Tag: فروری وفات

  • یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    یومِ‌ وفات: ہر دل عزیز بجیا نے بطور ڈرامہ نگار بے مثال شہرت پائی

    فاطمہ ثریا بجیا کا نام لبوں پر آتا ہے تو ہماری اقدار، تہذیبی روایات کے ساتھ وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جس میں ایک نسل کی تربیت ہوئی اور آج وہ سب ہمارے لیے ایک ماضی بن چکا ہے۔ بجیا کو پاکستان کے ہر گھر میں‌ جو عزّت و احترام اور پیار ملا، وہ شاذ ہی کسی کا مقدر بنتا ہے۔

    بجیا سب کی نظر میں‌ نہایت محترم اور سب کے لیے شفیق ہستی تھیں۔ فاطمہ ثریا کے نام سے بجیا کی عرفیت ایسی جڑی کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی انھیں بجیا ہی پکارنے لگے۔ وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ مصنؑفہ اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے شہرت پانے والی بجیا ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے کی فرد تھیں اور اس خاندان کا ہر فرد علم و فنون اور ادب میں کسی نہ کسی حیثیت میں ممتاز ہوا۔ فاطمہ ثریا بجیا بطور ڈرامہ نگار، ناول نگار اور ادیبہ بے حد مقبول ہوئیں۔

    آج فاطمہ ثریا بجیا کی برسی ہے۔ 10 فروری 2016ء کو بجیا اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لے رخصت ہوگئی تھیں۔ ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ فاطمہ ثریا بجیا نے یکم ستمبر 1930ء کو ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد کے ضلع کرناٹک میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آگیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے کبھی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کی مگر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اہلِ قلم شخصیات میں‌ اپنا شمار کروایا۔ بجیا اپنے والدین کی بڑی بیٹی تھیں۔ والد اور دادا کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بجیا کے کندھوں پر آگئی۔ انھوں نے تمام بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا اور تعلیم و تربیت کا دور مکمل ہوا تو وہ سب اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھے اور خاص طور فن و ادب کی دنیا میں جداگانہ حیثیت حاصل کی۔ ان میں ایک نام انور مقصود کا ہے، ان کی ایک بہن زہرہ نگاہ معروف شاعر ہیں، زبیدہ طارق کو لوگوں‌ نے زبیدہ آپا کے نام سے کوکنگ ایکسپرٹ کے طور پر پہچانا۔ بجیا نے قلم اور ڈرامائی تشکیل کی بدولت خوب نام پایا اور اپنی فکر اور نئی نسل کی تربیت کے لیے اپنے مشفقانہ اور پیار بھرے انداز کے لیے مشہور ہوئیں۔ بجیا کے ناولوں کی تعداد آٹھ بتائی جاتی ہے اور ایک ہی ناول کی اشاعت ممکن ہوسکی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی سیریل لکھے اور ان کے مقبول ڈراموں میں عروسہ، شمع، انا، زینت، بابر، افشاں، گھر ایک نگر اور آرزو شامل ہیں۔ بجیا نے اپنے ڈراموں میں کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر خاصی توجہ دی۔ ان کے ڈراموں میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور خونی رشتوں کے درمیان تعلق اور رویوں کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہی اثر آفرینی ناظرین کو بجیا کے ڈراموں کے سحر میں مبتلا کر دیتی تھی۔ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا 1960ء میں اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئیں جب ان کی کراچی جانے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی، اور اتفاقیہ طور پر بجیا نے پی ٹی وی اسلام آباد اسٹیشن کا دورہ کیا جہاں ہدایت کار آغا ناصر نے انھیں ملازمت کی پیشکش کی۔ 1966ء میں بجیا نے آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا لیکن پھر ڈرامہ نگاری کی طرف آگئیں۔ بجیا کا طویل دورانیے کا پہلا ڈرامہ مہمان تھا۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کئی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی بجیا کو اعزازات دیے گئے۔ 2012ء میں بجیا کی ایک سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی تھی۔

    آج بجیا کو ہم سے بچھڑے نو سال بیت چکے ہیں لیکن ان کی یاد اب بھی دل میں تازہ ہے۔

  • برٹرینڈ رسل: ایک فلسفی اور مفکر

    برٹرینڈ رسل: ایک فلسفی اور مفکر

    برٹرینڈ رسل کے افکار و خیالات اور ان کے مضامین کو آج بھی اسکول اور جامعات کی سطح پر طلباء میں سوجھ بوجھ کو پروان چڑھانے اور ان میں صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے پڑھایا جاتا ہے۔ برٹرینڈ رسل ایک معلّم، مؤرخ، فلسفی، ادیب اور ماہرِ منطق کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔

    1970ء میں آج ہی کے روز برٹرینڈ رسل برطانیہ میں وفات پا گئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت وہ فلسفہ اور خیالات تھے جو روایتی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں کو اختراع اور ایجاد کی جانب متوجہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ برٹرینڈ رسل دراصل تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھاکہ اس طرح ننھّے ذہنوں میں تخیّل اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔

    رسل شروع ہی سے علم و فنون کے شیدائی رہے تھے۔ وہ ریاضی کے مضمون میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ تعلیمی میدان میں‌ ان کی مہارت صرف اسی مضمون تک محدود نہ رہی بلکہ بعد میں وہ متعدد علوم پر دسترس رکھنے والے قابل و باصلاحیت فرد کے طور پر سامنے آئے۔ 18 مئی 1876ء کو انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں رسل نے آنکھ کھولی۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھے بلکہ ان کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے تھے۔ ان کا گھرانہ کٹّر مذہبی اور طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس نے انھیں بچپن میں خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود کے ساتھ غور و فکر اور سیکھنے سمجھنے کا موقع دیا۔ ان کی ذاتی زندگی کچھ تلخ یادوں اور مشکلات سے بھی گزری، مگر اس نے ان میں‌ وہ شوق اور لگن بھر دی جس کے باعث وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    برٹرینڈ رسل بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔

    اس فلسفی اور ماہر تدریس کی علمی کاوشوں اور مفید فلسفیانہ کام کی بات کی جائے تو برٹرینڈ رسل نے سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کیے جو ہر ایک کے لیے معلومات کا خزانہ ثابت ہوئے۔ انھوں نے ایک باشعور اور بیدار مغز فرد کے طور پر ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو بھی مطعون کیا۔ برٹرینڈ رسل اپنی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہے۔

    برٹرینڈ رسل تادمِ آخر تصنیف و تالیف کے ساتھ اپنے افکار و خیالات کا پرچار کرتے رہے۔ وہ ایک کہانی کار بھی تھے، جن کے افسانوں کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔

    1950ء میں برٹرینڈ رسل کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ اس فلسفی نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے غاصب قرار دیا۔ انھیں مغرب میں انسان دوست شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • چاکیواڑہ میں وصال والے محمد خالد اختر کا تذکرہ

    چاکیواڑہ میں وصال والے محمد خالد اختر کا تذکرہ

    اردو ادب میں محمد خالد اختر کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو شہرت اور ستائش سے بے نیاز رہے مگر اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے انھوں نے باذوق قارئین ہی نہیں بلکہ مشاہیرِ ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ آج محمد خالد اختر کی برسی ہے۔

    صاحبِ اسلوب ادیب محمد خالد اختر 2 فروری 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ 90 برس کے تھے۔ انھوں نے ناول، افسانہ اور سفرنامہ نگاری کے ساتھ تراجم بھی کیے اور خاص طور پر ان کی مزاح نگاری کو بہت سراہا گیا۔ ابنِ انشاء جیسے بڑے ادیب اور مزاح نگار نے خالد اختر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    عربی کے عالم اور انشاء پرداز محمد کاظم نے اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ہر طبقۂ قاری کو متأثر کیا۔ یہ ناول ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ادیب فیض احمد فیض نے محمد خالد اختر کے اس ناول کو اردو کا اہم ناول قرار دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہونے والے محمد خالد اختر کو کالج میں احمد ندیم قاسمی کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ انہی شخصیات اور ایسے باکمال ادیبوں کے درمیان رہتے ہوئے محمد خالد اختر نے بھی قلم سے ناتا جوڑا اور اپنے اسلوب کی بدولت سب کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے

    23 جنوری 1920ء کو پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی جب کہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938ء میں بی اے کیا۔ 1945ء انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے لندن گئے 1948ء میں وطن لوٹے۔ ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے کیا اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور پندرہ بیس نظمیں بھی کہہ لیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    محمد خالد اختر کی پہلی مزاحیہ تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے مضامین، خاکے، افسانے، ناول اور سفرنامے نکلتے رہے جن میں بیس سو گیارہ وہ ناول تھا جو 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا اور پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں جب کہ کھویا ہوا افق ان کے افسانے کی کتاب تھی۔ کہانیوں کو انھوں نے چچا عبدالباقی کے عنوان سے کتاب میں یکجا کیا تھا۔ محمد خالد اختر کا ابنِ جُبیر کا سفر 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے اپنے زمانے کی یادگار محافل کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نوتن: فلمی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    نوتن: فلمی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    بولی وڈ کی فلمی صنعت کا ایک ناقابلِ فراموش نام نوتن کا ہے جنھوں نے فلمی دنیا میں اپنے انمٹ نقش چھوڑے۔ انھیں ایک عظیم ہندوستانی اداکار کہا جاتا ہے جس کی فطری اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی فلم بینوں کو آج بھی یاد ہے۔

    نوتن نے ممبئی میں تقسیمِ ہند سے قبل 1936ء میں آنکھ کھولی۔ پہلی مرتبہ وہ 14 سال کی عمر میں فلمی پردے پر دکھائی دیں۔ اس فلم کے بعد 1951ء میں انھیں نگینہ اور ہم لوگ جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور نوتن نے اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اظہار کیا۔ بعد کے برسوں میں نوتن کو ایسی بے مثال اداکار کے طور پر پہچانا گیا جس نے مشکل اورغیر روایتی کرداروں کو بہت عمدگی سے ادا کیا اور سب پر اپنے فن کی دھاک بٹھا دی۔

    اداکارہ نوتن کا اصل نام نوتن سمرتھ تھا۔ اداکارہ کی پہلی فلم ان کی والدہ شوبھانا سمرتھ کی ہدایت کاری کا ثمر تھی۔ لیکن ضیا سرحدی کی فلم ہم لوگ اپنے اسکرپٹ اور مکالموں کی وجہ سے بہت پسند کی گئی۔ اس فلم میں نوتن کے ساتھ بلراج ساہنی تھے جو اپنے وقت کے بہترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ نوتن نے بھی اس فلم میں اچھا کام کیا تھا۔ 1955ء میں نوتن کی فلم سیما ریلیز ہوئی۔ اس میں بھی ان کے ساتھ بلراج ساہنی تھے۔ اس فلم میں نوتن نے غضب کی اداکاری کی اور فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ اداکارہ کو اس پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں نوتن نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔ ان میں ’’سجاتا، بندنی اور ملن‘‘ شامل ہیں۔ فلم سجاتا میں نوتن ایک اچھوت لڑکی کا کردار نہایت شان دار طریقے سے نبھایا اور پھر وہ غیر روایتی کرداروں میں کاسٹ‌ کی جانے لگیں۔ وہ ہندوستان کے فلمی ناقدین کی نظر میں اپنے وقت کی باکمال اور بے مثال اداکارہ تھیں۔ ان کی دیگر قابل ذکر فلموں میں ’’اناڑی، پے انگ گیسٹ، سونے کی چڑیا، چھلیا، تیرے گھر کے سامنے، سرسوتی چندرا، انوراگ، زندگی یا طوفان، سوداگر، میری جنگ اور ساجن کی سہیلی‘‘ شامل ہیں۔

    بولی وڈ کی اس مشہور اداکارہ نے 70 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ نوتن کا کیریئر 40 سال پر محیط رہا جس میں اداکارہ نے چھے فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے۔ نوتن 1980ء کے بعد کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر فلموں‌ میں دکھائی دیں اور اپنے کرداروں کو اسی طرح نبھایا جیسے وہ جوانی میں ڈوب کر اداکاری کیا کرتی تھیں۔ 1974ء میں بھارتی حکومت نے نوتن کو پدم شری ایوارڈ دیا جب کہ فلمی دنیا کے کئی دوسرے معتبر ایوارڈ بھی نوتن کے نام ہوتے رہے۔ یہ ان کی صلاحیتوں اور فن و کمال کا اعتراف تھا۔ 1959ء میں رجیش بہل سے نوتن کی شادی ہوئی تھی۔ اداکارہ نے زیادہ تر دیوآنند، راج کپور اور سنیل دت کے ساتھ کام کیا جو اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور کام یاب اداکار تھے۔

    فلمی ناقدین کے مطابق نوتن کی سب سے بڑی خوبی مکالموں کی ادائیگی کا جداگانہ انداز اور چہرے کے تاثرات تھے۔ اس دور میں سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں میں نوتن کی اداکاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ آرٹ سنیما کی فلموں میں نظر آئیں۔ 1986ء میں ہدایت کار سبھاش گھئی نے نوتن کو اپنی فلم ’’میری جنگ‘‘ میں انیل کپور کی ماں کے کردار میں کاسٹ کیا۔ باکس آفس پر یہ فلم بہت کام یاب رہی اور جذباتی مناظر میں نوتن نے بے حد متاثر کن اداکاری کی جس پر چھٹے فلم فیئر ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں۔ نوتن کی فنی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی کام یاب اور مقبول اداکاراؤں نے کہا کہ وہ نوتن کی اداکاری سے بہت متاثر ہیں۔

    اداکارہ نوتن 1991ء میں پھیپھڑوں کے سرطان کے سبب انتقال کرگئی تھیں۔ فلم ’’نصیب والا‘‘ اور’’ انساینت‘‘ نوتن کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی تھیں۔

  • ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں راگنی ‘آہو چشم’ مشہور تھیں۔ روزناموں اور فلمی رسائل میں ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ بطور اداکارہ راگنی کا مجموعی کیریئر اتنا متاثر کن نہیں رہا، لیکن خوب صورتی، اور ان کے نشیلے نینوں نے شائقینِ سنیما کو اُن کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ راگنی 2007ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ آج اداکارہ کی برسی ہے۔

    راگنی نے 1941ء میں مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں مرکزی کردار نبھایا تھا اور اسی فلم کے بعد وہ آہو چشم کے نام سے پکاری گئیں۔ ہدایت کار روپ۔ کے۔ شوری نے راگنی کو بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔ فلم دُلا بھٹی کی نمائش کے موقع پر سنیماؤں پر جو تشہیری بورڈ اور پوسٹر آویزاں تھے، ان پر راگنی کی تصویر نے سنیما بینوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔نشیلی آنکھوں والی اس خوب صورت ہیروئن کی فلم دُلا بھٹی کے متعدد نغمات فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہر خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو شائقین کی بڑی تعداد نے سنیماؤں‌ کا رخ کیا اور دُلا بھٹی کی شان دار کام یابی کے ساتھ راگنی بھی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔

    پاکستانی فلموں کی اس اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو اسے فلم میں کام دینے کا ارادہ کیا اور ان کے والد سے اجازت مانگی۔ ان کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ نشیلی آنکھوں والی اس لڑکی کو فلم دُلا بھٹی میں ہیروئن کا کردار سونپ دیا گیا۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ فلم کے ہیرو لاہور کے ایک رنگین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں راگنی کے ساتھ فلمی پردے پر بہت پذیرائی ملی۔

    دُلا بھٹی کے بعد متعدد بڑے فلم سازوں نے راگنی کو اپنی فلموں میں‌ کاسٹ کرنا چاہا، لیکن اداکارہ نے اپنے والد کی اجازت سے فلم ’ہمّت‘ سائن کی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی کام یاب رہی اور راگنی کو سنیما بینوں نے بہت سراہا۔ اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا ایک گیت انتہائی مقبول ہوا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ میں‌ کام کیا اور پھر انھیں بمبئی سے فلم آفر ہوئی۔ لیکن اداکارہ نے انکار کردیا۔ وہ لاہور نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔ لاہور کی فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

    تقسیم سے قبل ایک اور فلم 1946ء میں فرض کے نام سے بنائی گئی جس میں راگنی کے مدمقابل ایک نئے ہیرو کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت ملی اور وہ پاکستانی فلمی دنیا کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد راگنی نے بمبئی سے بھاری معاوضے پر فلم کی آفر قبول کرلی۔ یہ فلم شاہ جہان تھی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کار دار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں فلم شاہ جہان کو زبردست کام یابی نصیب ہوئی اور ہر طرف راگنی کا ڈنکا بجنے لگا۔ اداکارہ نے فلم کا معاوضہ اُس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی۔ مشہور ہے کہ ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے فلمی مرکز میں اداکارہ کی پہلی فلم ہی آخری ثابت ہوئی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اس کردار میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکارہ راگنی صاف گو مشہور تھیں۔ ان کے کھرے اور دو ٹوک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بد دل بھی کیا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ راگنی نے دو شادیاں‌ کیں۔ لیکن وقت بدلا تو یہ خوب صورت اور آہو چشم اداکارہ تنہائی کا شکار ہوگئی اور آخری ایّام میں‌ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھائی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

    راگنی نے لاہور کے ایک اسپتال میں دَم توڑا۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزارے۔ وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں‌ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے ان سے الگ ایک مکان میں منتقل ہوگئی تھیں۔

  • جان کیٹس: رومانوی شاعر جس نے غمِ دوراں کو اپنے لیے نغمۂ جاں‌ فزا بنا لیا!

    جان کیٹس: رومانوی شاعر جس نے غمِ دوراں کو اپنے لیے نغمۂ جاں‌ فزا بنا لیا!

    جان کیٹس ایک جوانِ رعنا تھا جس نے ابھی بطور شاعر اترانا سیکھا تھا اور اپنی نظموں کو اپنے خوابوں سے سجانا شروع کیا تھا۔ اجل نے اسے مہلت ہی نہیں‌ دی کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا ہوتا دیکھتا اور وہ سب کرتا جس کی آرزو ایک نوجوان کو ہوسکتی ہے۔ جان کیٹس نے 26 سال کی عمر میں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    جان کیٹس نے 1821ء میں‌ وفات پائی اور موت کے بعد اسے رومانوی شاعر کے طور پر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا فرد نہیں تھا بلکہ 31 اکتوبر 1795ء کو برطانیہ میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جس کا سربراہ شراب خانے میں ساقی تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس کی تعلیم کسی اچھے اسکول یا ادارے میں نہیں ہوئی لیکن خراب مالی حالات کے باوجود وہ طب کے مضمون میں سند یافتہ ہوا۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد موجود تھا جس نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کی ہر طرح‌ مدد کی اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے روشناس کرایا۔ کیٹس کا خاندان غربت کی چکی میں پِس رہا تھا۔ ایک دن اس کا باپ گھوڑے سے گِر کر مر گیا۔ یوں یہ خاندان معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگیا۔ چند ماہ گزرے تھے کہ کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر اس کا شوہر اور کیٹس کا سوتیلا باپ ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ اس کی ماں نے طلاق لے لی اور بچّوں کو لے کر ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند مہینے بعد ہی جان کیٹس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا اور اس خاندان کے ایک واقف کار سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ سرجری کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا گیا۔

    نوجوان جان کیٹس نے اس اسپتال میں 1814 سے 1816 تک ادویات اور سرجری کی تعلیم حاصل کی۔ اسی بنیاد پر وہ اس اسپتال میں ایک معمولی نوکری پانے میں‌ کام یاب ہوگیا۔ اسی دور میں‌ کیٹس نے شاعری شروع کی۔ 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری کی ایک سند بھی مل گئی۔ وہ اس پیشے میں آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر واپس آگیا اور اپنا زیادہ وقت ادبی سرگرمیوں کو دیا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں لی ہنٹ جو کہ خود بھی ایک اہم شاعر تھا، اس نے ایک رسالہ نکال کر نئے لکھنے والوں کو متعارف کروانے اور ان کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ہنٹ نے کیٹس کی نظمیں اپنے رسالے میں چھاپنی شروع کر دیں، یوں کیٹس کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ چھپ کر منظرِعام پر آ گیا۔ اس کا نام تو باذوق برطانوی جاننے لگے، لیکن ان ادبی رسائل نے بے جا تنقید کے ساتھ کیٹس کی شاعرانہ صلاحیت اور کسی بھی امکان کو مسترد کردیا اور لکھا کہ اسے شاعری کی یہ کوششیں‌ ترک کرکے ادویہ فروخت کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ ایک حساس اور زود رنج شاعر کے لیے ناقابل برداشت بات تھی اور وہ موت کے قریب ہوتا چلا گیا۔ ٹی بی اس زمانے میں مہلک اور ناقابلِ علاج مرض تھا۔ کیٹس کا بھائی اس بیماری میں‌ مبتلا تھا اور کیٹس اس کی دیکھ بھال کے دوران جراثیم کا شکار ہوچکا تھا۔ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے اس کے ہمدرد اور شاعری کے معترف تھے جنھوں نے کڑی تنقید اور سخت باتوں سے ملول ہونے پر اس کی دل جوئی کی، مگر جب انسان جسمانی طور پر بیمار ہو تو وہ حساس بھی ہوتا ہے اور منفی رویے اور تضادات اسے بری طرح متأثر کرتے ہیں۔ یہی جان کیٹس کے ساتھ ہوا۔

    دوسری طرف وہ اپنی پڑوسی فینی بران کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت نے اسے زندہ رکھا۔ کہتے ہیں‌ کہ جان کیٹس کی مشہور نظم برائٹ اسٹار فینی سے ایک ملاقات ہی میں‌ لکھی گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے تھے جو انگریزی ادب میں اعلیٰ‌ رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ ہیں۔

    کیٹس نے حسن و عشق، جذبے اور تخیل کو اس طرح‌ شاعری میں‌ سمویا کہ بعد میں اسے ایک دبستان قرار دیا گیا۔ اس کی مختصر زندگی میں دکھ درد، مشکل، تنگی اور ادب کے نام نہاد بڑوں کی وہ سب تکلیف دہ باتوں اور فینی کے عشق نے اسے لازوال بنا دیا۔ کیٹس نے عشق کے رنگوں کو اپنی شاعری میں اس خوبی سے برتا کہ وہ عدیم النظیر اور بے مثال ثابت ہوئی۔

    ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے درد و داغ، رکاوٹیں اور عشق شاعری میں ڈھل گئے تھے۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کا ذکر جا بجا اپنی شاعری میں کیا ہے۔

    وہ روم میں‌ قیام پذیر تھا جہاں ایک صبح اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم رومانوی شاعر کی تدفین روم ہی میں کی گئی۔

  • نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    گوگول کو روسی ادب میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اُسے سمجھنے کے لیے مشہور ناول نگار دوستوفسکی کا یہ جملہ کافی ہے، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    اوور کوٹ بلاشبہ سلطنتِ روس کے اس عظیم قلم کار کی شاہ کار کہانی ہے۔ اوور کوٹ کی کہانی ایک سرکاری کلرک کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہانی ایک غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور اس کی تذلیل کی کہانی ہے۔ یہ سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

    نکولائی گوگول کا آبائی وطن یوکرین تھا جو اُس دور میں روسی سلطنت کا حصّہ تھا۔ سرد جنگ کے بعد یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا اور خود مختار ملک بنا۔ بادشاہت کے زمانے میں یہاں 1809ء میں نکولائی واسیلیوچ گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ گوگول کے نام سے معروف ہے۔ اج اس ناول نگار کا آبائی وطن روس کی جانب سے جنگ کے بعد تباہی دیکھ رہا ہے۔ گوگول نے اپنی زندگی ہی میں روسی سلطنت میں ممتاز ادیب اور ناول نگار کے طور پر شہرت سمیٹ لی تھی۔ اس نے سماج میں غلامی کا دور دورہ دیکھا اور سلطنت میں عوام کو مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا پایا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش طبقات اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھنا شروع کیا۔

    وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ وہ اُس زمانے میں‌ بطور ڈرامہ نویس تھیٹر سے منسلک تھے۔ گوگول کے چند دیگر اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ تھے۔ نکولائی گوگول نے انہی سے متاثر ہو کر فن و تخلیق کا سفر شروع کیا تھا۔ اسے اداکاری کا شوق بھی تھا۔ نکولائی گوگول کو حصولِ تعلیم کے زمانے میں ہوسٹل میں رہنا پڑا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرکے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ اسے سرکاری نوکری کی خواہش تھی جس کے حصول میں وہ ناکام رہا۔ تب اس نے تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گوگول نے اس مقصد کے لیے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر سے کچھ رقم چرا کر نکل پڑا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور اب خیال آیا کہ انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچائے۔ وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ اُسے اس قدر پسند کیا جائے گا اور اس کتاب کی بدولت وہ ملک گیر شہرت حاصل کر لے گا۔ لیکن قسمت اس پر مہربان تھی۔ اس کی کہانیاں 1831ء اور 1832ء میں‌ قارئین کی بڑی تعداد تک پہنچیں اور لوگوں‌ نے اسے بہت سراہا۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس ن ے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

    آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے انداز سے پیش کیا اس کی کہانیوں میں سماج اور افراد پر گہرا طنز اور ایسا مزاح ملتا ہے جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کہانیوں میں اثر پذیری کی بڑی وجہ گوگول کی وہ حقیقیت نگاری ہے جسے اس وقت روایات سے انحراف اور سماج سے بغاوت تصوّر کیا گیا۔

  • غلام محمد قاصرؔ: روایت کی سیج کو اپنے سلیقۂ سخن سے سجانے والا شاعر

    غلام محمد قاصرؔ: روایت کی سیج کو اپنے سلیقۂ سخن سے سجانے والا شاعر

    اردو شاعری میں‌ نازک خیالی اور لطیف جذبات کے اظہار نے غلام محمد قاصرؔ کو اس زبان کا معتبر اور مقبول شاعر بنایا۔ قاصرؔ نے 1999ء میں‌ آج ہی روز دنیا کو خیرباد کہا تھا۔ آج غلام محمد قاصرؔ کی برسی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب غلام محمد قاصر سے متعلق ایک قصّہ نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔ "ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشّان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں اُس دور کے نامی گرامی شعرا ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی اور محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے۔ مشاعرے کے آغاز میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ ایک چوبیس پچیس سالہ دبلے پتلے اسکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے۔

    جب نوجوان اس شعر پر آیا تو گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے شعرا یک لخت اٹھ بیٹھے اور انھوں نے تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر وہ داد دی کہ پنڈال میں دھوم مچ گئی۔ شعر تھا

    تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
    ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

    لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب غزل کے آخری شعر میں شاعر نے خود ہی دے دیا۔

    کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات
    یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

    احمد ندیم قاسمی قاصر کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’جب کوئی سچ مچ کا شاعر بات کہنے کا اپنا سلیقہ روایت میں شامل کرتا ہے تو پوری روایت جگمگا اٹھتی ہے۔‘‘

    غلام محمد قاصرؔ کا تعلق پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے چند کلومیٹر دور بسائے گئے قصبے پہاڑ پور سے تھا۔ وہ 4 ستمبر 1941 میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ کوئی کالج قریب نہ تھا اور قاصر نے خود کو ماحول کے اس جبر کا شکار ہونے دیا۔ لیکن بطور پیشہ مدّرسی کو اپنایا تو راہیں کھل گئیں۔ اسی عرصہ میں‌ ایف اے کا امتحان دے کر بی اے کیا اور پھر اُردو میں ایم اے کرکے پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے دیا۔ انٹرویو میں کام یاب ہوئے اور لیکچرار ہوگئے۔ قاصر نے شاعر سعید احمد اختر کی بیٹی سے شادی کی اور اس جوڑے کو خدا نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ قاصر نے پشاور میں‌ وفات پائی۔

    قاصر اپنے وقت کے مقبول اور خوش گو شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے’’ تسلسل‘‘،’’ آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے‘‘ اور ’’دریائے گماں‘‘ کے نام سے شایع ہوئے اور کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ غلام محمد قاصر نثر نگار بھی تھے اور ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بہت مقبول ہوا۔

    کروں گا کیا جو محبت میں‌ ہوگیا ناکام
    مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

  • قبلائی خان: وہ منگول بادشاہ جو اپنی محبوب رفیقِ حیات کی موت کے بعد زندگی سے اکتا گیا تھا!

    قبلائی خان: وہ منگول بادشاہ جو اپنی محبوب رفیقِ حیات کی موت کے بعد زندگی سے اکتا گیا تھا!

    دنیا کی تاریخ منگول خاندان کے بادشاہوں کی شان دار فتوحات اور عظیم الشّان سلطنت کے ساتھ ان کی سفاکی اور قتل و غارت گری کو فراموش نہیں کرسکتی جس کے لیے چنگیز خان مشہور ہے اور قبلائی خان بھی اپنے دادا کے نقشِ‌ قدم پر چلا، لیکن قبلائی خان کو ایک خوش مذاق اور ثقافت کو فروغ دینے والا فاتح بھی کہا جاتا ہے۔

    قبلائی خان نے سنہ 1260 میں چین کے شاہی تخت پر قبضہ کر کے وہاں 34 سال تک حکومت کی تھی۔ منگولوں نے چینی سونگ خاندان کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ دشمن جورچن کی کمر توڑ کر رکھ دی اور پھر سونگ کے بھی خلاف ہو گئے۔ چنگیز خان کے بعد اس کے پوتے قبلائی خان نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ محققین نے قبلائی خان کا سنہ پیدائش 1215ء لکھا ہے اور وہ 1294ء تک زندہ رہا۔ اس کی تاریخِ وفات 18 فروری ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ چنگیز خان کی وسیع و عریض‌ رقبے پر پھیلی ہوئی سلطنت کو سنبھالتے ہوئے اور سونگ خاندان سے بادشاہت چھیننے کے بعد سنہ 1271 میں قبلائی خان نے یوان خاندان کی بادشاہت کا باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا۔ اس نے چین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جن میں منگول اکثر چینیوں سے بالاتر ہوتے، تاہم محققین کہتے ہیں‌ کہ ہر شعبے میں نسلی بنیاد پر یہ تقسیم نہیں‌ کی گئی تھی۔ قبلائی خان نے اپنے طرزِ حکومت میں اعتدال اور اپنے قانون میں توازن کو اہمیت دی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس بہت سے مشیر چین سے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ریاست میں مذہب اور ثقافت کا امتزاج بھی دیکھا گیا اور اس دور میں سلطنت میں اسلام نے فروغ پایا اور مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ قبلائی خان کے دور میں بہت سے صوبوں میں مسلمان گورنر مقرر کیے گئے۔ اس دور میں منگول سلطنت نے مختلف شعبہ جات میں‌ ترقی کی اور تجارت و کاروباری سرگرمیاں‌ تیز ہوئیں۔ وینس کے مشہور سیاح مارکو پولو بھی قبلائی خان کے دربار میں‌ پہنچا تھا اور اس نے وہاں‌ بڑی عزّت اور مرتبہ پایا۔ مارکو پولو نے اپنے سفرنامے میں قبلائی خان کی تعریف کرتا ہے اور اس دور کے حالات و واقعات بیان کرتا ہے جو بہت دل چسپ بھی ہیں۔

    قبلائی خان کی خواہش رہی کہ وہ اپنی سلطنت کو وسعت دے اور اس کے لیے اس نے فتوحات کی جس حکمتِ عملی کو اپنایا اس میں بڑا خسارہ بھی ہوا۔ وہ موجودہ دور کے ویتام اور میانمار تک حملے کرنے کے علاوہ جاپان پر ناکام حملہ بھی کرچکا تھا جس میں پیسہ اور انسانی جانیں ضایع ہوئیں‌ اور ماہرین کہتے ہیں کہ منگول سلطنت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ اپنی‌ محبوب بیوی کی رحلت کی وجہ سے پژمردہ رہنے لگا تھا۔ اس دور کے مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ جینے سے گویا بیزار ہوگیا اور مٹاپے نے اسے جوڑوں کے درد میں مبتلا کردیا۔ قبلائی خان نے 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس کے بعد یوان خاندان کی چین پر تقریباً‌ سو سال تک حکومت رہی۔

    معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک رہا اور اس نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دل چسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ اس نے کئی محلاّت اور عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروائی تھیں۔ مشہور ہے کہ قبلائی خان کے ساتھ اس کی بیویوں‌ اور کنیزوں‌ کے علاوہ خادموں کو بھی اس خیال سے ساتھ دفنا دیا گیا تھا کہ وہ اگلے جہان میں بادشاہ کی خدمت کرسکیں۔

  • حیاتُ اللہ انصاری: ادب اور صحافت سے سیاست کے میدان تک

    حیاتُ اللہ انصاری: ادب اور صحافت سے سیاست کے میدان تک

    اردو زبان و ادب میں کئی نام ایسے ہیں جنھیں ہم فراموش کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ناقدین نے ان ادیبوں‌ کے فن و تخلیق کو موضوع نہیں بنایا۔ حیاتُ اللہ انصاری کا نام اگرچہ مختصر افسانہ نویس کے طور پر بہت اہم رہا ہے، لیکن ان کی زندگی میں اس کا اعتراف کم ہی کیا جاسکا۔ وہ افسانہ و ناول نگار، نقّاد، اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ آج حیاتُ اللہ انصاری کی برسی ہے۔

    حیات اللہ انصاری کے افسانہ بعنوان ‘‘بڈھا سود خور’’ نے ادبی دنیا کو اس وقت اپنی جانب متوجہ کیا تھا جب فکشن نگاری میں کرشن چندر جیسا نام ہر طرف سنائی دیتا تھا اور راجندر سنگھ بیدی و دیگر ادیب قارئین میں مقبول تھے۔ اس افسانے سے قلم کار کی حقیقت پسندی اور انسان دوستی کا علم ہوتا ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر یہ افسانہ 1930ء میں شایع ہوا۔ یہ حیات اللہ انصاری کا پہلا مطبوعہ افسانہ تھا۔

    حیات اللہ انصاری کو مختصر کہانی اور افسانہ نگاری میں کمال حاصل ہوا۔ متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد بھارت میں وہ ایک ماہرِ تعلیم اور تحریکِ اردو کے پُرجوش اور مضبوط کارکن کے طور پر مشہور ہوئے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری بھی اسی دور میں افسانوی ادب میں نام بنا رہے تھے۔ ان کے درمیان حیات اللہ انصاری کے قلم کی خوبی یہ تھی کہ وہ انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی کا خوگر رہا۔ اس کے علاوہ فنی اعتبار سے حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے بھی قارئین کو متوجہ اور ناقدین کو متاثر کیا۔ ان کا طرزِ‌ بیان خوب صورت اور تحریر دل نشیں ہونے کے ساتھ موضوع اپنی بلند خیالی اور مقصدیت سے بھرپور رہا ہے۔ حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا تھا۔ ان کی دوسری کتاب ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرے مجموعے کی اشاعت ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے ہوئی۔ 1991 میں ‘‘ٹھکانہ’’ شایع ہوئی اور یہ ان کی چوتھی کتاب تھی۔ حیاتُ اللہ انصاری نے ناول بھی لکھا جس میں‌ ‘‘لہو کے پھول’’ کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ ان کا پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا اور اس پر بعد میں بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔ ایک ناول ’’گھروندا‘‘ کے نام سے اور ناولٹ بھی کتابی شکل میں‌ سامنے آئے۔ وہ مدیر ہفت روزہ ہندوستان، بانی مدیر قومی آواز لکھنؤ، مدیر ہفت روزہ سب ساتھ، مدیر ہفت روزہ سچ رنگ بھی رہے۔ اردو زبان کے لیے بھارت میں انھوں‌ نے بڑی خدمات انجام دیں اور اس زبان کو آئین اور حکومتی وعدوں‌ کے مطابق مقام اور اس کے حقوق دلانے کے لیے کوششیں‌ کرتے رہے۔

    حیاتُ اللہ انصاری لکھنؤ میں 1912 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل ہوئے اور اگلی جماعتوں سے کام یاب ہونے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ سیاست بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ لیکن پہلے وہ بطور قلم کار ترقی پسند تحریک سے جڑے اور پھر اپنے سیاسی نظریات کے تحت کانگریس کے پلیٹ فارم پر نظر آئے۔ وہ بحیثیت سیاست داں بھی متحرک رہے۔

    1999 میں آج ہی کے دن حیاتُ اللہ انصاری انتقال کرگئے تھے۔