Tag: فروری وفات

  • دیوندر سیتارتھی: ادبی دنیا کی ایک نرالی شخصیت

    دیوندر سیتارتھی: ادبی دنیا کی ایک نرالی شخصیت

    دیوندر ستیارتھی اُن چند تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو اپنی افسانہ نگاری کے علاوہ سنیاسی کا روپ دھار کر برصغیر کے مختلف شہروں میں لوک گیت جمع کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ انھوں نے اردو، پنجابی اور ہندی زبانوں میں لکھا۔ ان کے تحریر کردہ خاکے، خود نوشت، سفرنامے اور شاعری بھی شایع ہوئی۔

    دیوندر ستیارتھی کی پیدائش ہندوستان میں پنجاب کی آریہ سماجی تہذیب کے ایک کھتری خاندان میں 28 مئی 1908 کو ہوئی۔ ستیارتھی کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں ہوئی۔ دسویں جماعت کے بعد ان کا ارادہ لاہور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا تھا مگر مالی حالات اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ لاہور نہیں جاسکے۔ ان کا داخلہ پٹیالہ کے کالج میں کروا دیا گیا۔ دیویندر ستیارتھی اپنے معاصرین میں بہت مقبول تھے۔ بہت سے لوگ انھیں مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ وہ منٹو کے ہم عصر افسانہ نگار تھے اور منٹو ان کو فراڈ کہتے تھے۔ پرکاش پنڈت نے ادبی رشی کا نام دیا۔ کرشن چندر نے مہا بور کہا۔ بلراج مین را نے آوارہ تخلیق کار کہا۔

    سیتارتھی ایک نرالی شخصیت تھے۔ ان کی ایک عادت جس سے ان کے دوست تنگ رہتے، اپنا افسانہ زبردستی سنانا تھی۔ ادیب اور صحافی محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور:‌ شہرِ پُرکمال’ میں سیتارتھی سے متعلق ایک دل چسپ قصّہ پڑھنے کو ملتا ہے، ملاحظہ کیجے۔

    ستیارتھی سنت نگر میں رہتے تھے۔ اسی علاقے میں کنہیا لال کپور، فکر تونسوی اور ہنس راج رہبر کی رہائش تھی۔ یوں وہ براہِ راست ستیارتھی کی زد میں تھے، اس لیے چھپتے پھرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی قسمت بری تھی کہ ستیارتھی ایک دفعہ ان کے یہاں بیوی اور بیٹی سمیت آن براجے اور کئی دن ٹھیرے۔ بیدی لاہور کینٹ میں چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ شام کو تھکے ٹوٹے گھر پلٹتے تو مہمانِ عزیز افسانہ سنانے کو پھر رہے ہوتے، اس پر طرّہ یہ کہ اصلاح کے طالب ہوتے۔ اس عمل میں جو وقت برباد ہوتا سو ہوتا لیکن صبح سویرے بھی تازہ دَم ہو کر ستیارتھی تصحیح شدہ افسانہ بیچارے میزبان کو سناتے۔ ان سب باتوں سے تو بیدی زچ تھے ہی، غصّہ ان کو اس بات پر بھی تھا کہ بیوی بچّوں کے لیے وہ وقت نہ نکال پاتے۔ یہ سب معلومات بیدی کی زبانی منٹو کے علم میں آئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے افسانہ ”ترقّی پسند“ لکھ دیا۔

    ستیارتھی نے بیدی کی خلوت میں ایسی کھنڈت ڈالی کہ میاں بیوی کا قرب محال ہو گیا۔ منٹو نے یہ صورتِ حال افسانوی رنگ میں یوں پیش کی کہ ایک دن دھڑکتے دل کے ساتھ، کہ کہیں سے ترپاٹھی (دیوندر ستیارتھی) نہ آجائے، اس نے جلدی سے بیوی کا بوسہ یوں لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے۔ یہ بیدی پر سیدھی چوٹ تھی کہ وہ ان دنوں ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگاتے تھے۔

    منٹو کی کہانی کے ردِعمل میں ستیارتھی نے ”نئے دیوتا“ کے عنوان سے افسانہ لکھ ڈالا، اس میں منٹو کے طرزِ زندگی پر طنز تھا۔ مرکزی کردار کا نام نفاست حسن رکھا گیا۔ یہ کہانی ”ادبِ لطیف“ میں چھپی اور بقول ستیارتھی، اوپندر ناتھ اشک اور کرشن چندر کو بہت پسند آئی اور انھوں نے منٹو کو اس پر خوب دق کیا۔ ستیارتھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کہانی کی وجہ سے منٹو ان سے پانچ سال ناراض رہے۔ دونوں کی صلح کرانے میں راجندر سنگھ بیدی اور نذیر احمد چودھری نے کردار ادا کیا۔ ”نئے دیوتا“ کے بارے میں کہا گیا کہ بھلے سے یہ ستیارتھی کے نام سے شایع ہوا ہو مگر اس کے اصل مصنف بیدی ہیں۔ اشک اپنے مضمون ”منٹو میرا دشمن“ میں بتاتے ہیں:

    ”دوستوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی ہوئی بلکہ انھوں نے منٹو کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قایم کر لیا اور جس طرح منٹو نے اپنی کہانی میں بیدی اور ستیارتھی کے عادات و اطوار، شکل و شباہت اور ذاتی زندگی کا مذاق اُڑایا تھا، اسی طرح ان دونوں نے مل کر ایک افسانہ لکھ کر منٹو کی ذاتی زندگی اور اس کی خامیوں کو اُجاگر کر دیا۔ کہانی ستیارتھی کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے ہی لکھی تھی۔ بیدی نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کچھ ایسے پنّے لگائے کہ کہانی، جہاں تک کردار نگاری کا تعلّق ہے، بے حد اچھی اُتری، نام ہے ’نئے دیوتا‘ بات یہ ہے کہ افسانہ کسی نے لکھا ہو فنّی اعتبار سے منٹو کے ’ترقی پسند‘ کا پلّہ بھاری ہے۔“

    دیوندر ستیارتھی کے لوک گیتوں پر کام کو کنھیا لال کپور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”اللہ میاں کی کچہری میں جب ستیارتھی کو آواز پڑے گی تو ’لوک گیتوں والا ستیارتھی‘ کہہ کر، نہ کہ کہانی کار ستیارتھی کے نام سے۔“ بیدی اس معاملے میں کپور کے ہم خیال تھے۔

    ستیارتھی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں اپنی کہانی ”اگلے طوفانِ نوح تک“ پڑھی جس میں نذیر احمد چودھری کو بطور پبلشر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیدی نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا: ”ستیارتھی کو سات جنم میں بھی کہانی کار کا مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔“ اس پر ستیارتھی نے جواب دیا: ”حضرات! جب تک میں کہانی کار نہیں بن جاتا میں بدستور بیدی کو گرو دیو تسلیم کرتا رہوں گا۔“

    دیوندر ستیارتھی کی تمام زبانوں میں تصنیفات کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے۔ وہ 12 فروری 2003 کو بھارت میں وفات پاگئے تھے۔

  • سَر عبدالقادر شیخ:‌ معروف قانون داں‌ اور محسنِ‌ اردو کا تذکرہ

    سَر عبدالقادر شیخ:‌ معروف قانون داں‌ اور محسنِ‌ اردو کا تذکرہ

    یہ اس شخصیت کا تذکرہ ہے جو سَر شیخ عبدالقادر کے نام سے متحدہ ہندوستان میں‌ معروف تھے۔ وہ ایک قابل و باصلاحیت قانون داں بھی تھے اور اردو ادب اور صحافت کے شعبے میں بھی نام پیدا کیا۔ شیخ عبدالقادر اپنے دور کی ان شخصیات میں شامل تھے جنھیں شاعرِ مشرق علامّہ اقبال اور عظیم مصلحِ سرسیّد احمد خان جیسے اکابرین نے سراہا۔

    سَر عبدالقادر شیخ 9 فروری 1950ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ شیخ عبد القادر کی عملی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ ایک بہترین مدیر، محقق، مقالہ و انشائیہ نگار اور مترجم بھی تھے جب کہ انھیں اردو زبان اور جدید ادب کا محسن بھی کہا جاتا ہے۔

    قابلِ‌ ذکر بات ہے کہ سَر شیخ عبدالقادر ہی وہ شخصیت ہیں‌ جنھوں نے علامہ اقبالؔ کے اوّلین مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ کا دیباچہ تحریر کیا تھا۔ ہندوستان کے تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی راہ نما سَر عبدالقادر شیخ کی ذہانت اور خوبیوں کے معترف تھے۔ انھیں اردو زبان سے بڑا لگاؤ تھا اور اس زمانے میں‌ وہ اردو کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنے میں پیش پیش رہے۔

    قانون داں اور ادیب سَر شیخ عبدالقادر 15 مارچ 1874ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سَرسیّد احمد خان کی تحریک سے وابستہ تھے۔ انھوں نے 1898ء میں پنجاب کے پہلے انگریزی اخبار آبزرور کی ادارت سنبھالی اور 1901ء میں ادبی جریدہ مخزن جاری کیا۔ دنیائے ادب میں مخزن کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ پہلی بار اس جریدے میں علامہ اقبال کی نظمیں شایع ہوئیں۔ 1904ء میں سَر شیخ عبدالقادر قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان گئے۔ 1907ء میں امتحان پاس کرنے کے بعد ہندوستان لوٹے تو پہلے دہلی اور بعد میں لاہور میں وکالت کا سلسلہ شروع کیا۔ سَر جلال الدّین، ان کے لاہور میں استقبال کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ شیخ صاحب علامہ اقبال سے پہلے بیرسٹری پاس کر کے لاہور آ گئے۔لاہور میں انھیں شاندار انداز میں خوش آمدید کہا گیا، بہت بڑا استقبالیہ جلوس نکالا گیا۔ ایسے مناظر کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ انگریز افسران بھی بہت متاثر نظر آتے تھے۔ اگلے روز گورنمنٹ ہاؤس میں ایک پارٹی تھی، ہم نے شیخ صاحب کو بھی دعوت نامہ بھجوا دیا۔ پارٹی میں موجود چیف کورٹ نے مجھ سے پوچھا کل لاہور میں کون شخص وارد ہوا ہے کہ جس کے استقبال کی گونج مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ میں نے کہا ابھی ملوائے دیتا ہوں، ان کی ملاقات شیخ صاحب سے کراتے ہوئے کچھ تعارفی کلمات بھی کہے، جن کی متقاضی شیخ صاحب کی ذات تھی۔ چیف صاحب نے مسکرا کر کہا، شیخ صاحب آپ کا استقبال آپ کے شایانِ شان ہوا۔

    1921ء میں شیخ صاحب ہائی کورٹ کے جج بنے اور 1935ء میں پنجاب کے وزیرِ تعلیم کا منصب سنبھالا۔ 1939ء میں انھیں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بنایا گیا اور 1942ء میں سر عبدالقادر کو بہاولپور میں چیف جج کا منصب دیا گیا۔

    سَر شیخ عبدالقادر کو لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ہلاکو خان:‌ غارت گرِ بغداد جس کا مدفن دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے!

    ہلاکو خان:‌ غارت گرِ بغداد جس کا مدفن دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے!

    عرب دنیا میں مسلمانوں کی عظمت اور شان و شوکت کے زوال اور فن و ثقافت میں امتیازی وصف کے حامل شہر بغداد کے تاراج کیے جانے کے ذکر کے ساتھ ہی ہلاکو خان کا نام بھی ایک ظالم اور سفاک حملہ آور کے طور پر لیا جائے گا۔ وہ چنگیز خان کا پوتا اور تولوئی خان کا بیٹا تھا جو قتل و غارت گری میں اپنے دادا اور باپ کے نقشِ قدم پر چلتا رہا۔

    ہلاکو خان موت کی ایک وجہ ناسازیٔ طبع اور دوسرا سبب گھوڑے کا بدک جانا بتایا جاتا ہے۔ اس ناگہانی افتاد میں ہلاکو خان نے اپنا توازن کھو دیا اور اس کا سَر زمین پر لگنے سے موت واقع ہوگئی۔ ہلاکو خان کو تاریخ کے اوراق ایل خانی سلطنت کا بانی بتاتے ہیں۔

    مؤرخین کے مطابق ہلاکو خان کو اس کے بھائی نے 1256ء میں ایران کی طرف بھیجا تھا جہاں ایک باغی گروہ سر اٹھا چکا تھا۔ اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ہلاکو وہاں مسلسل لڑائی میں مصروف رہا، اور کئی علاقوں کو فتح کر لیا۔ بعد میں ہلاکو خان بغداد کی طرف متوجہ ہوا۔ اس وقت وہاں المستعصم کی حکومت تھی۔ یہ شہر علم و فنون اور معاشرت میں ممتاز تھا، لیکن مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہاں‌ خلیفہ المستعصم کے زمانے میں‌ فرقہ واریت اور افراتفری بڑھ چکی تھی اور بغداد میں حکم راں اپنی فوج سے غافل اور سرحدوں کے دفاع سے بے نیاز ہوچکا تھا۔ یہ مسلم حکومت کے زوال کا دور تھا۔ ہلاکو خان نے اسی زمانے میں‌ بغداد کا رخ کیا اور اسے اجاڑ کر رکھ دیا۔

    اردو کے مشہور ادیب اور طنز و مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی نے اس پر زوالِ‌ بغداد کے عنوان سے ایک مضمون میں‌ لکھا تھا جس سے یہ پارے ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں: "بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

    ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

    یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

    جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

    شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

    دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

    بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

    جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

    بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

    تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

    چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔”

    ہلاکو خان کا سنہ پیدائش 1215ء اور جائے پیدائش منگولیا ہے لیکن محققین تاریخِ وفات میں اختلاف رکھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک ہلاکو خان 8 فروری 1265ء کو چل بسا تھا، مگر تاریخ پر مبنی بعض کتب میں ہلاکو خان کی موت کی تاریخ 12 فروری لکھی ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہلاکو خان کا مدفن تاحال دریافت نہیں‌ کیا جاسکا۔

  • مغل شہزادی گلبدن بانو اور ہمایوں نامہ

    مغل شہزادی گلبدن بانو اور ہمایوں نامہ

    برطانیہ کے عجائب خانہ میں مغل دور کا وہ قلمی نسخہ آج بھی محفوظ ہے جسے فارسی زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔ یہ گلبدن بانو کی تصنیف ہے اور اس کے اوّلین صفحہ پر ان کا نام یوں لکھا ہے، ‘ہمایوں نامہ۔ تصنیف گلبدن بیگم بنتِ بابر بادشاہ۔’

    یہ آپ بیتی ہے، سوانح اور واقعات کا وہ مجموعہ ہے جو بتاتا ہے کہ ہندوستان میں بادشاہت کے زمانے میں کیا قدریں تھیں، کیسی روایات اور رسم و رواج تھے۔ شاہی خاندان، دربار اور معاشرے میں شرم و حیا کا معیار اور اس کے پیمانے کیا تھے، لوگ کیسے وضع دار تھے اور ظلم و ستم، ناانصافی کی وہ کہانیاں بھی اس میں مل جاتی ہیں‌ جن کو ضبطِ تحریر میں لانے کی اجازت دی گئی ہو گی یا پھر انھیں اپنے دور میں غیرمعمولی نہیں‌ سمجھا گیا ہوگا۔

    مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدّین محمد بابر کی بیٹی گلبدن بانو کو اکثر گلبدن بیگم بھی لکھا گیا ہے جن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں‌ ہم بہت کم جانتے ہیں‌، لیکن ’ہمایوں نامہ‘ وہ کتاب ہے جس نے انھیں تاریخ میں زندہ رکھا ہے۔

    گلبدن بانو بیگم 1523ء میں کابل میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی ماں کا نام دلدار بیگم تھا۔ ان کی مادری زبان ترکی تھی۔ گلبدن کی پیدائش کے وقت کابل پر بابر کی حکم رانی کو 19 سال ہوچکے تھے اور وہاں‌ فارسی بولی جاتی تھی۔ یہی زبان ہندوستان میں‌ بھی پروان چڑھ رہی تھی۔ اس امر کا اظہار گلبدن بانو بیگم نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ گلبدن کا بچپن کابل میں گزرا۔ وہ پانچ چھے برس کی تھیں جب اپنے والد بابر کے ساتھ ہندوستان آئیں۔ یہاں آنے کے دو ڈھائی سال کے بعد بابر دنیا سے رخصت ہوگیا اور تب ہمایوں نے اپنی بہن گلبدن بیگم کی دیکھ بھال کی اور بادشاہ ہمایوں‌ کے زیرِ نگرانی اس بچّی نے تربیت پائی۔ سولہ سال کی عمر میں‌ گلبدن کی شادی ہو گئی، مگر مؤرخین کا قلم اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں لکھ سکا اور خود گلبدن نے بھی اپنی زندگی کے اس اہم مرحلے کا ذکر اشارتاً ہی کیا ہے۔

    ہمایوں نامہ میں گلبدن بانو بیگم لکھتی ہیں‌ کہ جب ان کی عمر دو سال تھی تو انھیں ماہم بيگم کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ماہم بیگم نے اپنے بیٹے ہمایوں اور دیگر بچّوں کے ساتھ ان کی بھی پرورش اور تربیت کی تھی۔ انہی کی سرپرستی میں‌ گلبدن بیگم نے دربار اور شاہی محل کے اطوار و آداب سیکھے۔

    بعض تاریخی کتب میں درج ہے کہ 50 سال کی عمر میں طوافِ بیتُ اللہ کو جانے والی گلبدن بیگم نے وہاں‌ تین سال سے زائد عرصہ قیام کیا۔ اس مغل شاہ زادی نے آگرہ میں‌ وفات پائی۔ مؤرخین نے گلبدن بیگم کی تاریخِ وفات 7 فروری 1603ء تحریر کی ہے۔

    گلبدن بیگم کا ہمایوں‌ نامہ پڑھنے والے کے لیے یہ امر تعجب خیز ہے کہ خود اپنے بارے میں انھوں نے اپنی اس تصنیف میں بہت کم ہی کچھ لکھا ہے۔ اس کتاب میں کئی واقعات اور تذکرے موجود ہیں لیکن کہیں بھی گلبدن بیگم اپنے خیالات اور اس تفصیل کے ذیل میں اپنے حالات نہیں بتاتی ہیں۔

    ہمایوں نامہ تاریخی اہمیت کی حامل ایسی کتاب ہے جس کی حیثیت اس کی مصنّف کے تعلق سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ مشہور ہے کہ گلبدن بیگم نے اسے اپنے بھتیجے اکبر بادشاہ کے اصرار پر تحریر کیا تھا۔

    بادشاہ اکبر کو اپنی پھوپھی سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ گلبدن بیگم کے جنازے میں‌ شریک تھے اور اپنے ہاتھوں سے انھیں قبر میں اتارا تھا۔ گلبدن بیگم کے شخصی اوصاف بیان کرتے ہوئے مؤرخین لکھتے ہیں کہ انھیں شاہی خاندان کی نہایت فیاض اور درد مند عورت خیال کیا جاتا تھا۔ وہ بہت زیادہ صدقہ خیرات کرتی تھیں۔

    ہمایوں‌ نامہ کو اکثر آپ بیتی اور سوانح بھی کہا گیا ہے، لیکن اس میں بہت سے واقعات گلبدن بیگم نے اپنی یادداشت کی مدد سے لکھے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں‌ جو انھوں‌ نے دوسروں کی زبانی سن کر لکھے۔

    محققین کے نزدیک گلبدن بانو کی یہ تصنیف ان کی صاف گوئی اور جرأت کا اظہار بھی ہے۔ انھوں نے اپنے بھائی اور اس وقت کے بادشاہ ہمایوں کی کوتاہیوں اور لغزشوں کو نہیں چھپایا اور نہ ہی اس کتاب میں شاہی خاندان سے متعلق دوسری باتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

    ہمایوں نامہ کی بنیاد پر مؤرخین اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں‌ کہ گلبدن بانو وہ شہزادی تھی جس نے مغل حرم سے منسلک عیش و نشاط کے تصور کو بدلا اور بعد میں جب ان کے بھتیجے اکبر بادشاہ کی مذہب سے دوری اور ہندوستان کے مسلمانوں‌ میں اس سے متعلق بدگمانی عام ہورہی تھی تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کی۔

  • ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا تذکرہ

    ٹوٹ بٹوٹ کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا تذکرہ

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا نام اردو ادب میں ان کی تخلیقات کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔ اردو کے اس ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد نے 7 فروری 1978ء کو اپنی آنکھیں‌ ہمیشہ لیے موند لی تھیں۔

    اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں‌ میں شاعری کے ساتھ بچّوں کے لیے لکھی گئی نظمیں صوفی صاحب کی ایک بڑی وجہِ‌ شہرت ہیں۔ وہ امرتسر میں پیدا ہوئے تھے اور بعد کا زمانہ لاہور میں گزارا۔ ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین نے اپنی ایک کتاب بعنوان ملاقاتیں‌ میں‌ صوفی صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا، صوفی صاحب اصل میں یہ بتا رہے تھے کہ امرتسر کیا خوب شہر تھا۔ ایک طرف قالینوں اور پشمینوں کے سوداگر، دوسری طرف شعرا و ادباء اور تیسری طرف علماء مشائخ۔ اور یہ سوداگر خود سوداگری کے ساتھ علم و فضل میں بھی شہرہ رکھتے تھے۔

    صوفی صاحب کے سامنے امرتسر کا نام لے دو، بس پھر وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا غلام علی، ان کے خلیفہ عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ غزنوی اور پھر انہیں اپنے دادا یاد آ گئے۔ ”میرے دادا، درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو تھالیاں تھیں۔ ایک تھالی میں خود کھاتے تھے وہ اور میری دادی، دوسری تھالی میں وہ درویش کھاتا تھا جو اس گھر میں مہمان تھا۔ تیسری تھالی اس گھر میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے کہ سامان کس دن کے لیے جمع کیا جائے اور تیسری تھالی کس کے لیے رکھی جائے۔“

    صوفی صاحب نے دادا کے گھر پرورش پائی۔ والد صاحب دوسرے قماش کے آدمی تھے۔ دادا نے انتقال کیا تو انہوں نے کتب خانہ کہ نادر علمی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں میں بانٹ دیا۔ بس کچھ فارسی شاعروں کے دیوان رہ گئے۔ صوفی صاحب نے وہ دیوان پڑھے اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔

    صوفی صاحب نے طالبِ علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا۔ کچھ دنوں خالصہ کالج میں پڑھے۔ پھر 1921ء میں لاہور چلے آئے اور ایف سی کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور کیا آئے کہ بس یہی ان کا گھر بن گیا۔

    لاہور میں صوفی صاحب کو تاثیر، بخاری، تاج اور سالک جیسے یار مل گئے۔ ایک دن تاثیر صاحب نے کہا کہ او صوفی تیار ہو جا، رسالہ نکال رہا ہوں۔ اس اعلان کے چند دنوں بعد ”نیرنگِ خیال“ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رسالوں میں بحثیں اپنی جگہ اور مشاعروں میں مقابلہ اپنی جگہ۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اس طرف سے تاجور نجیب آبادی، سیماب اکبر آبادی اور بڑا بڑا شاعر آتا۔ ادھر سے ہم نے حفیظ جالندھری کو میدان میں چھوڑا۔ اس مقابلہ آرائی نے لاہور شہر میں ایک زندگی پیدا کر دی۔ لیکن یہ مقابلہ بہت صحت مندانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ بُرے شعر پر خواہ اپنی ہی پارٹی کے شاعر کا ہو کبھی داد نہیں دی گئی۔ اچھا شعر ہو تو بے شک مخالف پارٹی کے شاعر کا ہو جی بھر کر داد دیتے تھے۔ ایس پی ایس کے ہال میں مشاعرہ تھا۔ سر عبدالقادر صدارت کر رہے تھے۔ میں نے فارسی میں غزل پڑھی۔ پیچھے کسی نے اچانک پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ یہ یاس یگانہ تھے جو داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ واللہ کیا شعر کہا ہے۔ تو آج کی سی منافقت ان دنوں نہیں تھی۔ شعر و ادب کے معاملہ میں ہم پُر خلوص تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ ادھر سے جو شاعر آتے ان میں سچا شاعر یگانہ تھا۔ پھر کہنے لگے کہ برسرِ مشاعرہ ہم نیاز مندانِ پنجاب ادھر سے آنے والوں کے خلاف صف آراء ہوتے تھے، مگر مشاعرہ ختم ہوتے ہی آپس میں گھل مل جاتے تھے۔

    صوفی صاحب نے باتوں باتوں میں نجی صحبتوں کو یاد کیا جو کبھی ان کے گھر پر اور کبھی بخاری صاحب کے گھر پر منعقد ہوتیں۔ کہنے لگے کہ ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان صحبتوں میں، مَیں نے اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یار اکٹھے تھے اور گھر میں میرے بیٹے کی جان کے لالے پڑے تھے، مگر مجال ہے کہ میں نے دوستوں کو پتہ ہونے دیا ہو۔ ہاں جب پریشانیاں گھیر لیتی تھیں تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچتا، ان کی باتیں خاموشی سے سنتا اور ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے نجات حاصل کر کے وہاں سے نکلتا۔

    پھر صوفی صاحب علّامہ اقبال کے حقّے کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ کہتے تھے کہ علامہ حقّہ پیتے نہ پیتے بہرحال اس کی نَے مٹھی میں دبائے رکھتے تھے اور باتیں کیے جاتے تھے۔

    صوفی صاحب کہنے لگے کہ حقہ کے بغیر میں بھی بات نہیں کر سکتا۔ رات کو بیچ بیچ میں آنکھ کھلتی ہے اور میں ایک گھونٹ لیتا ہوں اور سو جاتا ہوں لیکن اگر حقہ ٹھنڈا ہو تو پریشان ہو کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔“ پھر صوفی صاحب اپنی پریشانی بیان کرنے لگے کہ میرے پاس کوئی ملازم ہونا چاہیے کہ مستقبل میرے لیے حقہ گرم رکھے۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی تاریخِ پیدائش 4 اگست 1899ء ہے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستگی اختیار کی، ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ ادیب اور شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی تھے اور ان اصنافِ ادب میں ان کی علمی و ادبی کاوشوں نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ صوفی صاحب کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ بچّوں کا ادب ہے جس میں ان کی تخلیقات کے علاوہ ایسے مضامین اور غیر ملکی ادب سے تراجم شامل ہیں جو بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کردہ اپنی نظموں سے انھوں نے نہایت دل چسپ اور پُر لطف طریقے سے قوم کے معماروں‌ کو علم و عمل کی طرف راغب کرنے کا اہتمام کیا۔ ایک زمانہ تھا جب ان کی نظمیں ہر بچّے کو ازبر ہوتی تھیں۔ آج بھی ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں اور بچّوں‌ کو یاد کروائی جاتی ہیں۔

    صوفی تبسّم کا تخلیق کردہ ایک کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ صوفی تبّسم نے اپنی شاعری میں ٹوٹ بٹوٹ کو اس خوب صورتی سے پیش کیا کہ بچّوں نے اسے اپنا ساتھی اور دوست سمجھ لیا اور اس کے ساتھ تعلیم و تربیت کا عمل انجام پایا۔ ان نظموں کی خصوصیت معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ بچوں‌ کو دماغ سوزی پر آمادہ کرنا ہے اور اس کے لیے انھوں نے پہیلیاں، کہاوتیں اور لطائف کو منظوم کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے صوفی غلام مصطفیٰ‌ تبسّم کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا جب کہ حکومتِ ایران نے انھیں نشانِ سپاس دیا۔

    صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کی آخری آرام گاہ لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں ہے۔

  • ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ملکہ پکھراج:‌ راگ راگنیوں کی ماہر، برصغیر کی مشہور مغنّیہ

    ٹھمری کے انگ میں غزل گائیکی کا ایک منفرد اور بڑا نام ملکہ پکھراج کا ہے۔ کہتے ہیں، سُر ان کے سامنے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو کچھ وہ گنگناتیں ذہن پر نقش ہو جاتا تھا۔ انھیں پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کے لوک گیت گانے میں ملکہ حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی مشہور مغنّیہ تھیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 2004ء ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔

    ملکہ پکھراج اپنی آواز، سر سنگیت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گاؤں میں محرم کے جلوس میں مرثیے سناتی ہوئی کسی طرح ریاست جمّوں کے مہاراجہ کے دربار تک پہنچیں اور وہاں سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی تک اپنے فن کی بدولت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہر خاص و عام میں‌ پہچانی گئیں۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے قیامِ پاکستان کے بعد ملکہ پکھراج کے لقب سے خوب شہرت سمیٹی۔ ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ موسیقی کی متعدد اصناف میں انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور یہ ملک بھر میں ملکہ پکھراج کی پہچان بھی بنا۔ اردو کے مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی تھی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی پر انھیں تقریب کے دوران اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیِ ریاست، امرا اور معزز مہمانوں جن میں‌ فن کار بھی شامل تھے، ان کے مداح ہوگئے۔مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب دار اس عمر میں‌ آواز اور فن پر گرفت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بعد میں مہاراجہ نے ملکہ پکھراج کو دربار سے وابستہ کر لیا اور ملکہ پکھراج اگلے نو سال تک وہیں رہیں۔

    ملکہ پکھراج کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی آپ بیتی بھی شایع ہوچکی ہے۔

    لاہور میں وفات پانے والی ملکہ پکھراج شاہ جمال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یگانہ چنگیزی:‌ ایک غالب شکن کا تذکرہ

    یگانہ چنگیزی:‌ ایک غالب شکن کا تذکرہ

    یگانہ چنگیزی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یوں تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، لیکن مرزا غالب کے بڑے مخالف تھے۔ یگانہ کو اردو ادب میں‌ ان کی غالب شکنی نے بہت شہرت دی۔ لیکن وہ ایک قادرُ الکلام شاعر بھی تھے اور ان کا امتیاز اپنے زمانے کے رائج ادبی تصوّرات اور شعری روایات کو مسترد کرتے ہوئے جدید غزل کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔

    بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں‌ پیش کرنے والے یگانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ وہ 17 اکتوبر 1884ء کو صوبہ بہار کے شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں پیدا ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں یاس تخلّص کیا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچان بنائی۔ متعدد شہروں میں قیام رہا اور پھر 1904ء میں وہ لکھنؤ نقل مکانی کرگئے جہاں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    یگانہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ واقع مغل پورہ میں حاصل کی۔ بعد میں وہ محمڈن اینگلو عریبک اسکول عظیم آباد میں داخل ہوئے اور قابلیت کی بناء پر وظیفہ بھی پاتے رہے۔ میٹرک انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ میٹرک کے بعد یگانہ کچھ عرصہ نواب کا ظم علی خان رئیس سنگی دالان عظیم آباد کے پوتے نواب ابوالحسن کو پڑھاتے رہے اور پھر میرزا محمد مقیم بہادر(مٹیا برج) کلکتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی لہٰذا خرابی صحت کی وجہ سے واپس عظیم آباد آگئے۔ عظیم آباد میں بھی صحت مسلسل خراب رہی تو لکھنؤ چلے گئے۔ یہاں طبیعت بہتر ہوئی اور لکھنؤ میں مستقل طور پر رہنے لگے اور شادی بھی یہاں کی۔ ان کی زوجہ کا نام کنیز حسین تھا۔ یگانہ کے ہاں سات اولادیں ہوئیں۔

    جب یگانہ لکھنؤ آئے تھے تو وہاں ادبی محافل اور مشاعروں کا بڑا سلسلہ تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ وہ مرزا غالب جیسے مشہور شاعر مرزا غالب کی شاعری پر اعتراضات اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ تاہم اس سے یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن کی اہمیت کم نہیں‌ ہوتی۔ وہ اردو زبان کے ایسے شاعر ہیں جس نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں تجربات کیے اور اسے نیا راستہ دکھایا۔

    یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    یگانہ لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

    مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
    ہمیں سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

    ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

  • ایم اشرف: ناقابل فراموش موسیقار

    ایم اشرف: ناقابل فراموش موسیقار

    آج سدا بہار فلمی گیتوں کے لیے سریلی دھنیں تخلیق کرنے والے ایم اشرف کی برسی منائی جارہی ہے۔ ‘تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں….ساری عمر بتا دوں۔ یہ مقبول ترین گیت آپ نے بھی سنا ہو گا، اس کی موسیقی ایم اشرف ہی نے ترتیب دی تھی۔

    پاکستانی موسیقار ایم اشرف 4 فروری 2007ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی گیتوں کی موسیقی ترتیب دی جو آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    یکم فروری 1938ء کو پیدا ہونے والے ایم اشرف نے موسیقار اختر حسین سے فنِ موسیقی کی تربیت حاصل کی اور اپنی محنت اور لگن کے سبب فلم نگری تک پہنچے جہاں انھوں نے اپنے دور کے دیگر موسیقاروں کے درمیان اپنی جگہ بنائی۔ ایم اشرف مشہور موسیقار ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے تھے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک فن کار گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں شروع ہی سے ساز اور سُر کا شوق تھا اور اسی فنِ موسیقی کو اپنا کر فلم انڈسٹری میں‌ نام بنایا۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر ایم اشرف نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کرتے رہے۔ ایم اشرف نے اپنے کیریئر میں 400 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ ان کی بدولت متعدد گلوکار بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے جن میں ناہید اختر، نیرّہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ ایم اشرف 1960ء سے 70ء تک دو عشرے انڈسٹری میں مصروف رہے۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو کھلونا ٹوٹ جائے گا، جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے لازوال بنا دیا اور وہ بہت مقبول ہوئے۔ پاکستان کے اس باصلاحیت موسیقار کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ملکۂ ترنّم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سیّد، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے ان کی مرتب کردہ دھنوں میں گیت گائے۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ اپنے نام کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • نوبیل انعام یافتہ فلسفی اور ماہرِ‌تعلیم برٹرینڈ رسل

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی اور ماہرِ‌تعلیم برٹرینڈ رسل

    دنیا برٹرینڈ رسل کو ایک فلسفی، ماہرِ تعلیم اور مؤرخ کے طور پر جانتی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ برطانوی رسل کے کئی فکری مباحث اور اقوال بھی مشہور ہیں۔

    برٹرینڈ رسل 2 فروری 1970ء کو چل بسا تھا۔ برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کا فلسفۂ تعلیم بہت مشہور ہے۔ ایک بہترین معلّم اور ماہرِ تدریس کے طور پر رسل نے روایتی طریقہ ہائے تدریس اور رسمی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں میں اختراع اور ایجاد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیا۔ رسل نے تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے پر اصرار کیا اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح ننھّے اور ناپختہ ذہنوں کے تخیّل کو وسعت اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مذہب اور خدا کے وجود پر اپنے مباحث اور دلائل کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    برٹرینڈ رسل کو علم کا شیدائی کہتے ہیں جس کا اوّلین عشق ریاضی کا مضمون تھا۔ لیکن اس کی استعداد اور قابلیت صرف اسی مضمون تک محدود نہ رہی بلکہ عمر اور تعلیم کے مدارج طے کرتے ہوئے رسل دوسرے مضامین میں بھی طاق ہوا۔

    ذہین اور باصلاحیت برٹرینڈ رسل 18 مئی 1876ء کو انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں پیدا ہوا۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھا بلکہ اس کے والد کا نام سَر جان رسل تھا جو انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے۔ وہ کٹّر مذہبی گھرانے کا فرد تھا اور اس کا شمار برطانوی طبقۂ اشرافیہ میں ہوتا تھا۔ رسل کی ابتدائی تعلیم ویلز میں ہوئی۔ والدین کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں جس کے باعث وہ اپنے بیٹے کو بچپن میں وقت نہیں‌ دے پاتے تھے اور یوں رسل کا خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود اور سیکھنے سمجھنے میں گزرتا تھا۔ اسے شروع ہی سے غور و فکر کی عادت پڑ گئی تھی۔ رسل کی ذاتی زندگی میں کچھ تلخ یادیں اور مختلف مشکلات بھی شامل رہیں، مگر اس نے اپنی پڑھائی اور سیکھنے کے شوق کو اہمیت دی اور آگے بڑھتا چلا گیا۔

    1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کرنے کے بعد رسل نے اسی یونیورسٹی میں تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بعد کے برسوں میں‌ وہ دنیا بھر کی جامعات میں لیکچرز دینے اور اساتذہ کی تربیت کا کام انجام دیتا رہا۔ برٹرینڈ رسل نے نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بطور مدرّس اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

    برٹرینڈ رسل کی علمی و ادبی خدمات اور فلسفے کے میدان میں کارناموں کی بات کی جائے تو اس نے سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کیے جو بہت مفید اور معلوماتی ہیں۔ وہ ایک ایسا بیدار مغز استاد، ادیب اور فلسفی تھا جس نے ویتنام کی جنگ کے زمانے میں امریکا کو ظالم کہا اور حکومت کو مطعون کیا۔ رسل کو اسی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہنا پڑا۔

    1950ء میں اسے ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ برٹرینڈ رسل کی آپ بیتی 1967ء میں شائع ہوئی تھی اور اسے دنیا کی مقبول ترین آپ بیتیوں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ رسل ان دانش وروں میں شامل تھا جس نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی تھی اور اسے غاصب قرار دیا تھا۔

    برٹرینڈ رسل کا نظریہ تعلیم طالبِ علموں میں اختراعی اور ایجادی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتا ہے‌ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی صلاحیتوں‌ کو اجالنے کے ضمن میں برٹرینڈ رسل کے یہ آٹھ اقوال بہت مشہور ہیں جو طلبا ہی نہیں اساتذہ کی بھی راہ نمائی کرتے ہیں۔

    1- کسی چیز کے حوالے سے حتمی اور یقینی رویّہ مت اپنائیے۔

    2- کسی تجرباتی مرحلے پر ہرگز نہ کہیے کہ کوئی بہت اہم انکشاف ہوا ہے، کیوں‌ کہ اس کا ثبوت تجرباتی حقائق کی روشنی میں ازخود سامنے آجائے گا۔

    3- کام یابی کا یقین ہوجانے کے بعد بھی غور و فکر ترک نہ کیجیے اور اپنے تخیّل کی حوصلہ شکنی سے بچیے۔

    4- علمی اختلاف کی صورت میں‌ زور زبردستی کے بجائے دلیل سے کام لیجیے، کیوں کہ اصرار اور زور زبردستی سے کسی مباحثے میں جیت، غیر حقیقی اور فریب کے سوا کچھ نہیں‌ ہوتی۔

    5- کسی کی رائے کو طاقت سے کچلنے کی کوشش نہ کریں ورنہ خود آپ کی رائے اور بیان کو دبا دیا جائے گا۔ اگر آپ اپنی رائے کا احترام کروانا چاہتے ہیں تو دوسروں کی آرا کو عزت و احترام دیں، تبھی آپ کی بات سنی جائے گی۔

    6- اپنی رائے کے منفرد اور خارج از بحث ہونے سے مت گھبرائیں‌، کیوں کہ آج جس فک اور رائے کو قبول کر لیا گیا ہے، کبھی اسے بھی خارج از امکان تصوّر کیا گیا تھا۔

    7- اپنی ذہانت کا ادراک کرنے کے جتن کیے بغیر لطف اندوز ہونا سیکھیے، کیوں کہ جب ذہانت کو عقل کے پیمانوں کی مدد سے جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ مدھم پڑجاتی ہے۔

    8- محتاط انداز سے ہمیشہ صداقت کا ساتھ دیجیے۔ اس لیے کہ اگر سچ پریشان کُن بھی ہو تو یہ اس سے کم ہوگا، جسے آپ منکشف کرنا چاہتے ہیں۔

    برٹرینڈ رسل زندگی بھر تحریر اور تقریر میں‌ مصروف رہا۔ ایک ادیب اور کہانی کار کے طور پر رسل کا بہت کم ہی ذکر ہوتا ہے، لیکن اس کے افسانوں پر مشتمل دو کتابیں‌ بھی شایع ہوئی تھیں۔

  • محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    آج اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کی برسی ہے۔ محمد خالد اختر ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ساری زندگی شہرت اور ستائش سے بے نیاز اور اپنے کام میں مگن رہے۔ بطور مزاح نگار انھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور ان کے اسلوبِ نگارش نے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات کو بھی متاثر کیا۔

    محمد خالد اختر نے افسانہ اور ناول لکھنے کے ساتھ سفرنامے بھی تحریر کیے اور تراجم بھی کیے۔ چاکیواڑہ میں وصال ان کا ایک مشہور ناول ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب کا انتقال 2 فروری 2002ء کو کراچی میں ہوا۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    مشہور انشاء پرداز اور ممتاز عربی داں محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔“

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ان کے ہر قاری کو متأثر کیا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور نثر نگار فیض احمد فیض نے اسے اردو کا اہم ناول کہا تھا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اس ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔

    23 جنوری 1920ء کو محمد خالد اختر نے پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی اور بعد میں صادق ایجرٹن کالج میں داخل ہوئے جہاں سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں محمد خالد اختر پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوگئے اور اسی کالج میں انھیں احمد ندیم قاسمی کا قرب بھی نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء میں محمد خالد اختر انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید تعلیم کے حصول کی خاطر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1948ء میں وطن واپس آئے اور یہاں ان کی ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے ہوا۔ وہ 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور چند نظمیں بھی کہیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    اردو کے اس نام ور ادب کی مزاح پر مبنی پہلی تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے افسانہ و ناول، سفرناموں کے علاوہ کئی علمی و ادبی مضامین اور شخصی بھی رقم ہوئے اور انھیں پسند کیا گیا۔ محمد خالد اختر کا ناول بیس سو گیارہ کے عنوان سے 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا تھا۔ پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں اور بعد میں افسانے کی کتاب کھویا ہوا افق شایع ہوئی جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن نے ان کی شگفتہ کہانیوں کے سلسلے ’چچا عبدالباقی‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی۔ محمد خالد اختر نے اندلس کے معروف سیاح ابنِ جُبیر کے سفرنامہ کی تلخیص اور ترجمہ بھی کیا جو 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے محمد خالد اختر سے متعلق ایک یادگار محفل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔