Tag: فروری برسی

  • امتیاز علی خاں عرشی:‌ بلند پایہ محقق اور ماہرِ غالبیات

    امتیاز علی خاں عرشی:‌ بلند پایہ محقق اور ماہرِ غالبیات

    امتیاز علی خاں عرشی کو اردو کے صفِ اوّل کے چند محققین میں شمار کیا جاتا ہے، جن کی ساری زندگی زبان و ادب میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں بسر ہوئی۔ اس میدان میں ان کے کارنامے نہایت اہم ہیں۔ امتیاز علی خاں عرشی کو ماہرِ غالبیات کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    محقق و مصنّف امتیاز علی خاں عرشی کا وطن رام پور ہے۔ ان کی پیدائش کا سال 1904ء ہے اور رام پور، بھارت ہی میں‌ 25 فروری 1981ء کو عرشی انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ زندگی بھر رام پور کے ایک عظیم علمی ادارے رضا لائبریری سے وابستہ رہے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔ عرشی نہ صرف خود اس ذخیرے سے خود فیض یاب ہوئے بلکہ جہانِ علم و ادب کو بھی اپنے علم اور مطالعہ سے خوب فیض پہنچایا۔ عرشی صاحب کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں ان کی تصانیف بھی نہایت اہم ہیں۔

    یہ درست ہے کہ تحقیق و تدوین کا کام جس دیدہ ریزی اور جگر کاوی کا مطالبہ کرتا ہے امتیاز علی خاں عرشی اس پر پورا اترتے ہیں۔ عرشی صاحب نے تصنیف و تالیف کی ابتدا اپنی تعلیم کے زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں کی۔ بعد میں رام پور ریاست کی عظیم الشان رضا لائبریری سے وابستہ ہو گئے۔ وہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اسی وصف کے سبب تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دے سکے۔خاص طور پر انھوں نے غالبیات کے ضمن میں بڑے وقیع و مستند اضافے کیے۔ عرشی صاحب نے 1947 میں ’’فرہنگ غالب‘‘ شائع کی اور ’’دیوان غالب نسخۂ عرشی‘‘ میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا۔ انشاء اللہ خان انشاء کی مختصر کہانی سلک گہر کو بھی عرشی صاحب نے اپنے دیباچے کے ساتھ 1948 میں اسٹیٹ پریس رام پور سے چھپوایا۔ محاورات کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں بیگمات کے محاوروں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی عربی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا جب کہ شاعروں اور ادیبوں سے متعلق متعدد مقالات بھی لکھے جو بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    امتیاز علی خاں عرشی کی تحقیقی کاوشوں اور ان کی بصیرت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی ہے کہ ان کی تحریروں پر بعض ناقدین نے اعتراض کرتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کی ہے مگر آج بھی عرشی کا نام اردو تحقیق کے چند بڑے ستونوں میں شامل ہے۔

  • نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

    نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

    نصراللہ خان کا شمار معروف فکاہیہ کالم نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور شخصی خاکے اور تذکرہ نویسی بھی خوب کی۔ نصراللہ خان اپنے منفرد اور شگفتہ اسلوب کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    بطور فکاہیہ کالم نویس نصراللہ خان کئی مشہور اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے اور ان کی نثر پر مشتمل دیگر تحاریر بھی اکثر ادبی صفحات کی زینت بنتی رہیں۔ نصر اللہ خان کا ایک وصف تحریر کی شگفتگی اور روانی تھی جس نے انھیں صاحبِ اسلوب کالم نگار بنایا۔

    نصر اللہ خان کی صحافت پر خامہ بگوش کے عنوان سے کالم لکھنے والے ادیب و محقق اور نقاد مشفق خواجہ نے کہا تھا: وہ اس زمانے کے آدمی ہیں جب صحافی سیاسی جماعتوں یا سرکاری ایجنسیوں کے زر خرید نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پاس ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی تھی۔

    نصر اللہ خان کو اردو صحافت کا ایک بڑا نام بھی تسلیم کیا جاتا ہے جن کی تحریریں ہر طبقۂ سماج میں‌ یکساں‌ پسند کی گئیں۔ نصر اللہ خان 11 نومبر 1920ء کو جاورہ، مالوہ کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک چھوٹی مسلمان ریاست تھی۔ بعد میں نصراللہ خان امرتسر چلے گئے۔ نصراللہ خان کے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں صوبہ سرحد کے شہر پشاور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا کی مادری زبان پشتو تھی اور پیشہ تجارت تھا۔ بعد ازاں وہ امرتسر میں آباد ہو گئے تھے۔ نصراللہ خان کے والد کا نام محمد عمر خان تھا جو تدریس سے وابستہ تھے اور ادب کا بھی شوق رکھتے تھے۔ نصراللہ خان نے باقاعدہ تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے ایم اے او (MAO) کالج امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ پھر اجمیر سے بی اے اور بی ٹی کرنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ تقسیم کے بعد 1949ء سے 1953ء کے دوران ریڈیو پاکستان کراچی میں پروڈیوسر رہے، بعد ازاں روزنامہ انقلاب لاہور، روزنامہ حرّیت کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہوگئے اور آداب عرض کے نام سے ان کا کالم قارئین تک پہنچنے لگا جو بہت مقبول ہوا۔ 25 فروری 2002 کو نصراللہ خان وفات پاگئے تھے۔

    اردو زبان میں نصراللہ خان کی صحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار سے ہوا تھا اور انہی کے زیر سایہ ان کی فکری اور قلمی تربیت ہوئی تھی۔ پاکستان میں اپنی صحافتی زندگی کے دوران خان صاحب نے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات کو قریب سے دیکھا اور ان سے بات چیت کا بھی موقع انھیں ملا۔ ان میں جید عالم دین، سیاست داں، فن کار، شاعر، ادیب، موسیقار الغرض‌ متنوع شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات سے اپنے تعلقات اور ملاقاتوں کو نصر اللہ خان نے اپنے منفرد اسلوب میں رقم کیا اور شخصی خاکوں کی ایک کتاب سامنے لائے جو بہت دل چسپ ہے اور کئی اہم واقعات ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کو ایک مستند حوالہ اور معیاری تذکرہ اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے خوش قسمتی سے مختلف علاقوں کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھا اپنے وقت کے مشاہیر سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان کی صحبت میں وقت گزارا تھا۔ تقسیم سے قبل نصر اللہ خان بھوپال، امرتسر، اجمیر، ناگپور اور لاہور میں بھی رہ چکے تھے۔ نصر اللہ خان کی یہ تصنیف "کیا قافلہ جاتا ہے” کے عنوان سے پہلی بار 1984 میں شائع ہوئی تھی۔ مصنف کی دوسری تصانیف میں کالموں کا مجموعہ بات سے بات، ڈرامہ لائٹ ہاؤس کے محافظ، اور ان کی سوانح عمری اک شخص مجھی سا تھا، شامل ہیں۔

  • مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا نے فلم ‘مغلِ اعظم’ میں ‘انار کلی’ کا کردار قبول کر کے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان گویا راتوں رات طے کر لیے۔ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں اور انھیں ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج اداکارہ مدھو بالا کی برسی ہے۔‌

    تاریخ کے اوراق الٹیں‌ تو مغلیہ دور کی ایک کنیز انار کلی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے بادشاہ کے حکم پر دیوار میں‌ زندہ چنوا دیا گیا تھا۔‌ فلم میں‌ یہ کردار اداکارہ شہناز، نرگس اور نوتن کو آفر ہوا تھا، لیکن ان کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا اور یوں لازوال شہرت اداکارہ مدھو بالا کا مقدر بنی۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے فلمی پردے کے لیے اپنا نام مدھو بالا رکھا تھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت مدھو بالا کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور پھر مغلِ اعظم میں لاجواب اداکاری کے ساتھ ان کے حسن وجمال کا بھی ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران مدھو بالا بیمار تھیں، لیکن انھوں نے شوٹنگ جاری رکھی۔ ہندوستانی سنیما میں یہ فلم آج بھی ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کنیز کا کردار نبھانے کے لیے مدھو بالا کا رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ فلم ساز کو بہت موزوں نظر آیا تھا اور واقعتاً مدھو بالا کے. آصف کی توقعات پر پورا اتریں اور بیماری کے باوجود اپنا کردار بہت عمدگی سے نبھایا۔

    لاکھوں دلوں‌ کی دھڑکن اور روپ کی رانی مدھو بالا نے عمر بہت تھوڑی پائی۔ وہ صرف 36 زندہ رہ سکیں اور اس عرصہ میں بھی 9 سال وہ تھے جب مدھو بالا بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود تھیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھا کہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے کہا تھاکہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، ان کی بیٹی بہت زیادہ کام نہیں‌ کرسکتی اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی اس کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔

    ممتاز جس کنبے کی فرد تھی وہ والدین اور گیارہ بہن بھائیوں پر مشتمل تھا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی کے ملازم تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی منتقل ہوگئے اور اپنی بیٹی ممتاز کو چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوانے میں کام یاب رہے۔ بمبئی میں‌ مقیم ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ لیکن عطاء اللہ کو بیٹی کی صحت سے زیادہ اس کی کمائی سے غرض تھی۔ ممتاز بڑی ہورہی تھی اور فلم کی دنیا میں اس کے حسن کا جادو چل چکا تھا اور پھر وہ وقت آیا جب عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا الم ناک پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جن کے بعد وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ گئی۔ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    اداکارہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کے عشق کی داستان بھی فلمی دنیا میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات، اپنے والد کی لالچی اور خود غرضانہ طبیعت اور اپنی بیماری سے پریشان مدھو بالا نے یہ سوچ کر اس وقت کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ 1960 میں ان کی شادی ہوئی۔ لیکن گلوکار کشور کمار بھی مدھو بالا کو خوشیاں نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی نوبیاہتا کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، آگے پیچھے پھرنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری اور باہر کی دنیا میں ہر ایک مدھو بالا کے حسن و جمال اور ان کے فنِ اداکاری کا قائل تھا، مگر مدھو بالا کو حقیقی خوشیاں اور سکھ نصیب نہ ہوسکا۔

    فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی بھی عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے جن کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا ایک واقعہ انیس امروہوی نے یوں بیان کیا ہے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    اداکارہ مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار ادا کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا آغاز مدھو بالا نے کیا تھا۔ اداکارہ کی آخری آرام گاہ ممبئی میں ہے۔

  • نکولائی گوگول: روسی سماج کا ایک حقیقت نگار

    نکولائی گوگول: روسی سماج کا ایک حقیقت نگار

    نکولائی گوگول کا نام روس کے اعلیٰ پائے کے ادیب اور بلند فکر تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے جس کے لیے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار دوستوفسکی نے کہا تھا، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    اوور کوٹ ناقدین کی نظر میں گوگول کی وہ شاہ کار کہانی ہے جس نے روسی سماج کی حقیقی تصویر پیش کی۔ یہ ایک سرکاری کلرک کی کہانی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ کلرک سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

    یوکرین میں پیدا ہونے والے نکولائی گوگول نے اس خطّے پر روسی بادشاہت دیکھی۔ بعد میں سرد جنگ تمام ہوئی تو یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا تھا اور آج یہاں جنگ مسلط ہے۔ گوگول 1809ء میں پیدا ہوا۔ اس کا نام نکولائی واسیلیوچ گوگول رکھا گیا اور بعد میں اسے روسی ادب میں گوگول کے نام سے شہرت ملی۔ گوگول ان خوش قسمت ادیبوں میں‌ سے ایک ہے جسے اس کی زندگی ہی میں بطور ناول نگار شہرت مل گئی تھی۔ گوگول نے اپنے اردگرد بھوک، افلاس اور غلامی میں جکڑے ہوئے انسان دیکھے تھے جنھیں مٹھی بھر طاقت ور اور امیر لوگ اپنا غلام سمجھتے تھے۔ روسی سماج مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش یہ سب اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ اس کے علاوہ گوگول نے بہت سے ایسے معاشرتی مسائل اور خامیاں دیکھیں جو دراصل استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ وہ شروع ہی سے حساس طبع تھا اور اس کے والد تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھتے تھے جب کہ خاندان کے بعض افراد بھی تھیٹر اور فن و ادب سے وابستہ تھے۔ اسی نے گوگول کو بھی لکھنے پر آمادہ کیا اور اس نے سماج کے مسائل اور ظلم و ستم کے واقعات کو کہانیوں کی شکل میں بیان کرنا شروع کردیا۔ اس کے قلم کی ایک خاصیت گہرے طنز کے ساتھ مزاح کی چاشنی تھی جس نے گوگول کو قارئین میں‌ مقبول بنایا۔

    گوگول کے والد کا انتقال ہوا تو اس کی عمر 15 برس تھی۔ والد کی وجہ سے گوگول کو اداکاری کا شوق بھی ہوگیا تھا۔ اس نے اداکاری کے لیے کوشش بھی کی مگر پھر قلم کی کشش نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کر کے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ وہ سرکاری نوکری کی خواہش رکھتا تھا اور اس کے حصول میں ناکامی کے بعد بطور اداکار جرمنی پہنچ گیا لیکن وہاں‌ اسے کم اجرت پر نوکری مل گئی، جسے جلد ہی خیرباد بھی کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور پھر انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچانے کا خیال آیا۔ لیکن وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ ان کہانیوں کو اس قدر پسند کیا جائے گا۔ اس نے ملک گیر شہرت پائی اور 1831ء اور 1832ء میں‌ اس کی کہانیاں‌ روس میں مقبول ہوئیں۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس نے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

    آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے دل کش اسلوب میں قارئین کے سامنے پیش کیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ گوگول کی پرتاثیر کہانیاں دراصل اس کی حقیقیت نگاری کا وہ روپ ہیں جسے اس دور میں روایات سے انحراف اور بغاوت تصوّر کیا گیا تھا۔

  • آغا طالش: فلم کی دنیا کا ایک بڑا نام

    آغا طالش: فلم کی دنیا کا ایک بڑا نام

    آج آغا طالش کی برسی ہے جنھیں پاکستانی فلمی صنعت کے لیجنڈری اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اگرچہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ہی اداکاری شروع کر چکے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا میں انھیں لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    آغا طالش کی شخصیت کے کئی دل چسپ اور باوقار پہلو ہیں جب کہ ان کے فن و کمال کا اعتراف فلمی ناقدین اور ان کے ہم عصر بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کے دو ہی شوق تھے، ایک اداکاری اور دوسرا دریا پر جا کر مچھلیاں پکڑنا۔ آغا صاحب نے دونوں کاموں میں زندگی گزار دی۔ وہ جوانی میں ترقی پسند رہے اور نام ور ادیبوں کے ساتھ ان کی دوستی اور تعلقات رہے۔ آغا طالش کی مادری زبان فارسی تھی اور ان کی شادی بھی ایسے ہی خاندان میں ہوئی تھی۔ اہلیہ انتہائی پردہ دار اور مذہبی خاتون تھیں۔ آغا طالش کو اداکار بننے کا شوق ریڈیو سے صدا کاری کے دوران ہوا۔ وہ اداکار تو بعد میں بنے تھے مگر ریڈیو پر صدا کاری نے ان کو ایک اچھا اداکار بننے میں بہت مدد دی۔ اس سے قبل انھیں فوج میں نوکری مل گئی تھی جسے اس شوق کی خاطر چھوڑ کر آغا طالش لاہور سے ممبئی چلے گئے تھے۔ اُن دنوں ادیبوں اور شاعروں کی ترقی پسند تحریک عروج پر تھی، لہٰذا آغا طالش بھی ان کے ہمنوا ہو گئے۔ ان کی دوستی کرشن چندر، کیفی اعظمی، نیاز حیدر، سبط حسن، ابراہیم جلیس، سجاد ظہیر، علی سردار جعفری اور ساحر لدھیانوی جیسے عظیم شاعروں اور ادیبوں سے ہو گئی۔ بعد میں لاہور میں ان کی دوستی فلم انڈسٹری کے ترقی پسند ادیب اور شاعر ریاض شاہد سے ہوئی جو تا دمِ حیات برقرار رہی۔

    اداکار طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں تھے اور جب طالش کی پیدائش کے بعد ان کا تبادلہ متھرا ہوا تو وہیں‌ آغا طالش نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھیں بمبئی میں کام تو مل گیا تھا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرنا پڑی لیکن طالش نے پاکستان میں بریک تھرو فلم سات لاکھ سے حاصل کیا جس میں سلیم رضا کا سدا بہار گیت ان پر عکس بند کیا گیا جس کے بول تھے، یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ لیکن ان کی اصل پہچان فلم شہید کا منفرد کردار تھا جو 1962 میں پاکستانی فلم بینوں‌ کو بہت بھایا۔ اس فلم میں طالش نے ایک انگریز "اجنبی” کا کردار ادا کیا تھا جو تیل کی تلاش میں صحرائے عرب کی خاک چھانتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتا ہے اور مقامی قبیلے میں نفاق ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ طالش نے اس کردار کو بخوبی نبھایا اور اس یادگار کردار کے بعد انھیں فلموں‌ میں بڑے اور بھاری رول ملنے لگے۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امراؤ جان ادا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    1962 میں فلم شہید، 1964 کی فلم فرنگی اور چند سال بعد زرقا وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آغا طالش کو صفِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ان فلموں‌ میں طالش کو ان کے کرداروں نے امر کر دیا۔ تقسیم سے قبل ان کی پہلی فلم سرائے کے باہر (1947) تھی جو لاہور میں بنی تھی۔ تقسیم کے بعد طالش کی پہلی فلم نتھ بتائی جاتی ہے جو 1952 میں‌ ریلیز ہوئی لیکن ابتدائی درجنوں فلموں میں ان کے کردار شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کرسکے تھے۔ اس عرصہ میں طالش ہیرو بنے، ولن کا رول کیا اور معاون اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی پردے پر دکھائی دیے۔ مگر اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے وہ معیاری پرفارمنس دی کہ سنیما بین اور فلمی نقاد بھی ان کے معترف ہوگئے۔ وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکار نے دہائیوں پر محیط اپنے فنی سفر میں فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • صہباؔ اختر: جہانِ سخن کا ایک معروف نام

    صہباؔ اختر: جہانِ سخن کا ایک معروف نام

    صہباؔ اختر کے اشعار آج شاید ہی ادب اور شاعری کا شغف رکھنے والے کسی نوجوان کو یاد ہوں‌ اور بہت ممکن ہے کہ اکثریت ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو، لیکن یہ تعجب خیز بھی نہیں۔ آج نئی نسل کے لیے کئی نام نئے ہیں کہ یہ یہی وقت کی گردش اور الٹ پھیر ہے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں جو شاعر مشہور ہوئے، ان میں صہبا صاحب کا نام ضرور شامل ہے۔ انھیں شاعرِ پاکستان بھی کہا گیا اور یہ ان کا امتیاز ہے۔

    صہبا اختر کو مشاعرہ پڑھنے کے ان کے خاص انداز کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جو طنطنہ، رعب اور گھن گرج ان کی آواز میں تھی، وہ انہی سے مخصوص ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی اس لحن میں غزل یا نظم نہیں پڑھ سکا۔ آج اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا یومِ وفات ہے۔

    صہبا اختر نے غزل کے علاوہ حمد و نعت، مرثیہ گوئی، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور گیت نگاری کے ساتھ ان کی ملّی شاعری نے انھیں بڑی شہرت دی۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ بعد از مرگ صہبا صاحب کے لیے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔

    صہبا صاحب کو غزل اور نظم گوئی میں کمال و شہرت نصیب ہوئی۔ ان کی بیشتر نظمیں وطن سے محبت اور اس مٹی سے پیار کا والہانہ اظہار ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ان مسائل کو بھی شاعری میں خوب صورتی اور شدت سے بیان کرتے ہیں‌ کہ جو ان کی نظر میں وطن کی صبحِ درخشاں کو تیرگی اور تاریکی کا شکار کرسکتے ہیں۔ ان کا لحن اور جذبہ ان کی شاعری میں دو آتشہ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

    صہباؔ اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور صہبا اختر کم عمری میں شعر کہنے لگے۔ انھوں نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا، علی گڑھ سے بی اے کی سند لی اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمۂ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    احمد ندیم قاسمی نے اپنے مضمون میں‌ صہباؔ صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا:’’صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے۔ بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں۔ یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘

    صہبا صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے، نہایت کم گو تھے اور دوسرو‌ں کے متعلق یا اپنے ہم عصر شعراء کی عیب جوئی یا کسی پر نکتہ چینی کبھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک مشاعرے کا احوال اور صہبا صاحب کا یہ تذکرہ پڑھیے: ’’غالباً 1955ء کا ذکر ہے، نواب شاہ میں ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کراچی سے شرکت کرنے والوں میں ایک چھیل چھبیلا جوان العمر شاعر بھی تھا۔ گھنے گھنے، گھنگریالے سیاہ اور چمکتے دمکتے بال، گول مٹول سا بھرا بھرا چہرہ، خمار آلود شربتی آنکھیں، ستواں ناک، متناسب لب اور دل کش قد و قامت کے ساتھ ساتھ تنومند جسم پر ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور صاف و شفاف لٹھے کا ڈھیلا پاجامہ۔ یہ تھی صہبا اختر کی سج دھج، جنھوں نے اپنی باری آنے پر بڑی لمبی بحر کی غزل چھیڑی اور وہ بھی منجھے ہوئے ترنم سے۔ حاضرین منتظر ہیں کہ ذرا کہیں رکیں تو داد و تحسین سے نوازے جائیں۔ اُدھر بھائی صہبا اختر کی محویت کا یہ عالم کہ جیسے ایک ہی سانس میں پوری غزل سنا ڈالیں گے۔ مسئلہ پوری غزل کا نہیں بلکہ مطلع ہی ایسی بحرِ طویل کو تسخیر کر رہا تھا کہ سانس لینے کی فرصت کسے تھی۔ بہرکیف غزل خوب جمی اور داد بھی بہت ملی۔

    صہبا اختر کی غزل ملاحظہ کیجیے۔

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    صہبا اختر ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے لیے بھی پابندی سے لکھتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا شامل ہیں۔

    صہباؔ اختر 19 فروری 1996ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھیں کراچی میں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مائیکل انجلو:‌ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا آرٹسٹ

    مائیکل انجلو:‌ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا آرٹسٹ

    مائیکل انجلو کو دنیا اطالوی مصور اور مجسمہ ساز کے طور پر پہچانتی ہے جس کے فن پارے بڑی بڑی آرٹ گیلریوں کی زینت ہیں۔ مائیکل انجلو کے فن اور شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں‌ اور ناقدین نے اس کے فن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

    پروفیسر احمد عقیل روبی کو ہم بحیثیت قلم کار جہاں متعدد حیثیتوں میں جانتے ہیں، وہیں وہ ایک ایسے سوانح نگار اور مضمون نویس بھی تھے جس نے مشاہیرِ عالم پر کئی معلومات افزا مضامین رقم کیے اور ان کے حالاتِ‌ زندگی ترجمہ کرتے ہوئے نہایت اسے اپنے دل چسپ اور پُرلطف اسلوب میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔ مائیکل اینجلو کو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مؤرخین نے اس کی تاریخِ وفات 18 فروری 1564ء لکھی ہے۔ آج اس مصور اور مجسمہ ساز کے یومِ‌ وفات کی مناسبت سے احمد عقیل روبی کی یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    پادری دوست نے ایک بار اس سے بڑے افسوس ناک لہجے میں کہا:’’کاش تم نے شادی کی ہوتی، تمہارے بھی دو چار بچے ہوتے۔‘‘

    اس نے پوچھا:’’ تو پھر کیا ہوتا؟‘‘

    ’’کم از کم آنے والی نسلوں تک تمہارا نام تو پہنچتا۔ تمہاری نسل تو پھلتی پھولتی۔‘‘

    ’’یہ دونوں چیزیں میرے فن میں موجود ہیں جو ہر پل مجھے سرگرمِ عمل رکھتی ہیں۔ میں جو فن چھوڑ کر جاؤں گا، یہی میرے بچّے ہیں۔ اگرچہ یہ فن اس قابل نہیں لیکن میں اسی حوالے سے آنے والی نسلوں میں زندہ رہوں گا۔‘‘

    اس نے اپنے فن کے بارے میں کم اندازہ لگایا۔ وہ اپنے اس عظیم فنی ورثے کے حوالے سے آج بھی زندہ ہے اور جب تک فنی باریکیوں کو سمجھنے والے زندہ ہیں وہ زندہ رہے گا۔ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا یہ شخص مائیکل اینجلو ہے جو 1475ء میں کیپرس (Caprese) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ اس قصبے کا مشیر تھا جسے پوڈیسٹا کہا جاتا تھا۔ مائیکل ابھی سات سال کا ہی تھا کہ اس کی ماں فوت ہوگئی۔ مائیکل اینجلو کو ایک سنگ تراش اور اس کی بیوی کے ساتھ رہنا پڑا جہاں اس کے باپ کی پتھر کی فیکٹری تھی۔ اس کے والد نے 13 سال کی عمر میں اسے پڑھنے کے لئے فلورنس بھیجا مگر اسے پڑھائی لکھائی سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس نے تحریر کے مقابلے میں ڈرائنگ، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کو اہمیت دی اور مصوری سے اسے بہتر تصور کیا۔

    مائیکل اینجلو کی نظر میں فطرت نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ بڑے بڑے اعلیٰ شاہکار پتھروں میں قید کر دیے ہیں، اس کے نزدیک مجسمہ ساز کا یہ کام ہے کہ وہ انہیں تراش کے پتھروں کی قید سے رہائی دلائے۔ اس کا خیال تھا کہ ہر پتھر میں ایک مجسمہ ہے۔ مجسمہ ساز غیر ضروری پتھر الگ کر کے نقش و نگار نمایاں کرتا ہے۔

    سقراط نے برسوں پہلے یہی بات کہی تھی کہ پتھر میں ایک شکل موجود ہوتی ہے۔ مجسمہ ساز اسے پتھر سے باہر نکالتا ہے۔ مائیکل اینجلو نے اسی بات کی تائید کی ہے۔ اردو کا ایک نامعلوم شاعر اس بات کو اپنے شعر میں کچھ یوں لکھتا ہے:

    جب کسی سنگ سے ٹھوکر کھائی
    نا تراشیدہ ضنم یاد آئے

    ( احمد عقیل روبی کی کتاب ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے اقتباس)

  • حیات اللہ انصاری:‌ مختصر افسانہ نگاری میں ایک اہم نام

    حیات اللہ انصاری:‌ مختصر افسانہ نگاری میں ایک اہم نام

    اردو ادب میں کئی نام ایسے ہیں جنھیں ہم فراموش کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ناقدین نے کئی دوسرے ادیبوں‌ کی طرح ان کے فن و تخلیق کو موضوع نہیں بنایا۔ حیاتُ اللہ انصاری انہی میں سے ایک ہیں۔

    ان کا نام اگرچہ مختصر افسانہ نویس کے طور پر بہت اہم رہا ہے، لیکن اکثر اہلِ‌ قلم کا خیال ہے کہ زندگی میں ان کے فن و تخلیق کا اعتراف بہت کم ہی کیا جاسکا اور ناقدین ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ افسانہ و ناول نگار، نقّاد، اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے گئے حیاتُ اللہ انصاری کی آج برسی ہے۔

    حیات اللہ انصاری کے افسانہ بعنوان ‘‘بڈھا سود خور’’ نے ادبی دنیا کو اس وقت اپنی جانب متوجہ کیا تھا جب فکشن نگاری میں کرشن چندر جیسا نام ہر طرف سنائی دیتا تھا۔ ان کے علاوہ راجندر سنگھ بیدی اور کئی نام پہلے ہی اردو ادب کے قارئین میں مقبول تھے۔ یہ وہ افسانہ تھا جس سے قلم کار کے حقیقت پسند اور انسان دوست ہونے کا علم ہوتا ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر یہ حیات اللہ انصاری کا پہلا مطبوعہ افسانہ تھا۔ اس کی اشاعت 1930ء میں ہوئی۔

    مختصر کہانی میں حیات اللہ انصاری کو بڑا کمال حاصل تھا۔ ان کے افسانے بہت پسند کیے گئے، اور اپنے ہم عصروں میں انھیں اپنی مختصر نویسی کی وجہ سے امتیاز حاصل رہا۔ حیات اللہ انصاری کے افسانے اپنے فن، تکنیک ، موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے اردو کے افسانوی ادب میں گراں قدر سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبردست تنوع پایاجاتا ہے۔ جذبات نگاری اور حقیقت نگاری ان کے افسانوں کی ایک اہم پہچان ہے۔ ان کے افسانے نادر تشبیہات و استعارات سے مزین نظر آتے ہیں۔ ان کی جدتِ طبع نے افسانہ نگاری کو بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے۔

    متحدہ ہندوستان کے اس ادیب نے تقسیم کے بعد بھارت میں ہی رہنا پسند کیا جہاں وہ ایک ماہرِ تعلیم اور تحریکِ اردو کے پُرجوش اور مضبوط کارکن کے طور پر بھی ابھرے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری بھی اسی دور میں افسانوی ادب میں نام بنا رہے تھے۔ ان کے درمیان حیات اللہ انصاری انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی پر اپنی تخلیقات کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ فنی اعتبار سے حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے بھی قارئین کو متوجہ اور ناقدین کو متاثر کیا۔ ان کا طرزِ‌ بیان خوب صورت اور تحریر دل نشیں ہونے کے ساتھ موضوع اپنی بلند خیالی اور مقصدیت سے بھرپور رہا ہے۔ حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا تھا۔ ان کی دوسری کتاب ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرے مجموعے کی اشاعت ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے ہوئی۔ 1991 میں ‘‘ٹھکانہ’’ شایع ہوئی اور یہ ان کی چوتھی کتاب تھی۔ حیاتُ اللہ انصاری نے ناول بھی لکھا جس میں‌ ‘‘لہو کے پھول’’ کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ ان کا پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا اور اس پر بعد میں بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔ ایک ناول ’’گھروندا‘‘ کے نام سے اور ناولٹ بھی کتابی شکل میں‌ سامنے آئے۔

    حیات اللہ انصاری مدیر ہفت روزہ ہندوستان، بانی مدیر قومی آواز لکھنؤ، مدیر ہفت روزہ سب ساتھ، مدیر ہفت روزہ سچ رنگ بھی رہے۔ اردو زبان کے لیے بھارت میں انھوں‌ نے بڑی خدمات انجام دیں اور اسے آئین اور حکومتی وعدوں‌ کے مطابق اس کا مقام دلانے کے لیے کوششیں‌ کرتے رہے۔

    وہ لکھنؤ میں 1912 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل ہوئے اور اگلی جماعتوں سے کام یاب ہونے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ سیاست بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ لیکن پہلے وہ بطور قلم کار ترقی پسند تحریک سے جڑے اور پھر اپنے سیاسی نظریات کے تحت کانگریس کے پلیٹ فارم پر نظر آئے۔ وہ بحیثیت سیاست داں بھی متحرک رہے۔

    حیات اللہ انصاری 1999 میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

  • شبنم رومانی: معروف شاعر اور مقبول کالم نگار

    شبنم رومانی: معروف شاعر اور مقبول کالم نگار

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی ہے۔ وہ ادبی دنیا اور باذوق قارئین میں اپنی کالم نگاری بعنوان ہائیڈ پارک سے بہت مقبول تھے۔ 2009ء میں شبنم رومانی آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    شبنم رومانی نے 30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی تھا۔ شبنم ان کا تخلّص تھا۔ بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ یہاں ملازمت کے ساتھ شاعری اور ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور جلد ہی کالم نگار کے طور پر بھی قارئین کی توجہ حاصل کر لی۔ شبنم رومانی کئی ادبی اور اشاعتی اداروں کے بانی اور مشیر رہنے کے علاوہ "ارباب قلم فاؤنڈیشن” اور "مجنوں اکیڈمی” کے اعزازی سیکریٹری اور "افکار فاؤنڈیشن” کے ٹرسٹی بھی رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی "اقدار” بھی شائع ہوتا رہا۔

    ہائیڈ پارک کے عنوان سے ان کے ادبی کالم طویل عرصے تک روزنامہ مشرق میں شایع ہوتے رہے جو بعد میں‌ کتابی شکل میں‌ یکجا کیے گئے۔ شبنم رومانی کے شعری مجموعے مثنوی سیرِ کراچی، جزیرہ، حرفِ نسبت، تہمت اور دوسرا ہمالا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ شبنم رومانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
    وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے

    سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت
    مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے

    نگاہِ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا
    حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضربِ کاری ہے

    مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
    انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے

    خفا نہ ہو تو دکھا دیں ہم آئنہ تم کو
    ہمیں قبول کہ ساری خطا ہماری ہے

    جہاں پناہ محبت جناب شبنمؔ ہیں
    زبان شعر میں فرمان شوق جاری ہے

    شبنم رومانی عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مستند مؤرخ اور محقق مولائی شیدائی کا تذکرہ

    مستند مؤرخ اور محقق مولائی شیدائی کا تذکرہ

    12 فروری 1978ء کو مولائی شیدائی اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دارِ بقا کو چل دیے تھے۔ انھیں علم و ادب کی دنیا میں ایک مؤرخ اور جیّد صحافی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آج مولائی شیدائی کی برسی ہے۔

    معروف سندھی ادیب مولائی شیدائی کا اصل نام میر رحیم داد خان تھا۔ وہ سکھر میں 1894 میں پیدا ہوئے اور وہیں انتقال کیا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی کی ابتدائی تعلیم و تربیت مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی کے زیر سایہ مکمل ہوئی۔ انھیں شروع ہی سے مطالعہ کا شوق ہوگیا تھا اور بعد میں وہ تحقیق کی جانب راغب ہوئے۔ انھوں نے سکھر کے اینگلو ورنیکیولر اسکول میں داخلہ لے کر چھے درجہ تک انگریزی کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت شروع کر دی۔ مطالعہ کے شوق نے مولائی شیدائی کو تاریخ نویسی پر اکسایا اور انھوں نے بطور محقق، مصنّف اور مترجم سندھی اور اردو زبان کے قارئین کی توجہ حاصل کی۔ 1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔ یہی وہ مضمون تھا جسے پڑھ کر اس زمانے کی ایک علمی و ادبی شخصیت اور عالمِ دین مولانا دین محمد وفائی بہت متاثر ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے مولائی شیدائی کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں مزید لکھنے پر آمادہ کیا۔ یوں رحیم داد خان نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کرکے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔

    رحیم داد خان المعروف مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوگئے تھے۔ اس عرصہ میں مضامین تحریر کرنے کے ساتھ وہ علمی و تحقیقی کاموں‌ کی اشاعت میں مصروف بھی رہے۔ 1939ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد مولائی شیدائی نے باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا۔

    مولائی شیدائی زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے۔ اپنے قلم سے انھوں نے بالخصوص تاریخ نویسی اور تراجم کا کام بخوبی انجام دیا۔ قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ بعض ادبی تذکروں میں لکھا ہے کہ انھوں نے بطور معاون مدیر روزنامہ آزاد میں بھی کام کیا تھا اور یہ 1941ء کی بات ہے۔ لیکن اسے جلد ہی ترک کردیا

    جنّتُ السّندھ اور تاریخ تمدنِ سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو مشہور تصانیف ہیں۔ ان کتابوں کو ان کا بڑا علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف ان کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں مستند مانا جاتا ہے۔ 1960ء میں جنرل ایوب خان کی حکومت میں ان کے لئے ایک سو روپیہ ماہوار وظیفہ جاری ہوا جو ایک سال بعد ہی بند ہوگیا۔ 1962ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ سندھ ریجن کی سفارش پر ان کے لیے وظیفہ جاری ہوا۔ 1941ء ہی میں ان کی ایک کاوش ’’مختصر تاریخ بلوچستان‘‘ شائع ہوئی تھی جس پر مولائی شیدائی کو حکومتِ بلوچستان کی جانب سے 400 روپے اور ریاست قلات کی جانب سے 250 روپے بطور انعام دیے گئے تھے۔ 1950ء میں مولائی شیدائی اپنی علمی استعداد اور قابلیت کی بدولت سندھ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو مقرر ہوئے۔ فیلو شپ کے دوران ہی ان کی دو شاہ کار کتابیں سندھ کی تاریخ‌ پر سامنے آئیں۔ سندھ کے علاوہ بلوچستان کی تاریخ پر ان کی کتابیں مستند ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ مولائی شیدائی نے علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ تاریخ سے شغف رکھنے والے عام قارئین کو بھی متأثر کیا اور ان میں مقبول ہوئے۔

    مولائی شیدائی اپنے آبائی شہر سکھر میں ٹیکری آدم شاہ میں آسودۂ خاک ہیں۔