Tag: فروری برسی

  • لوک گیتوں والا ستیارتھی ادبی دنیا کی ایک نرالی شخصیت

    لوک گیتوں والا ستیارتھی ادبی دنیا کی ایک نرالی شخصیت

    دیوندر ستیارتھی کو جنونی اور دیوانہ کہا جاسکتا ہے جنھوں نے گویا نگری نگری گھوم کر لوک گیت جمع کیے اور انھیں کتابی شکل دی۔ وہ تقسیم سے قبل ایک افسانہ نگار کے طور پر تو پہچانے ہی گئے، لیکن جمع و تدوین اور تراجم کے ساتھ اردو کے علاوہ پنجابی اور ہندی زبانوں میں ان کی تحریریں بھی یادگار ہیں۔ سیتارتھی جہاں ایک تخلیق کار تھے، وہیں ان کی عجیب و غریب شخصیت اور نرالی عادات بھی مشہور تھیں۔ سنیاسی کا روپ دھار کر برصغیر کے مختلف شہروں میں گھومتے رہنے والے سیتارتھی کا آج یومِ‌ وفات ہے۔

    دیوندر ستیارتھی متحدہ ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے ضلع سنگرور کے گاؤں بھدوڑ میں 28 مئی 1908 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ دسویں جماعت کے بعد ان کا ارادہ لاہور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا تھا مگر مالی حالات اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ لاہور نہیں جاسکے۔ ان کا داخلہ پٹیالہ کے کالج میں کروا دیا گیا۔ دیویندر ستیارتھی اپنے معاصرین میں بہت مقبول تھے۔ بہت سے لوگ انھیں مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ وہ منٹو کے ہم عصر افسانہ نگار تھے اور منٹو ان کو فراڈ کہتے تھے۔ پرکاش پنڈت نے ادبی رشی کا نام دیا۔ کرشن چندر نے مہا بور کہا۔ بلراج مین را نے آوارہ تخلیق کار کہا۔ مگر دوسری طرف یہ بھی ہے کہ لگ بھگ بیس برس تک ملک کے طول و عرض میں جگہ جگہ گھوم گھوم کر اور طرح طرح کی دشواریاں اور مصائب برداشت کر کے انھوں نے دیس کے مختلف علاقوں میں رائج لاتعداد لوک گیتوں کو جمع کرکے ایک بے مثال ورثہ ہندوستان کو دیا تھا۔ لوک گیتوں سے متعلق ستیارتھی جی کی پہلی کتاب اُردو میں ’’مَیں ہوں خانہ بدوش‘‘منظر عام پر آئی اور اس سے انھیں بہت شہرت ملی، بعد میں’’دھرتی گاتی ہے‘‘ اور ’’گائے جا ہندوستان ‘‘کی اشاعت نے انھیں مزید شہرت دی۔

    سیتارتھی ایک نرالی شخصیت تھے۔ وہ اپنے احباب کو اپنی تخلیقات اور افسانہ زبردستی سناتے تھے۔ ادبی تذکرہ نگار اور صحافی محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور:‌ شہرِ پُرکمال’ میں سیتارتھی سے متعلق ایک دل چسپ قصّہ پڑھنے کو ملتا ہے، ملاحظہ کیجے۔

    ستیارتھی سنت نگر میں رہتے تھے۔ اسی علاقے میں کنہیا لال کپور، فکر تونسوی اور ہنس راج رہبر کی رہائش تھی۔ یوں وہ براہِ راست ستیارتھی کی زد میں تھے، اس لیے چھپتے پھرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی قسمت بری تھی کہ ستیارتھی ایک دفعہ ان کے یہاں بیوی اور بیٹی سمیت آن براجے اور کئی دن ٹھیرے۔ بیدی لاہور کینٹ میں چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ شام کو تھکے ٹوٹے گھر پلٹتے تو مہمانِ عزیز افسانہ سنانے کو پھر رہے ہوتے، اس پر طرّہ یہ کہ اصلاح کے طالب ہوتے۔ اس عمل میں جو وقت برباد ہوتا سو ہوتا لیکن صبح سویرے بھی تازہ دَم ہو کر ستیارتھی تصحیح شدہ افسانہ بیچارے میزبان کو سناتے۔ ان سب باتوں سے تو بیدی زچ تھے ہی، غصّہ ان کو اس بات پر بھی تھا کہ بیوی بچّوں کے لیے وہ وقت نہ نکال پاتے۔ یہ سب معلومات بیدی کی زبانی منٹو کے علم میں آئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے افسانہ ”ترقّی پسند“ لکھ دیا۔

    ستیارتھی نے بیدی کی خلوت میں ایسی کھنڈت ڈالی کہ میاں بیوی کا قرب محال ہو گیا۔ منٹو نے یہ صورتِ حال افسانوی رنگ میں یوں پیش کی کہ ایک دن دھڑکتے دل کے ساتھ، کہ کہیں سے ترپاٹھی (دیوندر ستیارتھی) نہ آجائے، اس نے جلدی سے بیوی کا بوسہ یوں لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے۔ یہ بیدی پر سیدھی چوٹ تھی کہ وہ ان دنوں ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگاتے تھے۔

    منٹو کی کہانی کے ردِعمل میں ستیارتھی نے ”نئے دیوتا“ کے عنوان سے افسانہ لکھ ڈالا، اس میں منٹو کے طرزِ زندگی پر طنز تھا۔ مرکزی کردار کا نام نفاست حسن رکھا گیا۔ یہ کہانی ”ادبِ لطیف“ میں چھپی اور بقول ستیارتھی، اوپندر ناتھ اشک اور کرشن چندر کو بہت پسند آئی اور انھوں نے منٹو کو اس پر خوب دق کیا۔ ستیارتھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کہانی کی وجہ سے منٹو ان سے پانچ سال ناراض رہے۔ دونوں کی صلح کرانے میں راجندر سنگھ بیدی اور نذیر احمد چودھری نے کردار ادا کیا۔ ”نئے دیوتا“ کے بارے میں کہا گیا کہ بھلے سے یہ ستیارتھی کے نام سے شایع ہوا ہو مگر اس کے اصل مصنف بیدی ہیں۔ اشک اپنے مضمون ”منٹو میرا دشمن“ میں بتاتے ہیں:

    ”دوستوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی ہوئی بلکہ انھوں نے منٹو کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قایم کر لیا اور جس طرح منٹو نے اپنی کہانی میں بیدی اور ستیارتھی کے عادات و اطوار، شکل و شباہت اور ذاتی زندگی کا مذاق اُڑایا تھا، اسی طرح ان دونوں نے مل کر ایک افسانہ لکھ کر منٹو کی ذاتی زندگی اور اس کی خامیوں کو اُجاگر کر دیا۔ کہانی ستیارتھی کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے ہی لکھی تھی۔ بیدی نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کچھ ایسے پنّے لگائے کہ کہانی، جہاں تک کردار نگاری کا تعلّق ہے، بے حد اچھی اُتری، نام ہے ’نئے دیوتا‘ بات یہ ہے کہ افسانہ کسی نے لکھا ہو فنّی اعتبار سے منٹو کے ’ترقی پسند‘ کا پلّہ بھاری ہے۔“

    دیوندر ستیارتھی کے لوک گیتوں پر کام کو کنھیا لال کپور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”اللہ میاں کی کچہری میں جب ستیارتھی کو آواز پڑے گی تو ’لوک گیتوں والا ستیارتھی‘ کہہ کر، نہ کہ کہانی کار ستیارتھی کے نام سے۔“ بیدی اس معاملے میں کپور کے ہم خیال تھے۔

    ستیارتھی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں اپنی کہانی ”اگلے طوفانِ نوح تک“ پڑھی جس میں نذیر احمد چودھری کو بطور پبلشر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیدی نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا: ”ستیارتھی کو سات جنم میں بھی کہانی کار کا مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔“ اس پر ستیارتھی نے جواب دیا: ”حضرات! جب تک میں کہانی کار نہیں بن جاتا میں بدستور بیدی کو گرو دیو تسلیم کرتا رہوں گا۔“

    دیوندر ستیارتھی کی تمام زبانوں میں تصنیفات کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے۔ ان کے تحریر کردہ خاکے، خود نوشت، سفرنامے اور شاعری بھی کتابی شکل میں شایع ہوئی۔ سیتارتھی کا انتقال 12 فروری 2003ء کو ہوا۔ دہلی میں مقیم سیتارتھی کی عمر 92 برس تھی۔

  • حسن البنا:‌ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے مقبول لیڈر جنھیں قتل کر دیا گیا

    حسن البنا:‌ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے مقبول لیڈر جنھیں قتل کر دیا گیا

    دنیا کی تاریخ میں کئی سیاسی اور انقلابی تحریکوں اور کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات ایسی ہیں جن کو زندگی میں‌ بھرپور پذیرائی اور عوامی تائید نصیب ہوئی اور بعد از مرگ بھی ان کی مقبولیت کئی دہائیوں تک برقرار رہی۔ ان کا تذکرہ آج بھی حسبِ موقع ضرور کیا جاتا ہے، اور حسن البنا انہی میں‌ سے ایک ہیں۔

    بیسویں صدی میں حسن البنا کا نام اسلامی دنیا کے مشہور ملک مصر کے ایک مقبول لیڈر کے طور پر گونجا۔ یہ وہ صدی تھی جس میں دنیا نے کئی انقلاب دیکھے اور بہت سی تحریکوں نے سَر اٹھایا۔ مصر میں‌ ایک تحریک کا مقصد اپنے معاشرے کو خالص اسلامی نظام میں ڈھالنا تھا اور ’اخوانُ المسلمین‘ وہ تنظیم تھی جس نے مسلمانوں کو دینی، سیاسی شعور دینے اور ان میں‌ مسلم ثقافت کا تصور اجاگر کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ اس تنظیم کی بنیاد 1928 میں وہاں کے ایک معلّم حسنُ البنا نے رکھی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت کے بعد عرب دنیا میں کئی آزاد ریاستیں بن چکی تھیں۔ اس وقت اگرچہ نوآبادیاتی نظام خطرے سے دوچار تھا، لیکن ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ میں کئی ریاستیں اور علاقہ فرانس، اٹلی، برطانیہ اور دوسری طاقتوں کے زیر تسلط تھیں۔ حسن البنا نے عالمی جنگ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے بکھر جانے تک بہت سیاسی اور سماجی تبدیلیاں‌ دیکھی تھیں۔ مصر میں ان کی تنظیم نے قیام کے بعد نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ عام لوگوں کو بھی جلد اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس تحریک نے مذہب اور سیاست کو یکجا کرنے کا جو تصور دیا تھا اس سے لوگ بہت متاثر تھے۔

    شیخ حسن البنا 14 اکتوبر 1906 کو مصر کی محمودیہ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شیخ عبدالوہاب حصافی سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور سنہ 1927 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک اسکول سے بطور مدرس وابستہ ہو گئے۔ اس دور میں یہ بات پھیلی کہ نہر سویز کا کنٹرول سنبھالنے والی برطانوی کمپنیاں مصری کارکنوں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہیں۔ حسن البنا نے طبقاتی اونچ نیچ اور برطانوی انجینئروں اور ان کمپنیوں کے یورپین منیجروں کو عالی شان اور پرآسائش مکانوں میں عیش اڑاتے دیکھا جب کہ مصری باشندے اور ان کمپنیوں‌ کے ساتھ کام کرنے والے مفلوک الحال اور کچے گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ انھیں یہ بھی محسوس ہوا کہ مصر میں‌ اسلامی اقدار کو اہمیت نہیں‌ دی جارہی۔ اس نے حسن البنا کو اخوان المسلمین کی بنیاد رکھنے پر آمادہ کیا جس کا نصب العین اسلامی تعلیمات کا نفاذ اور بیرونی غلبے کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ صرف چند برس بعد یہ تنظیم ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ مصر کے طول و عرض میں اخوان المسلمین کی شاخیں قائم ہوئیں‌ اور اس کے بینر تلے طلبا اور مزدوروں کو منظم کیا گیا اور عورتوں کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کے تحت مدارس قائم کیے گئے اور رفاہ عامہ کے کئی کام انجام دیے جانے لگے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت تنظیم کے کارکن بہترین مسلمان بن سکیں۔ اس کے علاوہ حسن البنا نے اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کردیا۔ رسائل اور اخبارات کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتابچوں کے ذریعے انھوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی پُر زور تبلیغ کی اور اسلام کو راہ نما مذہب ثابت کیا۔

    حسن البنا نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا آغاز کیا تو دیگر سلطنت کے مسلمان حکم رانوں سے بھی رابطہ کیا۔ انھیں اپنی فکر اور مقصد سے آگاہ کیا اور سنہ 1936 میں مصر کے بادشاہ اور دیگر عرب حکمرانوں کو بذریعہ مکتوب اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے دو سال بعد انھو‌ں نے مصر میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو برطانوی تسلط کے خلاف صف آرا کر دیا۔ حسن البنا نے سنہ 1948 میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کے بعد جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضا کاروں نے بھی مقابلے میں شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ 1948ء میں مصری حکومت نے تنظیم کے خلاف برطانوی دباؤ پر آپریشن شروع کر دیا اور اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اس کے تین ہفتے بعد مصر کے وزیر اعظم نقراشی پاشا کا قتل ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ اسی کے جواب میں ایک کارروائی میں 12 فروری 1949ء کو حسن البنا ایک نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 43 برس تھی۔

  • امانوئل کانٹ: جدید مغربی فلاسفر

    امانوئل کانٹ: جدید مغربی فلاسفر

    کانٹ غالباً وہ پہلا فلسفی تھا جس نے ’تنقید بر عقل محض‘ میں انسان کی ذہنی استعداد کی مکمل پڑتال کر کے یہ بتایا کہ انسانی ذہن کی حدود کہاں تک ہیں اور آیا اِن حدود میں رہتے ہوئے ما بعد الطبیعاتی تصورات کا ادراک کیا جا سکتا ہے یا نہیں! یہ مشہور و معروف تصنیف کئی اعتبار سے نہایت اہم خیال ہے، لیکن ایک تو یہ فلسفے کے ادق موضوع یعنی نظریۂ علم پر بحث ہے اور دوسری طرف کانٹ کا پیچیدہ اور مشکل اسلوب اسے ہر سطح کے قاری کو الجھا دیتا ہے آج کانٹ امانویل کا یومِ‌ وفات ہے

    امانوئل کانٹ 1724ء میں پروشیا میں (جرمنی) میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش ایک منظم مگر ماحول میں ہوئی۔ اس کی ماں ایک راسخ العقیدہ، دیانت دار اور تصوف کی شیدائی عورت تھی۔ کانٹ جو پانچ فٹ کا کمزور اور غیرمتناسب جسم کا مالک تھا، اس میں اپنی ماں کی وجہ سے پرورش اور تربیت میں مذہبی رنگ اور طور طریقے دیکھے اور بڑے ہوکر اس پر رد عمل ظاہر کیا۔ دراصل اس نے ماں کی وجہ سے مدرسہ سے مروجہ کلاسیکی تعلیم اور مذہبی اور اخلاقی تربیت پائی اور سختی بھی دیکھی تھی۔ پھر وہ تقریباً ساری زندگی چرچ سے بیزار رہا۔ کانٹ نے رواج کے مطابق تعلیم کے دوران علومِ فلسفہ اور علومِ طبیعی میں گہری دل چسپی
    لی اور پھر فلسفہ کا سکہ کانٹ کے دل پر بیٹھ گیا۔ 1755ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک یونیورسٹی میں لیکچرار بن گیا۔ تاہم اس نے بہت عرصہ اپنی قابلیت اور معیار سے نچلے درجے پر کام کیا۔ اس عرصہ میں وہ دنیا اور ستائش سے بھی بے نیاز مابعدالطبیعیات پر کام کرتا رہا۔ مگر آگے چل کر اس نے دنیا کو حیران کردیا۔ اس کی پہلی تصنیف تاریخِ طبیعی اور نظریہ فلکیات تھی جس سے اس نے اپنے تبحرِ علمی اور تحقیق کو منوایا۔ وہ کبھی اپنے شہر سے باہر نہیں گیا مگر پہلی کتاب اور دوسرے مقالہ جات نے اسے اہل علم و دانش اور عوام میں مقبول کردیا۔ وہ علومِ طبیعی سے مختلف موضوعات پر لیکچرر دینے لگا جنھیں سننے کے لیے بہت لوگ آیا کرتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کا باخبر آدمی سمجھا گیا۔ اس وقت کانٹ کے مختلف فلسفیانہ مضامین اور رسائل وغیرہ سلاست، جدت اور تازگی کا نمونہ تھے اور خود کانٹ ایک خوش مزاج شخص جب کہ طبیعت میں بذلہ سنجی بھی تھی، لیکن پھر وہ خالص فلسفہ اور اس کے مسائل کی جانب ایسا متوجہ ہوا کہ اس پر سنجیدگی غالب آگئی۔ ساتھ ہی اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی، مگر امانوئل کانٹ اپنی دنیا میں گم رہا اور گہرے، دقیق علمی مسائل اور فلسفہ میں اپنے نظریات کو تحریر کی شکل دیتا رہا۔ کہتے ہیں کہ یہ اس کی زندگی میں ایک بڑا تغیر تھا جس نے اس کی تحریروں کو بھی پیچیدہ، ادق اور مشکل ترین بنا دیا۔ اس کے باوجود وہ اپنی اہمیت اور حیثیت منواتا رہا۔

    مصنف اور فلسفی امانوئل کانٹ وقت کا پابند اور نہایت منظّم شخص تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جب چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا تو لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت درست کر سکتے تھے۔ اس نے شادی نہیں کی اور ساری زندگی علم کے لیے وقف کر دی۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس دور کے روایتی ماحول میں‌ رہتے ہوئے کانٹ نے مذہب اور سیاست پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس کی مذہب اور خدا پر تحریروں نے جرمنی کے راسخ العقیدہ لوگوں کو اس کا مخالف بنا دیا۔ بہت سے مذہب پرستوں اور پادریوں نے اپنے کتوں کا نام کانٹ رکھ دیا اور یوں اس کی تذلیل کا سامان کرکے اپنی تسکین کی۔

    کانٹ کے دور میں تجربیت پسند فلسفی غالب تھے۔ امانوئل کانٹ نے عقلِ محض پر تنقیدی جائزہ لکھا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ محض حسی یا تجرباتی علم ناکافی ہے۔ عقل محض سے کانٹ کی مراد وہ علم یا ادراک ہے جو ہماری پیدائشی فطرت اور دماغ کی وضع سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ وہ علم جو حسیات یا تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ تجربہ علم کو آشکار کرتا ہے اور کسی ایک زاویہ سے اس کی حقانیت جانچتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ علم پہلے سے موجود نہیں تھا، یا اس زاویے کے علاوہ کوئی اور نقطہ نظر یا منطقی زاویہ اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔

    کانٹ کا فلسفیانہ کام سامنے آیا تو اسے شہرت اور مقبولیت بھی ملی اور مغربی فلسفے کے دوسرے دور میں کوئی اس کا مقابل نظر نہیں آتا۔ اس کی کتاب 1781ء میں بعنوان ’’تنقید برعقل محض‘‘ شایع ہوئی تھی اور آج تک اس کی اہمیت برقرار ہے۔ بعد میں آنے والے فلاسفہ اور مابعدالطبیعیات مباحث چھیڑنے والوں نے کانٹ کو سراہا ہے۔

    کانٹ اپنے فلسفیانہ ورثے سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔ وہ ڈیکارٹ اور اس جیسے دوسرے عقلیت پسندوں سے آگاہ تھا، جو یہ کہتے تھے کہ عقل علم کی بنیادوں کی تشکیل پذیری کرتی ہے اور وہ تجربیت پسندوں کو بھی سمجھتا تھا جن کا عقیدہ تھا کہ دنیا کا تمام علم حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ کانٹ کائنات کو دیکھنے کے تیسرے نقطۂ نظر کے ساتھ سامنے آیا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں نظریات جزوی طور پر درست ہیں اور غلط بھی۔ عقلیت پسند تجربے کی اہمیت سے انکار کر رہے ہیں اور تجربیت پسندوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ جس انداز میں ہم حسیاتی طور پر دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ کس طرح ہمارے دماغ پر اثر انداز ہو کر نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھاکہ انسانی دماغ کوئی موم کا ٹکڑا نہیں ہے، جو محض باہر سے حاصل کردہ عکس کا پرنٹ پیش کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس انداز سے ہم دنیا کی تفہیم و تشریح کرتے ہیں، ذہن اس پر اپنی چھاپ لگا دیتا ہے۔

    کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک نئے اور چونکا دینے والے مابعدالطبیعاتی نظام سے بحث کر کے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لے گا۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ میں مابعد الطبیعات کے عشق میں مبتلا ہوں، مگر یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں، اس کے ساحل ہیں نہ زیرسمندر روشنی کے مینار، البتہ جگہ جگہ فلسفیوں کے ٹوٹے پھوٹے جہاز بکھرے پڑے ہیں۔

    اس جرمن فلسفی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ سربراہ اس کا تعلیمی خرچ اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ اس نے ذاتی محنت سے اپنی تعلیم مکمل تھی۔ کانٹ کی تحریروں کو 1760 کے بعد توجہ ملنا شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب جرمن یونیورسٹیوں میں لینبز (G.W.Leibniz) کے افکار چھائے ہوئے تھے۔ کانٹ نے لینبز پر سخت تنقید کی اور دلائل کے اعتبار سے بہت طاقت ور خیالات پیش کیے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ بعد میں‌ کانٹ نے فلسفے کی دنیا میں عقل اور آزادی کو اپنی سوچ کا محور قرار دے کر جو خیالات سامنے رکھے وہ اب بھی علم و عمل کے راستے میں آنے والوں کے لیے مشعلِ را‎ہ ہیں۔

    12 فروری 1804ء کو کانٹ انتقال کر گیا تھا۔

  • قاضی واجد: باکمال فن کار، بے مثال شخصیت

    قاضی واجد: باکمال فن کار، بے مثال شخصیت

    اداکار قاضی واجد کو رفتگاں‌ میں شمار کرنا ایک نسل کے لیے باعثِ رنج و ملال ضرور ہے۔ یاد دریچے سے جھانکتے ہوئے ان کے کئی کردار آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، اور ان کی منفرد آواز میں مکالمے سماعت پر دستک دینے لگتے ہیں۔ قاضی واجد اس پرانی نسل کی حسین یادوں کا حصہ ہیں جس نے پاکستانی ڈرامے کی شہرت کا عروج دیکھا جب پی ٹی وی پر ڈرامہ نشر ہوتا تو گلی محلّے سنسان ہو جایا کرتے تھے۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اس منجھے ہوئے فن کار کی برسی ہے۔

    قاضی واجد 26 مئی 1930 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز انھوں نے 1956 میں ریڈیو سے بطور چائلڈ صدا کار کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو تفریح کا بڑا ذریعہ تھا اور پروگرام ’قاضی جی کا قاعدہ‘ کو سامعین میں مقبولیت حاصل تھی۔ بعد ازاں قاضی واجد ریڈیو پر ہی اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ صدا کاری کے بعد انھوں نے ٹی وی کا رخ کیا اور ہر دل عزیز بن گئے۔ قاضی واجد نے ایک سو سے زائد مختلف ڈراموں اور ڈرامہ سیریل میں پرفارم کیا۔ ’خدا کی بستی‘ ٹیلی ویژن پر اُن کی پہلی پرفارمنس تھی جس میں ’راجہ‘ کا کردار ان کی شناخت بنا۔ قاضی واجد کے بہترین ڈراموں میں تنہائیاں، دھوپ کنارے، کرن کہانی، ہوائیں، حوا کی بیٹی اور دیگر شامل ہیں۔

    قاضی واجد کا شمار ریڈیو کے ابتدائی زمانہ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے آرٹسٹوں میں ہوتا ہے اور بعد میں وہ پی ٹی وی کے مقبول ترین اداکاروں کی صف میں‌ شامل ہوئے۔ بحیثیت ایک شخص وہ تہذیب و شائستگی اور عاجزی و نرم دلی کی مثال تھے۔ انھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ساتھ تھیٹر اور اسٹیج پر بھی کام کیا۔ قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے مکمل کرنے کے بعد کراچی منتقل ہو گئے۔ قاضی واجد کو 1967ء میں ٹی وی سے وابستہ ہوئے اور تاحیات اس دنیا میں مگن رہے۔ انھوں نے مثبت اور منفی کردار ادا کرکے خوب شہرت پائی۔ 1969ء میں وہ ڈرامہ سیریل ”خدا کی بستی‘‘ سے گھر گھر میں پہچانے گئے۔

    حکومت پاکستان کی جانب سے 1988ء میں قاضی واجد کو ”صدارتی تمغا برائے حسن‘‘ کارکردگی دیا گیا تھا۔ قاضی واجد 11 فروری 2018ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ فن کی دنیا میں ان کا خلاء کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔

  • سلویا پلاتھ: موت کے بعد بے مثال شہرت پانے والی شاعرہ اور ناول نگار

    سلویا پلاتھ: موت کے بعد بے مثال شہرت پانے والی شاعرہ اور ناول نگار

    سلویا پلاتھ کی وجہِ شہرت اور شاعری میں انفرادیت یہ ہے کہ اس نے اپنی نظموں میں گویا اپنی ذات اور اپنے احساسات کا غیرمعمولی شدت سے اظہار کیا۔ جب کہ اس دور میں ہم عصر شعرا‌ کے ہاں ایسی کیفیت اور اظہار دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سلویا پلاتھ شاعرہ ہی نہیں بطور ناول نگار بھی مشہور ہوئی۔ اور اس کے سوانحی ناول کو بہت سراہا گیا۔ شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ نے صرف 31 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اس کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ اسے پولیس نے حادثہ قرار دیا تھا۔

    سلویا پلاتھ اوائلِ عمری میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی جس کے کئی اسباب سامنے آئے۔ وہ شروع ہی سے حساس طبع تھی اور والد کی موت نے اسے شدید ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ سلویا پلاتھ نے ڈپریشن کا علاج بھی کروایا۔ لیکن فائدہ نہیں‌ ہوا۔ اس نے نوجوانی میں تین مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش کی۔ ماہرِ نفسیات اسے ذہنی دباؤ سے آزاد نہیں کرواسکے اور پھر سلویا کی خود کشی کی چوتھی کوشش کام یاب ہوگئی۔ اس نے اوون میں اپنا منہ رکھ کر تکلیف دہ طریقے سے زندگی ختم کی۔ 11 فروری 1963ء کو سلویا پلاتھ اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ کچھ لوگوں نے اسے قتل کی واردات کہا، کیوں کہ وہ جس کمرے میں مردہ پائی گئی تھی، اس کا دروازہ مقفل تھا اور عام طور پر وہ اپنا کمرہ لاک نہیں کرتی تھی۔

    موت کے بعد اسے بے حد شہرت نصیب ہوئی اور اس کی شاعری کو ادبِ عالیہ تسلیم کیا گیا۔ 27 اکتوبر 1932ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ شاعرہ سلویا پلاتھ جب آٹھ برس کی تھی تو اس کے والد فوت ہو گئے تھے۔ سلویا پر ان کی موت کا گہرا نفسیاتی اثر ہوا اور وہ بہت دکھی رہی اور یہ دکھ ڈپریشن کا روپ دھارنے لگا تھا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکی تھی اور 18 سال کی عمر میں اس کی پہلی نظم ایک مقامی اخبار میں شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ سلویا نے ایک نیم سوانحی ناول دی بیل جار لکھا جو بہت مقبول ہوا۔

    1955 میں سلویا پلاتھ نے دوستوفسکی کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر اسمتھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ذہین اور قابل لڑکی تھی اور اسی ذہانت کی وجہ سے انگلستان کا فل برائٹ اسکالر شپ حاصل کرکے انگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی۔ اس کی ملاقات اپنے وقت کے مشہور شاعر ٹیڈ ہیوز سے 1956 میں ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو گئے، چند ماہ بعد انھوں نے شادی کرلی لیکن جلد ہی رومانس دم توڑ گیا اور سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے کا شکار ہوکر بکھر گئی۔ اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، مگر ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا، اور پھر حساس طبع سلویا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلویا پلاتھ کے مشہور ناول کے چند ابواب دراصل اس کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔

    سلویا پلاتھ کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا اور الم ناک موت کے بعد اس کی دیگر نظمیں‌ کتابی شکل میں‌ شایع ہوئیں۔ اس کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ اس کے لیے پلٹزر پرائز کا اعلان کیا گیا۔

  • رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

    رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

    فلسفیانہ خیالات کی ترسیل اور وضاحت سے اس کا بیان ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے اکثر بڑے بڑے فلاسفہ اور مفکر بے بس نظر آئے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے فلسفیانہ خیالات کی دوسروں کے لیے وضاحت کریں‌ کہ ہر ایک پر ان کی بات کھل جائے اور وہ اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔ لیکن رینے ڈیکارٹ وہ نام ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو بڑی آسانی سے بیان کیا اور ان کی مکمل تفہیم کرنے میں کام یاب رہا ہے۔

    رینے ڈیکارٹ کو تاریخ ایک سائنس داں، فلسفی اور ریاضی کے ماہر کے طور پر پہچانتی ہے جس نے فلسفہ اور جیومیٹری میں بہت کام کیا۔ اس نے ”خطوط مرتبہ جیومیٹری“ ایجاد کر کے جیومیٹری میں ایک بڑا اضافہ کیا۔

    دوسری طرف ناقدین اسے تضاد کا شکار یا دہری شخصیت کا حامل شخص بھی بتاتے ہیں اور شخصیت کا یہی دہرا پن اس کے فلسفے میں بھی ظاہر ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا دو قسم کی اشیاء ذہن اور مادّہ سے مل کر بنی ہے۔ اب ذہن ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ توسیع شے تصور کیا جاتا ہے جب کہ مادّہ قابلِ تقسیم اور قابلِ توسیع ہے تو پھر ذہن اس جسم کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے جو سائنس کے میکانکی اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے؟ ڈیکارٹ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ ایک بار اس نے کہا کہ ذہن اور جسم دماغ کے نچلے حصے میں موجود ’’پائی نی ایل گلینڈ‘‘ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے ڈیکارٹ نے اصل سوال کو نظر انداز کر دیا۔ سوال یہ نہیں تھا کہ کہاں تعامل کرتے ہیں؟ سوال تو یہ تھا کہ کس طرح تعامل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈیکارٹ کی کام یابی اور اس کے حاصلات سے انکار ناممکن ہے کیوں کہ ڈیکارٹ کا فلسفہ اور اس کا بیانیہ مؤثر ثابت ہوا اور وہ بڑی حد تک اپنی بات کی تفہیم کرتا ہے۔

    فلسفہ کے طالبِ علموں کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ڈیکارٹ وہ فلسفی تھا جس خود کو اس بات پر قائل کیا کہ ایک مضبوط فلسفے کی بنیاد رکھنے کے لیے اسے ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔ اس کے مطابق سب سے کم قابلِ شک اصول و قواعد ریاضی اور جیومیٹری کے ہیں، جیسا کہ دو جمع دو چار یا ایک مربع کے پہلوؤں کی گنتی۔ وہ فلسفے کو بھی ایسے ہی اصول و قواعد کی بنیادوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔

    اس کے مطابق، ہم ریاضی میں مسلمہ اصولوں سے آغاز کر کے اگلے مرحلے کے قوانین یا مسئلوں پر پہنچتے ہیں، جو مکمل طور پر پچھلے مرحلے کے مسلمہ اصولوں سے اخذ شدہ قرار دیے جاتے ہیں۔ ہم اسی طرز پر مرحلہ وار آگے بڑھتے جاتے ہیں اور مزید پیچیدہ مسئلوں تک پہنچتے ہیں جن کو بھی مسلمہ ہی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرحلے میں ہمارا انحصار صرف مسلمہ اصولوں پر ہی رہا۔

    رینے ڈیکارٹ نے اپنی کتابوں ’’طریقہ کار کا بیان‘‘ (discourse on Method) اور ’’غور و فکر‘‘ (Meditations) میں اپنے فلسفے کی بنیاد ’’شک‘‘ پر رکھی ہے مگر یہ سوفسطائیوں والی تشکیک نہیں تھی بلکہ اس تشکیک کی بنیاد ڈیکارٹ نے سائنس کے اصولوں پر رکھی تھی کہ ہمیں خیال کی دنیا میں سوالیہ ذہن کے ساتھ داخل ہونا چاہیے۔ اسی خیال کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے رینے ڈیکارٹ نے ایک شہرۂ آفاق مقولہ دیا ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔“ اس مقولے کی تفہیم میں وہ کہتا ہے کہ جب میں ہر شے پر شک کر رہا ہوں تو کم از کم میں اس بات پر تو شک نہیں کر سکتا کہ میں شک کر رہا ہوں۔ شک کی وجہ سے جب دنیا کی ہر شے غیر یقینی لگ رہی ہو تو ایک ’شک‘ ہی بچتا ہے جس پر یقین کیا جا سکے۔ شک کرنا سوچ کا مظہر ہے۔ لہٰذا میں سوچ رہا ہوں، اور سوچ میں تبھی رہا ہوں جب میں واقعی ہوں۔ یہ سوچ ہی میرے وجود کی دلیل ہے۔ اگر سوچ نہ رہے تو وجود کی دلیل بھی نہ رہے گی۔ لہٰذا میری کل فطرت یا روح کا انحصار سوچ پر ہے اور اس روح کو کسی جگہ یا مادّی شے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے روح جسم سے الگ ہے اور یہ اس وقت بھی رہے گی جب جسم نہ بھی رہے۔ اسی دوران ڈیکارٹ کو ادراک ہوا کہ ایک ایسی شے موجود ہے جس پر شک کی گنجائش نہیں ہے اور وہ اس کا اپنا وجود ہے۔ اسی خیال کے ساتھ اس نے جو نتیجہ اخذ کیا اس پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی اور خدا کے وجود کو بھی نہ صرف ثابت کرنے کی کوشش کی بلکہ خدا پر پختہ یقین کا اظہار کیا مگر اسی کو ناقدین نے کلیسا کو خوش کرنے کوشش بتایا ہے۔

    اوپر یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ڈیکارٹ کئی جگہ تضاد کا شکار اور دہری شخصیت نظر آیا اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس نے خدا پر پختہ یقین کے باوجود اپنے مسودات چھپنے سے پہلے چرچ سے وابستہ ایک دوست مرسینے کو اس نیت سے بھیجے کہ وہ اسے جانچ پرکھ کر بتائے کہ اس کے یہ خیالات کہیں چرچ کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں۔ تماشا یہ بھی ہے کہ بعد میں اسی شخص پر الحاد (Atheism) کا الزام لگا دیا گیا۔ اسے بدعتی کہا گیا اور یہ مشہور ہو گیا کہ رینے ڈیکارٹ مروجہ عقیدوں کے خلاف ہے جو مذہب پرستوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ تاہم کسی طرح یہ معاملہ رفع دفع ہوا۔

    ڈیکارٹ 1596ء میں فرانس میں پیدا ہوا تھا۔ اسے جدید فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے جس نے اس دور میں فلسفے کی از سر نو تشکیل کا بیڑا اٹھایا اور اس میں‌‌ اپنی برتری منوانے میں کام یاب رہا۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا اور کلیسا کا تعلق خوش گوار رکھنے کے لیے کوشاں رہا۔ مگر پھر بھی بدعتی اور ملحد قرار پایا اور اس پر حملے بھی ہوئے۔

    ڈیکارٹ کی شہرت پورے یورپ میں پھیل چکی تھی۔ وہ تعلیم یافتہ اور دانشور حلقوں کے ساتھ شاہی خاندان کے افراد میں ایک فلسفی اور مصنّف کے طور پر پڑھا جانے لگا تھا۔ انہی میں سے ایک سویڈن کی ملکہ بھی تھی۔ وہ ایمسٹرڈیم سے بیس میل دور شمال میں سمندر کے کنارے’’ایگمنڈ بینن‘‘ کی چھوٹی سی اسٹیٹ میں مزے کی زندگی گزار رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ پیرس کا چکر بھی لگا آتا اور اپنے پرانے دوستوں پاسکل اور ہابس سے تبادلہ خیال کرکے واپس لوٹتا۔ انہی دنوں سویڈن کی ملکہ کرٹینا اس کی ایک کتاب پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے ڈیکارٹ کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس سے فلسفے کے باقاعدہ اسباق لے سکے۔ ڈیکارٹ دیر تک سونے کا عادی تھا۔ وہ سہل پسند اور بے فکرا تھا جس کے لیے اسٹاک ہوم کا لمبا سفر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس نے کئی بار معذرت کی اور ملکہ کی بے جا تعریف کرتے ہوئے کئی خوشامدانہ خط بھی لکھے مگر دھن کی پکی ملکہ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور اس نے اپنے ایڈمرل کو بحری بیڑے سمیت ڈیکارٹ کو لانے کے لیے بھیج دیا۔

    آخر وہ ملکہ تک پہنچا اور وہ جنوری کا مہینہ تھا جب اسے بتایا گیا کہ ملکہ ہفتے میں تین روز اس سے فلسفے کی تعلیم حاصل کریں گی، مگر اسے صبح سویرے انھیں پڑھانا ہوگا۔ شدید سردی کے دنوں میں رینے ڈیکارٹ کو علی الصبح اٹھ کر محل پہنچنا پڑا اور دو ہی ہفتے کے اندر ڈیکارٹ پر موسم کی سختی نے برا اثر ڈالا اور اسے نمونیہ ہوگیا۔ 11 فروری 1650ء میں رینے ڈیکارٹ چل بسا۔ سویڈن میں تدفین کے کچھ عرصہ بعد اس کی لاش کو پیرس لایا گیا اور یہاں اس کی تدفین کی گئی۔

  • جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    محبت کرنے والوں کو معروف شاعر جمال احسانی نے ایک نئے انداز سے دیکھنا سکھایا تھا۔ وہ کہتے ہیں:

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل میں روایتی موضوعات کو بہت خوب صورتی سے نبھانے والے شاعر جمال احسانی کی آج برسی ہے۔ تشبیہات اور استعاروں سے اپنی شاعری کو تازگی اور دل کشی عطا کرنے والے جمال احسانی 10 فروری 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    اردو کے معروف شاعر جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا۔ شعر و ادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت نصیب ہوئی۔ وہ 1951ء میں سرگودھا میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جن کے بزرگ متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تعلق رکھتے تھے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازم ہوگئے۔ اس سے پہلے ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بحیثیت معاون مدیر وابستہ رہے تھے۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں بطور شاعر جمال احسانی نے پہچان بنانا شروع کی اور جلد ان کا شمار خوش فکر شعرا میں ہونے لگا۔ جمال احسانی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    معروف شاعر جمال احسانی کے شعری مجموعے بعنوان ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شایع ہوئے۔

    جمال احسانی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    فاطمہ ثریا بجیا کا نام لبوں پر آتا ہے تو ہماری اقدار، تہذیبی روایات کے ساتھ وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جس میں ایک نسل کی تربیت ہوئی اور آج وہ سب ہمارے لیے ایک ماضی بن چکا ہے۔ بجیا کو پاکستان کے ہر گھر میں‌ جو عزّت و احترام اور پیار ملا، وہ شاذ ہی کسی کا مقدر بنتا ہے۔

    بجیا سب کی نظر میں‌ نہایت محترم اور سب کے لیے شفیق ہستی تھیں۔ فاطمہ ثریا کے نام سے بجیا کی عرفیت ایسی جڑی کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی انھیں بجیا ہی پکارنے لگے۔ وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ مصنؑفہ اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے شہرت پانے والی بجیا ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے کی فرد تھیں اور اس خاندان کا ہر فرد علم و فنون اور ادب میں کسی نہ کسی حیثیت میں ممتاز ہوا۔ فاطمہ ثریا بجیا بطور ڈرامہ نگار، ناول نگار اور ادیبہ بے حد مقبول ہوئیں۔

    آج فاطمہ ثریا بجیا کی برسی ہے۔ 10 فروری 2016ء کو بجیا اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لے رخصت ہوگئی تھیں۔ ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ فاطمہ ثریا بجیا نے یکم ستمبر 1930ء کو ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد کے ضلع کرناٹک میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آگیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے کبھی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کی مگر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اہلِ قلم شخصیات میں‌ اپنا شمار کروایا۔ بجیا اپنے والدین کی بڑی بیٹی تھیں۔ والد اور دادا کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بجیا کے کندھوں پر آگئی۔ انھوں نے تمام بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا اور تعلیم و تربیت کا دور مکمل ہوا تو وہ سب اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھے اور خاص طور فن و ادب کی دنیا میں جداگانہ حیثیت حاصل کی۔ ان میں ایک نام انور مقصود کا ہے، ان کی ایک بہن زہرہ نگاہ معروف شاعر ہیں، زبیدہ طارق کو لوگوں‌ نے زبیدہ آپا کے نام سے کوکنگ ایکسپرٹ کے طور پر پہچانا۔ بجیا نے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی بدولت خوب نام پایا اور اپنی فکر اور نئی نسل کی تربیت کے لیے اپنے مشفقانہ اور پیار بھرے انداز کے لیے مشہور ہوئیں۔ بجیا کے ناولوں کی تعداد آٹھ بتائی جاتی ہے اور ایک ہی ناول کی اشاعت ممکن ہوسکی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی سیریل لکھے اور ان کے مقبول ڈراموں میں عروسہ، شمع، انا، زینت، بابر، افشاں، گھر ایک نگر اور آرزو شامل ہیں۔ بجیا نے اپنے ڈراموں میں کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر خاصی توجہ دی۔ ان کے ڈراموں میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور خونی رشتوں کے درمیان تعلق اور رویوں کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہی اثر آفرینی ناظرین کو بجیا کے ڈراموں کے سحر میں مبتلا کر دیتی تھی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا 1960ء میں اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئیں جب ان کی کراچی جانے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی، اور اتفاقیہ طور پر بجیا نے پی ٹی وی اسلام آباد اسٹیشن کا دورہ کیا جہاں ہدایت کار آغا ناصر نے انھیں ملازمت کی پیشکش کی۔ 1966ء میں بجیا نے آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا لیکن پھر ڈرامہ نگاری کی طرف آگئیں۔ بجیا کا طویل دورانیے کا پہلا ڈرامہ مہمان تھا۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کئی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی بجیا کو اعزازات دیے گئے۔ 2012ء میں بجیا کی ایک سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی۔

    آج بجیا کو ہم سے بچھڑے نو سال بیت چکے ہیں لیکن ان کی یاد اب بھی دل میں تازہ ہے۔

  • معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا تذکرہ

    امجد اسلام امجد کا نام اردو دنیا کے مقبول شاعر، بہترین ڈرامہ نگار، نقاد اور کالم نویس کے طور پر لیا جاتا ہے جنھیں ہم سے جدا ہوئے دو سال گزر چکے ہیں۔ امجد اسلام امجد کی نظمیں اور غزلیں جو نغمگی اور آہنگ سمیٹے ہوئے ہیں، یہی نغمگی ان کی شخصیت میں انکسار و عاجزی اور شگفتگی کی صورت میں جھلکتی تھی۔

    10 فروری 2023ء کو امجد اسلام امجد انتقال کرگئے تھے۔ اردو ادب اور پی ٹی وی کو کئی مقبول اور یادگار تحریریں دینے والے امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے 1967ء میں فرسٹ ڈویژن میں ایم اے اردو کیا اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ بعد میں مختلف اداروں‌ میں عہدوں پر تقرری ہوئی۔ انھوں نے ایک مصروف اور متحرک زندگی بسر کی اور آخری وقت تک لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق ہوگیا تھا۔ وہ کتابیں‌ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اشعار موزوں کرنے لگے اور پھر نثر کی جانب بھی متوجہ ہوئے۔ بقو ل امجد اسلم امجد،’’ شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی اضافی چیز ہے جو مجھے باقی طلبا سے شاید ممتاز کرتی تھی، چناچہ نویں جماعت میں مجھے اسکول کے مجلے (میگزین) کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ میں لکھ سکتا ہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں۔‘‘

    امجد اسلام امجد کے کئی گیت مشہور گلوکاروں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروائے جو ریڈیو، ٹیلی وژن سے نشر ہوئے اور بہت مقبول ہوئے۔ امجد اسلام امجدکی شاعری کو میڈم نور جہاں، ناہید اختر، نصرت فتح علی خان، مہناز، جگجیت سنگھ، راحت فتح علی خان، عدنان سمیع خان اور ابرار الحق نے بھی گایا۔ ان کا شمار پاکستان میں غزل اور نظم کے ایسے شعرا میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی یکساں تھی۔ ان کی کئی رومانوی اور زندگی کے المیوں کا اظہار کرتی نظمیں بالخصوص نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئیں۔

    ایک نظم "ذرا سی بات” ملاحظہ کیجیے۔

    زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
    وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
    سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
    ہجر کے سمندر میں
    تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
    تم کو جو سنانی ہے
    بات گو ذرا سی ہے
    بات عمر بھر کی ہے
    عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
    درد کے سمندر میں
    ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
    آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
    بات اس دیے کی ہے
    بات اس گلے کی ہے
    جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
    لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
    زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
    راستے میں کیسے ہو
    بات تخلیے کی ہے
    تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
    پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
    ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں

    اطہر شاہ خاں جیدی کی وساطت سے ڈرامہ نگاری کی طرف آنے والے امجد اسلام امجد نے اس فن میں بہت نام کمایا۔ انھوں نے فلم رائٹر کے طور پر بھی ایوارڈ سمیٹا جب کہ 1975ء میں ٹی وی کے لیے ’خواب جاگتے ہیں‘ لکھنے پر انھیں گریجویٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ بعد میں 80 کی دہائی میں انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ڈرامہ’وارث‘ ، ’دن‘، اور ’فشار‘ نے امجد اسلام امجد کو لازوال شہرت دی۔ امجد اسلام امجد کا پہلا شعری مجموعہ 1974 میں ’برزخ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ 1976 میں جدید فلسطینی شاعری کے منظوم تراجم ’عکس‘ کے نام شائع کروائے۔ آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ’ساتواں در‘ 1980 میں، تیسرا شعری مجموعہ ’فشار‘ دسمبر 1982 میں شائع ہوا تھا۔ دیگر شعری مجموعے ’ذرا پھر سے کہنا‘، ’اس پار‘، ’اتنے خواب کہاں رکھوں گا‘،’بارش کی آواز‘، ’ساحلوں کی ہوا‘. ’نزدیک‘ اور غزلوں کی کلیات ’ہم اس کے ہیں‘ کے نام سے شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد سفر نامے بھی امجد اسلام امجد کے قلم سے نکلے اور کئی تراجم کے ساتھ ان کے ڈراموں کو بھی کتابی شکل دی گئی۔

    شاعر و ادیب امجد اسلام امجد نے پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزازات ستارۂ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے کے علاوہ شاعری اور ڈر امہ نگاری پر بھی متعدد ادبی ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    امجد اسلام امجد کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور اردو کے سر بر آوردہ نقاد تھے جن کے تنقیدی مضامین نے ایک نسل کے ادبی مذاق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایہ تصور کی جاتی ہیں۔

    9 فروری 2002ء پروفیسر آل احمد سرور اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ آل احمد سرور کے مطالعہ کی وسعت، فکر کی گہرائی، تخیل کی بلندی، تجزیاتی سوچ بوجھ اور طرزِ تحریر نے انھیں اردو ادب میں ممتاز کیا۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی ترویج و توسیع میں بھی ان کا حصہ رہا اور جب جدیدیت اپنا رنگ جمانے لگی تو سرور صاحب اس کے ہراول دستے میں رہے۔ آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ سرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ از حد وسیع ہے۔ انہوں نے اردو زبان میں‌ تنقید کی نئی شمعیں روشن کیں۔ نقاد و مصنّف، شاعر اور ماہرِ اقبالیات ہی نہیں بحیثیت ادبی صحافی بھی انھوں نے خوب کام کیا۔ وہ اردو ادب، ہماری زبان اور کئی دوسرے جرائد سے وابستہ رہے۔

    سرور صاحب 9 ستمبر 1911ء کو شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے علاقہ پیلی بھیت کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ایک انٹرویو میں آل احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گزرا۔ میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔”

    آل احمد سرور کا بچپن اور نوعمری کا دور پیلی بھیت کے علاوہ بجنور، سیتا پور، گونڈہ اور غازی پور میں گزرا۔ کیونکہ اُن کے والد کرم احمد کو ملازمت کے سلسلے میں مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کرنی پڑی تھی۔ ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی اور بعد میں اسکول کی تعلیم مختلف شہروں‌ میں ہوتی رہی۔ غازی پور کے کوئن وکٹوریہ ہائی اسکول سے آل احمد سرور نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔

    سرور نے اپنی خود نوشت سوانح "خواب باقی ہیں” میں اپنے بچپن کے واقعات بیان کیے ہیں۔ جس سے اُن کے عادات و اطوار اور علمی استعداد و مشاغل کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ پڑھائی میں آگے رہتے تھے۔ عام بچوں کی طرح ابتداً کھیل کود سے دل چسپی رہی لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جس میں ہر طرف شعر و ادب کا چرچا تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میں مطالعہ اور بیت بازی کا رواج تھا اور اسی کا شوق سرور صاحب میں بھی پیدا ہوگیا۔ وہ کتب بینی کے عادی ہوگئے۔ ان کے والد کی انگریزی اور اُردو کی کتابیں مطالعہ کا ذوق بڑھاتی رہیں۔ بعد میں وہ اپنے چچا کے گھر آگرہ منتقل ہو گئے۔ سینٹ جانسن کالج میں ایف۔ ایس۔ سی (انٹرمیڈیٹ سائنس) میں داخلہ لیا۔ آگرہ میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا اور کالج میگزین میں اپنی تخلیقات شائع کروانے لگے جس نے انھیں ساتھی طالبِ‌ علموں میں‌ ممتاز کیا اور کالج میں ادبی انجمن کے ذمہ دار بنا دیے گئے۔ ایک موقع پر انجمن کے سالانہ مشاعرے میں سرور صاحب کی ملاقات فانی بدایونی، یاس یگانہ چنگیزی، میکش اکبر آبادی سیماب اکبر آبادی، مخمورؔ اکبر آبادی اور مانیؔ جائسی جیسے با کمال شعرا سے ہوئی۔ اسی دوران سینٹ جانسن کالج کے زیر اہتمام انعامی مباحثہ ہوا جس میں سرور صاحب نے حصہ لے کر دوسرا انعام اپنے نام کیا۔ یوں حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر وہ بی- ایس۔ سی کا امتحان درجہ دوم میں پاس کرکے انگریزی میں ایم۔ اے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ دراصل یہاں ان کے والد کا بھی تبادلہ چکا تھا۔ یہاں سرور نے علمی و ادبی مقابلوں اور مذاکروں سبھی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ سرور نے جس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اُس وقت سر راس مسعود یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اور یونیورسٹی میں اُن کے زیر نگرانی زائد از نصابی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ سرور کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے انھیں علی گڑھ میگزین (اُردو ) کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ انگریزی میں‌ بڑی دستگاہ تھی اور یونیورسٹی میں ہونے والے مباحثوں میں وہ انعامات حاصل کرتے رہے۔ اس بارے میں‌ سرور لکھتے ہیں: "ہر سال ایک انگریزی میں اور ایک اردو میں آل انڈیا ڈبیٹ ہوا کرتا تھا۔ 1933ء کے آخر میں جب انعامی مقابلے ہوئے تو سب سے زیادہ مجھے اور میرے بعد خواجہ احمد عباس کو انعام ملے۔”

    آل احمد سرور نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کرنے کے بعد شعبۂ انگریزی میں بہ حیثیت لکچرر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد میں ایم۔ اے اُردو کیا۔ اور پھر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر ہوئے۔ اسی زمانے میں ریڈیو پر تقاریر کے لیے بلایا جانے لگا۔ سرور کی ریڈیو پر پڑھی گئی تقاریر کافی مقبول ہوئیں۔ بعد میں یہ زیور طباعت سے آراستہ کی گئیں۔ شعبۂ اُردو سے سبکدوشی کے بعد آل احمد سرور انجمن ترقی اُردو کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ پھر انہیں شملہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز میں وزیٹنگ فیلو مقرر کیا گیا۔ وہ بھارت کے کئی شہروں میں آتے جاتے رہے اور اس دوران ان کے تنقیدی مضامین، شاعری اور مقالہ جات اردو دنیا میں ان کی شناخت اور پہچان بنتے رہے۔

    پروفیسر آل احمد سرور کے مضامین کی کتابی شکل اور ان کی دوسری تصانیف میں پہچان اور پرکھ، خواب باقی ہیں (خود نوشت سوانح)، خواب اور خلش (شعری مجموعہ)، خطبے کچھ، کچھ مقالے، دانشور اقبال، ( مجموعہ تنقیدات، اور افکار کے دیے، نئے اور پرانے نظریے، تنقید کیا ہے، ادب اور نظریہ، مسرت سے بصیرت تک، اقبال کا نظریہ اور شاعری، ذوقِ جنوں (شاعری) شامل ہیں۔

    بھارت میں اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے آل احمد سرور کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی جامعات نے سند و اعزاز سے نوازا جب کہ اتر پردیش اُردو اکیڈمی نے چار مرتبہ اور ساہتیہ اکیڈمی نے ایک انعام ان کو دیا۔ 1992 میں حکومتِ ہند نے آل احمد سرور کو پدم بھوشن کا خطاب دیا تھا۔