Tag: فروری وفات

  • بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری: سونے چاندی کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھنے والا فن کار

    بپّی لہری ‘ڈسکو کنگ’ کے نام سے مشہور تھے۔ بطور گلوکار اور موسیقار بپّی لہری نے بولی وڈ میں اسّی اور نوے کے عشرے میں ڈسکو میوزک کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔

    گلوکار اور موسیقار بپّی لہری اپنے مداحوں میں ڈسکو گیتوں کے علاوہ اپنے ‘ڈسکو حلیے’ کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ زرق برق لباس، سونے کے زیورات اور آنکھوں پر خوب صورت چشمہ بپّی لہری کی پہچان تھا۔ 15 فروری 2022ء کو بپّی لہری چل بسے تھے۔ اپنی موت سے ایک روز قبل ہی تقریباً ایک ماہ اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہو کر گھر آئے تھے، لیکن اچانک طبعیت بگڑ گئی اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ بپّی لہری کورونا سے بھی متاثر ہوئے تھے۔

    بولی وڈ کی فلم ‘نمک حلال’،’ڈسکو ڈانسر’ اور ڈانس ڈانس میں بپّی لہری کے ڈسکو گانے بہت مقبول ہوئے تھے۔ بطور موسیقار انھوں نے 700 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی دی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں‌ مقبول ہوئے۔

    بپّی لہری کا تعلق مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی سے تھا جہاں انھوں نے 1952ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام آلوکیش لہری تھا۔ گانا بجانا اور موسیقی ان کا ورثہ تھی۔ ان کے والد اپریش لہری اور والدہ بنساری لہری بنگلہ زبان کے گلوکار اور موسیقار تھے۔ بپّی لہری کے مطابق ان کا موسیقی سے تعلق صرف تین برس کی عمر میں قائم ہوگیا تھا۔ اس عمر میں وہ طبلہ بجانے لگے۔ گھر میں راگ راگنیوں کی باتیں ہوتیں اور ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا۔ اس ماحول میں بپّی لہری پروان چڑھے۔

    فلمی صنعت کے لیے انھوں نے اپنا نام بپّی لہری منتخب کیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ اپنے فلمی کیریئر میں بپّی لہری نے زیادہ تر پارٹی ڈانس کی موسیقی ترتیب دی۔ بولی وڈ میں بپّی لہری نے بطور موسیقار اپنا سفر 1973 میں شروع کیا تھا۔ ’ننھا شکاری‘ کے سارے گیت انہی کی موسیقی سے سجے تھے۔ بپّی لہری کو فلم ’شرابی‘ کے لیے سنہ 1985 میں بہترین میوزک ڈائریکٹر کا انعام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک سال کے دوران وہ سب سے زیادہ گیت ریکارڈ کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے موسیقار بنے اور سنہ 2018 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے گئے۔ بولی وڈ کے اس مشہور گلوکار اور موسیقار نے سنہ 2020 میں فلم ’باغی 3‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی اور یہی اُن کی آخری فلم ثابت ہوئی۔

    بپّی لہری نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ وہ سنہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر کام یاب نہ ہوسکے۔ وہ اس سے قبل سنہ 2004 میں کانگریس کے انتخابی مہم میں بھی حصّہ لے چکے تھے۔

    بھارت کے اس معروف گلوکار اور موسیقار نے اپنے مخصوص حلیے اور زیبائش کے بارے میں‌ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ امریکی راک اسٹار ‘ایلوس پریسلے’ کے بہت بڑے مداح تھے اور اسے پرفارمنس کے دوران سونے کی چین پہنے دیکھتے تھے تو یہیں سے شوق ہوا اور اپنا ایک الگ امیج بنانے کی خواہش کرتے ہوئے سونے کے زیورات اور کڑے وغیرہ پہننا شروع کیے۔ انھیں اکثر بھارتی اخبار اور دوسرے ذرایع ابلاغ میں ‘گولڈن مین’ بھی کہا اور لکھا جاتا تھا۔

    بپّی لہری کے لیے سونا اور چاندی خوش قسمتی کی علامت تھے۔ لوک سبھا کے الیکشن میں امیدوار بننے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثوں بشمول سونے اور چاندی کی تفصیلات بتائی تھیں۔ ان کے پاس اس وقت کُل 752 گرام سونا اور 4.62 کلو چاندی تھی۔

    بولی وڈ کے عظیم گلوکار اور اداکار کشور کمار آنجہانی بپّی لہری کے ماموں تھے۔ بپّی لہری کشور کمار کو ’ماما جی‘ کہتے تھے۔

    گریمی ایوارڈ حاصل کرنا بپّی لہری کی وہ خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی، لیکن وہ اس ایوارڈ کی جیوری کے رکن ضرور بنائے گئے۔

  • محمد خالد اختر: جداگانہ اسلوب کے حامل مزاح نگار

    محمد خالد اختر: جداگانہ اسلوب کے حامل مزاح نگار

    شہرت اور ستائش سے بے نیاز محمد خالد اختر ایک ایسے ادیب اور مزاح نگار تھے جن کی تخلیقات اور اسلوب نے باذوق قارئین ہی کو متوجہ نہیں کیا بلکہ مشاہیرِ ادب اور ہم عصر اہلِ قلم کو بھی ان کا مداح بنا دیا۔ آج خالد اختر کی برسی ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب نے 2 فروری 2002ء کو کراچی میں وفات پائی۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر اور ادیب ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    ممتاز ادیب و انشاء پرداز محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ہر طبقۂ قاری کو متأثر کیا اور یہ ناول ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور ادیب فیض احمد فیض نے محمد خالد اختر کے اس ناول کو اردو کا اہم ناول قرار دیا تھا اور اس پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

    محمد خالد اختر 23 جنوری 1920ء کو پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم وہیں اسکول سے حاصل کی جب کہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوئے جب کہ کالج میں احمد ندیم قاسمی کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے لندن گئے 1948ء میں وطن لوٹے۔ ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے کیا اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور پندرہ بیس نظمیں بھی کہہ لیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    محمد خالد اختر کی پہلی مزاحیہ تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے مضامین، خاکے، افسانے، ناول اور سفرنامے نکلتے رہے جن میں بیس سو گیارہ وہ ناول تھا جو 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا اور پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں جب کہ کھویا ہوا افق ان کے افسانے کی کتاب تھی۔ کہانیوں کو انھوں نے چچا عبدالباقی کے عنوان سے کتاب میں یکجا کیا تھا۔ محمد خالد اختر کا ابنِ جُبیر کا سفر 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے اپنے زمانے کی یادگار محافل کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    شہناز، نرگس اور نوتن کے بعد قسمت کی دیوی مدھو بالا پر مہربان ہوئی اور انھوں نے فلم مغلِ‌ اعظم میں انار کلی کا کردار نبھا کر اسے لازوال بنا دیا۔‌

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں اس اداکارہ کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے ‘وینس آف انڈین سینیما’ بھی کہا جاتا ہے۔ آج مدھو بالا کی برسی ہے جن کا اصل نام ممتاز تھا۔

    وہ ممتاز کے نام سے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔یہ 1942ء کی بات ہے۔ اس زمانے کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی نے ان کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں اپنا نام مدھو بالا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

    یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم میں جن دنوں اداکارہ اپنا مشہورِ زمانہ کردار نبھا رہی تھیں، بے حد بیمار تھیں، لیکن وہ برصغیر کے نام وَر فلم ساز، کے آصف کی توقعات پر پوار اتریں۔ کہتے ہیں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے لیے میں انار کلی کے کردار کے لیے فلم ساز کو جیسا حسن اور روپ، بانکپن، غرور اور دل کش لب و لہجہ چاہیے تھا، وہ سب مدھو بالا میں تھا۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جن کا چہرہ آنکھوں میں بَس جاتا اور وہ دل میں اتر جاتیں۔ روپ کی اس رانی نے شہرت اور نام و مقام تو بہت بنایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ انھیں زندگی کی صرف 36 بہاریں نصیب ہوئیں جس میں نو برس ایسے تھے جب وہ اپنے گھر میں اپنی بیماری سے لڑتے ہوئے تنہا وقت گزار رہی تھیں۔ 1969ء میں‌ آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    مدھو بالا 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے بعد ڈاکٹروں نے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے دل میں سوراخ ہے جس میں انھیں آرام کی ضرورت ہوگی، لیکن کم عمری ہی میں وہ فلم نگری میں‌ چلی آئیں جہاں مسلسل کام اور شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔

    خوب صورت اور خوش ادا ممتاز کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انھیں 9 سال کی عمر میں اپنے 11 بہن بھائیوں اور والدین کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے والد لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے اور وہاں سے بمبئی اس امید کے ساتھ پہنچے کہ ان کی خوب صورت بیٹی کو فلموں میں کام ضرور ملے گا اور وہ اس کی کمائی ان کی زندگی بدل دے گی۔ ہُوا تو یہی، مگر اس بھاگ دوڑ میں خود ان کی زندگی کے دن گھٹ گئے۔

    بولی وڈ کی اس اداکارہ اور دلیپ کمار کے درمیان رومانس کی خبر بھی اس زمانے میں خوب گرم رہی، اور بعد میں ان کے مابین دوریوں کا چرچا بھی ہوا، لیکن 1960ء میں وہ مشہور گلوکار کشور کمار کی دلہن بن گئیں۔ کشور کمار کو مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن وہاں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ اس دنیا میں چند سال کی مہمان ہیں۔ کشور کمار انھیں میکے میں چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہوگئے اور دو تین ماہ میں ایک بار ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور بے مثال کام کے علاوہ کمال امروہوی عاشق مزاج اور حُسن پرست بھی مشہور تھے۔

    انیس امروہوی نے اداکارہ مدھو بالا اور کمال امروہوی کے درمیان ملاقات سے متعلق ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے، ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔

    جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوب صورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں میں وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔

    مدھو بالا کی مشہور فلموں میں محل، دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔ مدھو بالا نے صرف 66 فلموں میں کردار نبھائے تھے۔

    آج بہت سے فلم اسٹارز اپنے ساتھ باڈی گارڈ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بولی وڈ میں یہ سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ اداکارہ کو ممبئی کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

  • شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شبیر حسن خاں کو جہانِ ادب میں جوشؔ ملیح آبادی کے نام سے شہرت حاصل ہے جن کے پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر، دادا شعر و ادب کے شائق جب کہ والد بھی سخن وَر تھے۔ ان کی دادی مرزا غالب کے خاندان سے تھیں اور جوش کے خاندان کی خواتین بھی نہایت باذوق اور عروض بھی جانتی تھیں۔ اس ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں بھی شاعر ہوئے اور خوب نام پیدا کیا۔

    جوش نے کہا تھا،
    شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
    یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

    ہندوستان کے ملیح آباد میں 1898 کوپیدا ہونے والے جوشؔ کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ لیکن انھوں نے نظم ہی نہیں نثر دونوں میں بھی کمال حاصل کیا۔ اردو ادب میں انھیں قادرُالکلام شاعر اور باکمال نثر نگارکہا جاتا ہے۔ 22 فروری 1982 جوش کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق تعلیم یافتہ اور علم و ادب کے رسیا گھرانے سے تھا، اسی لیے ابتدائی عمر ہی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ جوش نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ اس دوران فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس نے انھیں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج کی کج روی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    پاکستان میں اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کا تو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے متنازع اور ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

    یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی ۔ دیگر نثری کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

    جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
    چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

    نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
    ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
    اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
    اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

  • یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    یومِ‌ وفات: معراج رسول ڈائجسٹ کی دنیا میں مقبولیت اور کام یابی کی معراج کو پہنچے

    اردو میں سرّی ادب یا جاسوسی کہانیوں کو ناقدوں نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا اور اردو ادب میں پاپولر ادب بمقابلہ ادبِ عالیہ کی بحث آج بھی جاری ہے، لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جاسوسی ادب میں‌ قارئین کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے جب ڈائجسٹوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو جاسوسی کہانیوں کے قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔

    آج دنیائے ڈائجسٹ کی ایک معروف ہستی معراج رسول کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھوں نے 2019ء میں وفات پائی۔ معراج رسول طویل عرصے سے علیل تھے۔

    یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس زمانے میں ڈائجسٹ کے لیے تخلیق کردہ جاسوسی ادب کو مقبولیت کی معراج نصیب ہوئی، جس میں‌ معراج رسول کا سرگزشت، سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ صفِ اوّل کے ماہ نامے تھے جو سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئے۔ معراج رسول ان کے بانی اور مدیر تھے۔ سسپنس کا پہلا شمارہ 1972 میں بازار میں‌ آیا تھا جب کہ جاسوسی ڈائجسٹ کا سلسلہ 1971 میں شروع ہوا تھا۔

    ان ڈائجسٹوں میں غیر ملکی ادیبوں کی پُراسرار، آسیبی اور مہم جوئی کے واقعات پر مبنی کہانیوں کے اردو تراجم شایع کیے جاتے تھے جنھیں قارئین کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اردو اہلِ قلم اور طبّاع کہانی نویس بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور سرّی ادب میں نام بنایا۔

    5 اگست 1942ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والے معراج رسول کے والد شیخ عبدالغفّار تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ انھوں نے بی کام کیا اور چند سال بعد اپنے اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی، معراج رسول نے خود بھی لکھاری تھے اور چند ناول بھی تخلیق کیے، ان کا ادارہ اپنے مستقل قلم کاروں کو بہت مناسب مشاہرہ دیا کرتا تھا۔ معراج رسول کو ڈائجسٹ نکالنے کی تحریک اپنے والد سے ملی جو اپنے دور کے ایک کام یاب رسالے ’سراغ رساں‘ کے روح رواں تھے۔ معراج رسول نے اپنے ادارے کے تحت شایع ہونے والے ڈائجسٹوں میں سلسلے وار کہانیوں سے لاکھوں قارئین کو عرصے تک جوڑے رکھا اور کہتے ہیں کہ ان ڈائجسٹوں کے قارئین 20 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے تھے۔ مرحوم نے دو شادیاں کی‌ تھیں۔ معراج رسول کراچی میں ڈیفنس کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    معراج رسول نے اپنے سسپنس ڈائجسٹ میں ’دیوتا‘ کے عنوان سے 33 سال تک ہر ماہ بلاناغہ کہانی شایع کی جس کے مصنّف محی الدّین نواب تھے۔ یہ اردو ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔

  • یومِ وفات:‌ "خامہ بگوش کے قلم سے” مشفق خواجہ کی پہچان بنا

    یومِ وفات:‌ "خامہ بگوش کے قلم سے” مشفق خواجہ کی پہچان بنا

    مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    آج مشفق خواجہ کا یومِ وفات ہے۔ اردو ادب میں‌ انھیں شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ مشفق خواجہ کی وجہِ شہرت ان کا کالم بہ عنوان خامہ بگوش بنا اور انھوں نے طنز و مزاح نگاری اور فکاہیہ نویسی میں اپنے قلمی نام سے اپنے قارئین کی تعداد میں خوب اضافہ کیا۔ مشفق خواجہ نے ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ مختلف اخبارات کے لیے اپنے کالموں میں اجاگر کیا۔ تاہم ان کے کالموں کو ادبی کالم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق بھی کھل کر لکھا ہے۔ ان کالموں میں مشفق خواجہ نے غیر معیاری ادب اور شہرت و جاہ یا سرکاری اعزازات اور انعامات کے لیے داؤ پیچ چلانے والے اہلِ قلم اور نام نہاد تخلیق کاروں کی خوب کھنچائی کی اور ایسے غیر ادبی میلانات، رجحانات اور تحریکوں کو نشانہ بنایا ہے جن کو فروغ دینے سے مخصوص ادبی ٹولے کا مفاد جڑا ہوتا تھا۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا جو ادب کی دنیا میں‌ مشفق خواجہ کے نام سے پہچانے گئے۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب میں مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کا شغل اختیار کرکے نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں‌ مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔

    کراچی میں 21 فروری 2005ء کو وفات پانے والے مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • خاندانِ غلاماں کا عبادت گزار اور انصاف پسند سلطان، ناصر الدّین محمود

    خاندانِ غلاماں کا عبادت گزار اور انصاف پسند سلطان، ناصر الدّین محمود

    خاندانِ غلاماں کے ناصر الدّین محمود کو تاریخ میں دین دار اور رحم دل سلطان لکھا گیا ہے۔ وہ سلطنتِ دہلی کے آٹھویں حکم راں تھے۔

    خاندانِ غلاماں 1206ء سے 1290ء تک ہندوستان میں‌ حکم راں رہا۔ اس خاندان کا بانی قطب الدّین ایبک تھا جو شہاب الدین غوری کی فوج کا ایک جرنیل تھا جسے ہندوستان کے مختلف علاقوں‌ میں منتظم مقرر کیا گیا تھا اور بعد میں‌ اس نے ہندوستان میں سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس قطب الدّین کی وفات کے بعد التمش نے دہلی میں اقتدار سنبھالا جو اس کا داماد تھا۔ ناصر الدّین محمود اسی التمش کے چھوٹے بیٹے تھے جو علاؤ الدّین مسعود کی جگہ تخت پر بیٹھے۔

    سلطان ناصر الدّین کی پیدائش کا سنہ 1229ء بتایا جاتا ہے جب ان کے والد سلطنت کے حکم راں تھے۔ التمش بھی علم پرور اور نیک سیرت مشہور تھے اور ان کے بیٹے نے بھی عبادت گزار اور نیک خصلت حکم راں‌ کے طور پر شہرت حاصل کی۔

    سلطان ناصر الدّین اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ 18 فروری 1266ء کو ان کی وفات کے بعد ان کی افواج کے سپہ سالار غیاث الدّین بلبن نے ان کا تخت سنبھالا تھا۔ یہ وہی غیاث الدّین بلبن تھا جس نے سپہ سالار کی حیثیت سے سلطنت کو منگولوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کئی تاریخی کارنامے انجام دیے تھے اور سلطان ناصر الدّین کے بہت قریب تھا۔

    سلطان ناصر الدّین 16 سال کی عمر میں بہرائچ کے حاکم مقرر کیے گئے اور انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر کام یابی سے معاملات کو سنبھالا۔ مشہور ہے کہ وہ رعایا پر مہربان رہے اور عدل و انصاف کے ساتھ حکم رانی کی۔ تاہم اس دوران مرکزی حکومت کے کم زور پڑنے کی وجہ سے انھیں‌ دہلی طلب کر لیا گیا۔ تخت سنبھالنے کے بعد انھوں نے جو فیصلے کیے ان کی بدولت سلطنت مضبوط ہوئی۔

    سلطان ناصر الدّین صلح جُو اور امن پسند تھے، لیکن انھوں‌ نے متعدد لڑائیوں میں بھی حصّہ لیا اور خاص طور پر منگولوں کے وحشیانہ حملوں سے اپنے علاقوں کو بچانے کے لیے عسکری فیصلے اور تدابیر کرتے رہے۔

    وفات کے بعد انھیں دہلی کے علاقے ملک پور میں‌ سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • ممتاز شاعر شبنم رومانی کا تذکرہ

    ممتاز شاعر شبنم رومانی کا تذکرہ

    آج اردو کے ممتاز شاعر شبنم رومانی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2009ء میں وفات پاگئے تھے۔

    شبنم رومانی نے 30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی تھا۔ شبنم ان کا تخلّص تھا۔ بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ یہاں ملازمت کے ساتھ شاعری اور ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور جلد ہی کالم نگار کے طور پر بھی قارئین کی توجہ حاصل کر لی۔ شبنم رومانی کئی ادبی اور اشاعتی اداروں کے بانی اور مشیر رہنے کے علاوہ "ارباب قلم فاؤنڈیشن” اور "مجنوں اکیڈمی” کے اعزازی سیکریٹری اور "افکار فاؤنڈیشن” کے ٹرسٹی بھی رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی "اقدار” بھی شائع ہوتا رہا۔

    ہائیڈ پارک کے عنوان سے ان کے ادبی کالم طویل عرصے تک روزنامہ مشرق میں شایع ہوتے رہے جو بعد میں‌ کتابی شکل میں‌ یکجا کیے گئے۔ شبنم رومانی کے شعری مجموعے مثنوی سیرِ کراچی، جزیرہ، حرفِ نسبت، تہمت اور دوسرا ہمالا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ شبنم رومانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    میرے پیار کا قصّہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند
    تُو کس دھن میں غلطاں پیچاں کس نشے میں چُور ہے چاند

    تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا
    تُو صدیوں سے اہلِ زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

    اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہِ کامل کہتے ہیں!
    تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند

    تیرے رُخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں
    تیری منزل پاس آ پہنچی میری منزل دور ہے چاند

    کوئی نہیں ہم رازِ تمنّا کوئی نہیں دم سازِ سفر
    راہِ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

    تیری تابش سے روشن ہیں گُل بھی اور ویرانے بھی
    کیا تُو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند

  • آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے

    آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے

    یہ اُس آتش بیان کا تذکرہ ہے جو دنیا کو بازیچۂ اطفال خیال کرتا تھا۔ اسے اپنا فارسی کلام بہت پسند تھا، لیکن جو مقبولیت اور شہرتِ دوام اسے حاصل ہوئی، وہ اردو شاعری کی بدولت ہوئی۔ اسے برصغیر کا عظیم شاعر تسلیم کیا گیا۔ آج ہر خاص و عام اسے مرزا غالب کے نام سے جانتا ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان کا وطن آگرہ تھا، وہی آگرہ جو ایک اعجوبہ و نادرِ زمانہ عمارت تاج محل کے لیے بھی دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے۔ دلّی میں پرورش پائی۔ کم سنی ہی میں شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا۔ غالب کا ابتدائی کلام فارسی زبان و تراکیب اور ان کی مشکل پسندی کی وجہ سے تنقید کی زد میں آیا مگر غالب نے اپنے اس اندازِ بیان کو نہ چھوڑا۔

    ناقدین کے مطابق انھوں‌ نے مسلسل تنقید کے بعد اپنے کلام کو کچھ تبدیلی کے ساتھ ضرور پیش کیا، لیکن ان کی مخالفت کم نہ ہوسکی۔ غالب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:

    نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
    گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

    ادھر دلّی کے حالات ابتر اور خود غالب کی زندگی کی مشکلات بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ معاش کی فکر اور تنگ دستی سے پریشان تھے۔ تبھی غالب کی شاعری میں ایک جدّت بھی پیدا ہوئی۔ مگر ان کی شاعری کا رنگ نرالا ہی رہا۔ غالب نے اپنی شاعری میں روایتی موضوعات کو بھی نہایت پُرلطف اور الگ ہی ڈھب سے باندھا اور ایسے مقبول ہوئے کہ آج تک ان کا سحر برقرار ہے۔ مرزا غالب نے سنجیدہ اور گہرے مضامین کو نہایت بے تکلفی سے اپنے اشعار میں‌ باندھا ہے اور یہی ان کی وجہِ انفرادیت ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    غالب کے اشعار کی خوبی یہ ہے کہ ہر بار قاری ایک نئے معنٰی اور نئے مفہوم سے آشنا ہوتا ہے۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کا زمانہ وہ تھا جب مغل حکومت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ہندوستان میں ابتری اور انتشار تھا۔ عہدِ طفلی میں غالب اپنے والد سے محروم ہوگئے اور بھائی بھی نہ رہے۔ پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔ کم عمری میں‌ ان کی شادی نواب الٰہی بخش کی بیٹی سے ہوگئی تھی۔ شادی ہوئی تو خدا نے متعدد بار اولاد دی جو بچپن میں ہی مٹی کا رزق بن گئی۔ اس پر غالب کی شراب نوشی اور مالی خستگی نے بڑا غضب ڈھایا۔

    غالب غزل گو شاعر، قصیدہ نگار اور اچھے نثر نگار تھے۔ خطوط نویسی میں ان کا جواب نہیں۔ انھوں‌ نے خط کو مکالمہ بنا دیا تھا۔ ان کے دواوین 1841ء، 1847ء، 1861ء، 1862ء اور 1863ء میں شائع ہوئے۔ مشکل پسندی کا زمانہ ختم ہوا تو غالب نے سلاست، روانی اور نہایت خوب صورتی سے اپنے خیالات کو غزل میں پیش کرکے اس وقت کے شعرا میں‌ نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے کلام میں‌ فلسفیانہ انداز، عشق اور تصوف کے موضوعات کا نہایت لطیف اظہار ملتا ہے۔

    فارسی کی تراکیب اور مشکل الفاظ کے استعمال کو چھوڑ کر جب غالب نے اردو شاعری پر توجہ دی تو ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت عروج پر تھی جس نے انھیں‌ مقبولیت دی۔

    انھیں مغل دربار تک رسائی حاصل ہوئی تو وہ نجم الدّولہ، دبیرُ الملک، مرزا نوشہ اور نظام جنگ جیسے خطاب اور القاب سے نوازے گئے۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کا راز صرف ان کے کلام میں حسن اور بیان کی خوبی ہی نہیں بلکہ انھوں نے زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو نہایت خوب صورتی سے اپنے اشعار میں‌ سمویا اور اسی لیے ممتاز ہوئے۔ غدر کے بعد والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔

    غالب بحیثیت نثار بھی اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں اور خاص طور پر ان کے خطوط کا شہرہ ہوتا ہے جس میں انھوں نے نثر کو ایک نیا آہنگ اور اسلوب دیا۔ اس زمانے میں خطوط نگاری پُرتکلف القاب و آداب، مقفع اور مسجع زبان میں کی جاتی تھی، لیکن مرزا غالب نے اپنے دوستوں اور مختلف شخصیات کو لکھے گئے خطوط میں سادہ اور عام زبان کے ساتھ دل چسپ انداز اختیار کیا اور گویا ’’مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔‘‘

    مرزا غالب سے کئی لطائف اور تذکرے منسوب ہیں لیکن ہم یہاں وہ واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے غالب کی دردمندی اور انسان دوستی عیاں ہوتی ہے۔

    "غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔

    خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

    "تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔

    سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

    جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”

    دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔

    چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔

    دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

    شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

    "مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔” واضح ہو کہ یہ واقعہ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔

    اپنے ایک خط میں‌‌ غالب نے اپنی مکان سے متعلق پریشانی کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگرد منشی ہر گوپال المعروف مرزا تفتہ سے منسوب ہے۔ انھیں لکھے گئے غالب کے ایک ایسے ہی خط سے چند سطور ہم یہاں نقل کررہے ہیں‌۔ اس میں اسد اللہ خان غالب نے اپنے مستقر کی تبدیلی سے متعلق مرزا تفتہ کو اپنی تکلیف اور پریشانی سے آگاہ کیا تھا۔ لکھتے ہیں،

    "مالک نے مکان بیچ ڈالا۔ جس نے لیا ہے اس نے مجھ سے پیام بلکہ ابرام کیا کہ مکان خالی کر دو۔ مکان کہیں ملے تو میں اوٹھوں (اٹھوں) بیدرد نے مجھ کو عاجز کیا اور مدد لگا دی۔ وہ صحن بالا خانے کا جس کا دو گز کا عرض اور دس گز کا طول، اس میں پاڑ بندھ گئی۔ رات کو وہیں سویا۔

    گرمی کی شدت پاڑ کا قرب، گمان یہ گزرتا تھا کہ یہ کٹکڑ ہے اور صبح کو مجھ کو پھانسی ملے گی۔ تین راتیں اسی طرح گزریں۔ دو شنبہ 9 جولائی کو دوپہر کے وقت ایک مکان ہاتہ (ہاتھ) آ گیا، وہاں جا رہا، جان بچ گئی۔ یہ مکان بہ نسبت اس مکان کے بہشت ہے اور یہ خوبی کہ محلّہ وہی بلی ماروں کا۔

    اگرچہ ہے یوں کہ میں اگر اور محلّہ میں‌ بھی جا رہتا تو قاصدانِ ڈاک وہاں پہنچتے، یعنی اب اکثر خطوط لال کنویں کے پتے سے آتے ہیں اور بے تکلف یہیں پہنچتے ہیں۔ بہرحال تم وہی دلّی بلی ماروں کا محلّہ لکھ کر خط بھیجا کرو۔

    دو مسودے تمہارے اور ایک مسودہ بے صبر کا یہ تین کاغذ درپیش ہیں۔ دو ایک دن میں بعد اصلاح ارسال کیے جائیں گے۔ خاطر عاطر جمع رہے۔

    صبح جمعہ
    28 جولائی 1860ء

    حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے بھی اس عظیم شاعر کی شخصیت اور اپنے احباب کے لیے ان کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں‌ لکھا ہے:

    غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

    غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

    چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

    غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

    پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

    دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

    غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

    اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔

    15 فروری 1869ء کو مرزا غالب ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے، مگر ان کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

  • تحریکِ آزادی کے قابل اور مخلص راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے قابل اور مخلص راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا تذکرہ

    قیامِ پاکستان کے بعد سردار عبدالرّب نشتر پاکستان کی پہلی کابینہ کا حصّہ رہے اور پنجاب کے گورنر بنائے گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرّب نشتر نے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے راج کے خلاف تحریکوں اور سیاسی ہنگامہ خیزی کے جس دور میں خود کو میدانِ عمل میں اتارا تھا، اس میں‌ جلد ان پر واضح ہو گیا کہ ہندو، ملک کے طول و عرض میں موجود مسلمانوں کے ساتھ تعصّب ختم نہیں کرسکتے اور انگریزوں کو نکال کر یہاں اپنا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تب انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ اپنی فہم و فراست، سیاسی سوجھ بوجھ کے لیے مشہور تھے اور جلد ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے پلیٹ فارم سے بھی خود کو منوا لیا اور اپنی دیانت داری اور اخلاص کے باعث ان کا شمار قائدِ اعظم کے قابلِ اعتماد رفقا میں ہونے لگا۔

    اس سیاسی جماعت کی صف میں وہ ایسے نمایاں ہوئے کہ قائدِ اعظم کے ساتھ اہم جلسوں اور سیاسی قائدین سے ملاقاتوں میں شریک ہونے لگے۔

    کہتے ہیں‌ شخصیت کردار سے بنتی ہے اور سردار عبدالرّب نشتر نے قائدِ اعظم اور دیگر لیگی قائدین کو اپنے قول و فعل، راست گوئی اور کردار کی مضبوطی سے اپنا گرویدہ بنا لیا اور تاریخ میں مسلمانوں کے ایک مخلص اور اہم لیڈر کے طور پر ان کا نام رقم ہوا۔

    سردار عبدالرّب نشتر ایک مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما اور ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے 13 جون 1899ء کو پشاور کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور دین کی تربیت کے ساتھ انھیں جدید تعلیم سے روشناس کروایا گیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس لیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ تب انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کر دی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوانِ شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے دوران انھوں‌ نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کی مشہور و مقبول تحریکِ خلافت سے وابستہ ہوئے اور عملی سفر کا آغاز کیا، اسی زمانے میں انھیں مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرّب نشتر بھی شامل تھے۔

    انھیں غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات کے منصب پر بھی فائز رہنے کا موقع ملا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی وزارت کے لیے منتخب کیے گئے۔

    14 فروری 1958ء کو سردار عبدالرّب نشتر کراچی میں وفات پاگئے تھے۔