Tag: فروری برسی

  • مسلم معاشرہ میں نئے تہذیبی رجحانات اور کشمکش کو موضوع بنانے والی اے آر خاتون

    مسلم معاشرہ میں نئے تہذیبی رجحانات اور کشمکش کو موضوع بنانے والی اے آر خاتون

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہرے دور میں‌ جن ناول نگاروں کی کہانیاں‌ ڈرامائی تشکیل کے بعد اسکرین پر پیش کی گئیں‌، اے آر خاتون ان میں سے ایک ہیں۔ "افشاں” وہ ڈرامہ تھا جو بے حد مقبول ہوا۔ 1970ء کے اواخر میں یہ ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر کیا گیا تھا اور یہ اے آر خاتون کے ناول پر مبنی تھا۔ ہر سال 24 فروری کو اے آر خاتون کی برسی منائی جاتی ہے جنھوں‌ نے اپنی کہانیوں‌ میں برصغیر کے مسلم سماج کو موضوع بنایا۔

    اے آر خاتون نے اپنی کہانیوں‌ میں مسلمان خاندانوں میں اس دور کی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی کشاکش کو دکھایا ہے۔ افشاں‌ وہ ناول تھا جس کے بارے میں خود مصنفہ نے کہا تھا کہ "افشاں کا نہ کوئی پلاٹ ہے، نہ کوئی اور خاص بات اس میں ہے، البتہ دلّی کی زبان اور دلّی کی زندگی کا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ناول انھوں نے تقسیمِ ہند کے اعلان سے چند برس قبل ہی لکھا تھا۔

    مصنّفہ کا اصل نام امت الرّحمٰن خاتون تھا اور قلمی دنیا میں وہ اے آر خاتون کے نام سے مشہور تھیں۔ وہ 24 فروری 1965ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی چند دیگر کہانیاں بھی ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر پیش کی گئیں اور انھیں بھی ناظرین نے بے حد پسند کیا۔ دہلی میں سنہ 1900ء میں پیدا ہونے والی اے آر خاتون کو ابتدائی عمر ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے رواج کے مطابق گھر پر بنیادی اور ابتدائی تعلیم پائی۔ مضمون نگار کے طور پر انھوں نے لکھنے کا آغاز کیا تو سبھی نے حوصلہ افزائی کی اور پھر ان کی تحریریں اس وقت کے معروف رسالہ عصمت میں شایع ہونے لگیں۔ مختلف موضوعات پر کتابوں اور ادبی تحریرں کے مطالعہ نے انھیں بطور ناول نگار بھی آگے بڑھنے پر اکسایا۔ 1929ء میں اے آر خاتون کا پہلا ناول شمع منظرِ عام پر آیا۔ یہ بھی ہندوستان کے مسلمان گھرانوں اور اس دور میں‌ مسلم اقدار کے پس منظر میں‌ تحریر کیا گیا تھا۔ یہ ناول بہت مقبول ہوا جس کے بعد تصویر کے نام سے ان کی کہانی شایع ہوئی اور بعد کے برسوں میں‌ وہ افشاں، چشمہ، ہالا جیسی تصانیف کے ساتھ مقبول ناول نگار بن گئیں۔

    اے آر خاتون کا اختصاص متحدہ ہندوستان کے مسلم معاشرے میں کھینچا تانی، اور وہ کشمکش تھی جو اس وقت نئے رجحانات کے زیر اثر تھا اور لوگوں‌ کا ذہن تیزی سے بدل رہا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مصنّفہ ہجرت کرکے پاکستان آگئیں۔ یہاں‌ بھی انھوں‌ نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن ان کی کہانیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور کردار دہرائے گئے ہیں۔ تاہم اس وقت کے ماحول اور خاص فضا میں‌ یہی ناول ہر طبقۂ فکر میں‌ مقبول بھی ہوئے۔ پاکستان ٹیلی وژن پر فاطمہ ثریا بجیا نے ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی تھی دی جو خود بھی ہندوستان کی مسلم تہذیب، روایت اور اقدار کی امین تھیں۔

  • مدھو بالا: عارضۂ قلب کے ساتھ اداکارہ کو عشق کا روگ بھی لگ گیا تھا!

    مدھو بالا: عارضۂ قلب کے ساتھ اداکارہ کو عشق کا روگ بھی لگ گیا تھا!

    شہناز، نرگس اور نوتن کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا۔‌ فلم مغلِ‌ اعظم کا یہ کردار حسن کی دیوی مدھو بالا نے نبھایا اور ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں۔‌ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا کو ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج ماضی کی اس مقبول ہیروئن کی برسی منائی جارہی ہے۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے اپنا فلمی نام مدھو بالا رکھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور مغلِ اعظم کے بعد تو ہر طرف ان کی اداکاری اور حسن کے چرچے تھے۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران وہ بہت بیمار تھیں، لیکن انار کلی کے روپ میں انھوں نے لازوال اداکاری کی اور نام وَر فلم ساز کے آصف کی توقعات پر پورا اتریں۔ ہندوستانی سنیما میں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے مرکزی کردار میں فلم ساز جیسا حسن و جمال، رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ چاہتے تھے، وہ مدھو بالا کو قدرت نے دے رکھا تھا۔ اداکارہ نے بیماری کے باوجود شوٹنگ کروائی اور بے مثال اداکاری کی۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنیں‌ اور خوب شہرت پائی۔ روپ کی اس رانی نے نام و مقام تو بہت پایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ مدھو بالا زندگی کی صرف 36 بہاریں دیکھ سکیں اور بدنصیبی دیکھیے کہ ان میں بھی نو برس ایسے تھے جب وہ بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود رہیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، وہ بہت زیادہ کام اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی آسانی سے انجام نہیں دے سکے گی، لیکن ممتاز کو اس کے والد عطاء اللہ نے چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوا دیا۔ یہاں‌ ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ ممتاز کے بہن بھائی گیارہ تھے اور والد نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، اور پھر وہ نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ وہاں سے وہ اپنی بیٹی کو بمبئی لے گئے اور بھولی بھالی، من موہنی صورت والی ممتاز کو فلموں میں کام مل گیا۔ عطاء اللہ نے بیٹی کی کمائی سے گھر کی گاڑی کھینچنا شروع کی اور بہت جلد ممتاز کے حسن کا جادو مدھو بالا کے نام ایسا چلا کہ عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا دکھ بھرا پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جنھوں نے مدھو بالا کو موت کے منہ میں‌ دھکیل دیا۔ اداکارہ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    مدھو بالا اور دلیپ کمار کا عشق زوروں پر رہا۔ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات اور اپنی بیماری سے تنگ آئی ہوئی مدھو بالا یہ سوچ کر کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ انھوں نے 1960 میں شادی کی۔ لیکن گلوکار کشور کمار انھیں سکھ نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی دلہن کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، چاہنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری میں ہر کوئی دیوانہ، ہر ایک عاشق مگر مدھو بالا ان سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا تھی۔

    یہاں ہم ہندوستانی فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی جو عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے، ان کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا تذکرہ کررہے ہیں اور یہ واقعہ انیس امروہوی نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    مدھو بالا کی دیگر مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔

    مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار نبھائے۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ مدھو بالا ممبئی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ابوالکلام آزاد: ایک گوہرِ‌ نایاب کا تذکرہ

    ابوالکلام آزاد: ایک گوہرِ‌ نایاب کا تذکرہ

     آزاد کو برصغیر میں‌ سیاست، سماج اور ادب کی دنیا ابوالکلام آزاد کے نام سے جانتی ہے۔ ہندوستان میں انھیں امامُ الہند بھی کہا جاتا ہے۔‌

    یہاں ہم آغا شورش کاشمیری کے مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی وفات کے بعد رقم کیا تھا۔ آج ابوالکلام آزاد کی برسی ہے۔ 22 فروری 1958ء کو انھوں نے دہلی میں دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا تھا۔ آغا صاحب لکھتے ہیں:

    مولانا آزاد محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متبحر۔ ان لوگوں میں سے نہیں تھے، جو اپنے لیے سوچتے ہیں، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے۔

    کاشمیری صاحب مزید لکھتے ہیں، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کے لیے جی رہے تھے۔ ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گزارتے رہے۔

    آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کے لیے جان لیوا ہو گئے۔ 12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں۔ اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی۔ مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں۔

    ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تأثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزار ہا انسان جمع ہو گئے۔

    جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا محمد میاں، مفتی عتیق الرحمٰن، سید صبیح الحسن، مولانا شاہد فاخری اور بیسیوں علماء و حفاظ تلاوتِ کلام الہیٰ میں مشغول تھے۔ آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22 فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے۔ جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔

    دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے۔ تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتّٰی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی، ایک ہی شخص تھا جس کے لیے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے، باالفاظِ دیگر مولانا تاریخِ انسانی کے تنہا مسلمان تھے، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچّوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں "اچھا بھائی خدا حافظ "کہا تھا۔

    ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔

    ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا "ڈاکٹر صاحب اللہ پر چھوڑیے۔”اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے؟ اب معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔”

    میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے۔ ایک آدھ منٹ کے لیے ہوش میں آئے۔ کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے، ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے۔ آنِ واحد میں ہندوستانی کابینہ کے شہ دماغ پہنچ گئے، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

    پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھنچے رہے، ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے۔

    مختصر … یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کیے گئے، مزار کھلا ہے، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرّہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کی وفات اور ان کے سفرِ آخرت پر شورش کی اس تحریر کے بعد اب مرحوم کے حالاتِ زیست، ان کی سیاسی اور ادبی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ابوالکلام آزاد کی پیدائش 1888 میں عرب کے شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ابوالکلام آزاد کی والدہ عالیہ بنت محمد کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ آزاد کے نانا مدینہ کے ایک مستند عالم تھے جن کا شہرہ دور دور تک تھا۔ اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آزاد نے مصر کی مشہور درس گاہ جامعہ ازہر سے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔

    عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آنے والے آزاد نے یہاں کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ یہیں سے ان کی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ کلکتہ سے 1912 میں انھوں‌ نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا جو پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا۔ اس کی اشاعت میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے جس پر 1914 میں اخبار پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا اور یہ بھی انگریز مخالف پالیسی کے مطابق چلایا جاتا رہا۔

    مولانا آزاد اوران کے ہم خیال جہاں انگریزوں کے مخالف تھے، وہیں قومی ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد پر ان کا پورا زور تھا۔ اس اخبار کے ذریعے آزاد نے قومی جذبات اور ملّی وحدت کے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں‌ مختلف اخبارات سے بھی آزاد کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابلِ ذکر ہیں۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی سرگرمیوں میں ان کا ’تحریک عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑو‘ اور ’خلافت تحریک‘ میں حصّہ لینا اور اپنے وقت کے نام ور اور نہایت بلند پایہ سیاست دانوں اور انگریز مخالف راہ نماؤں کے ساتھ کام کرنا شامل ہے، ان شخصیات میں گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران سے ان کے بہت اچھے اور گہرے مراسم رہے۔ وہ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے بہت متاثر تھے اور ان کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔

    مولانا آزاد اپنے زمانے میں ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے اور ان کی گاندھی اور کانگریس پارٹی کے حق میں سرگرمیوں نے انھیں‌ جیل کا منہ بھی دکھایا۔ وہ پارٹی کے صدر بھی رہے اور تحریک آزادی کے دوران جیل کی صعوبتیں‌ اٹھائیں۔

    تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مولانا آزاد کو وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا قیام اور دیگر تکنیکی، تحقیقی اور ثقافتی اداروں کی بنیاد رکھنا انہی کا کارنامہ ہے۔

    مولانا آزاد ہمہ اوصاف اور ایک ایسی شخصیت تھے جو بیک وقت سیاست اور ادب کے محاذ پر اپنے افکار اور قلم کے زور پر آگے رہے۔ وہ ایک صاحب طرز ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور مفسر بھی تھے۔ ان کا اسلوب نہایت شان دار اور قابلِ‌ تقلید تھا۔ ان کے انشائیے اور فلسفہ و سائنسی موضوعات پر مضامین کے علاوہ علمی و تحقیقی مقالات اور قرآن کی تفسیر بہت مشہور ہے۔

    آزاد کی کتاب غبارِ خاطر کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم اہلِ قلم کے حصّے میں‌ آئی ہے۔ یہ ان کے خطوط پر مشتمل کتاب ہے جو قلعہ احمد نگر میں قید کے دوران انھوں نے تحریر کیے تھے۔

  • مشفق خواجہ: ایک کھرا قلم کار

    مشفق خواجہ: ایک کھرا قلم کار

    مشفق خواجہ نے نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری سے ادبی حلقوں اور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ اردو زبان میں طنز و مزاح لکھنے والوں میں اپنے موضوع اور اسلوب کی وجہ سے انھیں ایک امتیاز بھی حاصل ہے۔ انھوں نے اردو ادب اور صحافت میں اپنے قلم سے خوب نام بنایا۔

    موضوع کی سطح پر مشفق خواجہ کا سب سے اہم کارنامہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں جگہ دی اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ کون تھا جسے انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے، مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ کو اردو ادب میں‌ ایک ادیب، نقّاد، شاعر اور بلند پایہ محقق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ان کی وجہِ شہرت ان کا کالم بہ عنوان خامہ بگوش بنا۔ مشفق خواجہ نے ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے اپنے کالموں میں اجاگر کیا۔ تاہم ان کے کالموں کو اگر ہم صنف کے اعتبار سے ادبی کالم کہیں تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق کھل کر لکھا اور کالموں میں ادبی گروہ بندیوں کو فروغ دینے والوں اور مفاد پرست ٹولے کو بے نقاب کیا۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا جو ادب کی دنیا میں‌ مشفق خواجہ کے نام سے پہچانے گئے۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    21 فروری 2005ء کو صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب مشفق خواجہ کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

  • زہرہ بائی انبالہ والی کا تذکرہ

    زہرہ بائی انبالہ والی کا تذکرہ

    برصغیر میں کلاسیکی فنِ موسیقی میں کئی گھرانوں کی شخصیات ممتاز ہوئیں اور ان کے علاوہ کئی پیشہ وَر رقاصہ اور گلوکار بھی اپنے فن و کمال کے سبب مشہور ہوئیں۔ یہ طوائف، مغنّیہ اور بائی کے لقب سے پہچانی جاتی تھیں۔ زہرہ بائی انبالے والی انہی میں سے ایک تھیں جنھوں نے ریڈیو اور فلم کے ساتھ نجی محافل میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب داد پائی۔

    بیسویں صدی کے آتے آتے ہندوستان میں نہ تو بادشاہت رہی تھی اور نہ ہی وہ راجہ، سلطان اور نواب جو ان بائیوں کا گانا سن کر اپنا دل بہلاتے اور ان پر اپنی دولت لٹاتے۔ اسی طرح پکّے راگ راگنیوں اور کلاسیکی موسیقی کا ذوق رکھنے والے بھی نہیں رہے تھے۔ مگر انیسویں صدی کے آخری برسوں تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت ضرور قائم رہا۔ زہرہ بائی کا سنہ پیدائش 1918ء ہے، اور وطن انبالہ۔ اس دور میں طوائفوں کے نام کی مماثلت بھی لوگوں کو الجھن میں ڈال دیتی تھی۔ اگرچہ زہرہ بائی کی ہم نام معروف طوائف دنیا میں نہیں رہی تھیں، لیکن ہندوستان بھر میں موسیقی اور گلوکاری میں ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ آگرہ والی تھیں اور اسی لیے زہرہ بائی کے ساتھ لاحقہ آگرہ والی لگا رکھا تھا ان کے بعد آنے والی یہ زہرہ بائی انبالہ والی کہلائیں۔ وہ 1930 سے اگلی ایک دہائی تک مصروف گلوکارہ رہیں‌ اور انھیں چالیس کی دہائی کے وسط کی سب سے مقبول پلے بیک سنگر کہا جاتا ہے۔

    زہرہ بائی انبالہ والی نے اپنے شوق سے موسیقی اور گلوکاری کو اپنایا۔ ان کا خاندان گلوکاری کو بطور پیشہ اپنائے ہوئے تھا، تاہم انھوں نے آگرہ گھرانے سے باقاعدہ موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ بچپن میں ان کی تعلیم و تربیت ان کے دادا غلام حسین خان اور اس کے بعد استاد ناصر حسین خان کے زیرِ‌ سایہ ہوئی۔ زہرہ بائی انبالہ والی 14 سال کی عمر میں ہی باقاعہد گانے لگی تھیں۔

    انبالے والی زہرہ بائی نے اپنے کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے بطور گلوکارہ کیا تھا۔ وہ بنیادی طور پر کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی پیش کرتی تھیں۔ بعد میں وہ فلمی صنعت کے لیے اپنی آواز کا جادو جگانے لگیں اور 1950ء میں یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ زہرہ بائی انبالہ والی 1990ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔

    زہرہ بائی انبالے والی کو زیڈ اے بخاری کی جوہر شناس نظروں نے پہچان کر ریڈیو پر متعارف کروایا تھا۔ وہ اُن دنوں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہاں استاد فیاض احمد خاں جیسے نامور لوگ بھی موسیقی کے شعبے سے منسلک تھے۔ ریڈیو سے وابستہ ہونے کے بعد ہی ان کی شہرت فلمی دنیا تک پہنچی۔ زہرہ بائی نے ایک گرامو فون کمپنی کے لیے بھی اپنی کھنک دار آواز میں ریکارڈنگ کروائی۔ ریڈیو پر بھی وہ بہت مصروف رہیں۔ زہرہ بائی انبالہ والی نے ٹھمری، دادرا، بھیرویں، خیال، غزل اور گیت سب گائے۔ 1944 میں بننے والی فلم ’’رتن‘‘ کے گیتوں نے زہرہ کو لازوال شہرت دی اور اس کے گیت امر ہوگئے۔ آج بھی ان فلموں کے سدا بہار گیت شائقین ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ ’’رتن‘‘ کے بعد ’’انمول گھڑی‘‘ 1946 میں، ’’میلہ‘‘ 1948 میں ’’جادو‘‘ 1951 میں ریلیز ہوئی تھیں جب کہ 1945 میں وہ مشہورِ زمانہ فلم بنی جس کا نام ’’زینت‘‘ تھا۔ اس کی ایک ’’آہیں نہ بھریں‘ شکوے نہ کیے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا ‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی جسے زہرہ بائی، نور جہاں اور کلیانی نے گایا تھا۔

    مشرقی پنجاب کے شہر انبالے میں جنم لینے والی زہرہ بائی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ماہرینِ فن کے مطابق ان کی صاف، نکھری ہوئی آواز میں قدرتی طور پر ایک چاشنی تھی جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ زہرہ کا شمار ان گلوکاراؤں میں ہوتا ہے جن کی آواز کی رینج بہت زیادہ تھی۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ مدھم اور نچلے سُروں میں گایا۔ ان ایک گیت جو بہت مقبول ہوا، یہ تھا۔

    پسِ دیوارکھڑے ہیں، تیرا کیا لیتے ہیں
    دیکھ لیتے ہیں، تپش دل کی بجھا لیتے ہیں

  • آغا طالش: پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام

    آغا طالش: پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام

    قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمی دنیا آباد ہوئی تو طالش بھی ان فن کاروں‌ میں شامل تھے جنھوں‌ نے سنیما بینوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ اگرچہ وہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ہی اداکاری شروع کرچکے تھے، لیکن اب پاکستان میں بڑے پردے پر نام بنانا ان کی خواہش تھی۔ آج آغا طالش کی برسی ہے جنھیں لیجنڈری اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    1962 میں فلم شہید، 1964 کی فلم فرنگی اور چند سال بعد زرقا وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آغا طالش کو صفِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ان فلموں‌ میں طالش کو ان کے کرداروں نے امر کر دیا۔ تقسیم سے قبل ان کی پہلی فلم سرائے کے باہر (1947) تھی جو لاہور میں بنی تھی۔ تقسیم کے بعد طالش کی پہلی فلم نتھ بتائی جاتی ہے جو 1952 میں‌ ریلیز ہوئی لیکن ابتدائی درجنوں فلموں میں ان کے کردار شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کرسکے تھے۔ اس عرصہ میں طالش ہیرو بنے، ولن کا رول کیا اور معاون اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی پردے پر دکھائی دیے۔ مگر پھر اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے وہ معیاری پرفارمنس دی کہ سنیما بین اور فلمی نقاد بھی ان کے معترف ہوگئے۔ اداکار آغا طالش نے فلم کی دنیا میں دہائیوں پر محیط اپنے سفر میں شان دار پرفارمنس کی بدولت پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر ترین نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش انتقال کرگئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آغا طالش نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان کے پشاور سینٹر سے کیا اور بعد میں فلم کی طرف آئے۔

    اداکار طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں تھے اور جب طالش کی پیدائش کے بعد ان کا تبادلہ متھرا ہوا تو وہیں‌ آغا طالش نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق ہوگیا تھا۔ طالش نے بطور چائلڈ اسٹار اسٹیج ڈراموں میں اداکاری بھی کی اور پھر سنیما کا شوق ایسا ہوا کہ بمبئی پہنچ گئے۔ کام تو مل گیا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرنا پڑی اور یہاں طالش کو بریک تھرو فلم سات لاکھ سے ملا تھا جس میں ان پر سلیم رضا کا سدا بہار گیت عکس بند کیا گیا جس کے بول تھے، یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ لیکن ان کی اصل پہچان فلم شہید کا منفرد کردار تھا جو 1962 میں پاکستانی فلم بینوں‌ کو بہت بھایا۔ اس فلم میں طالش نے ایک انگریز "اجنبی” کا کردار ادا کیا تھا جو تیل کی تلاش میں صحرائے عرب کی خاک چھانتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتا ہے اور مقامی قبیلے میں نفاق ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ طالش نے اس کردار کو بخوبی نبھایا اور اس یادگار کردار کے بعد انھیں فلموں‌ میں بڑے اور بھاری رول ملنے لگے۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امراؤ جان ادا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    آغا طالش نے پاکستانی فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    اداکار آغا طالش لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • صہباؔ اختر: ‘میں ابر تھا چھایا رہا!’

    صہباؔ اختر: ‘میں ابر تھا چھایا رہا!’

    ادب اور شاعری سے شغف رکھنے والی نئی نسل اور نوجوان شعراء میں‌ بھی بہت کم ایسے ہوں گے جنھیں صہباؔ اختر کے اشعار یاد ہوں‌ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اکثر نے ان کا نام تک نہ سنا ہو، لیکن یہ کچھ ایسا تعجب خیز بھی نہیں۔ وقت کی گردش اور زمانے کی رفتار میں‌ کئی نام سامنے نہیں رہے، لیکن اردو ادب میں ان کا مقام اور حیثیت برقرار ہے۔ صہبا اختر انہی میں‌ سے ایک ہیں۔ صہبا اختر کے مشاعرہ پڑھنے کے انداز میں جو طنطنہ رعب اور گھن گرج تھی۔ وہ انہی سے مخصوص ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی اس لحن میں غزل یا نظم نہیں پڑھ سکا۔ آج اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا یومِ وفات ہے۔

    صہبا صاحب نے اپنے زمانے میں اردو غزل اور نظم گوئی میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان کی بیشتر نظمیں وطن سے ان کی محبت اور اس مٹی سے پیار کا والہانہ اظہار ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ان مسائل کو بھی شاعری میں خوب صورتی اور شدت سے بیان کرتے ہیں‌ کہ جو ان کی نظر میں وطن کی صبحِ درخشاں کو تیرگی اور تاریکی کا شکار کرسکتے ہیں۔ ان کا لحن اور جذبہ ان کی شاعری میں دو آتشہ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

    صہباؔ اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور صہبا اختر کم عمری میں شعر کہنے لگے۔ انھوں نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا، علی گڑھ سے بی اے کی سند لی اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمۂ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے غزل کے علاوہ حمد و نعت، مرثیہ گوئی، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور گیت نگاری کے ساتھ ان کی ملّی شاعری نے انھیں بڑی شہرت دی۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ بعد از مرگ صہبا صاحب کے لیے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔

    احمد ندیم قاسمی نے اپنے مضمون میں‌ صہباؔ صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا:’’صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے۔ بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں۔ یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘

    صہبا صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے، نہایت کم گو تھے اور دوسرو‌ں کے متعلق یا اپنے ہم عصر شعراء کی عیب جوئی یا کسی پر نکتہ چینی کبھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک مشاعرے اور صہبا صاحب کا یہ تذکرہ پڑھیے: ’’غالباً 1955ء کا ذکر ہے، نواب شاہ میں ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کراچی سے شرکت کرنے والوں میں ایک چھیل چھبیلا جوان العمر شاعر بھی تھا۔ گھنے گھنے، گھنگریالے سیاہ اور چمکتے دمکتے بال، گول مٹول سا بھرا بھرا چہرہ، خمار آلود شربتی آنکھیں، ستواں ناک، متناسب لب اور دل کش قد و قامت کے ساتھ ساتھ تنومند جسم پر ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور صاف و شفاف لٹھے کا ڈھیلا پاجامہ۔ یہ تھی صہبا اختر کی سج دھج، جنھوں نے اپنی باری آنے پر بڑی لمبی بحر کی غزل چھیڑی اور وہ بھی منجھے ہوئے ترنم سے۔ حاضرین منتظر ہیں کہ ذرا کہیں رکیں تو داد و تحسین سے نوازے جائیں۔ اُدھر بھائی صہبا اختر کی محویت کا یہ عالم کہ جیسے ایک ہی سانس میں پوری غزل سنا ڈالیں گے۔ مسئلہ پوری غزل کا نہیں بلکہ مطلع ہی ایسی بحرِ طویل کو تسخیر کر رہا تھا کہ سانس لینے کی فرصت کسے تھی۔ بہرکیف غزل خوب جمی اور داد بھی بہت ملی۔

    یہاں‌ صہبا اختر کی ایک غزل ہم قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    صہبا اختر ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے لیے بھی پابندی سے لکھتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا شامل ہیں۔

    19 فروری 1996ء کو صہبا اختر انتقال کرگئے تھے۔ انھیں کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • حیاتُ اللہ انصاری: ادب اور صحافت سے سیاست کے میدان تک

    حیاتُ اللہ انصاری: ادب اور صحافت سے سیاست کے میدان تک

    اردو زبان و ادب میں کئی نام ایسے ہیں جنھیں ہم فراموش کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ناقدین نے ان ادیبوں‌ کے فن و تخلیق کو موضوع نہیں بنایا۔ حیاتُ اللہ انصاری کا نام اگرچہ مختصر افسانہ نویس کے طور پر بہت اہم رہا ہے، لیکن ان کی زندگی میں اس کا اعتراف کم ہی کیا جاسکا۔ وہ افسانہ و ناول نگار، نقّاد، اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ آج حیاتُ اللہ انصاری کی برسی ہے۔

    حیات اللہ انصاری کے افسانہ بعنوان ‘‘بڈھا سود خور’’ نے ادبی دنیا کو اس وقت اپنی جانب متوجہ کیا تھا جب فکشن نگاری میں کرشن چندر جیسا نام ہر طرف سنائی دیتا تھا اور راجندر سنگھ بیدی و دیگر ادیب قارئین میں مقبول تھے۔ اس افسانے سے قلم کار کی حقیقت پسندی اور انسان دوستی کا علم ہوتا ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر یہ افسانہ 1930ء میں شایع ہوا۔ یہ حیات اللہ انصاری کا پہلا مطبوعہ افسانہ تھا۔

    حیات اللہ انصاری کو مختصر کہانی اور افسانہ نگاری میں کمال حاصل ہوا۔ متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد بھارت میں وہ ایک ماہرِ تعلیم اور تحریکِ اردو کے پُرجوش اور مضبوط کارکن کے طور پر مشہور ہوئے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری بھی اسی دور میں افسانوی ادب میں نام بنا رہے تھے۔ ان کے درمیان حیات اللہ انصاری کے قلم کی خوبی یہ تھی کہ وہ انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی کا خوگر رہا۔ اس کے علاوہ فنی اعتبار سے حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے بھی قارئین کو متوجہ اور ناقدین کو متاثر کیا۔ ان کا طرزِ‌ بیان خوب صورت اور تحریر دل نشیں ہونے کے ساتھ موضوع اپنی بلند خیالی اور مقصدیت سے بھرپور رہا ہے۔ حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا تھا۔ ان کی دوسری کتاب ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرے مجموعے کی اشاعت ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے ہوئی۔ 1991 میں ‘‘ٹھکانہ’’ شایع ہوئی اور یہ ان کی چوتھی کتاب تھی۔ حیاتُ اللہ انصاری نے ناول بھی لکھا جس میں‌ ‘‘لہو کے پھول’’ کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ ان کا پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا اور اس پر بعد میں بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔ ایک ناول ’’گھروندا‘‘ کے نام سے اور ناولٹ بھی کتابی شکل میں‌ سامنے آئے۔ وہ مدیر ہفت روزہ ہندوستان، بانی مدیر قومی آواز لکھنؤ، مدیر ہفت روزہ سب ساتھ، مدیر ہفت روزہ سچ رنگ بھی رہے۔ اردو زبان کے لیے بھارت میں انھوں‌ نے بڑی خدمات انجام دیں اور اس زبان کو آئین اور حکومتی وعدوں‌ کے مطابق مقام اور اس کے حقوق دلانے کے لیے کوششیں‌ کرتے رہے۔

    حیاتُ اللہ انصاری لکھنؤ میں 1912 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل ہوئے اور اگلی جماعتوں سے کام یاب ہونے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ سیاست بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ لیکن پہلے وہ بطور قلم کار ترقی پسند تحریک سے جڑے اور پھر اپنے سیاسی نظریات کے تحت کانگریس کے پلیٹ فارم پر نظر آئے۔ وہ بحیثیت سیاست داں بھی متحرک رہے۔

    1999 میں آج ہی کے دن حیاتُ اللہ انصاری انتقال کرگئے تھے۔

  • ’ہوئی مدت کہ غالب مَر گیا پر یاد آتا ہے!‘

    ’ہوئی مدت کہ غالب مَر گیا پر یاد آتا ہے!‘

    مرزا غالب اردو کے واحد شاعر ہیں جن کے کلام کی کئی شرح بازار میں مل جاتی ہیں۔ ان کا فارسی کلام بھی اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا اور غالب کے خطوط بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ پاکستان اور بھارت میں ہر شخص غالب کا مداح ہے، خواہ وہ شاعری سے شغف نہ رکھتا ہو۔

    15 فروری 1869ء کو اسد اللہ خاں غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ یہ تحریر ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ہے۔ شاعری ہو یا نثر غالب کی شوخی، ظرافت، فلسفہ اور اندازِ بیاں انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا اور مقبول شاعر بناتے ہیں۔ اگر غالب کی شاعری گنجینۂ معنی کا طلسم ہے تو اُن کی نثر بہار آفرین۔ غالب اُس دور میں مشہور ہوئے تھے جب دلّی کے تخت پر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اپنے آخری دن پورے کر رہے تھے اور غالب کو بھی ان کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی تھی۔

    یہاں ہم سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف "شخصیات” سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس میں‌ برصغیر کے اس بڑے مفکر، عالم، مصنّف اور مشہور سیاست داں نے بھی غالب کی فن کارانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک نکتہ بھی سامنے رکھا ہے۔ مودودی لکھتے ہیں:

    "میں صرف مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں، بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا، مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم، ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا۔

    اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بد قسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فروتر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جاندار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔”

  • روبن گھوش کا تذکرہ جن کی دھنوں نے فلمی نغمات کو امر کر دیا

    روبن گھوش کا تذکرہ جن کی دھنوں نے فلمی نغمات کو امر کر دیا

    روبن گھوش کی بے مثال موسیقی کا سب سے نمایاں وصف جدت اور شوخ ردھم ہے۔ بلاشبہ روبن گھوش کی موسیقی میں کئی فلمی نغمات لازوال ثابت ہوئے۔ روبن گھوش 2016ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی فلم آئینہ نے روبن گھوش کو ان کے کریئر کی بلندیوں پر پہنچایا تھا۔

    روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلم سے کام کا آغاز کیا اور پھر اردو فلموں کی طرف آگئے۔ اردو فلم میں بطور موسیقار روبن گھوش کا سفر 1962 میں شروع ہوا تھا۔ ’چندا‘ وہ فلم تھی جس کے لیے روبن گھوش نے موسیقی ترتیب دی۔ اس زمانے میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی بڑے نام بطور موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ روبن گھوش ان کے درمیان ایک نوجوان موسیقار تھے جس نے فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھنے کے بعد جلد ہی اپنی محنت اور لگن سے اپنا راستہ بنا لیا۔ روبن گھوش نے اپنے کیریئر کے ابتدائی عرصہ میں فلم ’تلاش‘ کے لیے جو کام کیا، اس نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ یہ فلم 1963ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور روبن گھوش اس فلم کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ لے اڑے۔ روبن گھوش کی دھنیں‌ ان کی فن کارانہ چابک دستی اور فنِ موسیقی میں ان کے کمال کا نمونہ ہیں۔

    فلمی ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ فلم ’آئینہ‘ کو سپر ہٹ بنانے میں روبن گھوش کی لازوال دھنوں کا بڑا دخل تھا۔ اس فلم کے یہ گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے جن کے بول تھے ’کبھی میں سوچتا ہوں،‘ اسے مہدی حسن نے گایا تھا۔ اسی طرح ’مجھے دل سے نہ بھلانا وہ گیت تھا جس میں مہدی حسن کے ساتھ گلوکارہ مہناز نے آواز ملائی تھی۔ گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں‌ ایک مقبول نغمہ ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا‘ بھی اس فلم میں‌ شامل تھا۔

    روبن گھوش کی موسیقی میں کئی فلمی گیت بعد میں ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے اور انھیں شائقین نے ہر بار سراہا۔ یہ وہ سدا بہار گیت ہیں جنھیں‌ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اور یہ نغمات ایک نسل کے لیے اپنی نوجوانی اور خوشی و غم کی مناسبت سے یادگار ہیں۔ اخلاق احمد کی آواز میں روبن گھوش کی موسیقی میں اس گیت ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ نے سرحد پار بھی مقبولیت پائی تھی۔ آج بھی یہ نغمہ سماعتوں کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔

    یہ بھی درست ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں روبن گھوش کی لازوال موسیقی کا بڑا دخل رہا ہے۔ روبن گھوش کی موسیقی میں ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا… جیسے نغمات بھی شامل ہیں جن کو پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی سننے والوں نے بے حد پسند کیا۔

    موسیقار روبن گھوش کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا تعلق عرب دنیا کے مشہور شہر بغداد(عراق) سے تھا۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے۔ عراق میں روبن گھوش کے والد اپنے کنبے کے ساتھ بغرضِ ملازمت سکونت پذیر تھے۔ یہ عیسائی خاندان اس وقت ڈھاکہ چلا گیا جب روبن گھوش چھے سال تھے۔ وہیں نوعمری میں‌ روبن گھوش کو موسیقی سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اسی کو اپنا پیشہ بنایا۔ ڈھاکا ہی میں‌ روبن گھوش کی ملاقات اداکارہ شبنم سے ہوئی، وہ اس وقت فلم میں‌ معمولی کردار ادا کیا کرتی تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان سے شبنم نے لاہور اور کراچی میں فلمی صنعت میں اپنی قسمت آزمائی اور پھر وہ اپنے وقت کی مقبول ہیروئن بن کر سامنے آئیں۔ روبن گھوش سے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد یہاں وہ فلمی دنیا پر راج کرتی رہیں اور ان کے شوہر ایک کام یاب موسیقار کے طور پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ جوڑی 1996ء میں بعض وجوہ کی بناء پر بنگلہ دیش منتقل ہو گئی۔ جب کہ سقوطِ ڈھاکا کے وقت روبن گھوش نے مشرقی پاکستان کے بجائے مغربی پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ خاندان کراچی سے لاہور شفٹ ہو گیا تھا۔

    روبن گھوش کا اپنے وقت کے مقبول ہیرو وحید مراد کے ساتھ ایک دل چسپ مذاق فلمی دنیا میں مشہور ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وحید مراد بہت ہی سادہ طبیعت کے انسان تھے اور اکثر ان کے ساتھی ان سے مذاق کیا کرتے تھے۔ ان پر فلمایا جانے والا ایک مشہور نغمہ ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘ مجیب عالم نے گایا تھا جن کو وحید مراد نے دیکھا نہیں تھا۔ ایک فلمی تقریب میں مجیب عالم اپنی مخصوص چوڑے پائنچے کی پتلون پہنے موجود تھے تو وحید مراد انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ موسیقار روبن گھوش نے وحید مراد سے ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ یہ سینٹرل جیل کراچی میں پھانسیاں دیتے ہیں۔‘

    سادہ طبیعت وحید مراد مجیب عالم سے پوچھنے لگے، ’جب آپ پھانسی دیتے ہیں تو کیفیت کیا ہوتی ہے؟‘ اس دن تو وحید مراد چلے گئے مگر کچھ عرصے بعد کسی اور تقریب میں مجیب عالم کو گانا گانے کے لیے بلایا گیا تو وحید مراد نے کہا کہ ’میں مجیب عالم کو دیکھنا چاہتا ہوں جس کا گایا گانا مجھ پر فلمایا گیا ہے۔‘ جب اسٹیج پر مجیب عالم آئے تو وحید مراد کو یاد آیا کہ یہ وہ ہیں جن کا تعارف بطور جلّاد روبن گھوش ان سے کروا چکے ہیں۔ محفل کے بعد مجیب عالم سے ملاقات ہوئی تو وحید مراد نے معصومیت سے پوچھا کہ ’کیا آپ اب بھی پھانسیاں دیتے ہیں؟‘

    پاکستان میں ان کی آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ تھا جس کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔ انھیں چھے مرتبہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ روبن گھوش نے 76 برس کی عمر میں‌ ڈھاکہ میں وفات پائی۔