Tag: فروری انتقال

  • نسیم امروہوی: گلشنِ اردو کا ایک مہکتا ہوا نام

    نسیم امروہوی: گلشنِ اردو کا ایک مہکتا ہوا نام

    سرزمینِ‌ امروہہ کی کئی شخصیات نے فن و تخلیق کے میدان میں‌ بڑا نام و مقام بنایا اور سیّد قائم رضا نقوی المعروف نسیم امروہوی انہی میں سے ایک ہیں۔ نسیمُ اللّغات ان کی مشہور تصنیف ہے۔ نسیم امروہوی شاعر، ماہرِ لسانیات اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ 28 فروری 1987ء کو نسیم امروہوی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری
    کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری

    یہ نسیم امروہوی کا وہ شعر ہے جس کا مصرعِ ثانی ضربُ‌ المثل کا درجہ رکھتا ہے۔

    سیّد قائم رضا نقوی، نسیم امروہوی کا خاندانی نام تھا۔ وہ 24 اگست 1908ء کو ایک معروف علمی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نسیم امروہوی نے اس زمانے میں‌ حسبِ‌ دستور عربی اور فارسی کے علاوہ منطق، فلسفہ، فقہ، علمُ الکلام، تفسیر اور حدیث کی تعلیم مکمل کی اور زبان و بیان میں دل چسپی کے سبب لغت نویسی کا کام انجام دیا۔ تاہم شاعری ان کا وہ شوق تھا جس میں انھوں نے مرثیہ کی صنف کو بطور خاص اپنایا اور بڑا نام پیدا کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد نسیم امروہوی ہجرت کرکے خیر پور چلے آئے، بعد ازاں وہ کراچی منتقل ہوگئے اور اس شہر کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا حصّہ بنے۔ نسیم امروہوی نے غزل کے علاوہ قصیدہ، مثنوی، رباعی، گیت جیسی صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کی وجہِ شہرت مرثیہ نگاری ہے۔ ان کے کہے ہوئے مراثی کی تعداد 200 سے زائد ہے۔

    نسیم امروہوی نے ماہرِ‌ لسانیات کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور اردو بورڈ سے بطور مدیر منسلک رہے۔ انھوں‌ نے نسیمُ اللّغات کے علاوہ فرہنگِ اقبال بھی مرتب کی۔

  • ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں راگنی ‘آہو چشم’ مشہور تھیں۔ روزناموں اور فلمی رسائل میں ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ بطور اداکارہ راگنی کا مجموعی کیریئر اتنا متاثر کن نہیں رہا، لیکن خوب صورتی، اور ان کے نشیلے نینوں نے شائقینِ سنیما کو اُن کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ راگنی 2007ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ آج اداکارہ کی برسی ہے۔

    راگنی نے 1941ء میں مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں مرکزی کردار نبھایا تھا اور اسی فلم کے بعد وہ آہو چشم کے نام سے پکاری گئیں۔ ہدایت کار روپ۔ کے۔ شوری نے راگنی کو بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔ فلم دُلا بھٹی کی نمائش کے موقع پر سنیماؤں پر جو تشہیری بورڈ اور پوسٹر آویزاں تھے، ان پر راگنی کی تصویر نے سنیما بینوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔نشیلی آنکھوں والی اس خوب صورت ہیروئن کی فلم دُلا بھٹی کے متعدد نغمات فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہر خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو شائقین کی بڑی تعداد نے سنیماؤں‌ کا رخ کیا اور دُلا بھٹی کی شان دار کام یابی کے ساتھ راگنی بھی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔

    پاکستانی فلموں کی اس اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو اسے فلم میں کام دینے کا ارادہ کیا اور ان کے والد سے اجازت مانگی۔ ان کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ نشیلی آنکھوں والی اس لڑکی کو فلم دُلا بھٹی میں ہیروئن کا کردار سونپ دیا گیا۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ فلم کے ہیرو لاہور کے ایک رنگین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں راگنی کے ساتھ فلمی پردے پر بہت پذیرائی ملی۔

    دُلا بھٹی کے بعد متعدد بڑے فلم سازوں نے راگنی کو اپنی فلموں میں‌ کاسٹ کرنا چاہا، لیکن اداکارہ نے اپنے والد کی اجازت سے فلم ’ہمّت‘ سائن کی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی کام یاب رہی اور راگنی کو سنیما بینوں نے بہت سراہا۔ اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا ایک گیت انتہائی مقبول ہوا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ میں‌ کام کیا اور پھر انھیں بمبئی سے فلم آفر ہوئی۔ لیکن اداکارہ نے انکار کردیا۔ وہ لاہور نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔ لاہور کی فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

    تقسیم سے قبل ایک اور فلم 1946ء میں فرض کے نام سے بنائی گئی جس میں راگنی کے مدمقابل ایک نئے ہیرو کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت ملی اور وہ پاکستانی فلمی دنیا کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد راگنی نے بمبئی سے بھاری معاوضے پر فلم کی آفر قبول کرلی۔ یہ فلم شاہ جہان تھی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کار دار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں فلم شاہ جہان کو زبردست کام یابی نصیب ہوئی اور ہر طرف راگنی کا ڈنکا بجنے لگا۔ اداکارہ نے فلم کا معاوضہ اُس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی۔ مشہور ہے کہ ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے فلمی مرکز میں اداکارہ کی پہلی فلم ہی آخری ثابت ہوئی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اس کردار میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکارہ راگنی صاف گو مشہور تھیں۔ ان کے کھرے اور دو ٹوک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بد دل بھی کیا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ راگنی نے دو شادیاں‌ کیں۔ لیکن وقت بدلا تو یہ خوب صورت اور آہو چشم اداکارہ تنہائی کا شکار ہوگئی اور آخری ایّام میں‌ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھائی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

    راگنی نے لاہور کے ایک اسپتال میں دَم توڑا۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزارے۔ وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں‌ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے ان سے الگ ایک مکان میں منتقل ہوگئی تھیں۔

  • ‘شامِ اودھ’ کے خالق ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تذکرہ

    ‘شامِ اودھ’ کے خالق ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تذکرہ

    اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنا زورِ قلم منوانے والوں میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ایک اہم نام ہیں۔ وہ نقّاد، افسانہ اور ناول نگار کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ 1978ء میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے آج ہی کے دن اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی 22 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نواب محمد حسن خاں تھا۔ محمد احسن فاروقی کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے والد نے ایک انگریز اتالیق کی خدمات حاصل کی تھیں۔ 1929ء میں انھوں نے کوئنس اینگلو سنسکرت ہائی اسکول لکھنؤ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ لکھنؤ کے کرسچین کالج سے ایف اے کیا اور 1933ء میں جامعہ لکھنؤ سے بی اے کے بعد 1946ء کو انگریزی میں ایم اے کیا۔بعد میں انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کیا۔ اپنے انگریزی زبان کے ذوق و شوق کی وجہ سے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع چنا۔ جامعہ سے سند یافتہ احسن فاروقی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی آ بسے۔ پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بحسن و خوبی نبھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ بھی مشغول رہے۔ انگریزی زبان و ادب کے علاوہ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔ محمد احسن فاروقی ایک بلند پایہ ادیب اور نقّاد بھی تھے اور اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ زبان و بیان پر عبور اور ان کے وسیع مطالعہ نے ان کی تحریروں کو بھی خوب چمکایا اور اسی سبب ان کی تخلیقات اور مضامین میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کا علمی و ادبی کام ان کی فکر کے تنوع اور گہرائی کا بھی مظہر ہے۔

    اردو زبان کی بات کی جائے تو محمد احسن فاروقی کو صفِ اوّل کے ناقدین میں شمار کیا گیا۔ اردو میں ان کی یادگار کتابوں میں ‘اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخِ انگریزی ادب’ سرفہرست ہیں۔ آخر الذّکر کتاب ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانہ نگاری بھی کی اور ناول جیسی صنفِ ادب میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار اور اپنے زورِ قلم کو آزمایا۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ شامِ اودھ ان کا وہ ناول ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس ناول میں اودھ کے مٹتے ہوئے تمدن کی نہایت کام یاب جھلک پیش کی گئی ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کوئٹہ میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • قبلائی خان: وہ منگول بادشاہ جو اپنی محبوب رفیقِ حیات کی موت کے بعد زندگی سے اکتا گیا تھا!

    قبلائی خان: وہ منگول بادشاہ جو اپنی محبوب رفیقِ حیات کی موت کے بعد زندگی سے اکتا گیا تھا!

    دنیا کی تاریخ منگول خاندان کے بادشاہوں کی شان دار فتوحات اور عظیم الشّان سلطنت کے ساتھ ان کی سفاکی اور قتل و غارت گری کو فراموش نہیں کرسکتی جس کے لیے چنگیز خان مشہور ہے اور قبلائی خان بھی اپنے دادا کے نقشِ‌ قدم پر چلا، لیکن قبلائی خان کو ایک خوش مذاق اور ثقافت کو فروغ دینے والا فاتح بھی کہا جاتا ہے۔

    قبلائی خان نے سنہ 1260 میں چین کے شاہی تخت پر قبضہ کر کے وہاں 34 سال تک حکومت کی تھی۔ منگولوں نے چینی سونگ خاندان کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ دشمن جورچن کی کمر توڑ کر رکھ دی اور پھر سونگ کے بھی خلاف ہو گئے۔ چنگیز خان کے بعد اس کے پوتے قبلائی خان نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ محققین نے قبلائی خان کا سنہ پیدائش 1215ء لکھا ہے اور وہ 1294ء تک زندہ رہا۔ اس کی تاریخِ وفات 18 فروری ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ چنگیز خان کی وسیع و عریض‌ رقبے پر پھیلی ہوئی سلطنت کو سنبھالتے ہوئے اور سونگ خاندان سے بادشاہت چھیننے کے بعد سنہ 1271 میں قبلائی خان نے یوان خاندان کی بادشاہت کا باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا۔ اس نے چین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جن میں منگول اکثر چینیوں سے بالاتر ہوتے، تاہم محققین کہتے ہیں‌ کہ ہر شعبے میں نسلی بنیاد پر یہ تقسیم نہیں‌ کی گئی تھی۔ قبلائی خان نے اپنے طرزِ حکومت میں اعتدال اور اپنے قانون میں توازن کو اہمیت دی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس بہت سے مشیر چین سے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ریاست میں مذہب اور ثقافت کا امتزاج بھی دیکھا گیا اور اس دور میں سلطنت میں اسلام نے فروغ پایا اور مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ قبلائی خان کے دور میں بہت سے صوبوں میں مسلمان گورنر مقرر کیے گئے۔ اس دور میں منگول سلطنت نے مختلف شعبہ جات میں‌ ترقی کی اور تجارت و کاروباری سرگرمیاں‌ تیز ہوئیں۔ وینس کے مشہور سیاح مارکو پولو بھی قبلائی خان کے دربار میں‌ پہنچا تھا اور اس نے وہاں‌ بڑی عزّت اور مرتبہ پایا۔ مارکو پولو نے اپنے سفرنامے میں قبلائی خان کی تعریف کرتا ہے اور اس دور کے حالات و واقعات بیان کرتا ہے جو بہت دل چسپ بھی ہیں۔

    قبلائی خان کی خواہش رہی کہ وہ اپنی سلطنت کو وسعت دے اور اس کے لیے اس نے فتوحات کی جس حکمتِ عملی کو اپنایا اس میں بڑا خسارہ بھی ہوا۔ وہ موجودہ دور کے ویتام اور میانمار تک حملے کرنے کے علاوہ جاپان پر ناکام حملہ بھی کرچکا تھا جس میں پیسہ اور انسانی جانیں ضایع ہوئیں‌ اور ماہرین کہتے ہیں کہ منگول سلطنت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ اپنی‌ محبوب بیوی کی رحلت کی وجہ سے پژمردہ رہنے لگا تھا۔ اس دور کے مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ جینے سے گویا بیزار ہوگیا اور مٹاپے نے اسے جوڑوں کے درد میں مبتلا کردیا۔ قبلائی خان نے 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس کے بعد یوان خاندان کی چین پر تقریباً‌ سو سال تک حکومت رہی۔

    معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک رہا اور اس نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دل چسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ اس نے کئی محلاّت اور عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروائی تھیں۔ مشہور ہے کہ قبلائی خان کے ساتھ اس کی بیویوں‌ اور کنیزوں‌ کے علاوہ خادموں کو بھی اس خیال سے ساتھ دفنا دیا گیا تھا کہ وہ اگلے جہان میں بادشاہ کی خدمت کرسکیں۔

  • روبن گھوش کا تذکرہ جن کی دھنوں نے فلمی نغمات کو امر کر دیا

    روبن گھوش کا تذکرہ جن کی دھنوں نے فلمی نغمات کو امر کر دیا

    روبن گھوش کی بے مثال موسیقی کا سب سے نمایاں وصف جدت اور شوخ ردھم ہے۔ بلاشبہ روبن گھوش کی موسیقی میں کئی فلمی نغمات لازوال ثابت ہوئے۔ روبن گھوش 2016ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی فلم آئینہ نے روبن گھوش کو ان کے کریئر کی بلندیوں پر پہنچایا تھا۔

    روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلم سے کام کا آغاز کیا اور پھر اردو فلموں کی طرف آگئے۔ اردو فلم میں بطور موسیقار روبن گھوش کا سفر 1962 میں شروع ہوا تھا۔ ’چندا‘ وہ فلم تھی جس کے لیے روبن گھوش نے موسیقی ترتیب دی۔ اس زمانے میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی بڑے نام بطور موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ روبن گھوش ان کے درمیان ایک نوجوان موسیقار تھے جس نے فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھنے کے بعد جلد ہی اپنی محنت اور لگن سے اپنا راستہ بنا لیا۔ روبن گھوش نے اپنے کیریئر کے ابتدائی عرصہ میں فلم ’تلاش‘ کے لیے جو کام کیا، اس نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ یہ فلم 1963ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور روبن گھوش اس فلم کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ لے اڑے۔ روبن گھوش کی دھنیں‌ ان کی فن کارانہ چابک دستی اور فنِ موسیقی میں ان کے کمال کا نمونہ ہیں۔

    فلمی ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ فلم ’آئینہ‘ کو سپر ہٹ بنانے میں روبن گھوش کی لازوال دھنوں کا بڑا دخل تھا۔ اس فلم کے یہ گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے جن کے بول تھے ’کبھی میں سوچتا ہوں،‘ اسے مہدی حسن نے گایا تھا۔ اسی طرح ’مجھے دل سے نہ بھلانا وہ گیت تھا جس میں مہدی حسن کے ساتھ گلوکارہ مہناز نے آواز ملائی تھی۔ گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں‌ ایک مقبول نغمہ ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا‘ بھی اس فلم میں‌ شامل تھا۔

    روبن گھوش کی موسیقی میں کئی فلمی گیت بعد میں ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے اور انھیں شائقین نے ہر بار سراہا۔ یہ وہ سدا بہار گیت ہیں جنھیں‌ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اور یہ نغمات ایک نسل کے لیے اپنی نوجوانی اور خوشی و غم کی مناسبت سے یادگار ہیں۔ اخلاق احمد کی آواز میں روبن گھوش کی موسیقی میں اس گیت ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ نے سرحد پار بھی مقبولیت پائی تھی۔ آج بھی یہ نغمہ سماعتوں کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔

    یہ بھی درست ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں روبن گھوش کی لازوال موسیقی کا بڑا دخل رہا ہے۔ روبن گھوش کی موسیقی میں ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا… جیسے نغمات بھی شامل ہیں جن کو پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی سننے والوں نے بے حد پسند کیا۔

    موسیقار روبن گھوش کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا تعلق عرب دنیا کے مشہور شہر بغداد(عراق) سے تھا۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے۔ عراق میں روبن گھوش کے والد اپنے کنبے کے ساتھ بغرضِ ملازمت سکونت پذیر تھے۔ یہ عیسائی خاندان اس وقت ڈھاکہ چلا گیا جب روبن گھوش چھے سال تھے۔ وہیں نوعمری میں‌ روبن گھوش کو موسیقی سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اسی کو اپنا پیشہ بنایا۔ ڈھاکا ہی میں‌ روبن گھوش کی ملاقات اداکارہ شبنم سے ہوئی، وہ اس وقت فلم میں‌ معمولی کردار ادا کیا کرتی تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان سے شبنم نے لاہور اور کراچی میں فلمی صنعت میں اپنی قسمت آزمائی اور پھر وہ اپنے وقت کی مقبول ہیروئن بن کر سامنے آئیں۔ روبن گھوش سے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد یہاں وہ فلمی دنیا پر راج کرتی رہیں اور ان کے شوہر ایک کام یاب موسیقار کے طور پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ جوڑی 1996ء میں بعض وجوہ کی بناء پر بنگلہ دیش منتقل ہو گئی۔ جب کہ سقوطِ ڈھاکا کے وقت روبن گھوش نے مشرقی پاکستان کے بجائے مغربی پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ خاندان کراچی سے لاہور شفٹ ہو گیا تھا۔

    روبن گھوش کا اپنے وقت کے مقبول ہیرو وحید مراد کے ساتھ ایک دل چسپ مذاق فلمی دنیا میں مشہور ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وحید مراد بہت ہی سادہ طبیعت کے انسان تھے اور اکثر ان کے ساتھی ان سے مذاق کیا کرتے تھے۔ ان پر فلمایا جانے والا ایک مشہور نغمہ ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘ مجیب عالم نے گایا تھا جن کو وحید مراد نے دیکھا نہیں تھا۔ ایک فلمی تقریب میں مجیب عالم اپنی مخصوص چوڑے پائنچے کی پتلون پہنے موجود تھے تو وحید مراد انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ موسیقار روبن گھوش نے وحید مراد سے ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ یہ سینٹرل جیل کراچی میں پھانسیاں دیتے ہیں۔‘

    سادہ طبیعت وحید مراد مجیب عالم سے پوچھنے لگے، ’جب آپ پھانسی دیتے ہیں تو کیفیت کیا ہوتی ہے؟‘ اس دن تو وحید مراد چلے گئے مگر کچھ عرصے بعد کسی اور تقریب میں مجیب عالم کو گانا گانے کے لیے بلایا گیا تو وحید مراد نے کہا کہ ’میں مجیب عالم کو دیکھنا چاہتا ہوں جس کا گایا گانا مجھ پر فلمایا گیا ہے۔‘ جب اسٹیج پر مجیب عالم آئے تو وحید مراد کو یاد آیا کہ یہ وہ ہیں جن کا تعارف بطور جلّاد روبن گھوش ان سے کروا چکے ہیں۔ محفل کے بعد مجیب عالم سے ملاقات ہوئی تو وحید مراد نے معصومیت سے پوچھا کہ ’کیا آپ اب بھی پھانسیاں دیتے ہیں؟‘

    پاکستان میں ان کی آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ تھا جس کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔ انھیں چھے مرتبہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ روبن گھوش نے 76 برس کی عمر میں‌ ڈھاکہ میں وفات پائی۔

  • چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکسبت کے کئی اشعار کو اردو زبان میں ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے اور اُن کے فن اور شاعرانہ اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ 1926ء میں آج ہی کے دن پنڈت برج نرائن چکبست وفات پاگئے تھے۔ چکبست شاعری میں غالب سے کافی متاثر تھے اور اپنے ہم عصروں میں انھوں نے علّامہ اقبال کا اثر قبول کیا تھا۔ ان کی شاعری کو وطن پرستی، مذہبی، اور ان کے سیاسی رجحان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔

    چکبست کی غزل کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا

    زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعر ہی نہیں‌ عمدہ نثر نگار بھی تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعۂ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    مشہور ہے کہ چکبست نے پہلا شعر نو، دس برس کی عمر میں کہا تھا۔ وہ ترقی پسند اور آزاد خیال شخص تھے جس نے انگریزی ادب اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ اور اس مطالعہ کے ان کے ذہن اور فکر پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ انھوں نے صرف 35 سال کی عمر میں اردو شعراء کے درمیان صف اوّل میں جگہ حاصل کرلی تھی۔ چکبست صرف 44 سال زندہ رہ سکے۔ وہ ایک مقدمے کے سلسلے میں لکھنؤ سے بریلی گئے تھے اور واپسی پر ریل کے سفر میں ہی ان پر فالج کا حملہ ہوا۔

    چکبست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ اور وطن کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ چکبست کا مشاہدہ بے پناہ تھا، انھوں نے غلامی کے دور دیکھے اور ظلم و ستم جو انگریزوں نے روا رکھا، ان پر چکبست کی دقیق نظر تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومیت و وطنیت کا عنصر غالب ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو کے اس مشہور شاعر کی ایک غزل آپ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ آلِ احمد سُرور ایک نکتہ شناس، بلند فکر کے حامل نثر نگار، شاعر، سوانح نگار، صحافی اور قابل استاد بھی تھے۔ اردو زبان میں تنقید کے میدان میں انھوں نے نئے چراغ روشن کیے اور اپنی تحریروں سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور ادب میں جدیدیت کو رنگ جماتے دیکھا اور اس کا اثر بھی قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں رہے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا اور وہیں وفات پائی۔ دنیائے شعر و ادب میں سُرور اپنے وسیع مطالعہ کے ساتھ تجزیاتی فکر اور منفرد طرزِ تحریر کے سبب بلند مقام رکھتے ہیں۔

    انھوں نے تنقید کے میدان خاص مقام بنایا اور برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال پر خوب کام کیا۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔ ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ ایک انٹرویو میں آلِ احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ :

    "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گذرا میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔ وہاں بزرگوں کے مزار بڑی کثرت سے ہیں۔ جن کے عرس بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بدایوں کی تہذیبی و سماجی زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ مشاعروں کا بھی رواج تھا۔”

    پروفیسر صاحب کی تاریخ‌ِ پیدائش 9 ستمبر 1911ء ہے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں صدرِ شعبہ ہوئے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے قریب ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں رہے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کے مخالف سُرور نے ادب میں اس ہنگامی اور انقلابی تصور کا ساتھ نہیں دیا جس کا پرچار اس وقت جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سُرور کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو مغربی اور مشرقی ادب کے مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں اترے تھے۔ اسی وصف کی بنیاد پر ان کی تنقید میں مغرب سے استفادہ اور مشرقی رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    بطور شاعر سُرور کو دیکھا جائے تو ہم ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری محسوس کرتے ہیں۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    وہ دلّی میں مقیم تھے اور وہیں 9 فروری 2002ء کو انتقال کیا۔ آلِ احمد سُرور کو پدما بھوشن اور ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ٹھمری کے انگ میں غزل گائیکی کا ایک منفرد اور بڑا نام ملکہ پکھراج کا ہے۔ کہتے ہیں، سُر ان کے سامنے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو کچھ وہ گنگناتیں ذہن پر نقش ہو جاتا تھا۔ انھیں پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کے لوک گیت گانے میں ملکہ حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی مشہور مغنّیہ تھیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 2004ء ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔

    ملکہ پکھراج اپنی آواز، سر سنگیت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گاؤں میں محرم کے جلوس میں مرثیے سناتی ہوئی کسی طرح ریاست جمّوں کے مہاراجہ کے دربار تک پہنچیں اور وہاں سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی تک اپنے فن کی بدولت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہر خاص و عام میں‌ پہچانی گئیں۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے قیامِ پاکستان کے بعد ملکہ پکھراج کے لقب سے خوب شہرت سمیٹی۔ ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ موسیقی کی متعدد اصناف میں انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور یہ ملک بھر میں ملکہ پکھراج کی پہچان بھی بنا۔ اردو کے مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی تھی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی پر انھیں تقریب کے دوران اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیِ ریاست، امرا اور معزز مہمانوں جن میں‌ فن کار بھی شامل تھے، ان کے مداح ہوگئے۔مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب دار اس عمر میں‌ آواز اور فن پر گرفت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بعد میں مہاراجہ نے ملکہ پکھراج کو دربار سے وابستہ کر لیا اور ملکہ پکھراج اگلے نو سال تک وہیں رہیں۔

    ملکہ پکھراج کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی آپ بیتی بھی شایع ہوچکی ہے۔

    لاہور میں وفات پانے والی ملکہ پکھراج شاہ جمال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    آج اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کی برسی ہے۔ محمد خالد اختر ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ساری زندگی شہرت اور ستائش سے بے نیاز اور اپنے کام میں مگن رہے۔ بطور مزاح نگار انھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور ان کے اسلوبِ نگارش نے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات کو بھی متاثر کیا۔

    محمد خالد اختر نے افسانہ اور ناول لکھنے کے ساتھ سفرنامے بھی تحریر کیے اور تراجم بھی کیے۔ چاکیواڑہ میں وصال ان کا ایک مشہور ناول ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب کا انتقال 2 فروری 2002ء کو کراچی میں ہوا۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    مشہور انشاء پرداز اور ممتاز عربی داں محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔“

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ان کے ہر قاری کو متأثر کیا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور نثر نگار فیض احمد فیض نے اسے اردو کا اہم ناول کہا تھا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اس ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔

    23 جنوری 1920ء کو محمد خالد اختر نے پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی اور بعد میں صادق ایجرٹن کالج میں داخل ہوئے جہاں سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں محمد خالد اختر پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوگئے اور اسی کالج میں انھیں احمد ندیم قاسمی کا قرب بھی نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء میں محمد خالد اختر انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید تعلیم کے حصول کی خاطر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1948ء میں وطن واپس آئے اور یہاں ان کی ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے ہوا۔ وہ 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور چند نظمیں بھی کہیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    اردو کے اس نام ور ادب کی مزاح پر مبنی پہلی تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے افسانہ و ناول، سفرناموں کے علاوہ کئی علمی و ادبی مضامین اور شخصی بھی رقم ہوئے اور انھیں پسند کیا گیا۔ محمد خالد اختر کا ناول بیس سو گیارہ کے عنوان سے 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا تھا۔ پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں اور بعد میں افسانے کی کتاب کھویا ہوا افق شایع ہوئی جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن نے ان کی شگفتہ کہانیوں کے سلسلے ’چچا عبدالباقی‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی۔ محمد خالد اختر نے اندلس کے معروف سیاح ابنِ جُبیر کے سفرنامہ کی تلخیص اور ترجمہ بھی کیا جو 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے محمد خالد اختر سے متعلق ایک یادگار محفل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ’’بجیا‘‘ سب کے لیے محترم اور سب کی نظر میں‌ شفیق و مہربان ہستی تھیں۔ فاطمہ ثرّیا کے نام سے بجیا کا لفظ ایسا جڑا کہ ہر چھوٹا بڑا انھیں عزّت و احترام سے بجیا پکارتا تھا۔

    وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ شائستہ آداب، نرم گفتار، منکسرُ المزاج، مہذّب اور مہربان بجیا کا تعلق بھی ہندوستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ بجیا نے 10 فروری 2016ء کو وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا۔ بجیا اور ان کے بہن بھائی پاکستان میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوئے اور خوب نام و مقام بنایا۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا انہی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرۂ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی تحریر کیے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    انھوں‌ نے کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔