Tag: فروری برسی

  • چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکبست کا تذکرہ جن کے اشعار کو ضربُ‌ المثل کا درجہ حاصل ہے

    چکسبت کے کئی اشعار کو اردو زبان میں ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے اور اُن کے فن اور شاعرانہ اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ 1926ء میں آج ہی کے دن پنڈت برج نرائن چکبست وفات پاگئے تھے۔ چکبست شاعری میں غالب سے کافی متاثر تھے اور اپنے ہم عصروں میں انھوں نے علّامہ اقبال کا اثر قبول کیا تھا۔ ان کی شاعری کو وطن پرستی، مذہبی، اور ان کے سیاسی رجحان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔

    چکبست کی غزل کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا

    زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعر ہی نہیں‌ عمدہ نثر نگار بھی تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعۂ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    مشہور ہے کہ چکبست نے پہلا شعر نو، دس برس کی عمر میں کہا تھا۔ وہ ترقی پسند اور آزاد خیال شخص تھے جس نے انگریزی ادب اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ اور اس مطالعہ کے ان کے ذہن اور فکر پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ انھوں نے صرف 35 سال کی عمر میں اردو شعراء کے درمیان صف اوّل میں جگہ حاصل کرلی تھی۔ چکبست صرف 44 سال زندہ رہ سکے۔ وہ ایک مقدمے کے سلسلے میں لکھنؤ سے بریلی گئے تھے اور واپسی پر ریل کے سفر میں ہی ان پر فالج کا حملہ ہوا۔

    چکبست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ اور وطن کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ چکبست کا مشاہدہ بے پناہ تھا، انھوں نے غلامی کے دور دیکھے اور ظلم و ستم جو انگریزوں نے روا رکھا، ان پر چکبست کی دقیق نظر تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومیت و وطنیت کا عنصر غالب ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو کے اس مشہور شاعر کی ایک غزل آپ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • تنویر ڈار: ہاکی کا ناقابلِ‌ فراموش کھلاڑی

    تنویر ڈار: ہاکی کا ناقابلِ‌ فراموش کھلاڑی

    ہاکی کے کھیل میں پاکستانی ٹیم کی شان دار فتوحات اور بین الاقوامی سطح‌ پر کھلاڑیوں کی بے مثال کارکردگی تو ضرور ماضی بن گئی ہے، لیکن تنویر ڈار کا نام ہاکی کی تاریخ میں آج بھی زندہ ہے۔ تنویر ڈار 11 فروری 1998ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔

    تنویر ڈار 4 جون 1947ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی منیر ڈار بھی ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے جنھیں دیکھ کر تنویر ڈار نے بھی ہاکی کے کھیل میں دل چسپی لی اور وہ وقت آیا جب تنویر ڈار نے بھی پاکستانی ٹیم میں‌ شامل ہو کر ہاکی کے میدان میں فتوحات سمیٹیں‌۔ 1966ء میں اپنے بھائی منیر ڈار کی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد تنویر ڈار پاکستان کی ہاکی ٹیم کے مستقل فل بیک بن گئے تھے۔ 1968ء کے اولمپکس، 1970ء کے ایشیائی کھیلوں اور 1971ء کے عالمی کپ میں تنویر ڈار نے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان تینوں ٹورنامنٹس میں پاکستان نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ تنویر ڈار نے مجموعی طور پر 80 بین الاقوامی میچ کھیلے اور مجموعی طور پر 48 گول اسکور کیے۔ 1971ء کے عالمی کپ میں انھوں نے تین ہیٹ ٹرکس کیں۔ ان کا یہ ریکارڈ اب تک کوئی کھلاڑی نہیں‌ توڑ سکا۔ ہاکی کے بین الاقوامی سطح کے میچوں میں‌ پاکستانی ٹیم کی جانب سے شان دار کھیل کا مظاہرہ کرکے دنیا بھر میں‌ بطور کھلاڑی تنویر ڈار نے بڑا نام پیدا کیا۔ اولمپئن تنویر ڈار سے متعلق ایک میچ کے دوران مبصّر کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا، ’’تنویر ڈار کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور ہمیشہ کی جاتی رہے گی۔‘‘جس کا پس منظر یوں ہے کہ 1972ء کے میونخ اولمپکس کے دوران ریڈیو پاکستان کے دو ہاکی کمنٹیٹرز ایس ایم نقی اور فاروق مظہر موجود تھے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کو تنویر ڈار سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن وہ ٹورنامنٹ سے پہلے ایک پریکٹس میچ میں زخمی ہو گئے۔ چنانچہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تو لیفٹ فل بیک اخترالاسلام کو رائٹ فل بیک کی پوزیشن پر منتقل کر دیا گیا اور لیفٹ فل بیک کے طور پر ریزرو کھلاڑی منورالزمان آگئے۔ تنویر ڈار نے ٹورنامنٹ کے سارے میچ گراؤنڈ سے باہر رہتے ہوئے دیکھے۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں میڈیا کا فوکس تنویر ڈار پر رہا۔ پاکستان کا اسپین کے خلاف پول میچ برابر رہا تھا جب کہ مغربی جرمنی کے ساتھ پول میچ ہم ہار گئے تھے۔ ان دونوں میچوں کے دوران ریڈیو کمنٹیٹر یہ جملہ دہراتے رہے تھے۔ پاکستان سیمی فائنل اور پھر فائنل میں بھی پہنچ گیا۔ فائنل میں پاکستان مغربی جرمنی سے پول میچ کی طرح پھر ہار گیا اور اسی میچ کے دوران ریڈیو کمنٹری کرنے والے یہ جملہ ادا کرتے رہے جو زبان زدِ عام ہوگیا۔

    قومی ٹیم کی طرف سے پہلی بار تنویر ڈار نے ستمبر 1966ء میں مغربی جرمنی کے دورۂ پاکستان میں پشاور ٹیسٹ کھیلا تھا۔ تنویر ڈار نے میکسیکو اولمپکس میں چھ گول کیے تھے۔ بنکاک ایشین گیمز میں ان کے حصے میں دو گول جب کہ بارسلونا ورلڈ کپ میں آٹھ گولز کے ساتھ وہ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر تھے۔

    اولمپئن تنویر ڈار پینلٹی کارنر پر فلائنگ شاٹ کے ذریعے گول بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔ یورپی ٹیمیں اس وجہ سے تنویر ڈار سے بہت گھبراتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے تنویر ڈار کے پینلٹی کارنر شارٹ سے گھبرا کر یورپی ٹیموں نے ہاکی رولز میں تبدیلی کرکے پینلٹی کارنر پر ہٹ کی گئی گیند کا 18 انچ کے بورڈ پر لگنا لازمی قرار دے دیا تھا۔ اس زمانے میں ہاکی کے کھیل میں یورپی ٹیموں کی اجارہ داری تھی اور وہ اپنے فائدے کے لیے رولز میں تبدیلی کرا لیتی تھیں۔

    تنویر ڈار لاہور کے ڈی ایچ اے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سَر عبدالقادر شیخ:‌ معروف قانون داں‌ اور محسنِ‌ اردو کا تذکرہ

    سَر عبدالقادر شیخ:‌ معروف قانون داں‌ اور محسنِ‌ اردو کا تذکرہ

    یہ اس شخصیت کا تذکرہ ہے جو سَر شیخ عبدالقادر کے نام سے متحدہ ہندوستان میں‌ معروف تھے۔ وہ ایک قابل و باصلاحیت قانون داں بھی تھے اور اردو ادب اور صحافت کے شعبے میں بھی نام پیدا کیا۔ شیخ عبدالقادر اپنے دور کی ان شخصیات میں شامل تھے جنھیں شاعرِ مشرق علامّہ اقبال اور عظیم مصلحِ سرسیّد احمد خان جیسے اکابرین نے سراہا۔

    سَر عبدالقادر شیخ 9 فروری 1950ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ شیخ عبد القادر کی عملی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ ایک بہترین مدیر، محقق، مقالہ و انشائیہ نگار اور مترجم بھی تھے جب کہ انھیں اردو زبان اور جدید ادب کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔

    قابلِ‌ ذکر بات ہے کہ سَر شیخ عبدالقادر ہی وہ شخصیت ہیں‌ جنھوں نے علامہ اقبالؔ کے اوّلین مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ کا دیباچہ تحریر کیا تھا۔ ہندوستان کے تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی راہ نما سَر عبدالقادر شیخ کی ذہانت اور خوبیوں کے معترف تھے۔ انھیں اردو زبان سے بڑا لگاؤ تھا اور اس زمانے میں‌ وہ اردو کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنے میں پیش پیش رہے۔

    قانون داں اور ادیب سَر شیخ عبدالقادر 15 مارچ 1874ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سَرسیّد احمد خان کی تحریک سے وابستہ تھے۔ انھوں نے 1898ء میں پنجاب کے پہلے انگریزی اخبار آبزرور کی ادارت سنبھالی اور 1901ء میں ادبی جریدہ مخزن جاری کیا۔ دنیائے ادب میں مخزن کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ پہلی بار اس جریدے میں علامہ اقبال کی نظمیں شایع ہوئیں۔ 1904ء میں سَر شیخ عبدالقادر قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان گئے۔ 1907ء میں امتحان پاس کرنے کے بعد ہندوستان لوٹے تو پہلے دہلی اور بعد میں لاہور میں وکالت کا سلسلہ شروع کیا۔ سَر جلال الدّین، ان کے لاہور میں استقبال کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ شیخ صاحب علامہ اقبال سے پہلے بیرسٹری پاس کر کے لاہور آ گئے۔لاہور میں انھیں شاندار انداز میں خوش آمدید کہا گیا، بہت بڑا استقبالیہ جلوس نکالا گیا۔ ایسے مناظر کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ انگریز افسران بھی بہت متاثر نظر آتے تھے۔ اگلے روز گورنمنٹ ہاؤس میں ایک پارٹی تھی، ہم نے شیخ صاحب کو بھی دعوت نامہ بھجوا دیا۔ پارٹی میں موجود چیف کورٹ نے مجھ سے پوچھا کل لاہور میں کون شخص وارد ہوا ہے کہ جس کے استقبال کی گونج مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ میں نے کہا ابھی ملوائے دیتا ہوں، ان کی ملاقات شیخ صاحب سے کراتے ہوئے کچھ تعارفی کلمات بھی کہے، جن کی متقاضی شیخ صاحب کی ذات تھی۔ چیف صاحب نے مسکرا کر کہا، شیخ صاحب آپ کا استقبال آپ کے شایانِ شان ہوا۔

    1921ء میں شیخ صاحب ہائی کورٹ کے جج بنے اور 1935ء میں پنجاب کے وزیرِ تعلیم کا منصب سنبھالا۔ 1939ء میں انھیں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بنایا گیا اور 1942ء میں سر عبدالقادر کو بہاولپور میں چیف جج کا منصب دیا گیا۔

    سَر شیخ عبدالقادر کو لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ آلِ احمد سُرور ایک نکتہ شناس، بلند فکر کے حامل نثر نگار، شاعر، سوانح نگار، صحافی اور قابل استاد بھی تھے۔ اردو زبان میں تنقید کے میدان میں انھوں نے نئے چراغ روشن کیے اور اپنی تحریروں سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور ادب میں جدیدیت کو رنگ جماتے دیکھا اور اس کا اثر بھی قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں رہے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا اور وہیں وفات پائی۔ دنیائے شعر و ادب میں سُرور اپنے وسیع مطالعہ کے ساتھ تجزیاتی فکر اور منفرد طرزِ تحریر کے سبب بلند مقام رکھتے ہیں۔

    انھوں نے تنقید کے میدان خاص مقام بنایا اور برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال پر خوب کام کیا۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔ ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ ایک انٹرویو میں آلِ احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ :

    "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گذرا میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔ وہاں بزرگوں کے مزار بڑی کثرت سے ہیں۔ جن کے عرس بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بدایوں کی تہذیبی و سماجی زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ مشاعروں کا بھی رواج تھا۔”

    پروفیسر صاحب کی تاریخ‌ِ پیدائش 9 ستمبر 1911ء ہے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں صدرِ شعبہ ہوئے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے قریب ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں رہے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کے مخالف سُرور نے ادب میں اس ہنگامی اور انقلابی تصور کا ساتھ نہیں دیا جس کا پرچار اس وقت جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سُرور کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو مغربی اور مشرقی ادب کے مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں اترے تھے۔ اسی وصف کی بنیاد پر ان کی تنقید میں مغرب سے استفادہ اور مشرقی رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    بطور شاعر سُرور کو دیکھا جائے تو ہم ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری محسوس کرتے ہیں۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    وہ دلّی میں مقیم تھے اور وہیں 9 فروری 2002ء کو انتقال کیا۔ آلِ احمد سُرور کو پدما بھوشن اور ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا تذکرہ

    ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا تذکرہ

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا نام اردو ادب میں ان کی تخلیقات کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔ اردو کے اس ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد نے 7 فروری 1978ء کو اپنی آنکھیں‌ ہمیشہ لیے موند لی تھیں۔

    اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں‌ میں شاعری کے ساتھ بچّوں کے لیے لکھی گئی نظمیں صوفی صاحب کی ایک بڑی وجہِ‌ شہرت ہیں۔ وہ امرتسر میں پیدا ہوئے تھے اور بعد کا زمانہ لاہور میں گزارا۔ ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین نے اپنی ایک کتاب بعنوان ملاقاتیں‌ میں‌ صوفی صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا، صوفی صاحب اصل میں یہ بتا رہے تھے کہ امرتسر کیا خوب شہر تھا۔ ایک طرف قالینوں اور پشمینوں کے سوداگر، دوسری طرف شعرا و ادباء اور تیسری طرف علماء مشائخ۔ اور یہ سوداگر خود سوداگری کے ساتھ علم و فضل میں بھی شہرہ رکھتے تھے۔

    صوفی صاحب کے سامنے امرتسر کا نام لے دو، بس پھر وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا غلام علی، ان کے خلیفہ عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ غزنوی اور پھر انہیں اپنے دادا یاد آ گئے۔ ”میرے دادا، درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو تھالیاں تھیں۔ ایک تھالی میں خود کھاتے تھے وہ اور میری دادی، دوسری تھالی میں وہ درویش کھاتا تھا جو اس گھر میں مہمان تھا۔ تیسری تھالی اس گھر میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے کہ سامان کس دن کے لیے جمع کیا جائے اور تیسری تھالی کس کے لیے رکھی جائے۔“

    صوفی صاحب نے دادا کے گھر پرورش پائی۔ والد صاحب دوسرے قماش کے آدمی تھے۔ دادا نے انتقال کیا تو انہوں نے کتب خانہ کہ نادر علمی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں میں بانٹ دیا۔ بس کچھ فارسی شاعروں کے دیوان رہ گئے۔ صوفی صاحب نے وہ دیوان پڑھے اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔

    صوفی صاحب نے طالبِ علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا۔ کچھ دنوں خالصہ کالج میں پڑھے۔ پھر 1921ء میں لاہور چلے آئے اور ایف سی کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور کیا آئے کہ بس یہی ان کا گھر بن گیا۔

    لاہور میں صوفی صاحب کو تاثیر، بخاری، تاج اور سالک جیسے یار مل گئے۔ ایک دن تاثیر صاحب نے کہا کہ او صوفی تیار ہو جا، رسالہ نکال رہا ہوں۔ اس اعلان کے چند دنوں بعد ”نیرنگِ خیال“ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رسالوں میں بحثیں اپنی جگہ اور مشاعروں میں مقابلہ اپنی جگہ۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اس طرف سے تاجور نجیب آبادی، سیماب اکبر آبادی اور بڑا بڑا شاعر آتا۔ ادھر سے ہم نے حفیظ جالندھری کو میدان میں چھوڑا۔ اس مقابلہ آرائی نے لاہور شہر میں ایک زندگی پیدا کر دی۔ لیکن یہ مقابلہ بہت صحت مندانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ بُرے شعر پر خواہ اپنی ہی پارٹی کے شاعر کا ہو کبھی داد نہیں دی گئی۔ اچھا شعر ہو تو بے شک مخالف پارٹی کے شاعر کا ہو جی بھر کر داد دیتے تھے۔ ایس پی ایس کے ہال میں مشاعرہ تھا۔ سر عبدالقادر صدارت کر رہے تھے۔ میں نے فارسی میں غزل پڑھی۔ پیچھے کسی نے اچانک پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ یہ یاس یگانہ تھے جو داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ واللہ کیا شعر کہا ہے۔ تو آج کی سی منافقت ان دنوں نہیں تھی۔ شعر و ادب کے معاملہ میں ہم پُر خلوص تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ ادھر سے جو شاعر آتے ان میں سچا شاعر یگانہ تھا۔ پھر کہنے لگے کہ برسرِ مشاعرہ ہم نیاز مندانِ پنجاب ادھر سے آنے والوں کے خلاف صف آراء ہوتے تھے، مگر مشاعرہ ختم ہوتے ہی آپس میں گھل مل جاتے تھے۔

    صوفی صاحب نے باتوں باتوں میں نجی صحبتوں کو یاد کیا جو کبھی ان کے گھر پر اور کبھی بخاری صاحب کے گھر پر منعقد ہوتیں۔ کہنے لگے کہ ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان صحبتوں میں، مَیں نے اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یار اکٹھے تھے اور گھر میں میرے بیٹے کی جان کے لالے پڑے تھے، مگر مجال ہے کہ میں نے دوستوں کو پتہ ہونے دیا ہو۔ ہاں جب پریشانیاں گھیر لیتی تھیں تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچتا، ان کی باتیں خاموشی سے سنتا اور ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے نجات حاصل کر کے وہاں سے نکلتا۔

    پھر صوفی صاحب علّامہ اقبال کے حقّے کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ کہتے تھے کہ علامہ حقّہ پیتے نہ پیتے بہرحال اس کی نَے مٹھی میں دبائے رکھتے تھے اور باتیں کیے جاتے تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ حقہ کے بغیر میں بھی بات نہیں کر سکتا۔ رات کو بیچ بیچ میں آنکھ کھلتی ہے اور میں ایک گھونٹ لیتا ہوں اور سو جاتا ہوں لیکن اگر حقہ ٹھنڈا ہو تو پریشان ہو کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔“ پھر صوفی صاحب اپنی پریشانی بیان کرنے لگے کہ میرے پاس کوئی ملازم ہونا چاہیے کہ مستقبل میرے لیے حقہ گرم رکھے۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی تاریخِ پیدائش 4 اگست 1899ء ہے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستگی اختیار کی، ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ ادیب اور شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی تھے اور ان اصنافِ ادب میں ان کی علمی و ادبی کاوشوں نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ صوفی صاحب کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ بچّوں کا ادب ہے جس میں ان کی تخلیقات کے علاوہ ایسے مضامین اور غیر ملکی ادب سے تراجم شامل ہیں جو بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کردہ اپنی نظموں سے انھوں نے نہایت دل چسپ اور پُر لطف طریقے سے قوم کے معماروں‌ کو علم و عمل کی طرف راغب کرنے کا اہتمام کیا۔ ایک زمانہ تھا جب ان کی نظمیں ہر بچّے کو ازبر ہوتی تھیں۔ آج بھی ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں اور بچّوں‌ کو یاد کروائی جاتی ہیں۔

    صوفی تبسّم کا تخلیق کردہ ایک کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ صوفی تبّسم نے اپنی شاعری میں ٹوٹ بٹوٹ کو اس خوب صورتی سے پیش کیا کہ بچّوں نے اسے اپنا ساتھی اور دوست سمجھ لیا اور اس کے ساتھ تعلیم و تربیت کا عمل انجام پایا۔ ان نظموں کی خصوصیت معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ بچوں‌ کو دماغ سوزی پر آمادہ کرنا ہے اور اس کے لیے انھوں نے پہیلیاں، کہاوتیں اور لطائف کو منظوم کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے صوفی غلام مصطفیٰ‌ تبسّم کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا جب کہ حکومتِ ایران نے انھیں نشانِ سپاس دیا۔

    صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کی آخری آرام گاہ لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں ہے۔

  • اِندور کی لتا منگیشکر اور لاہور کے ماسٹر غلام حیدر (ایک قصّہ، ایک تذکرہ)

    اِندور کی لتا منگیشکر اور لاہور کے ماسٹر غلام حیدر (ایک قصّہ، ایک تذکرہ)

    مشہور غزل گائیک جگجیت سنگھ نے ایک موقع پر لتا منگیشکر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ’20 ویں صدی کی تین چیزیں یاد رکھی جائیں گی۔ ایک انسان کا چاند پر جانا، دوم دیوارِ برلن کا گرنا اور تیسرا لتا منگیشکر کا پیدا ہونا۔‘

    2022ء میں آج ہی کے دن لتا جی کی اس دنیا سے رخصتی سے بہت پہلے جگجیت سنگھ قیدِ حیات سے رہائی پاچکے تھے۔ دیکھا جائے تو فنِ موسیقی کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے لیے بھی شاید یہ بہت مشکل رہا ہو کہ لتا جی کو سراہنے کے لیے، ان کی تعریف میں کیا کہیں یا وہ کیا الفاظ ہوں‌ جن کا سہارا لے کر لتا جی کے فن کی عظمت کو بیان بھی کرسکیں اور ان کے الفاظ اس عظیم گلوکارہ کے شایانِ شان بھی ہوں۔ لیکن لتا جی کے لاکھوں مداح جو اس شاعری کو سمجھ سکتے تھے جسے لتا منگیشکر نے اپنی آواز دی، ان کو بڑی سہولت اور رعایت یہ رہی کہ وہ لتا منگیشکر کو لتا جی اور دیدی کہہ کر ان سے اپنی عقیدت اور پیار کا اظہار کرتے رہے۔ لتا منگیشکر 92 برس زندہ رہیں اور لگ بھگ 60 برس تک سُر، تال، ساز و آواز کی دنیا میں مشغول رہیں۔

    ہیما منگیشکر المعروف لتا منگیشکر کو لافانی گائیک بنانے کا سہرا میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقہ چونا منڈی سے تھا۔ لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’یہ سنہ 1947 کا زمانہ تھا اور فلم ‘شہید’ کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ اس زمانے کے نام ور میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر نے مذکورہ فلم کے ایک گیت کے لیے میرا آڈیشن لیا۔‘ وہ بتاتی ہیں ’ماسٹر صاحب کو میری آواز بہت پسند آئی اور میرے کہے بغیر انھوں نے اپنے من میں یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے پروموٹ کریں گے، انھی دنوں کی بات ہے کہ فلمستان اسٹوڈیو کے مالک اور مشہور پروڈیوسر شیشدھرمکھر جی نے ریہرسل میں میری آواز سُنی اور مجھے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’اس لڑکی کی آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے۔‘ شیشدھر مکھر جی اپنے وقت کے بہت بڑے فلم ساز تھے۔ لتا منگیشکر کے مطابق ’ماسٹر غلام حیدر نے شیشدھر مکھر جی سے کہا کہ یہ لڑکی (لتا) برصغیر کی میوزک مارکیٹ میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گی لیکن وہ نہ مانے۔‘ ’شیشدھر کے انکار پر ماسٹر غلام حیدر ناراض ہو گئے اور کہا ’مکھرجی صاحب ویسے تو آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے لیکن میرے الفاظ نوٹ کر لیں ایک دن آئے گا کہ پروڈیوسر، لتا کے دروازے پر قطار باندھے کھڑے ہوں گے۔‘ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

    لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر گلوکار اور اداکار تھے۔ لتا منگیشکر بھی شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ کمال امروہوی کی فلم ’’محل‘‘ 1949 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا گانا’’آئے گا ،آئے گا ،آئے گا آنے والا، آئے گا‘‘ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور یہ گانا مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا۔ اس گیت کو آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں ہیں’’خاموش ہے زمانہ چپ چاپ ہیں ستارے…آرام سے ہے دنیا بے کل ہیں دل کے مارے… ایسے میں کوئی آہٹ اس طرح آ رہی ہے…جیسے کہ چل رہا ہے من میں کوئی ہمارے …یا دل دھڑک رہا ہے اِک آس کے سہارے …آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا آئے گا…۔‘‘ یہ نخشب جارچوی کا تحریر کردہ خوب صورت گیت تھا جس کی موسیقی کھیم چند پرکاش نے ترتیب دی تھی۔ اس گانے نے لتا منگیشکر پر فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیے۔ فلم کے ہیرو اور فلم ساز بھی اداکار اشوک کمار تھے اور ان کی ہیروئن مدھو بالا تھیں۔ فلم کے مصنف اور ہدایت کار کمال امروہوی تھے۔

    اس گیت کی ریکارڈنگ کا بھی دل چسپ قصہ ہے۔ مشہور ہے کہ جب یہ گیت ریکارڈ کیا گیا تو ’آئے گا، آئے گا‘ کا تأثر گہرا کرنے اور اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لتا جی نے چل پھر کر اسے ریکارڈ کرایا۔ یوں دھیمے سروں سے گیت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لتا جی کی آواز خوشبو بن کر پھیلی اور برصغیر میں ان کا خوب شہرہ ہوا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے کریئر کا آغاز 1942 میں کیا۔ تاہم انھوں نے اردو فلموں کے لیے پہلا گانا 1946 میں ‘آپ کی سیوا’ نامی فلم کے لیے گایا۔ بولی وڈ میں ان کی شہرت کا آغاز 1948 میں فلم ‘مجبور’ کے گیت دل میرا توڑا سے ہوا اور اگلے سال فلم ‘محل’ سامنے آئی جس کے بعد لتا نے مڑ کر نہیں‌ دیکھا۔

    لتا منگیشکر کا نام 1974 سے 1991 تک سب سے زیادہ گانوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا۔ یہ نام 2011 تک ورلڈ ریکارڈ کا حصہ رہا۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکارہ کے طور پر اہم مقام حاصل کیا۔

    گلوکارہ لتا منگیشکر کے گیتوں کا ترنم، نغمگی اور تازگی گویا سماعت پر ایک سحر سا طاری کر دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے گیت دل ميں اُتر جاتے ہیں۔ سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد طبّی پیچیدگیوں کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔

  • ایم اشرف: ناقابل فراموش موسیقار

    ایم اشرف: ناقابل فراموش موسیقار

    آج سدا بہار فلمی گیتوں کے لیے سریلی دھنیں تخلیق کرنے والے ایم اشرف کی برسی منائی جارہی ہے۔ ‘تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں….ساری عمر بتا دوں۔ یہ مقبول ترین گیت آپ نے بھی سنا ہو گا، اس کی موسیقی ایم اشرف ہی نے ترتیب دی تھی۔

    پاکستانی موسیقار ایم اشرف 4 فروری 2007ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی گیتوں کی موسیقی ترتیب دی جو آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    یکم فروری 1938ء کو پیدا ہونے والے ایم اشرف نے موسیقار اختر حسین سے فنِ موسیقی کی تربیت حاصل کی اور اپنی محنت اور لگن کے سبب فلم نگری تک پہنچے جہاں انھوں نے اپنے دور کے دیگر موسیقاروں کے درمیان اپنی جگہ بنائی۔ ایم اشرف مشہور موسیقار ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے تھے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک فن کار گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں شروع ہی سے ساز اور سُر کا شوق تھا اور اسی فنِ موسیقی کو اپنا کر فلم انڈسٹری میں‌ نام بنایا۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر ایم اشرف نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کرتے رہے۔ ایم اشرف نے اپنے کیریئر میں 400 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ ان کی بدولت متعدد گلوکار بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے جن میں ناہید اختر، نیرّہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ ایم اشرف 1960ء سے 70ء تک دو عشرے انڈسٹری میں مصروف رہے۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا، جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے لازوال بنا دیا اور وہ بہت مقبول ہوئے۔ پاکستان کے اس باصلاحیت موسیقار کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ملکۂ ترنّم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سیّد، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے ان کی مرتب کردہ دھنوں میں گیت گائے۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ اپنے نام کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • نوبیل انعام یافتہ فلسفی اور ماہرِ‌تعلیم برٹرینڈ رسل

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی اور ماہرِ‌تعلیم برٹرینڈ رسل

    دنیا برٹرینڈ رسل کو ایک فلسفی، ماہرِ تعلیم اور مؤرخ کے طور پر جانتی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ برطانوی رسل کے کئی فکری مباحث اور اقوال بھی مشہور ہیں۔

    برٹرینڈ رسل 2 فروری 1970ء کو چل بسا تھا۔ برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کا فلسفۂ تعلیم بہت مشہور ہے۔ ایک بہترین معلّم اور ماہرِ تدریس کے طور پر رسل نے روایتی طریقہ ہائے تدریس اور رسمی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں میں اختراع اور ایجاد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیا۔ رسل نے تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے پر اصرار کیا اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح ننھّے اور ناپختہ ذہنوں کے تخیّل کو وسعت اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مذہب اور خدا کے وجود پر اپنے مباحث اور دلائل کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    برٹرینڈ رسل کو علم کا شیدائی کہتے ہیں جس کا اوّلین عشق ریاضی کا مضمون تھا۔ لیکن اس کی استعداد اور قابلیت صرف اسی مضمون تک محدود نہ رہی بلکہ عمر اور تعلیم کے مدارج طے کرتے ہوئے رسل دوسرے مضامین میں بھی طاق ہوا۔

    ذہین اور باصلاحیت برٹرینڈ رسل 18 مئی 1876ء کو انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں پیدا ہوا۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھا بلکہ اس کے والد کا نام سَر جان رسل تھا جو انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے۔ وہ کٹّر مذہبی گھرانے کا فرد تھا اور اس کا شمار برطانوی طبقۂ اشرافیہ میں ہوتا تھا۔ رسل کی ابتدائی تعلیم ویلز میں ہوئی۔ والدین کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں جس کے باعث وہ اپنے بیٹے کو بچپن میں وقت نہیں‌ دے پاتے تھے اور یوں رسل کا خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود اور سیکھنے سمجھنے میں گزرتا تھا۔ اسے شروع ہی سے غور و فکر کی عادت پڑ گئی تھی۔ رسل کی ذاتی زندگی میں کچھ تلخ یادیں اور مختلف مشکلات بھی شامل رہیں، مگر اس نے اپنی پڑھائی اور سیکھنے کے شوق کو اہمیت دی اور آگے بڑھتا چلا گیا۔

    1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کرنے کے بعد رسل نے اسی یونیورسٹی میں تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بعد کے برسوں میں‌ وہ دنیا بھر کی جامعات میں لیکچرز دینے اور اساتذہ کی تربیت کا کام انجام دیتا رہا۔ برٹرینڈ رسل نے نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بطور مدرّس اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

    برٹرینڈ رسل کی علمی و ادبی خدمات اور فلسفے کے میدان میں کارناموں کی بات کی جائے تو اس نے سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کیے جو بہت مفید اور معلوماتی ہیں۔ وہ ایک ایسا بیدار مغز استاد، ادیب اور فلسفی تھا جس نے ویتنام کی جنگ کے زمانے میں امریکا کو ظالم کہا اور حکومت کو مطعون کیا۔ رسل کو اسی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہنا پڑا۔

    1950ء میں اسے ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ برٹرینڈ رسل کی آپ بیتی 1967ء میں شائع ہوئی تھی اور اسے دنیا کی مقبول ترین آپ بیتیوں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ رسل ان دانش وروں میں شامل تھا جس نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی تھی اور اسے غاصب قرار دیا تھا۔

    برٹرینڈ رسل کا نظریہ تعلیم طالبِ علموں میں اختراعی اور ایجادی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتا ہے‌ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی صلاحیتوں‌ کو اجالنے کے ضمن میں برٹرینڈ رسل کے یہ آٹھ اقوال بہت مشہور ہیں جو طلبا ہی نہیں اساتذہ کی بھی راہ نمائی کرتے ہیں۔

    1- کسی چیز کے حوالے سے حتمی اور یقینی رویّہ مت اپنائیے۔

    2- کسی تجرباتی مرحلے پر ہرگز نہ کہیے کہ کوئی بہت اہم انکشاف ہوا ہے، کیوں‌ کہ اس کا ثبوت تجرباتی حقائق کی روشنی میں ازخود سامنے آجائے گا۔

    3- کام یابی کا یقین ہوجانے کے بعد بھی غور و فکر ترک نہ کیجیے اور اپنے تخیّل کی حوصلہ شکنی سے بچیے۔

    4- علمی اختلاف کی صورت میں‌ زور زبردستی کے بجائے دلیل سے کام لیجیے، کیوں کہ اصرار اور زور زبردستی سے کسی مباحثے میں جیت، غیر حقیقی اور فریب کے سوا کچھ نہیں‌ ہوتی۔

    5- کسی کی رائے کو طاقت سے کچلنے کی کوشش نہ کریں ورنہ خود آپ کی رائے اور بیان کو دبا دیا جائے گا۔ اگر آپ اپنی رائے کا احترام کروانا چاہتے ہیں تو دوسروں کی آرا کو عزت و احترام دیں، تبھی آپ کی بات سنی جائے گی۔

    6- اپنی رائے کے منفرد اور خارج از بحث ہونے سے مت گھبرائیں‌، کیوں کہ آج جس فک اور رائے کو قبول کر لیا گیا ہے، کبھی اسے بھی خارج از امکان تصوّر کیا گیا تھا۔

    7- اپنی ذہانت کا ادراک کرنے کے جتن کیے بغیر لطف اندوز ہونا سیکھیے، کیوں کہ جب ذہانت کو عقل کے پیمانوں کی مدد سے جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ مدھم پڑجاتی ہے۔

    8- محتاط انداز سے ہمیشہ صداقت کا ساتھ دیجیے۔ اس لیے کہ اگر سچ پریشان کُن بھی ہو تو یہ اس سے کم ہوگا، جسے آپ منکشف کرنا چاہتے ہیں۔

    برٹرینڈ رسل زندگی بھر تحریر اور تقریر میں‌ مصروف رہا۔ ایک ادیب اور کہانی کار کے طور پر رسل کا بہت کم ہی ذکر ہوتا ہے، لیکن اس کے افسانوں پر مشتمل دو کتابیں‌ بھی شایع ہوئی تھیں۔

  • نور محمد لاشاری: دل نواز شخصیت، باکمال اداکار

    نور محمد لاشاری: دل نواز شخصیت، باکمال اداکار

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اور منجھے ہوئے اداکاروں میں سے ایک نور محمد لاشاری آج ہم میں نہیں، لیکن ان کا شیریں لہجہ، محبّت بھرا انداز اور وہ کردار انھیں زندہ رکھے ہوئے ہیں جو پی ٹی وی کے ڈراموں‌ میں لاشاری صاحب نے نبھائے۔ یکم فروری 1997ء کو نور محمد لاشاری انتقال کرگئے تھے۔

    نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے محکمہ تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

    نور محمد لاشاری نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستہ رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے صدا کاری کے میدان میں‌ خود کو منوایا اور سامعین میں مقبول ہوئے۔

    ملک میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے کراچی اسٹیشن کے لیے انھوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ نور محمد لاشاری نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں‌ لازوال کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ دو درجن سندھی اور اردو فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کا مکالموں کی ادائیگی کا مخصوص انداز، لب و لہجہ اور ایک خاص ٹھہراؤ ان کے کرداروں‌ میں‌ ایسی جان ڈال دیتا تھا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا۔

    جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی جیسے پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں نور محمد لاشاری نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ 1993ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار نور محمد لاشاری سے متعلق ہم لیاقت راجپر کے ایک کالم سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو مرحوم کی شخصیت ہمارے سامنے لاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ریڈیو پر لاشاری صاحب کی زیادہ دوستی نیوز کاسٹر کامران بھٹی اور رشید صابر مرحوم سے تھی جس کا گھر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع تھا۔

    اس سے ملنے کے لیے لاشاری اکثر جایا کرتے تھے اور فلیٹ کے نیچے ففٹی سی سی موٹر سائیکل کھڑی کر کے سب سے پہلے صابر کو آواز دیتے۔ اگر وہ ہوتا تو پھر اس سے چائے کی فرمائش کرتے۔

    ایک مرتبہ لاشاری صاحب ایک کلو جلیبی لے آئے اور اسے پلیٹ میں رکھ کر کھا گئے۔ پھر کہا کہ انھیں چائے کی پیالی دی جائے جو چینی کے بغیر ہو، کیوں کہ انھیں شوگر ہے۔

    ان کی زندگی کا ایک سچا واقعہ جو وہ خود سناتے تھے کہ ایک مرتبہ کسی فلم کا ایک سین حقیقت میں بدل رہا تھا اور وہ مرتے مرتے بچے۔ انھیں پھانسی دی جارہی تھی۔

    جب سین ریکارڈ ہونے لگا تو پھندے کو روکنے والی رسی کھل گئی اور پھندا لاشاری صاحب کے گلے میں آنا شروع ہوا۔ ان کی سانس رک رہی تھی اور ڈائریکٹر اور دوسرا عملہ تالیاں بجا رہا تھا کہ کیا پرفارمنس دی ہے، مگر جب ان کی حالت خراب ہوتی دیکھی تو بھاگے اور انھیں اٹھایا۔ وہ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

    لاشاری جب جنگل شاہی میں ٹیچر تھے تو ایک ٹھیکے دار کے پاس منشی کا کام بھی کرتے تھے۔ مچھلی کے اس ٹھیکے دار کے پاس کام کرنے سے انھیں مچھیروں سے ملنا پڑتا تھا اور پھر سیہون کے قریب منچھر جھیل جا کر مچھیروں سے ملتے تھے۔ ان کا مچھلی کا شکار، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، ان کے طور طریقے، رسم و رواج سب دیکھ چکے تھے جو مچھیرے کا کردار ادا کرنے میں بڑے کام آئے۔

    یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ لاشاری فوج میں بھی گئے تھے جہاں سے بھاگ آنے پر تھوڑی سزا پانے کے بعد انھیں معاف کر دیا گیا تھا۔

    نور محمد لاشاری کو منگھو پیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری ‘ڈسکو کنگ’ کے نام سے مشہور تھے۔ بطور گلوکار اور موسیقار بپّی لہری نے بولی وڈ میں اسّی اور نوے کے عشرے میں ڈسکو میوزک کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔

    گلوکار اور موسیقار بپّی لہری اپنے مداحوں میں ڈسکو گیتوں کے علاوہ اپنے ‘ڈسکو حلیے’ کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ زرق برق لباس، سونے کے زیورات اور آنکھوں پر خوب صورت چشمہ بپّی لہری کی پہچان تھا۔ 15 فروری 2022ء کو بپّی لہری چل بسے تھے۔ اپنی موت سے ایک روز قبل ہی تقریباً ایک ماہ اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہو کر گھر آئے تھے، لیکن اچانک طبعیت بگڑ گئی اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ بپّی لہری کورونا سے بھی متاثر ہوئے تھے۔

    بولی وڈ کی فلم ‘نمک حلال’،’ڈسکو ڈانسر’ اور ڈانس ڈانس میں بپّی لہری کے ڈسکو گانے بہت مقبول ہوئے تھے۔ بطور موسیقار انھوں نے 700 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی دی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں‌ مقبول ہوئے۔

    بپّی لہری کا تعلق مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی سے تھا جہاں انھوں نے 1952ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام آلوکیش لہری تھا۔ گانا بجانا اور موسیقی ان کا ورثہ تھی۔ ان کے والد اپریش لہری اور والدہ بنساری لہری بنگلہ زبان کے گلوکار اور موسیقار تھے۔ بپّی لہری کے مطابق ان کا موسیقی سے تعلق صرف تین برس کی عمر میں قائم ہوگیا تھا۔ اس عمر میں وہ طبلہ بجانے لگے۔ گھر میں راگ راگنیوں کی باتیں ہوتیں اور ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا۔ اس ماحول میں بپّی لہری پروان چڑھے۔

    فلمی صنعت کے لیے انھوں نے اپنا نام بپّی لہری منتخب کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ اپنے فلمی کیریئر میں بپّی لہری نے زیادہ تر پارٹی ڈانس کی موسیقی ترتیب دی۔ بولی وڈ میں بپّی لہری نے بطور موسیقار اپنا سفر 1973 میں شروع کیا تھا۔ ’ننھا شکاری‘ کے سارے گیت انہی کی موسیقی سے سجے تھے۔ بپّی لہری کو فلم ’شرابی‘ کے لیے سنہ 1985 میں بہترین میوزک ڈائریکٹر کا انعام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک سال کے دوران وہ سب سے زیادہ گیت ریکارڈ کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے موسیقار بنے اور سنہ 2018 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے۔ بولی وڈ کے اس مشہور گلوکار اور موسیقار نے سنہ 2020 میں فلم ’باغی 3‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی اور یہی اُن کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

    بپّی لہری نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ وہ سنہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر کام یاب نہ ہوسکے۔ وہ اس سے قبل سنہ 2004 میں کانگریس کے انتخابی مہم میں بھی حصّہ لے چکے تھے۔

    بھارت کے اس معروف گلوکار اور موسیقار نے اپنے مخصوص حلیے اور زیبائش کے بارے میں‌ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ امریکی راک اسٹار ‘ایلوس پریسلے’ کے بہت بڑے مداح تھے اور اسے پرفارمنس کے دوران سونے کی چین پہنے دیکھتے تھے تو یہیں سے شوق ہوا اور اپنا ایک الگ امیج بنانے کی خواہش کرتے ہوئے سونے کے زیورات اور کڑے وغیرہ پہننا شروع کیے۔ انھیں اکثر بھارتی اخبار اور دوسرے ذرایع ابلاغ میں ‘گولڈن مین’ بھی کہا اور لکھا جاتا تھا۔

    بپّی لہری کے لیے سونا اور چاندی خوش قسمتی کی علامت تھے۔ لوک سبھا کے الیکشن میں امیدوار بننے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثوں بشمول سونے اور چاندی کی تفصیلات بتائی تھیں۔ ان کے پاس اس وقت کُل 752 گرام سونا اور 4.62 کلو چاندی تھی۔

    بولی وڈ کے عظیم گلوکار اور اداکار کشور کمار آنجہانی بپّی لہری کے ماموں تھے۔ بپّی لہری کشور کمار کو ’ماما جی‘ کہتے تھے۔

    گریمی ایوارڈ حاصل کرنا بپّی لہری کی وہ خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی، لیکن وہ اس ایوارڈ کی جیوری کے رکن ضرور بنائے گئے۔