیٰ، جلوۂ طور، نخلِ ایمن، شمعِ ایمن۔ وادیٔ ایمن، نورِ سینا۔ وادیٔ سینا، شعلۂ سینا، طورِ سینا۔ سرمۂ طور۔ ربّ ارنی۔ لن ترانی۔ خر موسیٰ۔ ( یعنی موسیٰ غش کھا کر گر پڑے) ہوش میں آئے تو حضرت موسیٰ کو حکم ہوا، تم اور تمہارے بھائی ہارون دونوں مل کر فرعون کو میرا پیغام پہنچاؤ۔ اسی وقت حضرت موسیٰ کو دو معجزے عطا ہوئے۔ ایک یہ کہ جب وہ اپنے عصا کو زمین پر ڈال دیتے تھے تو وہ اژدہا بن جاتا تھا۔ دوسرا یہ کہ جب وہ اپنا ہاتھ گریبان میں سے نکال لیتے تھے، تو آفتاب کی طرح چمکنے لگتا تھا۔ پہلے معجزے کی طرف عصائے موسیٰ اور عصائے کلیم کے الفاظ سے اور دوسرے معجزے کی طرف دستِ کلیم، دستِ موسیٰ اور یدِ بیضا کے الفاظ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔

    کوہِ طور سے چل کر حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے ساتھ مصر میں آئے۔ فرعون نے اپنے جادوگروں کو مقابلے کے لیے پیش کیا، مگر حضرت موسیٰ اپنے عصا اور یدِ بیضا کی مدد سے غالب آئے۔ بڑی دقتوں اور مقابلوں کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرایا اور ان کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عصا کی ایک جنبش سے دریا پھٹ گیا اور پایاب ہو گیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ پار اتر گئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں عین اس وقت پہنچا جب کہ دریا پایاب تھا اور بنی اسرائیل پار ہو چکے تھے۔ وہ بھی اپنے لشکر کو ہمراہ لے کر دریا میں اتر گیا، مگر جب بیچ میں پہنچا تو جو پانی سمٹ گیا تھا، پھر پھیل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔ شاعروں نے اس دریا کا نام نیل بتایا ہے، گو کہ وہ مؤرخین کے نزدیک بحرِ قلزم تھا۔

    دریا سے پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے اس جنگل میں پہنچے جس کو تیہ بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ یہاں چالیس برس تک رہے۔ ہر چند بنی اسرائیل کو اکسایا کہ فلسطین پر حملہ کرو اور فرعون کے گورنروں کو نکال کر خود اپنے وطن پر قابض ہو، مگر مدتِ دراز تک غلامی کی زندگی بسر کرنے کے سبب ان کی ہمّتوں اور جرأتوں نے جواب دے دیا تھا۔ اس جنگل میں بنی اسرائیل کی گزران جس چیز پر تھی، اس کا نام من و سلویٰ بتایا گیا ہے۔ عام خیال ہے کہ یہی بہشتی نعمتوں کا خوان تھا، جو ہر روز فرشتوں کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا اور اسی عام خیال پر شاعری کا مدار ہے۔

    حضرت موسیٰ اکثر کوہِ طور پر جاتے اور خدا سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔ اسی مقدس پہاڑ پر ان کو توریت کے صحیفے عطا ہوئے۔ ایک دفعہ جب وہ کوہِ طور پر گئے ہوئے تھے، ایک شخص نے جس کا نام سامری تھا، سونے کا ایک بچھڑا بنایا، جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ حضرت موسیٰ کی قوم نے اس کو پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت موسیٰ جب واپس آئے تو غضب ناک ہوئے اور بچھڑے کو جو شعرا کی زبان میں گوسالۂ سامری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جلا کر خاک کر ڈالا۔

  • فرعون کے دور کا غار دریافت

    فرعون کے دور کا غار دریافت

    اسرائیل میں‌ مصر کے فرعون رعمسیس دوم کے دور کا ایک غار دریافت ہوا ہے، جس نے ماہرین کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیل کے ماہرین آثارِ قدیمہ نے اتوار کے روز فرعونِ مصر رعمسیس دوم کے دور کا ایک مدفون غار دریافت کرنے کا اعلان کیا ہے، جو برتنوں کے درجنوں ٹکڑوں اور کانسی کے نوادرات سے بھرا ہوا پایا گیا۔

    اسرائیلی اور عالمی میڈیا کے مطابق ماہرین پر اس غار کی موجودگی کا انکشاف گزشتہ منگل کو ساحل پر اس وقت ہوا جب بلماحيم نیشنل پارک میں زمین کھودنے والی ایک مشین غار کی چھت سے ٹکرائی۔

    ماہرین آثار قدیمہ نے دیکھا کہ وہاں انسان کا بنایا ہوا ایک مربع شکل کا قدیم غار موجود ہے، جس میں اترنے کے لیے انھوں نے سیڑھی کا استعمال کیا۔

    اسرائیل کی آثارِ قدیمہ کی اتھارٹی (آئی اے اے) کے مطابق مختلف غار سے مختلف شکلوں اور سائز کے درجنوں برتن ملے، جو 1213 قبل مسیح میں مرنے والے قدیم مصری بادشاہ کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ان میں سے کچھ کٹورے سرخ رنگ کے ہیں، کچھ میں ہڈیاں بھی ملیں، آب خورے، کھانا پکانے کے برتن، ذخیرہ کرنے کے مرتبان، چراغ اور کانسی کے تیر کے سرے بھی غار سے ملے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اشیا مردے کے ساتھ تدفین کے وقت رکھی جاتی تھیں، غار سے ایک انسانی ڈھانچا بھی ملا ہے، آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق یہ غار کانسی کے زمانے کے آخری دور میں تدفین کے رسم و رواج کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔

    ماہرین نے اس غار کو ایک انتہائی نایاب دریافت قرار دیا، یہ اپنی تعمیر کے بعد زندگی میں پہلی بار دریافت ہوا ہے، بننے کے بعد سے یہ اب تک بند ہی رہا۔

    یہ آثار جس فرعون کے دورِ حکومت سے متعلق ہیں، اس نے طویل عرصے تک حکومت کی تھی اور اس کا کنعان پر بھی کنٹرول تھا، یہ ایک ایسا علاقہ تھا جس میں جدید دور کا اسرائیل اور تمام فلسطینی علاقے شامل تھے۔

    اس غار کو اب دوبارہ سیل کر دیا گیا ہے، اور اس کی حفاظت کی جا رہی ہے۔

  • انطونی کی خودکُشی اور ملکۂ مصر قلوپطرہ کی موت

    انطونی کی خودکُشی اور ملکۂ مصر قلوپطرہ کی موت

    قلو پطرہ دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں کئی قصّے اور کہانیاں مشہور ہیں۔ اسے داستانوں میں سمیٹا گیا۔ اس کے حُسن، عشق اور پھر موت کو بھی افسانہ بنایا گیا اور شاید رہتی دنیا تک قلو پطرہ اسی طرح ‘زندہ’ رہے۔

    قبلِ مسیح کا یہ کردار دنیا بھر میں تاریخ اور افسانوی ادب کا حصّہ ہے جب کہ جدید دور میں قلو پطرہ پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک ڈرامے میں اس کردار کے بارے میں‌ لکھا تھا؛

    "قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔ اس کا حُسن کئی انقلابوں، اور خونریزیوں کا باعث ہوا۔ اس ساحرہ کے حُسن و عشق کے قصّے جہاں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں، وہاں تمام دنیا کو معلوم ہیں۔”

    "قلو پطرہ مصر کے نالائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی تھی۔ یہ بادشاہ 80 قبل مسیح تک حکمران رہا۔ اپنی سترہ برس کی بیٹی قلوپطرہ کے سر پر اپنا زنگ خوردہ تاج رکھ کر اُس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔”

    "ملکۂ مصر قلوپطرہ فاتحوں کی فاتح تھی۔ اس نے جولیس سیزر کو، اس کی موت کے بعد مارک انطونی کو جس کے ہاتھ میں ان دنوں دنیا کی باگ ڈور تھی، اپنے حُسن و جمال سے مسحور کیا۔”

    "اس حسین قاتلہ نے انطونی کو تو ہمیشہ کے لیے تباہی کے سیلاب میں بہا دیا۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ انطونی نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ رویّہ سے مجبور ہو کر اس کے بھائی اوکتے ویانوس کی سخت توہین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔ پارتھنیوں پر فتح حاصل کر کے اوکتے ویانوس نے انطونی کے روم کو مکمل طور پر تاراج کرنے کی کوشش کی اور اسکندیہ کی پرانی عظمت کو زبردست دھکا لگایا۔ اس نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ روم کی سلطنت کا اصل حق دار قلوپطرہ اور اس کا بیٹا سیرزین ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر اوکتے ویانوس اور انطونی کی جماعتوں میں جنگ ناگزیر تھی۔ چنانچہ اکتی ایم کے مقام پر ایک معرکہ خیز جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں قلوپطرہ بھی شریک تھی مگر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی اور اسکندریہ میں پناہ لی۔ انطونی شکست کھا کر واپس چلا آیا جہاں اس نے اپنی وفادار فوجوں کو دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کی۔”

    "انطونی اور قلوپطرہ اب محسوس کرنے لگے تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ دونوں کے دلوں پر غم و الم کی گھٹائیں چھا گئیں لیکن ایک آرزو ابھی تک ان کے دلوں میں باقی تھی کہ انجام کار ان کا ملاپ ہو جائے۔”

    "انطونی لیبیا سے ناامید ہو کر اسکندریہ آیا۔ اس اثنا میں اوکتے ویانوس کی فوجیں اسکندریہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں۔ انطونی نے ایک بار پھر اپنی کھوئی طاقت اور دلیری سے کام لے کر دشمن کا مقابلہ کیا لیکن فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔بالکل تنہا دل میں ہزارو ں حسرتو ں کا خون لیے محل میں آیا تو قاصد نے خبر دی کہ قلوپطرہ نے خو دکشی کر لی۔ یہ دراصل قلوپطرہ کی ایک چال تھی۔ اسے ڈر تھا کہ انطونی اس کی غداری پر خشمگیں ہو گا لیکن قلوپطرہ کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ چال اس کے عاشق پر بہت مہلک اثر کرے گی۔ انطونی دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایک عورت کی محبت اس سے بڑھ گئی۔ چنانچہ جوش میں آکر اس نے اپنے سینے میں تلوار بھونک لی۔”

    "جب قلوپطرہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے بڑی منتوں سے اپنے عاشق کو کہلا بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو وہ اس کے پاس چلا آئے۔ چنانچہ انطونی کے ملازم اپنے زخمی آقا کو اُٹھا کر اس عمارت کے دروازے تک آئے جہاں قلو پطرہ نے خود کو چُھپا رکھا تھا۔ قلوپطرہ نے خوف سے دروازہ نہ کھولا۔ ایک کھڑکی سے رسیاں نیچے پھینکی گئیں جن کی مدد سے زخمی انطونی کو کمرے کے اندر لایا گیا۔”

    اس افسانوی روداد سے آگے ڈرامہ کے طرز پر مکالمے ہیں جس کے اختتام پر ملکۂ مصر قلوپطرہ کو سانپ ڈس لیتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے۔

    زیرِ نظر ادب پارے سعادت حسن کی کتاب بعنوان "جنازے” سے لیے گئے ہیں جو دراصل ریڈیو کے لیے تحریر کردہ ان کے فیچرز پر مشتمل ہے۔ منٹو نے یہ فیچرز مشہور ہستیوں کی موت کے عنوان سے لکھے تھے جن میں قلوپطرہ بھی شامل تھی۔

    کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ انطونی کی خودکشی کی خبر سن کر پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ بھی خود کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔ قلوپطرہ کے دور اور اس کی زندگی سے متعلق محققین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اسے بھی صدیوں پرانی داستانوں اور افسانوں نے مشکوک بنادیا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں، قلوپطرہ 30 ویں صدی قبلِ مسیح میں 39 برس کی عمر میں وفات پا گئی تھی۔ وہ مصر کی ملکہ تھی۔

    محققین کے مطابق قلوپطرہ سلطنتِ روم میں اقتدار کے جھگڑے میں الجھی رہی اور اس کی موت زہریلے سانپ کے کاٹنے سے ہوئی تھی۔ مشہور ہے کہ اس نے خود کو سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔

    شہرۂ آفاق قلوپطرہ فرعون ملکہ تھی جس کے ہوش رُبا حسن نے سلطنتِ روم کے نام ور جرنیلوں کو اپنی ذہانت اور سیاسی تدبّر سے شکست دی، وہ سلطنتِ روم پر قابض ہونا چاہتی تھی۔

    اس کے لیے قلوپطرہ نے ہر سازش کی اور ہر موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کے عشق کا پہلا شکار روم کا شہرۂ آفاق حکم راں جولیس سیزر تھا، جو اس عورت کے خاوند سے اس کا ایک جھگڑا نمٹانے کے لیے بطور ثالث مصر آیا تھا، مگر اسے قلوپطرہ نے اپنی زلفوں کا اسیر بنالیا اور اس کی قربت اختیار کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے روم میں قیام پذیر ہوئی۔

    جب جولیس سیزر قتل ہوا تو قلوپطرہ نے اس کے نائب جنرل انطونی سے تعلقات استوار کرلیے، مگر اسے بھی دھوکا دیا اور پھر انطونی کی خودکشی کے بعد خود بھی موت کو گلے لگا لیا۔

  • وہ فرعون جس کا مقبرہ کھولنے والے سب لوگ مارے گئے

    وہ فرعون جس کا مقبرہ کھولنے والے سب لوگ مارے گئے

    مصر میں کئی دہائیوں سے ہزاروں سال قدیم فراعین کے مقبروں کو کھولا جارہا ہے اور ان پر تحقیق کی جارہی ہے، تاہم ایک مقبرہ ایسا بھی ہے جسے کھولنے والے زیادہ تر افراد جان سے ہپاتھ دھو بیٹھے۔

    نومبر 1922 میں جب ایک فرعون مصر طوطن خامن کا مقبرہ کھولا گیا تو یہ تاریخ کو کھوجنے کے لیے ایک اہم پیش رفت تھی۔

    اس مقبرے کو کھولنے والی ٹیم 17 افراد پر مشتمل تھی، جن میں سے 15 افراد اگلے 6 سال کے اندر اندر ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اترتے چلے گئے، ان تمام افراد کی موت غیر طبعی تھی۔

    جب یہ ٹیم طوطن خامن کے مقبرے کو کھولنے جارہی تھی تو مقبرے کے داخلی دروازے پر ایک عبارت دیکھی گئی تھی۔

    اس وقت تک قدیم مصری زبان کو پڑھا نہیں جاسکا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد جب ماہرین اس زبان کو پڑھنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے اس عبارت کی تشریح کی۔

    اس مقبرے پر لکھا تھا کہ جو سوئے ہوئے فرعون کو جگائے گا وہ مارا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ فرعون کو جگانے والے 15 افراد کی موت اسی بددعا کا نتیجہ تھی۔

    طوطن خانم کے اس مقبرے میں 5 ہزار سے زائد اشیا موجود تھیں، سونے کے مجسموں اور زیورات، سجے ہوئے ڈبوں اور کشتیوں کے علاوہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے کے روٹی اور گوشت کے ٹکڑے، دالیں اور کھجوریں وغیرہ بھی شامل تھیں۔

    طوطن خامن کے مقبرے کے چاروں کونوں میں خواتین کے مجسمے بھی موجود تھے، ان میں دیوی آئسس کا مجسمہ بھی شامل تھا۔

  • فرعون کی 3 ہزار سال قدیم ممی کے راز دریافت

    فرعون کی 3 ہزار سال قدیم ممی کے راز دریافت

    قاہرہ: مصر میں 3 ہزار سال قدیم ممی کے راز دریافت کرلیے گے، اس ممی کو 1881 میں دریافت کیا گیا تھا تاہم ابھی تک اسے کھولا نہیں گیا تھا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرعون امنحتب اول کی ممی کی باقیات کا معمہ سائنس دانوں نے 33 سو برس بعد حل کرلیا ہے، انہوں نے ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کی مدد سے مصر کے فرعون کا ایسا راز دریافت کرلیا جس پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا۔

    سائنس دانوں نے بتایا کہ فرعون امنحتب اول کی ممی کے پیٹ میں سونا بھرا ہوا ہے۔

    آر ٹی کے مطابق امنحتب اول مصر میں فراعنہ کے 18 ویں خاندان کا دوسرا حکمران تھا، اس کی ہلاکت 1504 یا 1506 قبل مسیح میں ہوئی تھی، اس وقت اسے بڑی مشکل سے حنوط کر کے محفوظ کیا گیا تھا۔

    انیسویں اور بیسویں صدی میں دریافت ہونے والی شاہی خاندان کی تمام ممیز کی چھان بین کی جا چکی ہے۔

    امنحتب اول واحد فرعون ہے جس کی ممی ماہرین مصریات نے کبھی کھولنے کی کوشش نہیں کی۔ کہتے ہیں کہ امنحتب اول کی ممی کو نہ کھولنے کی وجہ کوئی خوف نہیں تھا بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس کی ممی نہایت خوبصورت انداز میں محفوظ اور پھولوں سے مزین تھی۔

    خوبصورت مصنوعی چہرہ قیمتی پتھروں کی پرت سے آراستہ تھا۔

    قاہرہ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے امنحتب اول کی ممی کے راز دریافت کرنے کے لیے تھری ڈی ایم آر آئی کی مدد سے کام لیا۔ انہوں نے ملبوس ممی کی اندرونی دنیا کو دریافت کرنے کے لیے تاریخ میں پہلی بار نیا طریقہ کار اختیار کیا۔

    اس طریقہ کار کی بدولت سائنس دان یہ راز دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ امنحتب اول نامی فرعون نے 35 برس کی عمر پائی تھی۔

    اس کی لمبائی 5 فٹ 7 انچ تھی، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس زمانے میں ختنہ کا رواج تھا۔ یہ 3 ہزار برس پہلے کی بات ہے۔

    امنحتب اول کا معمہ حل کرنے کی کوشش پہلی بار نہیں ہوئی، اس سے قبل اس کی ممی پر چڑھے ہوئے غلاف کھول کر اس کی نعش کی مرمت کی گئی تھی اور اسے اکیسویں خاندان کے کاہنوں نے گیارہویں صدی قبل مسیح ترمیم کے بعد دوبارہ دفن کیا تھا۔

    امنحتب اول کو جنوبی مصر میں الدیر البحری میں دفن کیا گیا تھا جہاں سنہ 1881 میں ترمیم شدہ دیگر کئی شاہی ممیز دریافت ہوئی تھیں۔

    قاہرہ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ریسرچ کر کے یہ بھی بتایا ہے کہ امنحتب اول کی کھوپڑی میں بھیجا اب تک موجود ہے، اسے حنوط کرتے وقت نکالا نہیں گیا تھا۔

    یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کیونکہ فراعنہ کی جدید ریاست کے بیشتر حکمرانوں کو حنوط کرتے وقت ان کی کھوپڑیوں سے بھیجا نکال لیا گیا تھا، ان میں توت عنخ آمون اور رعمسیس دوم جیسے فراعنہ بھی شامل ہیں۔

  • دبئی ایکسپو: فرعون کا حال ہی میں دریافت ہونے والا تابوت نمائش کے لیے رکھ دیا گیا

    دبئی ایکسپو: فرعون کا حال ہی میں دریافت ہونے والا تابوت نمائش کے لیے رکھ دیا گیا

    دبئی: پوری دنیا میں جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے، اس دبئی ایکسپو میں فرعون کے تابوت کی بھی نمائش ہوگی۔

    عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق یکم اکتوبر سے منعقد ہونے والے دبئی ایکسپو میں فرعون کا تابوت بھی مصر کے پویلین میں نمائش کے لیے پہنچا دیا گیا ہے۔

    پروہت سامتک کا یہ قدیم تابوت رنگین لکڑی کا ہے جو حال ہی میں سقارہ کے علاقے میں دریافت ہوا ہے، مجموعی طور پر مصر کا پویلین آثار قدیمہ اور سیاحتی مقامات کو پیش کرے گا۔

    اس تابوت کو ایک بڑے ہار سے سجایا گیا ہے، جس کے آخری سرے پر باز کے سر بنائے گئے ہیں، اور فلک دیوی ’نوت‘ اپنے پر پھیلائے دکھائی دیتی ہے، جو سچ اور انصاف کی مات دیوی کے دو پنکھ اٹھائے ہوئے ہیں۔

    شاہ توتنخ آمون کے مجمسے کی چند جدید نقلیں بھی مصر کے پویلین میں رکھنے کے لیے پہنچ گئی ہیں، جن میں سونے کے تخت اور تاج بھی شامل ہیں۔

    قدیم مصری تہذیب میں تابوت کا تصور مذہبی اور علامتی نقطہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ یہ تدفین کے عمل کا سب سے اہم مرحلہ ہے۔

    واضح رہے کہ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے ’دبئی ایکسپو‘ کی تیاریاں جاری ہیں، جس کے پیش نظر سیاحوں کے لیے منفرد، آراہ دہ اور تیز ترین ٹرانسپورٹ سروس شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

  • میاں بیوی کی 2 ہزار سال قدیم حنوط شدہ ممیوں کے پاس قدیم چوہے بھی دریافت

    میاں بیوی کی 2 ہزار سال قدیم حنوط شدہ ممیوں کے پاس قدیم چوہے بھی دریافت

    سوہگ: فرعونوں کی سرزمین کہلائے جانے والے ملک مصر کے علاقے سوہگ کے ایک قدیم مقبرے سے 2 ہزار برس پرانی حنوط شدہ ممیاں اور درجنوں چوہے دریافت ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کے ایک علاقے سے کھدائی کے دوران دو ہزار برس قدیم دو ممیاں دریافت ہوئی ہیں جن کے قریب برتن اور حنوط شدہ چوہے اور دیگر جانور رکھے گئے تھے۔

    غیر ملکی میڈیا میں شایع شدہ رپورٹس کے مطابق مقبرے سے برآمد ہونے والی دو ممیوں کے اطراف میں حنوط شدہ چوہوں سمیت دیگر چھوٹے جانور ترتیب سے رکھے ہوئے تھے، کہا جا رہا ہے کہ یہ مقبرہ مصر کے ایک سینئر حاکم ٹوٹو اور اس کی بیوی کا ہے۔

    مقبرے سے ملنے والے پتھر کے تابوت سے متعدد فن پارے بھی برآمد ہوئے جن میں کفن دفن کے طریقے واضح کیے گئے تھے، آثار قدیمہ کے ماہرین نے بتایا کہ مقبرہ تقریباً 2 ہزار سال پرانا ہے۔

    آثار قدیمہ کے ماہرین نے بتایا کہ مقبرہ اس وقت دریافت ہوا جب اکتوبر میں اسمگلرز غیر قانونی طور پر نوادرات کے حصول کے لیے کھدائی کر رہے تھے۔

    آثار قدیمہ کی سپریم کونسل کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے بتایا کہ برآمد ہونے والا مقبرہ بہت خوب صورت اور رنگ برنگا ہے جو اب تک ہونے والی کئی دریافتوں کے مقابلے میں زیادہ قابل توجہ ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل مصر کے جنوبی علاقے سقارہ کے قریب مقبروں سے 6 ہزار برس پرانی درجنوں بلیوں اور بھنوروں کی حنوط شدہ لاشیں دریافت ہوئی تھیں۔