Tag: فروری برسی

  • خوشحال خان خٹک کا تذکرہ جس کی سرکوبی کے لیے شہنشاہِ ہند کو خود آنا پڑا

    خوشحال خان خٹک کا تذکرہ جس کی سرکوبی کے لیے شہنشاہِ ہند کو خود آنا پڑا

    اقبال کے مجموعۂ کلام ’’بالِ جبریل‘‘ میں ایک مختصر نظم شامل ہے۔ ’’خوشحال خاں کی وصیت‘‘ کے عنوان سے شامل ہے اور موضوعِ سخن ہیں، خوشحال خان خٹک۔ اس نظم میں اقبال نے خوشحال خاں خٹک کو جاں باز کہہ کر آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

    خوشحال خان خٹک کو صاحبُ السّیف و القلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف پشتو زبان کو اپنی شاعری سے مالا مال کیا بلکہ وہ ایک ایسے حریت پسند تھے جنھوں نے زندگی پر اپنی آزادی کو مقدّم رکھا۔ خوشحال خان خٹک کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ صدیاں بیت چکی ہیں۔ 1689ء میں‌ آج ہی کے دن انھوں نے اجل کی پکار پر لبیک کہا تھا۔

    کہتے ہیں وہ خطّاط بھی تھے۔ سُر اور ساز سے لگاؤ رکھتے تھے، لیکن تلوار کے دستے پر بھی گرفت خوب مضبوط تھی۔

    بعض نقّادوں کا خیال ہے کہ خودی، شاہین اور مردِ مومن کا تصوّ جو علاّمہ اقبال کی شاعری میں تواتر سے ملتا ہے، اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار خوشحال خان خٹک نے بھی اپنے کلام میں کیا ہے۔ وہ اقبال ہی کی طرح انسان کی عظمت اور کائنات میں اس کے مقام کے قائل تھے اور اسے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنے اور سخت کوشی کا سبق دیتے رہے۔ اقبال کی شاعری کی طرح باز یا شاہین کو انھوں نے بھی اپنی شاعری میں اعلیٰ صفات اور شوکت کا حامل پرندہ قرار دیا ہے۔ حریت اور آزادی کا پیغام بھی خوشحال خان خٹک کے کلام کا نمایاں وصف ہے۔

    مغربی محققین نے خوشحال خاں کو ’’پشتو کا سپاہی شاعر‘‘ کہا ہے۔ وہ مغلوں کی فوج میں منصب دار تھے۔ شاہ جہاں کے دور میں انھوں نے مغلوں کی طرف سے کئی لڑائیوں میں بھی حصّہ لیا تھا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں حاسد سرداروں کی وجہ سے وہ بادشاہ کی نظروں سے اتر گئے تھے۔ بعد میں انھیں پشاور طلب کرکے گرفتار کر لیا گیا اور پھر دہلی میں قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران وہ شاعری بھی کرتے رہے اور پھر ان کی رہائی عمل میں آئی، جس کے کچھ عرصے بعد تک انھوں نے مغلوں کا ساتھ دیا اور بعد میں باغی ہوگئے اور طویل عرصے تک شاہی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔

    انھوں نے پشتون قبائل کو مغلوں کے خلاف متحد کیا اور‌ ان میں جذبۂ حریت ابھارا۔مشہور ہے کہ خوشحال خاں نے وصیت کی تھی کہ موت کے بعد مجھے ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں مغل شہسواروں کے گھوڑوں کے سموں سے اڑنے والی خاک بھی نہ پہنچ سکے۔

    پشتو زبان کے اس شاعر نے 1613ء میں پشاور کے نزدیک ایک گاؤں اکوڑہ میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ بعد میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے۔ مغل دور میں شاہ جہاں نے ان کا حقِ سرداری قبول کیا تھا، مگر بعد میں اورنگ زیب بادشاہ بنا تو خوشحال خان خٹک نے ایک موقع پر اس کے خلاف علمِ حرّیت بلند کیا اور گرفتاری کے بعد وفاداری کے وعدے پر رہا کیے گئے، جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

    مغلوں کے اس باغی کو زیر کرنے کے لیے مغل افواج نے جب بھی حملہ کیا، انھیں جھڑپوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ناکامی نے اورنگ زیب کو سخت مشتعل کر دیا اور ایک وقت آیا جب وہ خود اس سردار اور اس کا ساتھ دینے والے قبائلیوں کی سرکوبی کے لیے آیا اور خوشحال خان خٹک کو شکست دی۔

    خوش حال خان خٹک نے تقریباً چالیس ہزار اشعار یادگار چھوڑے ہیں جن میں تغزّل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ غالب ہے۔ بیش تَر کلام رجزیہ ہیں۔ ان کے اشعار میں جوش و ولولہ، آزادی کا موضوع اور مغلوں کی مخالفت پڑھنے کو ملتی ہے۔ خوشحال خان خٹک پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات نے بہت کچھ لکھا اور ان کی شاعری اور فکر و نظریہ پر تحقیق کے بعد کئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ پشتو کے اس مشہور شاعر کا مدفن اکوڑہ خٹک میں ہے۔

    تلوار جب تیز ہو جاتی ہے تو وار کے لیے
    زلفیں جب پیچ دار ہوتی ہیں تو اپنے عاشق کے لیے (اردو ترجمہ)

    یہ سردار خوشحال خان خٹک کی غزل کا ایک شعر ہے جو انھیں بیک وقت ایک جنگجو اور حُسن پرست ظاہر کرتا ہے۔

  • شمع اور افشاں جیسے مقبول معاشرتی ناولوں کی خالق اے آر خاتون کا تذکرہ

    شمع اور افشاں جیسے مقبول معاشرتی ناولوں کی خالق اے آر خاتون کا تذکرہ

    فاطمہ ثریّا بجیا نے اے آر خاتون کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل اس خوب صورتی سے دی کہ وہ پی ٹی وی کی تاریخ میں‌ یادگار ثابت ہوئے۔ اگرچہ اے آر خاتون کی کہانیوں اور کرداروں میں یکسانیت پائی جاتی ہے، لیکن ان کے ناولوں کا اختصاص برصغیر کے مسلم معاشرے کی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی بنتی بگڑتی صورتِ حال رہی جو ان کی مقبولیت کا سبب تھی۔

    24 فروری 1965ء کو اردو کی معروف اور مقبول ناول نگار اے آر خاتون اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام امت الرّحمٰن خاتون تھا، جو ادبی دنیا اور اپنے مداحوں میں اے آر خاتون کے نام سے پہچانی گئیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کردہ ان کی کہانیوں نے ہر طبقۂ فکر کو یکساں طور پر متاثر کیا اور انھیں ملک بھر میں شہرت ملی۔ کتابی شکل میں‌ اشاعت کے علاوہ ان کے ناولوں کو ڈائجسٹوں میں قسط وار شایع کیا گیا جس نے اے آر خاتون کے مداحوں کی تعداد میں خوب اضافہ کیا۔

    وہ دہلی کے ایک خاندان کی فرد تھیں جن کا سنِ پیدائش 1900ء ہے۔ اے آر خاتون کو ابتدائی عمر ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور گھر پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے مضمون نگاری کا آغاز کیا اور ادب میں اپنی دل چسپی اور لکھنے کے شوق کے سبب آگے بڑھتی چلی گئیں۔ ان کے مضامین اس وقت کے معروف رسالے "عصمت” میں شایع ہونے لگے جس سے اے آر خاتون میں اعتماد پیدا ہوا اور اس ضمن میں حوصلہ افزائی نے انھیں ناول تحریر کرنے پر آمادہ کیا۔

    1929ء میں ان کا پہلا ناول شمع منظرِ عام پر آیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور مشرقی روایات کے بیان کے ساتھ ان کا یہ ناول کے مصنّف کے طرزِ تحریر کی وجہ سے قارئین میں بہت مقبول ہوا۔ اس کام یابی کے بعد اے آر خاتون نے کئی ناول تخلیق کیے اور سبھی قارئین بالخصوص خواتین میں بہت مقبول ہوئے۔ شمع کے بعد ان کا مقبول ترین ناول افشاں کے نام سے سامنے آیا تھا جسے ڈرامائی تشکیل دینے کے بعد پی ٹی وی سے نشر کیا گیا تھا جس کا بہت شہرہ ہوا۔ اس کے بعد چشمہ، ہالا، رُمانہ اور ان کے دیگر ناولوں کو بھی پذیرائی ملی۔ مسلمان معاشرے کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے اے آر خاتون نے اپنے ان تمام ناولوں میں مقصدیت اور تعمیری پہلوؤں کو اہمیت دی ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اے آر خاتون ہجرت کرکے پاکستان آگئی تھیں۔ انھوں نے لاہور میں وفات پائی۔

  • روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    شہناز، نرگس اور نوتن کے بعد قسمت کی دیوی مدھو بالا پر مہربان ہوئی اور انھوں نے فلم مغلِ‌ اعظم میں انار کلی کا کردار نبھا کر اسے لازوال بنا دیا۔‌

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں اس اداکارہ کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے ‘وینس آف انڈین سینیما’ بھی کہا جاتا ہے۔ آج مدھو بالا کی برسی ہے جن کا اصل نام ممتاز تھا۔

    وہ ممتاز کے نام سے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔یہ 1942ء کی بات ہے۔ اس زمانے کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی نے ان کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں اپنا نام مدھو بالا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

    یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم میں جن دنوں اداکارہ اپنا مشہورِ زمانہ کردار نبھا رہی تھیں، بے حد بیمار تھیں، لیکن وہ برصغیر کے نام وَر فلم ساز، کے آصف کی توقعات پر پوار اتریں۔ کہتے ہیں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے لیے میں انار کلی کے کردار کے لیے فلم ساز کو جیسا حسن اور روپ، بانکپن، غرور اور دل کش لب و لہجہ چاہیے تھا، وہ سب مدھو بالا میں تھا۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جن کا چہرہ آنکھوں میں بَس جاتا اور وہ دل میں اتر جاتیں۔ روپ کی اس رانی نے شہرت اور نام و مقام تو بہت بنایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ انھیں زندگی کی صرف 36 بہاریں نصیب ہوئیں جس میں نو برس ایسے تھے جب وہ اپنے گھر میں اپنی بیماری سے لڑتے ہوئے تنہا وقت گزار رہی تھیں۔ 1969ء میں‌ آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    مدھو بالا 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے بعد ڈاکٹروں نے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے دل میں سوراخ ہے جس میں انھیں آرام کی ضرورت ہوگی، لیکن کم عمری ہی میں وہ فلم نگری میں‌ چلی آئیں جہاں مسلسل کام اور شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔

    خوب صورت اور خوش ادا ممتاز کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انھیں 9 سال کی عمر میں اپنے 11 بہن بھائیوں اور والدین کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے والد لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے اور وہاں سے بمبئی اس امید کے ساتھ پہنچے کہ ان کی خوب صورت بیٹی کو فلموں میں کام ضرور ملے گا اور وہ اس کی کمائی ان کی زندگی بدل دے گی۔ ہُوا تو یہی، مگر اس بھاگ دوڑ میں خود ان کی زندگی کے دن گھٹ گئے۔

    بولی وڈ کی اس اداکارہ اور دلیپ کمار کے درمیان رومانس کی خبر بھی اس زمانے میں خوب گرم رہی، اور بعد میں ان کے مابین دوریوں کا چرچا بھی ہوا، لیکن 1960ء میں وہ مشہور گلوکار کشور کمار کی دلہن بن گئیں۔ کشور کمار کو مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن وہاں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ اس دنیا میں چند سال کی مہمان ہیں۔ کشور کمار انھیں میکے میں چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہوگئے اور دو تین ماہ میں ایک بار ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور بے مثال کام کے علاوہ کمال امروہوی عاشق مزاج اور حُسن پرست بھی مشہور تھے۔

    انیس امروہوی نے اداکارہ مدھو بالا اور کمال امروہوی کے درمیان ملاقات سے متعلق ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے، ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔

    جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوب صورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں میں وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔

    مدھو بالا کی مشہور فلموں میں محل، دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔ مدھو بالا نے صرف 66 فلموں میں کردار نبھائے تھے۔

    آج بہت سے فلم اسٹارز اپنے ساتھ باڈی گارڈ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بولی وڈ میں یہ سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ اداکارہ کو ممبئی کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

  • شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شبیر حسن خاں کو جہانِ ادب میں جوشؔ ملیح آبادی کے نام سے شہرت حاصل ہے جن کے پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر، دادا شعر و ادب کے شائق جب کہ والد بھی سخن وَر تھے۔ ان کی دادی مرزا غالب کے خاندان سے تھیں اور جوش کے خاندان کی خواتین بھی نہایت باذوق اور عروض بھی جانتی تھیں۔ اس ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں بھی شاعر ہوئے اور خوب نام پیدا کیا۔

    جوش نے کہا تھا،
    شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
    یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

    ہندوستان کے ملیح آباد میں 1898 کوپیدا ہونے والے جوشؔ کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ لیکن انھوں نے نظم ہی نہیں نثر دونوں میں بھی کمال حاصل کیا۔ اردو ادب میں انھیں قادرُالکلام شاعر اور باکمال نثر نگارکہا جاتا ہے۔ 22 فروری 1982 جوش کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق تعلیم یافتہ اور علم و ادب کے رسیا گھرانے سے تھا، اسی لیے ابتدائی عمر ہی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ جوش نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ اس دوران فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس نے انھیں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج کی کج روی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    پاکستان میں اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کا تو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے متنازع اور ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

    یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی ۔ دیگر نثری کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

    جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
    چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

    نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
    ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
    اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
    اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

  • گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہ لانے والے ابوالکلام آزاد کا تذکرہ

    گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہ لانے والے ابوالکلام آزاد کا تذکرہ

    ہندوستان کے مسلمان ابوالکلام آزاد کو ’امامُ الہند‘ کہتے تھے۔ وہ برطانوی دور میں‌ ہندوستان کی سیاست میں‌ نام وَر ہوئے اور صرف ایک سیاست داں ہی نہیں بلکہ صاحبِ طرز ادیب، جیّد صحافی اور ایک مصلح اور مدرس کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔

    مولانا کو ہندوستان کی نادرِ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے جہاں علمی و تحقیقی مقالات، انشائیہ نگاری کے ساتھ شاعری کی، وہیں قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ انھوں نے مسلمانانِ ہند کی سیاسی، سماجی اور دینی تربیت اور راہ نمائی کرتے رہے۔

    آزاد سنہ 1888 میں مکّہ مکرّمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام غلام محی الدّین تھا۔ ان کی مادری زبان عربی تھی اور والد مولانا خیر الدّین ایک مذہبی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مصر کی مشہور درس گاہ جامعہ ازہر سے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔ غور و فکر کے عادی اور علم و تحقیق کے رسیا ابوالکلام چودہ برس کے تھے جب ان کی تحریریں اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونا شروع ہو گئیں اور 1912 میں جب وہ پچیس سال کے تھے، ایک سیاسی رسالے ’الہلال‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ سنہ 1920 کے لگ بھگ انھوں نے عملی سیاست میں‌ قدم رکھا اور 33 سال کی عمر میں تحریکِ خلافت، تحریکِ ترک موالات اور عدم تعاون کے روح رواں بن گئے۔

    مسلمانوں میں ان کا درجہ اتنا بڑھا کہ انھیں ’امام الہند‘ کہا جانے لگا۔ سیاسی میدان میں ان کی لیاقت اور فہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1923 میں 35 برس کے تھے جب انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب کر لیے گئے۔ دوسری بار صدر منتخب ہوئے اور 1946 تک یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔ آزاد نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ساتھ ہی علمی و ادبی کاموں میں‌ مشغول رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کے ان مسلمان اکابرین میں سے تھے جو تقسیم کے بڑے مخالف رہے اور ان کی کوشش تھی کہ ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھتے ہوئے متحدہ قومیت، ملی جلی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔

    مولانا عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے تو کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا اور یہیں ان کی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ یہیں سے ’الہلال‘ جیسا ہفتہ وار اخبار نکالا جو پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا۔ اس اخبار میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے جس پر اسے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا اور اس کے ذریعے انگریزوں کی مخالفت جاری رکھی۔ مولانا آزاد نے اپنے اخبارات اور تحریروں کے ذریعے قومی، وطنی جذبات کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’پیغام‘ اور’لسانُ الصّدق‘جیسے اخبارات و رسائل بھی شائع کیے اور مختلف اخبارات سے بھی ان کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابلِ ذکر ہیں۔

    اس عرصے میں‌ وہ سیاسی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے’تحریکِ عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑ دو‘ جیسی تحریکوں‌ میں بھی حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران کے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم رہے۔ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے وہ بہت متاثر تھے اور ان کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔

    اس زمانے میں جب قائدِ اعظم اپنے رفقا کے ساتھ حصول پاکستان کے جدوجہد میں مصروف تھے، مولانا آزاد بھی ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے میدانِ عمل میں تھے اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ تاہم وہ تقسیم کی مخالفت کرتے تھے۔ اگرچہ وہ پاکستان کے قیام کے مخالف تھے مگر مسلمانوں کی بہتری اور بہبود ہمیشہ ان کا نصب العین رہی تھی۔

    22 فروری 1958 کو مولانا آزاد وفات پاگئے تھے۔ انھیں آزادی کے بعد مولانا بھارت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ اس حیثیت میں انھوں نے کئی اہم کارنامے انجام دیے اور شعبۂ تعلیم کے لیے قابلِ‌ ذکر اقدامات کیے۔

    ملاّ واحد مولانا کی متاثر کن شخصیت اور ان کے خوش خصائل ہونے سے متعلق ایک واقعہ ان الفاظ میں‌ نقل کیا ہے:

    مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظامُ المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہوگئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔

    مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔

    وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔

    مولانا ابو الکلام کو تو اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابو الکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔

    مولانا ابو الکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔

    مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیرمعمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابو الکلام اپنی مشہور ’’انا‘‘ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔

    مولانا ابو الکلام کی ’’انا‘‘ مغروروں اور متکبّروں کی سی ’’انا‘‘ نہیں تھی۔ وہ بس اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابلِ ستائش ’’انا‘‘ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینیس۔

    مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910 میں تھے 1947 تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔

  • یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    اردو میں سرّی ادب یا جاسوسی کہانیوں کو ناقدوں نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا اور اردو ادب میں پاپولر ادب بمقابلہ ادبِ عالیہ کی بحث آج بھی جاری ہے، لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جاسوسی ادب میں‌ قارئین کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے جب ڈائجسٹوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو جاسوسی کہانیوں کے قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔

    آج دنیائے ڈائجسٹ کی ایک معروف ہستی معراج رسول کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھوں نے 2019ء میں وفات پائی۔ معراج رسول طویل عرصے سے علیل تھے۔

    یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس زمانے میں ڈائجسٹ کے لیے تخلیق کردہ جاسوسی ادب کو مقبولیت کی معراج نصیب ہوئی، جس میں‌ معراج رسول کا سرگزشت، سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ صفِ اوّل کے ماہ نامے تھے جو سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے۔ معراج رسول ان کے بانی اور مدیر تھے۔ سسپنس کا پہلا شمارہ 1972 میں بازار میں‌ آیا تھا جب کہ جاسوسی ڈائجسٹ کا سلسلہ 1971 میں شروع ہوا تھا۔

    ان ڈائجسٹوں میں غیر ملکی ادیبوں کی پُراسرار، آسیبی اور مہم جوئی کے واقعات پر مبنی کہانیوں کے اردو تراجم شایع کیے جاتے تھے جنھیں قارئین کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو اہلِ قلم اور طبّاع کہانی نویس بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور سرّی ادب میں نام بنایا۔

    5 اگست 1942ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والے معراج رسول کے والد شیخ عبدالغفّار تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ انھوں نے بی کام کیا اور چند سال بعد اپنے اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی، معراج رسول نے خود بھی لکھاری تھے اور چند ناول بھی تخلیق کیے، ان کا ادارہ اپنے مستقل قلم کاروں کو بہت مناسب مشاہرہ دیا کرتا تھا۔ معراج رسول کو ڈائجسٹ نکالنے کی تحریک اپنے والد سے ملی جو اپنے دور کے ایک کام یاب رسالے ’سراغ رساں‘ کے روح رواں تھے۔ معراج رسول نے اپنے ادارے کے تحت شایع ہونے والے ڈائجسٹوں میں سلسلے وار کہانیوں سے لاکھوں قارئین کو عرصے تک جوڑے رکھا اور کہتے ہیں کہ ان ڈائجسٹوں کے قارئین 20 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے تھے۔ مرحوم نے دو شادیاں کی‌ تھیں۔ معراج رسول کراچی میں ڈیفنس کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    معراج رسول نے اپنے سسپنس ڈائجسٹ میں ’دیوتا‘ کے عنوان سے 33 سال تک ہر ماہ بلاناغہ کہانی شایع کی جس کے مصنّف محی الدّین نواب تھے۔ یہ اردو ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔

  • یومِ وفات:‌ "خامہ بگوش کے قلم سے” مشفق خواجہ کی پہچان بنا

    یومِ وفات:‌ "خامہ بگوش کے قلم سے” مشفق خواجہ کی پہچان بنا

    مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    آج مشفق خواجہ کا یومِ وفات ہے۔ اردو ادب میں‌ انھیں شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ مشفق خواجہ کی وجہِ شہرت ان کا کالم بہ عنوان خامہ بگوش بنا اور انھوں نے طنز و مزاح نگاری اور فکاہیہ نویسی میں اپنے قلمی نام سے اپنے قارئین کی تعداد میں خوب اضافہ کیا۔ مشفق خواجہ نے ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے اپنے کالموں میں اجاگر کیا۔ تاہم ان کے کالموں کو ادبی کالم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق بھی کھل کر لکھا ہے۔ ان کالموں میں مشفق خواجہ نے غیر معیاری ادب اور شہرت و جاہ یا سرکاری اعزازات اور انعامات کے لیے داؤ پیچ چلانے والے اہلِ قلم اور نام نہاد تخلیق کاروں کی خوب کھنچائی کی اور ایسے غیر ادبی میلانات، رجحانات اور تحریکوں کو نشانہ بنایا ہے جن کو فروغ دینے سے مخصوص ادبی ٹولے کا مفاد جڑا ہوتا تھا۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا جو ادب کی دنیا میں‌ مشفق خواجہ کے نام سے پہچانے گئے۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب میں مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کا شغل اختیار کرکے نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    کراچی میں 21 فروری 2005ء کو وفات پانے والے مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ کے مصنّف، ممتاز اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی برسی

    ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ کے مصنّف، ممتاز اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی برسی

    بیسویں صدی کی متأثر کُن شخصیت اور اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1992ء میں‌ آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔

    علّامہ محمد اسد اسلامی دنیا کے گوہرِ تاب دار اور نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ عظیم مفکّر، مصلح، مفسّر، محقّق، مؤرخ اور ماہرِ لسانیات تھے جنھوں نے سفارت کاری کے میدان میں‌ بھی اپنی قابلیت اور سوجھ بوجھ کی بدولت مقام بنایا۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق تصنیف نے انھیں دنیا بھر میں ممتاز کیا۔ یہ کتاب 1950ء کی دہائی میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ انھوں نے متعدد کتابچے اور کتب تحریر کیں جو ان کی فکری کاوش اور علمی استعداد کا نتیجہ ہیں۔

    محمد اسد ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں آنکھ کھولنے والے علّامہ اسد کا نام لیو پولڈویز رکھا گیا، جنھوں نے سنِ‌ شعور کو پہنچ کر اپنے لیے دینِ اسلام کو پسند کیا اور اللہ نے کامل ہدایت سے سرفراز کیا تو انھوں نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا۔

    وہ نوعمری میں تورات اور اس کی تفسیر پڑھتے تھے، انھوں نے یہودیت سے متعلق دیگر کُتب کا بھی مطالعہ کیا۔ عبرانی پڑھنے اور بولنے پر انھیں عبور حاصل تھا۔ 1918ء میں یونیورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن 1920ء میں عملی صحافت کی طرف آگئے۔ اس کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور ایک خبر رساں ادارے سے جڑ گئے۔ وہ اخبار کے لیے مختلف مضامین اور تحریریں سپردِ قلم کرتے رہے اور اسی عرصے میں ان کی زندگی میں‌ انقلاب آگیا۔

    علامہ محمد اسد 1922ء کے آغاز پر یروشلم میں مقیم اپنے ماموں کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے جہاں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی غلبے سے متنفر ہوگئے اور عربوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بعد ازاں فلسطین ہی میں جرمن اخبار کے نمائندے بن کر صہیونیت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے انھیں مصر سے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا تک سفر کرنا پڑا جس کے دوران انھیں اسلام اور اسلامی معاشرت کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔

    ایک روز محمد اسد برلن اسلامک سوسائٹی پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے ایک بیوہ جرمن خاتون ایلسا سے شادی کی تھی۔ بعد ازاں ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور پھر انھیں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی، جہاں چند روزہ قیام کے دوران وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    محمد اسد نے بھی چند سال سعودی عرب میں گزارے اور مدینے میں انھوں نے مذہبی اور دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ یورپ اور عرب دنیا ہی نہیں ہندوستان میں‌ بھی مشہور ہوئے اور 1932ء میں ہندوستان آئے جہاں انھیں‌ حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق علاّمہ کی صحبت نصیب ہوئی اور محمد اسد کا شمار ان شخصیات میں‌ ہوا جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اس کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالا۔

    محمد اسد نے ہندوستان کے سفر کا آغاز لیکچر ٹورسٹ کے طور پر کیا تھا۔ وہ ایک بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے تھے اور امرت سَر روانہ ہو گئے تھے۔ بعد میں‌ کشمیر اور لاہور میں مقامی مسلمانوں میں‌ گھل مل گئے۔ محمد اسد جلد ہی کشمیر سے لاہور ہی آ گئے اور یہیں شاعر و فلسفی علاّمہ محمد اقبال سے ملے، جن کے کہنے پر ہندوستان میں رہتے ہوئے مستقبل کی اسلامی ریاست کی حدودِ دانش وضع کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ 1934ء میں محمد اسد نے ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شایع کیا، جو اسلامی فکر کے حوالے سے ان کا پہلا جرأت مندانہ کام تھا۔ یہ کتابچہ مغرب کی مادّہ پرستی کے خلاف ایک ہجو کی طرح تھا، جسے اسلامی دنیا میں بے حد پزیرائی ملی۔ انہوں نے صلیبی جنگوں اور جدید سامراجیت کے درمیان ایک درمیان ایک لکیر کھینچی اور مغربی مستشرقین کو اسلامی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ذمّے دار ٹھہرایا۔ بعد ازاں، محمد اسد کے اس کتابچے کے پاکستان اور بھارت میں کئی ایڈیشنز شایع ہوئے۔ تاہم، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریر 1946ء میں بیروت میں عربی ترجمے کے ساتھ منظرِ عام پر آئی اور اس کے متعدد نسخے شایع ہوئے۔ 1936ء میں وہ حیدر آباد، دکن کے نظام میر عثمان علی خان کی سرپرستی میں ’’ اسلامی ثقافت‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عالمانہ تحریروں اور متن کے تراجم کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔

    1939ء کے موسمِ بہار میں وہ یورپ واپس چلے گئے۔ انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں وزارتِ خارجہ میں ذمہ داری نبھائی اور مسلم ممالک سے روابط و تعلقات مضبوط کرنے کی سعی کرتے رہے۔ محمد اسد نے 80 برس کی عمر میں “قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر” مکمل کی تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دن اسپین میں گزارے اور ملاگا کے مسلمان قبرستان میں مدفون ہیں۔

    ان کی مشہور تصانیف میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔

    محمد اسد کی خدمات کے عوض آسٹریا حکام نے ویانا میں ایک میدان ان کے نام سے منسوب کیا ہے۔

  • خاندانِ غلاماں کا عبادت گزار اور انصاف پسند سلطان، ناصر الدّین محمود

    خاندانِ غلاماں کا عبادت گزار اور انصاف پسند سلطان، ناصر الدّین محمود

    خاندانِ غلاماں کے ناصر الدّین محمود کو تاریخ میں دین دار اور رحم دل سلطان لکھا گیا ہے۔ وہ سلطنتِ دہلی کے آٹھویں حکم راں تھے۔

    خاندانِ غلاماں 1206ء سے 1290ء تک ہندوستان میں‌ حکم راں رہا۔ اس خاندان کا بانی قطب الدّین ایبک تھا جو شہاب الدین غوری کی فوج کا ایک جرنیل تھا جسے ہندوستان کے مختلف علاقوں‌ میں منتظم مقرر کیا گیا تھا اور بعد میں‌ اس نے ہندوستان میں سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس قطب الدّین کی وفات کے بعد التمش نے دہلی میں اقتدار سنبھالا جو اس کا داماد تھا۔ ناصر الدّین محمود اسی التمش کے چھوٹے بیٹے تھے جو علاؤ الدّین مسعود کی جگہ تخت پر بیٹھے۔

    سلطان ناصر الدّین کی پیدائش کا سنہ 1229ء بتایا جاتا ہے جب ان کے والد سلطنت کے حکم راں تھے۔ التمش بھی علم پرور اور نیک سیرت مشہور تھے اور ان کے بیٹے نے بھی عبادت گزار اور نیک خصلت حکم راں‌ کے طور پر شہرت حاصل کی۔

    سلطان ناصر الدّین اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ 18 فروری 1266ء کو ان کی وفات کے بعد ان کی افواج کے سپہ سالار غیاث الدّین بلبن نے ان کا تخت سنبھالا تھا۔ یہ وہی غیاث الدّین بلبن تھا جس نے سپہ سالار کی حیثیت سے سلطنت کو منگولوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کئی تاریخی کارنامے انجام دیے تھے اور سلطان ناصر الدّین کے بہت قریب تھا۔

    سلطان ناصر الدّین 16 سال کی عمر میں بہرائچ کے حاکم مقرر کیے گئے اور انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر کام یابی سے معاملات کو سنبھالا۔ مشہور ہے کہ وہ رعایا پر مہربان رہے اور عدل و انصاف کے ساتھ حکم رانی کی۔ تاہم اس دوران مرکزی حکومت کے کم زور پڑنے کی وجہ سے انھیں‌ دہلی طلب کر لیا گیا۔ تخت سنبھالنے کے بعد انھوں نے جو فیصلے کیے ان کی بدولت سلطنت مضبوط ہوئی۔

    سلطان ناصر الدّین صلح جُو اور امن پسند تھے، لیکن انھوں‌ نے متعدد لڑائیوں میں بھی حصّہ لیا اور خاص طور پر منگولوں کے وحشیانہ حملوں سے اپنے علاقوں کو بچانے کے لیے عسکری فیصلے اور تدابیر کرتے رہے۔

    وفات کے بعد انھیں دہلی کے علاقے ملک پور میں‌ سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • ممتاز شاعر شبنم رومانی کا تذکرہ

    ممتاز شاعر شبنم رومانی کا تذکرہ

    آج اردو کے ممتاز شاعر شبنم رومانی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2009ء میں وفات پاگئے تھے۔

    شبنم رومانی نے 30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی تھا۔ شبنم ان کا تخلّص تھا۔ بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ یہاں ملازمت کے ساتھ شاعری اور ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور جلد ہی کالم نگار کے طور پر بھی قارئین کی توجہ حاصل کر لی۔ شبنم رومانی کئی ادبی اور اشاعتی اداروں کے بانی اور مشیر رہنے کے علاوہ "ارباب قلم فاؤنڈیشن” اور "مجنوں اکیڈمی” کے اعزازی سیکریٹری اور "افکار فاؤنڈیشن” کے ٹرسٹی بھی رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی "اقدار” بھی شائع ہوتا رہا۔

    ہائیڈ پارک کے عنوان سے ان کے ادبی کالم طویل عرصے تک روزنامہ مشرق میں شایع ہوتے رہے جو بعد میں‌ کتابی شکل میں‌ یکجا کیے گئے۔ شبنم رومانی کے شعری مجموعے مثنوی سیرِ کراچی، جزیرہ، حرفِ نسبت، تہمت اور دوسرا ہمالا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ شبنم رومانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    میرے پیار کا قصّہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند
    تُو کس دھن میں غلطاں پیچاں کس نشے میں چُور ہے چاند

    تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا
    تُو صدیوں سے اہلِ زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

    اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہِ کامل کہتے ہیں!
    تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند

    تیرے رُخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں
    تیری منزل پاس آ پہنچی میری منزل دور ہے چاند

    کوئی نہیں ہم رازِ تمنّا کوئی نہیں دم سازِ سفر
    راہِ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

    تیری تابش سے روشن ہیں گُل بھی اور ویرانے بھی
    کیا تُو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند