Tag: فروری برسی

  • یونس دہلوی: وہ ناشر جس کے حلقۂ احباب میں فلمی ستارے بھی شامل رہے

    یونس دہلوی: وہ ناشر جس کے حلقۂ احباب میں فلمی ستارے بھی شامل رہے

    اردو دنیا میں ادیب، شاعر اور دیگر اہلِ قلم اپنی تحریروں اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام حاصل کرتے ہیں اور ان کے گزر جانے کے بعد بھی ان کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن بہت کم ناشر و مدیر ایسے ہیں‌ جنھیں یونس دہلوی کی طرح سراہا گیا ہے۔ یونس دہلوی بھارت کے سب سے بڑے اور مقبول ترین اردو رسائل کے سلسلے کے ناشر اور مدیر تھے۔ وہ ایک عام ناشر اور مدیر نہیں تھے بلکہ فلمی دنیا کے کئی ستارے اور اہلِ قلم یونس دہلوی کے حلقۂ احباب میں شامل رہے۔

    یونس دہلوی کی برسی کی مناسبت سے آج یہ تحریر قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ ہم آغاز کریں‌ گے عظیم اختر کے یونس دہلوی سے متعلق مضمون کے ابتدائیہ سے جس میں وہ رقم طراز ہیں: "یونس دہلوی نے اردو رسائل و جرائد کی دنیا میں معمّوں کی ابتدا کر کے ایک ماہرِ نفسیات کی طرح مالی بحران اور اقتصادی شکنجوں میں جکڑے ہوئے اردو داں طبقے پر ایک حربہ آزمایا اور معمے بھر کر آسانی کے ساتھ دولت حاصل کرنے کی عام انسانی خواہش کو جگا دیا۔”

    یونس دہلوی جس اشاعتی ادارہ کے مالک تھے، اس کی بنیاد تقسیمِ ہند سے قبل ان کے والد یوسف دہلوی نے رکھی تھی۔ یونس دہلوی کے زیرِ نگرانی شمع پبلشنگ ہاؤس کے تحت مقبولِ عام فلمی رسالہ شمع ہی نہیں کھلونا، بانو، شبستان جیسے رسائل کی اشاعت کئی سال جاری رہی۔ یہ رسائل بھارت کے علاوہ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بھی خریداروں تک پہنچتے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں ان کی اشاعت ہوتی تھی۔ شمع وہ رسالہ تھا جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھا۔ بالی وڈ کی مشہور شخصیات جن میں دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کمار، آشا پاریکھ، نوتن، نرگس، راج کمار، سنجیو کمار، محمد رفیع، ملکہ پکھراج اور فلمی دنیا کے کئی چہرے یونس دہلوی کے احباب میں‌ شامل تھے اور ان کے گھر بھی آنا جانا تھا۔

    ناشر و مدیر یونس دہلوی 2019ء میں آج ہی کے روز اس دارِ‌ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ لیکن ان کا اشاعتی ادارہ 1994ء تک نہایت کام یابی سے چلنے کے بعد خاندان میں اختلافات کے بعد بکھر چکا تھا۔ یونس دہلوی کو کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ بھارت اور اردو دنیا کی ایک مشہور شخصیت رہے۔ عظیم اختر لکتے ہیں‌کہ رسالہ شمع کی مقبولیت کا راز وہ معّمے اور ذہنی آزمائش کے سلسلے تھے جو یونس دہلوی کے ذہن کی اختراع تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "لفظوں کی سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں خطیر رقموں کے انعامات کی پرکشش اور ترغیب دلانے والی پیش کش نے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور شمع کا سرکولیشن چند ہی سالوں میں ایک لاکھ سے تجاوز کر گیا۔ یہ ماہنامہ "شمع” کے شباب کا دور تھا۔ شمع کے اسی دورِ شباب میں یونس دہلوی نے ماہنامہ "ساقی” کے مدیر جناب شاہد احمد دہلوی کی سنتوں کو تازہ کرتے ہوئے نہ صرف "شمع” میں شائع ہونے والی غزلوں، نظموں اور کہانیوں کے تخلیق کاروں کو بلکہ ‘شمع بک ڈپو’ کی طرف سے شائع ہونے والے ناولوں کے ناول نگاروں کو باقاعدہ رائلٹی دینے کا بھی سلسلہ شروع کیا جس کا اس زمانے میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔”

    ماہ نامہ شمع کی اس پذیرائی نے اس دور کے ہر چھوٹے بڑے اور معروف و غیر معروف شاعر اور افسانہ نگار کو شمع کے صفحات میں جگہ پانے کا خواہش مند بنا دیا تھا۔

    "تخلیقی کاوشوں پر رائلٹی اور کثیر الاشاعت رسالے میں چھپنے کی للک نے معمے بازی کی دعوت عام دینے والے ماہ نامہ شمع کو فلمی اور نیم ادبی پرچے کا روپ دے دیا تھا۔ معمے چوں کہ خالص یونس دہلوی کے ذہن کی اختراع تھے، اس لیے معمے کی شکل میں لفظوں کی سانپ سیڑھی کے اس کھیل کو مرتب کرنے کے علاوہ شمع میں چھپنے والی کہانیوں کا انتخاب بھی وہ بذاتِ خود کیا کرتے تھے۔ صرف شعری حصّے کی ترتیب کے لیے وہ ایک عرصہ تک ابّا جی مرحوم حضرت مولانا سلیم اختر مظفر نگری کی مدد لیتے رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد شعری حصّے کے انتخاب کے لیے ان کی نگاہِ انتخاب جناب بسمل سعیدی ٹونکی جیسے استاد اور کہنہ مشق شاعر پر پڑی۔ یونس دہلوی بذاتِ خود ایک قلم کار اور ادیب نہیں تھے لیکن وہ فلمی ستاروں کی رومانی کہانیاں اور باہمی تعلقات کے لذّت آمیز قصے پڑھنے والوں اور معموں کے شوقین پروانوں کو ذہنی آسودگی پہنچانے والی کہانیوں کے ایک اچھے پارکھ تھے۔”

    "معمے کی اختراع نے شمع کو چند ہی سالوں میں کہیں سے کہیں پہنچا دیا لیکن جب لوگوں کو دولت مند بنانے کی اس سہل سے نسخے پر "جوا ایکٹ” (Gamble Act) کی پرچھائیاں پڑیں تو قانونی مجبوریوں کے تحت معمہ بند کرنا پڑا جس کے نتیجے میں سرکولیشن بری طرح متاثر ہوئی۔ مالکان کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ شمع کی تمام تر مقبولیت اور بڑھتی ہوئی سرکولیشن صرف معموں کی وجہ سے تھی اور معموں کے بغیر شمع اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ معموں کے شائقین کو معمے بازی کی ڈور میں پرونے کے لیے ادبی معمّوں کا ڈول ڈالا گیا لیکن یہ ادبی معمّے شمع کے ان معمّوں کا بدل ثابت نہ ہو سکے جس کی وجہ سے شمع شہرت و مقبولیت کی تمام حدوں کو پھلانگ گیا تھا۔”

    ان ادبی معمّوں کو جاری رکھنا مالكانِ ‘شمع’ کی کاروباری اور تجارتی مجبوری تھی۔ ہر ماہ غیر معمولی تعداد میں حاصل ہونے والی آمدنی کے قصۂ پارینہ بن جانے کی وجہ سے اخراجات میں کٹوتیوں کا دور شروع ہوا اور مسلسل نقصان کے نام پر آخر ایک دن اردو دنیا میں اپنے انمٹ اور خوب صورت چھاپ چھوڑ کر خاموشی سے "شمع” بند ہو گیا۔

    ہندوستان، پاکستان کے اردو رسائل و جرائد کی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ پونے دو لاکھ کی تعداد میں چھینے اور غیر معمولی شہرت و عوامی مقبولیت کے حامل "شمع” کو فلمی اساس کی وجہ سے صرف پاپولر میگزین کے زمرے میں رکھ کر اس کے شعری و نثری حصے سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی گئی۔ حالانکہ یونس دہلوی نے اپنی تمام تر مدیرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہمیشہ اچھی خوب صورت شعری و نثری کاوشوں کو شمع کے صفحات میں جگہ دی۔

    شمع میں چھپنے والی بہت سی کہانیاں آج اردو ادب کی بہترین اور نمائندہ کہانیوں میں شامل کی جاتی ہیں۔ اسی طرح یونس دہلوی کی زیرِ ادارت شائع ہونے والا ہفت روزہ "آئینہ” اردو دنیا میں اپنی طرز کا پہلا ہفت روزہ تھا جو دیدہ زیب گیٹ اپ اور اپنے مشمولات کے اعتبار سے اردو میں حرفِ اوّل اور حرفِ آخر ثابت ہوا۔

    یونس دہلوی نے اپنی نفاست پسندی اور ذوقِ سلیم کی وجہ سے شمع کے ادارے سے نکلنے والے دوسرے ماہ ناموں کو بھی خوب صورت بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن بنیادی طور پر چونکہ ایک تجارتی اور کاروباری ذہن رکھتے تھے، اس لیے معموں کے بند ہونے اور آمدنی کے ذرائع سکڑنے کی وجہ سے اس کاروبار کو خیر باد کہہ کر کاروبار کی ایک نئی دنیا آباد کر لی جہاں گم نامی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔

  • ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم

    ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم

    صوفی تبسّم کی وجہِ‌ شہرت ان کا وہ کردار ہے جو گھر گھر میں پہچانا جاتا ہے۔ ایک نسل اس کردار کے ساتھ گویا تعلیم و تربیت کے عمل سے گزری اور جوان ہوئی۔ یہ کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ 7 فروری 1978ء کو اس کردار کے خالق صوفی تبسم دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسم شاعر اور ادیب تھے جن کی اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ بیک وقت استاد، اداکار، ڈرامہ نگار، مترجم، نقاد، صداکار اور فارسی کے عالم ہی نہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے چیئر مین بھی رہے۔ ادبی دنیا میں وہ اپنی کاوشوں کے سبب ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ وہ اردو، پنجابی اور فارسی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ ادبِ اطفال بھی ہے اور اپنی شاعری اور مضامین سے بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی۔ انھوں نے بچّوں کو دل چسپ اور پرلطف انداز میں‌ اپنی نظموں سے علم و عمل کی طرف راغب کیا۔ ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں۔

    صوفی تبّسم کے مشہور کردار ٹوٹ بٹوٹ کی بات کی جائے تو اسے بچّوں نے اپنا ساتھی اور دوست سمجھا اور اس کردار کے ذریعے صوفی صاحب بچّوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے انھیں دماغ سوزی پر آمادہ کرتے رہے۔ کئی پہیلیاں، کہاوت کہانیاں اور لطائف بھی صوفی تبسم نے تخلیق کیے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ حکومتِ ایران نے صوفی تبسیم کو نشانِ سپاس عطا کیا تھا۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

    صوفی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امرتسر کا ذکر خوب کیا کرتے تھے۔ ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین ان کے بارے میں‌ لکھتے ہیں: صوفی صاحب کے سامنے امرتسر کا نام لے دو، بس پھر وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا غلام علی، ان کے خلیفہ عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ غزنوی اور پھر انہیں اپنے دادا یاد آ گئے۔ ”میرے دادا، درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو تھالیاں تھیں۔ ایک تھالی میں خود کھاتے تھے وہ اور میری دادی، دوسری تھالی میں وہ درویش کھاتا تھا جو اس گھر میں مہمان تھا۔ تیسری تھالی اس گھر میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے کہ سامان کس دن کے لیے جمع کیا جائے اور تیسری تھالی کس کے لیے رکھی جائے۔“

    صوفی صاحب نے دادا کے گھر پرورش پائی۔ والد صاحب دوسرے قماش کے آدمی تھے۔ دادا نے انتقال کیا تو انہوں نے کتب خانہ کہ نادر علمی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں میں بانٹ دیا۔ بس کچھ فارسی شاعروں کے دیوان رہ گئے۔ صوفی صاحب نے وہ دیوان پڑھے اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔

    صوفی صاحب نے طالبِ علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا۔ کچھ دنوں خالصہ کالج میں پڑھے۔ پھر 1921ء میں لاہور چلے آئے اور ایف سی کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور کیا آئے کہ بس یہی ان کا گھر بن گیا۔

    لاہور میں صوفی صاحب کو تاثیر، بخاری، تاج اور سالک جیسے یار مل گئے۔ ایک دن تاثیر صاحب نے کہا کہ او صوفی تیار ہو جا، رسالہ نکال رہا ہوں۔ اس اعلان کے چند دنوں بعد ”نیرنگِ خیال“ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رسالوں میں بحثیں اپنی جگہ اور مشاعروں میں مقابلہ اپنی جگہ۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اس طرف سے تاجور نجیب آبادی، سیماب اکبر آبادی اور بڑا بڑا شاعر آتا۔ ادھر سے ہم نے حفیظ جالندھری کو میدان میں چھوڑا۔ اس مقابلہ آرائی نے لاہور شہر میں ایک زندگی پیدا کر دی۔ لیکن یہ مقابلہ بہت صحت مندانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ بُرے شعر پر خواہ اپنی ہی پارٹی کے شاعر کا ہو کبھی داد نہیں دی گئی۔ اچھا شعر ہو تو بے شک مخالف پارٹی کے شاعر کا ہو جی بھر کر داد دیتے تھے۔ ایس پی ایس کے ہال میں مشاعرہ تھا۔ سر عبدالقادر صدارت کر رہے تھے۔ میں نے فارسی میں غزل پڑھی۔ پیچھے کسی نے اچانک پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ یہ یاس یگانہ تھے جو داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ واللہ کیا شعر کہا ہے۔ تو آج کی سی منافقت ان دنوں نہیں تھی۔ شعر و ادب کے معاملہ میں ہم پُر خلوص تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ ادھر سے جو شاعر آتے ان میں سچا شاعر یگانہ تھا۔ پھر کہنے لگے کہ برسرِ مشاعرہ ہم نیاز مندانِ پنجاب ادھر سے آنے والوں کے خلاف صف آراء ہوتے تھے، مگر مشاعرہ ختم ہوتے ہی آپس میں گھل مل جاتے تھے۔

    صوفی صاحب نے باتوں باتوں میں نجی صحبتوں کو یاد کیا جو کبھی ان کے گھر پر اور کبھی بخاری صاحب کے گھر پر منعقد ہوتیں۔ کہنے لگے کہ ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان صحبتوں میں، مَیں نے اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یار اکٹھے تھے اور گھر میں میرے بیٹے کی جان کے لالے پڑے تھے، مگر مجال ہے کہ میں نے دوستوں کو پتہ ہونے دیا ہو۔ ہاں جب پریشانیاں گھیر لیتی تھیں تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچتا، ان کی باتیں خاموشی سے سنتا اور ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے نجات حاصل کر کے وہاں سے نکلتا۔

    پھر صوفی صاحب علّامہ اقبال کے حقّے کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ کہتے تھے کہ علامہ حقّہ پیتے نہ پیتے بہرحال اس کی نَے مٹھی میں دبائے رکھتے تھے اور باتیں کیے جاتے تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ حقہ کے بغیر میں بھی بات نہیں کر سکتا۔ رات کو بیچ بیچ میں آنکھ کھلتی ہے اور میں ایک گھونٹ لیتا ہوں اور سو جاتا ہوں لیکن اگر حقہ ٹھنڈا ہو تو پریشان ہو کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔“ پھر صوفی صاحب اپنی پریشانی بیان کرنے لگے کہ میرے پاس کوئی ملازم ہونا چاہیے کہ مستقبل میرے لیے حقہ گرم رکھے۔

  • غیور اختر: پی ٹی وی کے معروف اداکار کا تذکرہ

    غیور اختر: پی ٹی وی کے معروف اداکار کا تذکرہ

    غیور اختر کی مقبولیت کی وجہ تو اُن کی مزاحیہ اداکاری ہے، لیکن انھوں نے سنجیدہ کردار بھی بہت خوب صورتی سے نبھائے اور ناظرین سے خوب داد و تحسین سمیٹی۔ آج غیور اختر کی برسی ہے۔ غیور اختر 7 فروری 2014ء میں وفات پا گئے تھے۔

    غیور اختر 1946ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے فنی کيريئر کا آغاز ريڈيو پاکستان سے کيا۔ اداکار غیور اختر 1970ء میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں‌ نظر آنے لگے اور جلد ہی ناظرین کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ ان کے چند کردار بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’’سونا چاندی‘‘ میں ان کا کردار ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔ 1980ء میں اس ڈرامے میں وہ ایک ڈرائیور کے کردار میں دکھائی دیتے تھے اور کہانی کے مطابق وہ کسی بات پر چونکتے ہوئے مخصوص تکیۂ کلام اوہو۔۔ہوہوہو ادا کرتے تھے جس نے ناظرین کو بہت محظوظ کیا اور غیور اختر گویا راتوں رات مشہور ہوگئے۔ بعد میں غیور اختر نے ڈرامہ خواجہ اینڈ سن اور راہيں ميں لازوال کردار نبھائے۔ غیور اختر نے ریڈیو کے مختلف شعبوں میں خوب کام کیا اور بطور صدا کار بھی اپنی منفرد آواز میں بہت سے پروگرام ریکارڈ کروائے۔ وہ بڑے فطری انداز میں مکالمے بولا کرتے تھے جس میں بے ساختگی ہوتی تھی۔ غیور اختر کئی دوسرے کامیڈین کی طرح اوور ایکٹنگ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ہر کردار میں حقیقت کا رنگ بھردیا۔

    پاکستان ٹیلی وژن پر بچّوں کے مقبول ڈرامہ عینک والا جن میں بھی غیور اختر نے سامری جادوگر کا کردار نبھایا تھا۔ غیور اختر نے اپنے فنی کیریئر میں چند فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فلم ڈائریکٹ حوالدار میں انھوں نے جیلر کا کردار ادا کیا تھا جسے فلم بینوں نے بہت سراہا۔ اداکار غيور اختر کو حکومت پاکستان نے ’’تمغائے حسنِ‌ کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا تھا۔

  • لتا منگیشکر: سُروں کی ملکہ کا تذکرہ

    لتا منگیشکر: سُروں کی ملکہ کا تذکرہ

    2022ء میں آج ہی کے روز گلوکارہ لتا منگیشکر اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان سے بہت پہلے ہندوستان کے مشہور غزل گائیک جگجیت سنگھ قیدِ حیات سے رہائی پاچکے تھے جنھوں نے ایک موقع پر لتا منگیشکر کو ان الفاظ میں‌ خراجِ تحسین پیش کیا تھا، ’20 ویں صدی کی تین چیزیں یاد رکھی جائیں گی۔ ایک انسان کا چاند پر جانا، دوم دیوارِ برلن کا گرنا اور تیسرا لتا منگیشکر کا پیدا ہونا۔‘

    دیکھا جائے تو فنِ موسیقی کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے لیے بھی شاید یہ بہت مشکل رہا ہو کہ لتا جی کو کیسے سراہا جائے، ان کی تعریف میں کیا کہیں یا وہ کیا الفاظ ہوں‌ جن کا سہارا لے کر لتا جی کے فن کی عظمت کو بیان بھی کرسکیں اور اس گلوکارہ کے شایانِ شان بھی ہوں۔ لیکن پھر سب نے بڑی سہولت اور رعایت سے انھیں لتا جی اور دیدی کہہ کر پکارنا شروع کردیا اور یہی ان سے عقیدت اور پیار کا بہترین اظہار ثابت ہوا۔ لتا منگیشکر 92 برس زندہ رہیں اور لگ بھگ 60 برس تک سُر، تال، ساز و آواز کی دنیا میں مشغول رہیں۔

    ہیما منگیشکر المعروف لتا منگیشکر کو لافانی گائیک بنانے کا سہرا میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقہ چونا منڈی سے تھا۔ لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ سنہ 1947 کا زمانہ تھا اور فلم ‘شہید’ کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ اس زمانے کے نام ور میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر نے مذکورہ فلم کے ایک گیت کے لیے میرا آڈیشن لیا۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ماسٹر صاحب کو میری آواز بہت پسند آئی اور میرے کہے بغیر انھوں نے اپنے من میں یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے پروموٹ کریں گے، انھی دنوں کی بات ہے کہ فلمستان اسٹوڈیو کے مالک اور مشہور پروڈیوسر شیشدھرمکھر جی نے ریہرسل میں میری آواز سُنی اور مجھے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’اس لڑکی کی آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے۔‘ شیشدھر مکھر جی اپنے وقت کے بہت بڑے فلم ساز تھے۔ لتا منگیشکر کے مطابق ’ماسٹر غلام حیدر نے شیشدھر مکھر جی سے کہا کہ یہ لڑکی (لتا) برصغیر کی میوزک مارکیٹ میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گی لیکن وہ نہ مانے۔‘ ’شیشدھر کے انکار پر ماسٹر غلام حیدر ناراض ہو گئے اور کہا ’مکھرجی صاحب ویسے تو آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے لیکن میرے الفاظ نوٹ کر لیں ایک دن آئے گا کہ پروڈیوسر، لتا کے دروازے پر قطار باندھے کھڑے ہوں گے۔‘ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

    لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر گلوکار اور اداکار تھے۔ لتا منگیشکر بھی شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ کمال امروہوی کی فلم ’’محل‘‘ 1949 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا گانا’’آئے گا ،آئے گا ،آئے گا آنے والا، آئے گا‘‘ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور یہ گانا مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس گیت کو آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں ہیں’’خاموش ہے زمانہ چپ چاپ ہیں ستارے…آرام سے ہے دنیا بے کل ہیں دل کے مارے… ایسے میں کوئی آہٹ اس طرح آ رہی ہے…جیسے کہ چل رہا ہے من میں کوئی ہمارے …یا دل دھڑک رہا ہے اِک آس کے سہارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا…۔‘‘ یہ نخشب جارچوی کا تحریر کردہ خوب صورت گیت تھا جس کی موسیقی کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھی۔ اس گانے نے لتا منگیشکر پر فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے۔ فلم کے ہیرو اور فلم ساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن مدھو بالا تھیں۔ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے۔

    اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی دل چسپ قصہ ہے۔ مشہور ہے کہ جب یہ گیت ریکارڈ کیا گیا تو ’آئے گا، آئے گا‘ کا تأثر گہرا کرنے اور اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا جی نے چل پھر کر اسے ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لتا جی کی آواز خوشبو بن کر پھیلی اور برصغیر میں ان کا خوب شہرہ ہوا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے کریئر کا آغاز 1942 میں کیا۔ تاہم انھوں نے اردو فلموں کے لیے پہلا گانا 1946 میں ‘آپ کی سیوا’ نامی فلم کے لیے گایا۔ بولی وڈ میں ان کی شہرت کا آغاز 1948 میں فلم ‘مجبور’ کے گیت دل میرا توڑا سے ہوا اور اگلے سال فلم ‘محل’ سامنے آئی جس کے بعد لتا نے مڑ کر نہیں‌ دیکھا۔

    لتا منگیشکر کا نام 1974 سے 1991 تک سب سے زیادہ گانوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا۔ یہ نام 2011 تک ورلڈ ریکارڈ کا حصہ رہا۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکارہ کے طور پر اہم مقام حاصل کیا۔

    گلوکارہ لتا منگیشکر کے گیتوں کا ترنم، نغمگی اور تازگی گویا سماعت پر ایک سحر سا طاری کر دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے گیت دل ميں اُتر جاتے ہیں۔ سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد طبّی پیچیدگیوں کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔

  • بانو قدسیہ:‌ معروف ادیبہ، ایک مقبول نام

    بانو قدسیہ:‌ معروف ادیبہ، ایک مقبول نام

    بانو قدسیہ نے ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری ہی میں نام و پہچان نہیں بنائی بلکہ خاص طور پر معاشرے میں شعور اور احساس کو اجاگر کرنے کی اپنی کوششوں کی بدولت وہ ہر عمر اور طبقۂ سماج میں مقبول ہوئیں۔ آج بانو قدسیہ کی برسی ہے۔

    4 نومبر 2017ء کو بانو قدسیہ لاہور میں انتقال کرگئی تھیں۔ ناول نگار بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو برطانوی ہند میں ایک زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ یہ ایک تعلیم یافتہ گھرانا تھا تقسیمِ ہند کے بعد بانو قدسیہ لاہور آگئیں۔ انھوں نے معروف ناول نگار اور دانش ور اشفاق احمد سے شادی کی تھی۔

    بانو قدسیہ کو بچپن سے ہی اردو ادب کا بے حد شوق تھا۔ وہ بچوں کے رسالے، ادبی جرائد باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔ بانو قدسیہ نے کنیئرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کے بعد 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے پڑھنے لکھنے کے شوق کی تکمیل کے لیے انھوں نے اپنے کالج کے زمانے سے ہی رسالوں میں لکھنا شروع کردیا تھا اور پھر وہ ریڈیو کے لیے لکھنے لگیں۔ یہ اس دور میں ایک بڑا مقبول میڈیم ہوا کرتا تھا۔ لوگ بہت شوق سے ریڈیو پر ڈرامہ سنتے اور مختلف علمی و ادبی پروگرام اور موسیقی کے پروگرام سنتے تھے۔ اسی دور میں‌ بانو قدسیہ کا نام گھر گھر لیا جانے لگا۔ ڈرامے اور مختلف ریڈیو پروگراموں کے اسکرپٹ کے ساتھ افسانہ نگاری اور پھر اردو ناول لکھنے کا سلسلہ بھی بانو قدسیہ نے جاری رکھا۔ ’راجہ گدھ‘ ان کا وہ ناول تھا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ ’امر بیل‘ نے بھی بانو قدسیہ کو شہرت دی۔ حاصل گھاٹ بھی انہی کا ایک مقبول ناول ہے۔ بانو قدسیہ نے ریڈیو کے ساتھ اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے لیے پنجابی اور اردو زبان میں ڈراموں کے اسکرپٹ لکھے۔ ان کے ڈراموں میں ’پیا نام کا دیا‘، ’فٹ پاتھ کی گھاس‘، ’آدھی بات‘ اور دیگر شامل ہیں۔

    بانو قدسیہ کی تحریروں کا بنیادی موضوع محبت کی تلخ حقیقت، جذبات اور احساسات کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز ہوتے تھے اور ان کا مقصد وفا، برداشت، ایثار کو فروغ دینا رہا۔

    معروف ناول نگار بانو قدسیہ کو 1983ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلالِ امتیاز اور 2010ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ 2012ء میں بانو قدسیہ کو کمالِ فن ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    راہِ رواں بانو قدسیہ کی ایک کتاب کا نام ہے جس سے ہم ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کر midlife کے (crisis) اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجیے لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے۔ اور عمل میں نا پختگی کا ثبوت دیتا ہے۔

    تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا (image) سوسائٹی میں بالکل برباد ہو جاتا ہے۔

    پے در پے شادیاں، معاشقے، معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں، ماں باپ سے ہیجانی تصادم، اولاد سے بے توازن رابطہ غرضیکہ اس عہد کی تبدیلی میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے۔

    آخری تبدیلی عموماً بڑھاپے کے ساتھ آتی ہے جب نہ اشیاء سے لگاؤ رہتا ہے، نہ انسانی رشتے ہی با معنی رہتے ہیں۔ اب اطمینانِ قلب صرف ذکرِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ بھی نصیب کی بات ہے۔

  • امّ کلثوم:‌ دنیائے عرب کی عظیم گلوکارہ کا تذکرہ

    امّ کلثوم:‌ دنیائے عرب کی عظیم گلوکارہ کا تذکرہ

    دنیائے عرب میں امّ کلثوم ایک لیجنڈری اور کئی خطاب سے سرفراز گلوکارہ تھیں۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ کہا گیا۔

    مشرقِ وسطی میں امّ کلثوم نے اپنی آواز اور اندازِ گائیکی سے نوجوانوں‌ کو اپنا مداح بنا لیا تھا اور بعد کے برسوں میں ان کا نام ایک عظیم گلوکارہ کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ 3 فروری 1975ء کو امّ کلثوم انتقال کرگئی تھیں۔ آج اس گلوکارہ کی برسی ہے۔

    امّ کلثوم کا تعلق مصر سے تھا جہاں انھوں نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے عرب کلاسیکی موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ عرب دنیا کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ایک پروگرام نشر ہوا اور اس کے بعد ان کی آواز عرب دنیا میں گونجنے لگی۔

    گلوکارہ امّ کلثوم نے بدوئوں اور دیہاتیوں کے لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا اور ثقافت سے آشنا تھیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں عرب کلاسیکی موسیقی کا انتخاب کیا اور قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیتوں کو اپنی آواز میں‌ یوں پیش کیا کہ وہ امر ہوگئے۔ امِّ کلثوم نے ان گیتوں کی بدولت لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے مداحوں میں مصر ہی نہیں عرب دنیا کے خاص و عام اور ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔ اس گلوکارہ کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    اس گلوکارہ نے علامہ اقبال کی نظموں شکوہ، جوابِ شکوہ کا عربی ترجمہ بھی گایا تھا جس پر حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس عظیم گلوکارہ کے جنازے میں‌ لاکھوں افراد شریک ہوئے۔

  • جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

    جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

    اردو ادب کی قابل و باصلاحیت ہستیوں کی زندگی اور ان کے فن و تخلیق پر نقد و نظر، ممتاز اہلِ قلم کے تذکرے رقم کرنے والے جلیل قدوائی کو دنیا سے رخصت ہوئے تیس سال گزر گئے ہیں‌۔ انھوں نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ غیرافسانوی ادب تخلیق کیا۔ صحافت بھی جلیل قدوائی کا ایک حوالہ ہے۔

    معروف ادیب اور نقاد جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر اناؤ(اودھ) سے تھا۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو پیدا ہوئے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے افسانوی ادب کے علاوہ کئی موضوعات پر علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا اور کئی کتابیں‌ ان کی تالیف کردہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

    معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

    آج پاکستان کے ایک معروف اہل قلم ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی برسی ہے۔ 2 فروری 2021ء کو انتقال کرجانے والے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری محقّق، سوانح و تذکرہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جن کی تصانیف اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا۔ ہندوستان کے صاحبِ طرز ادیب اور سیاسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور علمی و ادبی کارناموں پر ڈاکٹر صاحب کے کام کو سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی متذکرہ نابغۂ روزگار شخصیت کی زندگی اور ان کے تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر بے مثال کام کیا۔

    ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا سنِ پیدائش 1940ء ہے اور وطن شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی)۔ والد محمد حسین خاں نے ان کا نام تصدق حسین خاں رکھا۔ لیکن علم و ادب کی دنیا میں وہ ابو سلمان الہندی کے نام سے متعارف ہوئے اور بعد میں الہندی کی جگہ ان کے آبائی علاقے کا نام جڑ گیا۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

    پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ ’مقتدرہ‘‘ جب کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اس سے الگ ہوگئے تھے۔

    1986ء کے آخر میں کراچی کے حالات نے دگرگوں صورت اختیار کرلی تھی۔ ڈاکٹر ابوسلمان کا گھر اور کتب خانہ ہنگاموں کی نذر ہوا، تو وہ بجھ کر رہ گئے اور خود کو گھر تک محصور کرلیا تھا۔ بہت کم کسی محفل اور علمی تقریب میں جاتے تھے، لیکن گھر میں رہ کر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور اپنے تمام معمولاتِ زندگی اور معاشرتی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے بے مثال علمی کارنامے انجام دیے۔

    مولانا آزاد کے علاوہ اُن کی محبوب شخصیات میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے موضوعات پر نہایت معیاری کتب یادگار چھوڑی ہیں‌ اور یہ ان کی محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ تحقیقی میدان میں ضروری مآخذ اور مستند حوالہ جات کے ساتھ انھوں نے مواد یک جا کیا ہے۔

    1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر ابوسلمان شاہجہاں پوری کے قلم سے نکلی کئی کتابیں اہلِ علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ وہ اپنے قلمی سفر کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ میری پہلی تحریر حضرت آزاد کی وفات پر شائع ہوئی تھی، اس کے بعد لکھتا ہی چلا گیا، لکھنے پڑھنے کے سوا نہ کوئی شوق ہے اور نہ کوئی کام آتا ہے، میرے کاموں پر بہت تحسین و آفرین ہوئی اور شدید ردعمل بھی آیا، لیکن میں نے اپنے کسی ردعمل کا جواب نہیں دیا، خود ہی سوچا کہ کہیں کسی کے بارے خلاف تہذیب یا خلاف واقعہ کوئی بات تو نہیں نکل گئی ہے، الحمد للّٰہ کہ ایسا کبھی نہیں ہونے پایا، بعض مضامین و مباحث میں اُسلوب بیان کی سختی کو محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے لئے مجبور ہوں کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں۔ مجھے آج تک اپنی تالیفات کو گننے کا موقع نہیں ملا۔

  • نسیم امروہوی: گلشنِ اردو کا ایک مہکتا ہوا نام

    نسیم امروہوی: گلشنِ اردو کا ایک مہکتا ہوا نام

    سرزمینِ‌ امروہہ کی کئی شخصیات نے فن و تخلیق کے میدان میں‌ بڑا نام و مقام بنایا اور سیّد قائم رضا نقوی المعروف نسیم امروہوی انہی میں سے ایک ہیں۔ نسیمُ اللّغات ان کی مشہور تصنیف ہے۔ نسیم امروہوی شاعر، ماہرِ لسانیات اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ 28 فروری 1987ء کو نسیم امروہوی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری
    کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری

    یہ نسیم امروہوی کا وہ شعر ہے جس کا مصرعِ ثانی ضربُ‌ المثل کا درجہ رکھتا ہے۔

    سیّد قائم رضا نقوی، نسیم امروہوی کا خاندانی نام تھا۔ وہ 24 اگست 1908ء کو ایک معروف علمی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نسیم امروہوی نے اس زمانے میں‌ حسبِ‌ دستور عربی اور فارسی کے علاوہ منطق، فلسفہ، فقہ، علمُ الکلام، تفسیر اور حدیث کی تعلیم مکمل کی اور زبان و بیان میں دل چسپی کے سبب لغت نویسی کا کام انجام دیا۔ تاہم شاعری ان کا وہ شوق تھا جس میں انھوں نے مرثیہ کی صنف کو بطور خاص اپنایا اور بڑا نام پیدا کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد نسیم امروہوی ہجرت کرکے خیر پور چلے آئے، بعد ازاں وہ کراچی منتقل ہوگئے اور اس شہر کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا حصّہ بنے۔ نسیم امروہوی نے غزل کے علاوہ قصیدہ، مثنوی، رباعی، گیت جیسی صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کی وجہِ شہرت مرثیہ نگاری ہے۔ ان کے کہے ہوئے مراثی کی تعداد 200 سے زائد ہے۔

    نسیم امروہوی نے ماہرِ‌ لسانیات کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور اردو بورڈ سے بطور مدیر منسلک رہے۔ انھوں‌ نے نسیمُ اللّغات کے علاوہ فرہنگِ اقبال بھی مرتب کی۔

  • ‘شامِ اودھ’ کے خالق ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تذکرہ

    ‘شامِ اودھ’ کے خالق ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تذکرہ

    اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنا زورِ قلم منوانے والوں میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ایک اہم نام ہیں۔ وہ نقّاد، افسانہ اور ناول نگار کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ 1978ء میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے آج ہی کے دن اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی 22 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نواب محمد حسن خاں تھا۔ محمد احسن فاروقی کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے والد نے ایک انگریز اتالیق کی خدمات حاصل کی تھیں۔ 1929ء میں انھوں نے کوئنس اینگلو سنسکرت ہائی اسکول لکھنؤ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ لکھنؤ کے کرسچین کالج سے ایف اے کیا اور 1933ء میں جامعہ لکھنؤ سے بی اے کے بعد 1946ء کو انگریزی میں ایم اے کیا۔بعد میں انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کیا۔ اپنے انگریزی زبان کے ذوق و شوق کی وجہ سے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع چنا۔ جامعہ سے سند یافتہ احسن فاروقی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی آ بسے۔ پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بحسن و خوبی نبھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ بھی مشغول رہے۔ انگریزی زبان و ادب کے علاوہ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔ محمد احسن فاروقی ایک بلند پایہ ادیب اور نقّاد بھی تھے اور اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ زبان و بیان پر عبور اور ان کے وسیع مطالعہ نے ان کی تحریروں کو بھی خوب چمکایا اور اسی سبب ان کی تخلیقات اور مضامین میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کا علمی و ادبی کام ان کی فکر کے تنوع اور گہرائی کا بھی مظہر ہے۔

    اردو زبان کی بات کی جائے تو محمد احسن فاروقی کو صفِ اوّل کے ناقدین میں شمار کیا گیا۔ اردو میں ان کی یادگار کتابوں میں ‘اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخِ انگریزی ادب’ سرفہرست ہیں۔ آخر الذّکر کتاب ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانہ نگاری بھی کی اور ناول جیسی صنفِ ادب میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار اور اپنے زورِ قلم کو آزمایا۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ شامِ اودھ ان کا وہ ناول ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس ناول میں اودھ کے مٹتے ہوئے تمدن کی نہایت کام یاب جھلک پیش کی گئی ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کوئٹہ میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔