Tag: فروری برسی

  • تحریکِ آزادی کے قابل اور مخلص راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے قابل اور مخلص راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا تذکرہ

    قیامِ پاکستان کے بعد سردار عبدالرّب نشتر پاکستان کی پہلی کابینہ کا حصّہ رہے اور پنجاب کے گورنر بنائے گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرّب نشتر نے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے راج کے خلاف تحریکوں اور سیاسی ہنگامہ خیزی کے جس دور میں خود کو میدانِ عمل میں اتارا تھا، اس میں‌ جلد ان پر واضح ہو گیا کہ ہندو، ملک کے طول و عرض میں موجود مسلمانوں کے ساتھ تعصّب ختم نہیں کرسکتے اور انگریزوں کو نکال کر یہاں اپنا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تب انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ اپنی فہم و فراست، سیاسی سوجھ بوجھ کے لیے مشہور تھے اور جلد ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے پلیٹ فارم سے بھی خود کو منوا لیا اور اپنی دیانت داری اور اخلاص کے باعث ان کا شمار قائدِ اعظم کے قابلِ اعتماد رفقا میں ہونے لگا۔

    اس سیاسی جماعت کی صف میں وہ ایسے نمایاں ہوئے کہ قائدِ اعظم کے ساتھ اہم جلسوں اور سیاسی قائدین سے ملاقاتوں میں شریک ہونے لگے۔

    کہتے ہیں‌ شخصیت کردار سے بنتی ہے اور سردار عبدالرّب نشتر نے قائدِ اعظم اور دیگر لیگی قائدین کو اپنے قول و فعل، راست گوئی اور کردار کی مضبوطی سے اپنا گرویدہ بنا لیا اور تاریخ میں مسلمانوں کے ایک مخلص اور اہم لیڈر کے طور پر ان کا نام رقم ہوا۔

    سردار عبدالرّب نشتر ایک مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما اور ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے 13 جون 1899ء کو پشاور کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور دین کی تربیت کے ساتھ انھیں جدید تعلیم سے روشناس کروایا گیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس لیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ تب انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کر دی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوانِ شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے دوران انھوں‌ نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کی مشہور و مقبول تحریکِ خلافت سے وابستہ ہوئے اور عملی سفر کا آغاز کیا، اسی زمانے میں انھیں مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرّب نشتر بھی شامل تھے۔

    انھیں غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات کے منصب پر بھی فائز رہنے کا موقع ملا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی وزارت کے لیے منتخب کیے گئے۔

    14 فروری 1958ء کو سردار عبدالرّب نشتر کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

  • سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ کو اس کی منفرد شاعری نے دنیا بھر میں پہچان دی۔ اس نے کہانیاں اور ایک ناول بھی تخلیق کیا۔ محض 31 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوجانے والی سلویا پلاتھ کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خود کُشی کرلی تھی۔

    یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‌ تھی کہ سلویا پلاتھ ایک عرصے تک شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ وہ تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکی تھی۔ اس نے ماہرِ نفسیات سے اپنا علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات حاصل نہیں کرسکی اور ایک روز اس کی موت کی خبر آئی۔

    اس منفرد شاعرہ اور باکمال کہانی نویس نے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ 27 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ وہ 18 سال کی تھی جب ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ اس نے ایک ناول دی بیل جار کے نام بھی لکھا اور شاعری کے علاوہ یہ بھی اس کی ایک وجہِ شہرت ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے چند ابواب دراصل سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا۔ سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں بعد اس کی دیگر نظموں‌ کو کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا تھا۔ اس شاعرہ کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ سلویا پلاتھ کو اس کی شاعری پر پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔

    شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی کی تھی اور اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، لیکن ان کی یہ رفاقت تلخیوں کا شکار ہوگئی اور ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا، اس کے بعد حساس طبع سلویا پلاتھ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئی اور خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ وہ 11 فروری 1963ء کو اپنے گھر میں‌ مردہ پائی گئی تھی۔

  • ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ’’بجیا‘‘ سب کے لیے محترم اور سب کی نظر میں‌ شفیق و مہربان ہستی تھیں۔ فاطمہ ثرّیا کے نام سے بجیا کا لفظ ایسا جڑا کہ ہر چھوٹا بڑا انھیں عزّت و احترام سے بجیا پکارتا تھا۔

    وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ شائستہ آداب، نرم گفتار، منکسرُ المزاج، مہذّب اور مہربان بجیا کا تعلق بھی ہندوستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ بجیا نے 10 فروری 2016ء کو وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا۔ بجیا اور ان کے بہن بھائی پاکستان میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوئے اور خوب نام و مقام بنایا۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا انہی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرۂ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی تحریر کیے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    انھوں‌ نے کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔

  • جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی نے محبّت کرنے والوں کو ایک نیا راستہ یوں دکھایا تھا۔

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل کے روایتی موضوعات کو خوب صورت تشبیہات اور استعارے سے سجاتے ہوئے تازگی عطا کرنے والے ممتاز شاعر جمال احسانی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا اور ان کا تخلّص جمال۔ شعروادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت اور مقام بھی ملا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تھا جو تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل اور مشہور علاقہ ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ اس وقت تک ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے کیوں کہ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے۔ ان روزناموں‌ میں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں جمال احسانی نے اپنی تخلیقات کی وجہ سے پہچان حاصل کرنا شروع کی اور جلد ان کا شمار اہم غزل گو شعرا میں ہونے لگا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری میں مہارتِ تامّہ اور اسلامی خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب کے ساتھ صادقین شہرۂ آفاق فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی تخلیقات اور فن پاروں کو پرت در پرت سمجھنے کی کوشش میں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔

    آج اس عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک اور بعد میں‌ انٹر کا امتحان بھی امروہہ سے پاس کیا۔ 1948ء میں‌ آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    انھوں نے 1944 سے 46ء تک آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ اس وقت تک صادقین اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں ایک مصوّر اور شاعر کے طور پر متعارف ہوچکے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں‌ قیام کے بعد انھیں‌ نئے سرے سے زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہاں بھی جلد ہی وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے حوالے سے پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں پر نقش و نگار بناتے اور اس پر ڈانٹ اور مار بھی کھائی، لیکن اپنے شوق کی دیواروں پر مشق کا یہ سلسلہ رائیگاں نہ گیا اور بعد کے برسوں میں‌ یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    پاکستان آنے کے بعد ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایئر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    صادقین نے مصوّری اور خطاّطی دونوں‌ اصناف میں اپنے فن و کمال کے اظہار کی بالکل نئی راہ نکالی کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع کیا اور ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی۔ ان کا کام دنیا بھر میں فائن آرٹس کے ناقدین کی نظر میں‌ آیا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ وہ پیرس بھی گئے جہاں اپنے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ یہ کسی مصّور کی پہلی اور نہایت خوب صورت کاوش تھی جس نے سبھی کی توجہ حاصل کی۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصوّرانہ خطّاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی۔ ان کی مصوّری اور خطّاطی کے نمونے آج بھی بڑی گیلریوں کا حصّہ ہیں۔ 1986ء میں انھوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن اجل نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی مہلت نہ دی۔

    وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن تھی۔ ان کی کئی رباعیاں مشہور ہوئیں اور صادقین نے اپنا کلام بھی مصوّرانہ انداز میں‌ کینوس پر اتارا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے صادقین کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ یہ نابغۂ روزگار مصوّر کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ انھوں نے تنقید کے میدان اور شاعری میں‌ مقام بنایا اور قدیم و جدید ادب کو خوب کھنگالا، لیکن خود کسی ایک تحریک کے زیرِ اثر ادب تخلیق نہیں کیا۔ شاعری میں انھوں نے مشرقی کلاسکیت کو فوقیت دی۔ مغربی ادب کا مطالعہ بھی خوب کیا، لیکن اس سے متاثر ہو کر برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال کو رد نہیں کرسکے۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 9 ستمبر 1911ء کو ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں شعبے کے صدر رہے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں انھوں نے ایک الگ ہی انداز اپنایا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    تنقید نگاری کے ساتھ انھیں ایک شاعر کے طور پر دیکھا جائے تو ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں‌ ہر عہد کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    اردو ادب کے اس معروف بھارتی نقّاد اور شاعر کا انتقال 9 فروری 2002ء کو ہوا تھا۔

  • ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی نے اردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور اسلوب دیا جس نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ان کے اشعار کو نوجوانوں‌ نے اپنی بیاض‌ میں‌ شامل کیا، انھیں شوق سے پڑھا اور خوب سنا۔ وہ ایک مقبول شاعر تھے جن کے اشعار سادہ اور دل میں‌ اتر جاتے تھے۔ آج ندا فاضلی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس شاعر اور نغمہ نگار کو ایک ادیب اور صحافی کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ان کے نثری اسلوب نے بھی اپنی راہ بنائی۔ وہ 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام مقتدیٰ حسن تھا۔ والد بھی شاعری کرتے تھے، اس لیے گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا اور اسی ماحول میں‌ ندا فاضلی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی۔ جامعہ تک پہنچے تو اردو اور ہندی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ دنوں تک دہلی اور دوسرے مقامات پر ملازمت کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں اور پھر 1964 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں شروع میں انھیں خاصی جدو جہد کرنی پڑی۔ انھوں نے صحافت کی دنیا میں‌ قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ ان کی تخلیقات کتابی صورت میں‌ سامنے آئیں تو ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا۔ وہ مشاعروں کے بھی مقبول شاعر بن گئے تھے۔

    فلم نگری سے ندا فاضلی نے کمال امروہی کی بدولت ناتا جوڑا۔ انھوں نے اپنی فلم رضیہ سلطان کے لیے ان سے دو گیت لکھوائے تھے۔ اس کے بعد وہ مکالمہ نویسی طرف متوجہ ہوئے اور معاش کی طرف سے بے فکری ہوئی۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعے لفظوں کا پل کے بعد مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، شہر تو میرے ساتھ چل، زندگی کی طرف، شہر میں گاؤں اور کھویا ہوا سا کچھ شائع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو سوانحی ناول "دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں کے باہر ” کے علاوہ مشہور شعرائے کرام کے خاکے بھی تحریر کیے۔ندا فاضلی کی شادی ان کی تنگدستی کے زمانہ میں عشرت نام کی اک ٹیچر سے ہوئی تھی لیکن نباہ نہیں ہو سکا ۔پھر مالتی جوشی ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ انھیں‌ ساہتیہ ایوارڈ کے علاوہ سرکاری اور فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    ندا فاضلی نے 8 فروری 2016ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
    کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

    ان کی غزلیں‌ جگجیت سنگھ کے علاوہ ہندوستان کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائی ہیں۔ ان کا یہ کلام بھی بہت مشہور ہے۔

    ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
    عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے

    دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے
    مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

  • بغداد کو تاراج کرنے والے ہلاکو خان کا مقبرہ کہاں ہے؟

    بغداد کو تاراج کرنے والے ہلاکو خان کا مقبرہ کہاں ہے؟

    مسلمانوں کی عظمت، شان و شوکت کے زوال اور علم و فنون میں‌ ممتاز شہر بغداد کی بربادی کے تذکرے کے ساتھ ہلاکو خان کا نام بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ چنگیز خان کا پوتا اور تولوئی خان کا بیٹا ہلاکو بھی قتل و غارت گری اور سفاکی میں اپنے دادا اور باپ کی طرح مشہور ہوا۔

    منگول تاریخ کے اس سفاک حکم راں کا سنِ پیدائش 1215ء ہے اس کی پیدائش منگولیا کی ہے جب کہ تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ بعض مؤرخین نے آٹھ اور بعض نے اس کا یومِ وفات 12 فروری 1265ء بتایا ہے۔ ہلاکو خان کی موت کی ایک وجہ ناسازیٔ طبع اور دوسرا سبب گھوڑے کا بدک جانا بتایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور زمین پر متعدد بار سَر لگنے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ وہ ایل خانی سلطنت کا بانی تھا۔ اس کا مقبرہ تاحال دریافت نہیں‌ کیا جاسکا۔

    مؤرخین کے مطابق ہلاکو خان کو اس کے بھائی نے 1256ء میں ایران کی طرف بھیجا تھا جہاں ایک باغی گروہ سر اٹھا چکا تھا۔ اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ہلاکو مسلسل لڑائیوں‌ میں‌ مصروف رہا، اور کئی علاقوں کو فتح کرلیا۔ یہی ہلاکو خان جب بغداد کی طرف متوجہ ہوا تو وہاں المستعصم کی حکومت تھی اور بغداد اس زمانے میں علم و فنون اور معاشرت میں ممتاز شہر تھا، جس کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہاں‌ خلیفہ المستعصم کے زمانے میں‌ فرقہ واریت اور افراتفری بڑھ گئی تھی جب کہ حکم ران اپنی فوج اور سرحدوں کی حفاظت کی طرف سے بے نیاز تھے۔

    اردو کے مشہور ادیب اور طنز و مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی نے اس پر زوالِ‌ بغداد کے عنوان سے ایک مضمون میں‌ لکھا: "بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

    ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

    یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

    جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

    شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

    دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

    بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

    جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

    بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

    تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

    چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔”

  • سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا نے سکھ مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کا نیا نام سعیدہ بانو رکھا گیا، لیکن اس وقت تک وہ فلم نگری میں سورن لتا کے نام سے جو پہچان بنا چکی تھیں، اسے کوئی فراموش نہیں کرسکا۔

    سعیدہ بانو المعروف سورن لتا نے 2008ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنے وقت کی مقبول ہیروئن تھیں۔ فلم کے علاوہ تعلیمی شعبے میں اپنی خدمات کی وجہ سے سورن لتا نے بڑی پہچان بنائی۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور تھیں اور لڑکیوں کو پڑھانے کی بڑی حامی تھیں۔ انھوں نے لاہور میں جناح پبلک گرلز اسکول کی بنیاد رکھی اور آخر عمر تک شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات انجام دیتی رہیں۔

    سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں رفیق رضوی کی فلم آواز کے ایک ثانوی کردار سے کیا تھا۔

    1943ء میں سورن لتا نے نجم نقوی کی فلم تصویر میں پہلی مرتبہ ہیروئن کے طور پر کام کیا، اس فلم کے ہیرو اداکار نذیر تھے۔ اگلی فلم لیلیٰ مجنوں تھی اور اس میں بھی وہ اداکار نذیر کے ساتھ نظر آئیں۔ یہ فلم سورن لتا کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی اور انھوں نے اسلام قبول کرکے نذیر سے شادی کرلی۔ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی جارہی تھی اور نذیر کام یاب ہیرو شمار کیے جاتے تھے۔ اداکار نذیر 1983ء میں وفات پاگئے تھے۔

    نذیر سے شادی کے بعد انھوں نے رونق، رتن، انصاف، اس پار اور وامق عذرا جیسی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سورن لتا نے بعد میں اپنے شوہر اور اس وقت کے مقبول ہیرو نذیر کے ساتھ مل کر فلم سچّائی بنائی تھی۔ یہ دونوں اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کے روپ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ اسی سال پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم پھیرے ریلیز ہوئی۔ اس کے فلم ساز، ہدایت کار اور ہیرو نذیر اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ پھیرے کو زبردست کام یابی ملی اور اس کے بعد اس جوڑے کی پنجابی فلم لارے اور اردو فلم انوکھی داستان ریلیز ہوئیں۔

    1952ء میں نذیر نے شریف نیّر کی ہدایت کاری میں فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں نذیر نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ 1953ء میں اداکارہ کی چار مزید فلمیں شہری بابو، خاتون، نوکراور ہیر ریلیز ہوئیں۔ ایک کام یاب فلمی کیریئر کے بعد سورن لتا نے انڈسٹری سے کنارہ کش ہو جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے تک محدود ہوگئیں۔

  • صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انھیں فلم انڈسٹری میں‌ رینوکا دیوی کے نام سے پہچان ملی تھی۔

    بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اسلام قبول کرنے کے بعد شیخ عبداللہ کے نام سے جانے گئے جو ایک بیدار مغز اور سوسائٹی میں نہایت فعال اور متحرک تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کی تمام اولادیں کسی نہ کسی صورت میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ رہیں۔ خود شیخ عبداللہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبداللہ نے 4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کا نام خورشید جہاں رکھا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی کا نام ڈاکٹر رشید جہاں تھا اور وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں شامل تھیں۔ اسی طرح خورشید جہاں بھی فن اور ادب کی دنیا میں معروف ہوئیں۔ ان کے بھائی بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔

    بیگم خورشید مرزا 17 برس کی تھیں جب وہ اکبر حسین مرزا سے رشتۂ ازدواج میں‌ منسلک ہوگئیں جو پولیس افسر تھے۔ اسی نسبت وہ خورشید جہاں سے بیگم خورشید مرزا مشہور ہوئیں۔ ان کے بھائی محسن عبداللہ بھی متحدہ ہندوستان میں مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں کو فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کرنے کا موقع ملا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ آئیں تو ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری پر داد پائی اور ریڈیو کے لیے انھیں صدا کار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے سامنے آئی تھی جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اپنے وقت کی اس سینئر اداکارہ کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔