Tag: فروری وفات

  • سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ کو اس کی منفرد شاعری نے دنیا بھر میں پہچان دی۔ اس نے کہانیاں اور ایک ناول بھی تخلیق کیا۔ محض 31 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوجانے والی سلویا پلاتھ کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خود کُشی کرلی تھی۔

    یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‌ تھی کہ سلویا پلاتھ ایک عرصے تک شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ وہ تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکی تھی۔ اس نے ماہرِ نفسیات سے اپنا علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات حاصل نہیں کرسکی اور ایک روز اس کی موت کی خبر آئی۔

    اس منفرد شاعرہ اور باکمال کہانی نویس نے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ 27 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ وہ 18 سال کی تھی جب ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ اس نے ایک ناول دی بیل جار کے نام بھی لکھا اور شاعری کے علاوہ یہ بھی اس کی ایک وجہِ شہرت ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے چند ابواب دراصل سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا۔ سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں بعد اس کی دیگر نظموں‌ کو کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا تھا۔ اس شاعرہ کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ سلویا پلاتھ کو اس کی شاعری پر پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔

    شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی کی تھی اور اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، لیکن ان کی یہ رفاقت تلخیوں کا شکار ہوگئی اور ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا، اس کے بعد حساس طبع سلویا پلاتھ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئی اور خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ وہ 11 فروری 1963ء کو اپنے گھر میں‌ مردہ پائی گئی تھی۔

  • مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری میں مہارتِ تامّہ اور اسلامی خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب کے ساتھ صادقین شہرۂ آفاق فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی تخلیقات اور فن پاروں کو پرت در پرت سمجھنے کی کوشش میں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔

    آج اس عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک اور بعد میں‌ انٹر کا امتحان بھی امروہہ سے پاس کیا۔ 1948ء میں‌ آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    انھوں نے 1944 سے 46ء تک آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ اس وقت تک صادقین اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں ایک مصوّر اور شاعر کے طور پر متعارف ہوچکے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں‌ قیام کے بعد انھیں‌ نئے سرے سے زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہاں بھی جلد ہی وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے حوالے سے پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں پر نقش و نگار بناتے اور اس پر ڈانٹ اور مار بھی کھائی، لیکن اپنے شوق کی دیواروں پر مشق کا یہ سلسلہ رائیگاں نہ گیا اور بعد کے برسوں میں‌ یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    پاکستان آنے کے بعد ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایئر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    صادقین نے مصوّری اور خطاّطی دونوں‌ اصناف میں اپنے فن و کمال کے اظہار کی بالکل نئی راہ نکالی کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع کیا اور ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی۔ ان کا کام دنیا بھر میں فائن آرٹس کے ناقدین کی نظر میں‌ آیا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ وہ پیرس بھی گئے جہاں اپنے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ یہ کسی مصّور کی پہلی اور نہایت خوب صورت کاوش تھی جس نے سبھی کی توجہ حاصل کی۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصوّرانہ خطّاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی۔ ان کی مصوّری اور خطّاطی کے نمونے آج بھی بڑی گیلریوں کا حصّہ ہیں۔ 1986ء میں انھوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن اجل نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی مہلت نہ دی۔

    وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن تھی۔ ان کی کئی رباعیاں مشہور ہوئیں اور صادقین نے اپنا کلام بھی مصوّرانہ انداز میں‌ کینوس پر اتارا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے صادقین کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ یہ نابغۂ روزگار مصوّر کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ انھوں نے تنقید کے میدان اور شاعری میں‌ مقام بنایا اور قدیم و جدید ادب کو خوب کھنگالا، لیکن خود کسی ایک تحریک کے زیرِ اثر ادب تخلیق نہیں کیا۔ شاعری میں انھوں نے مشرقی کلاسکیت کو فوقیت دی۔ مغربی ادب کا مطالعہ بھی خوب کیا، لیکن اس سے متاثر ہو کر برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال کو رد نہیں کرسکے۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 9 ستمبر 1911ء کو ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں شعبے کے صدر رہے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں انھوں نے ایک الگ ہی انداز اپنایا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    تنقید نگاری کے ساتھ انھیں ایک شاعر کے طور پر دیکھا جائے تو ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں‌ ہر عہد کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    اردو ادب کے اس معروف بھارتی نقّاد اور شاعر کا انتقال 9 فروری 2002ء کو ہوا تھا۔

  • ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی نے اردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور اسلوب دیا جس نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ان کے اشعار کو نوجوانوں‌ نے اپنی بیاض‌ میں‌ شامل کیا، انھیں شوق سے پڑھا اور خوب سنا۔ وہ ایک مقبول شاعر تھے جن کے اشعار سادہ اور دل میں‌ اتر جاتے تھے۔ آج ندا فاضلی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس شاعر اور نغمہ نگار کو ایک ادیب اور صحافی کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ان کے نثری اسلوب نے بھی اپنی راہ بنائی۔ وہ 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام مقتدیٰ حسن تھا۔ والد بھی شاعری کرتے تھے، اس لیے گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا اور اسی ماحول میں‌ ندا فاضلی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی۔ جامعہ تک پہنچے تو اردو اور ہندی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ دنوں تک دہلی اور دوسرے مقامات پر ملازمت کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں اور پھر 1964 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں شروع میں انھیں خاصی جدو جہد کرنی پڑی۔ انھوں نے صحافت کی دنیا میں‌ قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ ان کی تخلیقات کتابی صورت میں‌ سامنے آئیں تو ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا۔ وہ مشاعروں کے بھی مقبول شاعر بن گئے تھے۔

    فلم نگری سے ندا فاضلی نے کمال امروہی کی بدولت ناتا جوڑا۔ انھوں نے اپنی فلم رضیہ سلطان کے لیے ان سے دو گیت لکھوائے تھے۔ اس کے بعد وہ مکالمہ نویسی طرف متوجہ ہوئے اور معاش کی طرف سے بے فکری ہوئی۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعے لفظوں کا پل کے بعد مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، شہر تو میرے ساتھ چل، زندگی کی طرف، شہر میں گاؤں اور کھویا ہوا سا کچھ شائع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو سوانحی ناول "دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں کے باہر ” کے علاوہ مشہور شعرائے کرام کے خاکے بھی تحریر کیے۔ندا فاضلی کی شادی ان کی تنگدستی کے زمانہ میں عشرت نام کی اک ٹیچر سے ہوئی تھی لیکن نباہ نہیں ہو سکا ۔پھر مالتی جوشی ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ انھیں‌ ساہتیہ ایوارڈ کے علاوہ سرکاری اور فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    ندا فاضلی نے 8 فروری 2016ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
    کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

    ان کی غزلیں‌ جگجیت سنگھ کے علاوہ ہندوستان کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائی ہیں۔ ان کا یہ کلام بھی بہت مشہور ہے۔

    ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
    عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے

    دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے
    مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

  • صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انھیں فلم انڈسٹری میں‌ رینوکا دیوی کے نام سے پہچان ملی تھی۔

    بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اسلام قبول کرنے کے بعد شیخ عبداللہ کے نام سے جانے گئے جو ایک بیدار مغز اور سوسائٹی میں نہایت فعال اور متحرک تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کی تمام اولادیں کسی نہ کسی صورت میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ رہیں۔ خود شیخ عبداللہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبداللہ نے 4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کا نام خورشید جہاں رکھا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی کا نام ڈاکٹر رشید جہاں تھا اور وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں شامل تھیں۔ اسی طرح خورشید جہاں بھی فن اور ادب کی دنیا میں معروف ہوئیں۔ ان کے بھائی بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔

    بیگم خورشید مرزا 17 برس کی تھیں جب وہ اکبر حسین مرزا سے رشتۂ ازدواج میں‌ منسلک ہوگئیں جو پولیس افسر تھے۔ اسی نسبت وہ خورشید جہاں سے بیگم خورشید مرزا مشہور ہوئیں۔ ان کے بھائی محسن عبداللہ بھی متحدہ ہندوستان میں مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں کو فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کرنے کا موقع ملا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ آئیں تو ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری پر داد پائی اور ریڈیو کے لیے انھیں صدا کار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے سامنے آئی تھی جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اپنے وقت کی اس سینئر اداکارہ کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • گلبدن بیگم کا تذکرہ جنھیں "ہمایوں نامہ” نے شہرت دی

    گلبدن بیگم کا تذکرہ جنھیں "ہمایوں نامہ” نے شہرت دی

    برطانوی عجائب خانہ میں تاریخی اہمیت کی حامل مشہور کتاب کا قلمی نسخہ آج بھی موجود ہے جس کا تعلق مغل دور کے ہندوستان سے ہے۔ اس کے سرورق پر یہ جملہ پڑھا جاسکتا ہے: ہمایوں نامہ۔ تصنیف گلبدن بیگم بنتِ بابر بادشاہ۔

    گلبدن، مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدّین محمد بابر کی اولاد تھیں۔ اس مغل شاہزادی کے حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں‌، لیکن وہ اپنی تصنیف ’ہمایوں نامہ‘ کے لیے مشہور ہیں۔

    گلبدن بیگم 1523ء میں کابل میں ظہیر الدّین محمد بابر کے ہاں‌ پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی ماں کا نام دلدار بیگم تھا۔ والد کی طرف سے ان کی رگوں میں‌ تیموری اور چنگیزی خون دوڑ رہا تھا اور ترکی ان کی مادری زبان تھی۔ جب وہ ہندوستان آئیں‌ تو ان کی عمر پانچ برس رہی ہوگی۔ ان کی پیدائش اس وقت کی ہے جب بابر کو کابل پر حکومت کرتے ہوئے 19 سال بیت چکے تھے اور وہاں‌ کی زبان فارسی تھی۔ یہی زبان ہندوستان میں‌ بھی پروان چڑھ چکی تھی جس کا اظہار گلبدن بیگم نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ گلبدن کا ابتدائی بچپن کابل میں گزرا تھا۔ ہندوستان منتقل ہونے کے دو ڈھائی برس بعد ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ گلبدن بیگم کی پرورش ان کے بھائی ہمایوں بادشاہ نے نہایت شفقت اور محبّت سے کی۔ وہ عمر کے سولھویں برس میں‌ تھیں‌ جب ان کی شادی کردی گئی تاہم اس کا ذکر گلبدن نے بھی اشارتاَ کیا ہے اور اکثر مؤرخین اس بارے میں خاموش ہیں۔

    ہمایوں نامہ میں گلبدن بیگم نے ذکر کیا ہے کہ جب ان کی عمر دو سال تھی تو انھیں ماہم بيگم کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ماہم بیگم نے اپنے بیٹے ہمایوں اور دیگر بچّوں کے ساتھ ان کی بھی پرورش اور تربیت کی تھی۔ انہی کی سرپرستی میں‌ گلبدن بیگم نے دربار اور شاہی محل کے اطوار و آداب سیکھے۔

    تذکروں میں آیا ہے کہ وہ 50 سال کی عمر میں طوافِ بیتُ اللہ کو گئیں اور عرب کی زمین پر تین سال سے زائد قیام کے بعد ہندوستان لوٹیں۔ گلبدن بیگم 1603ء میں آج ہی کے دن 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئی تھیں۔ بخار میں‌ مبتلا گلبدن بیگم نے آگرہ میں وفات پائی۔

    انھوں نے اپنی تصنیف میں بھی اپنے حالات اور واقعات کا بہت کم ذکر کیا، لیکن کتاب کے مطالعے سے حرم اور مغل سلطنت میں اُن کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کی تصنیف کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے حرم کے متعلق رائج خیال کو چیلنج کیا ہے۔

    ہمایوں نامہ تاریخی اہمیت کی حامل ایسی کتاب ہے جس کی حیثیت اس کی مصنّف کے تعلق سے بھی بڑھ جاتی ہے کہتے ہیں۔ یہ کتاب انھوں نے اپنے بھتیجے اکبر بادشاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔

    بادشاہ اکبر اپنی پھوپھی کے جنازے کے ساتھ قبرستان گئے اور انھیں قبر میں اتارا تھا۔ مؤرخین کے مطابق وہ نہایت فیاض اور دردمند تھیں۔ صدقہ خیرات کثرت سے کیا کرتی تھیں۔

    انھوں نے اپنی اس مشہور تصنیف کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کتاب میں انھوں نے اپنی یادداشت کی مدد سے واقعات تحریر کیے ہیں، اور کچھ دوسروں کی زبانی سن کر لکھے ہیں۔

    گلبدن بانو کی یہ تصنیف بتاتی ہے کہ وہ صاف گو بھی تھیں۔ انھوں نے ہمایوں کی لغزشوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس کتاب میں شاہی خاندان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوئی کوشش کی ہے۔

  • "ٹوٹ بٹوٹ” کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی برسی

    "ٹوٹ بٹوٹ” کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی برسی

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا نام اردو ادب میں ان کی تخلیقات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ ادیب، شاعر اور نقّاد تھے جن کی زندگی کا سفر 7 فروری 1978ء کو ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ انھوں نے اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں‌ میں شاعری کی اور بچّوں کے لیے خوب صورت نظمیں لکھیں جو ان کی وجہِ‌ شہرت ہیں۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے۔

    وہ ادیب اور شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے اور ان اصناف میں ان کی علمی و ادبی کاوشوں نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ ان کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ بچّوں کا ادب ہے جسے انھوں نے اپنی تخلیقات کے علاوہ ایسے مضامین و غیر ملکی ادب سے وہ تراجم دیے جو بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کی گئی ان کی نظمیں کھیل کھیل اور دل چسپ و پُر لطف انداز میں قوم کے معماروں‌ کو علم اور عمل کی طرف راغب کرنے کا سبب بنیں۔ آج بھی ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں اور گھروں اور اسکولوں میں بچّوں‌ کو یاد کروائی جاتی ہیں۔

    صوفی تبسّم کی وجہِ‌ شہرت ان کا وہ کردار ہے جو گھر گھر میں پہچانا جاتا ہے۔ ایک نسل تھی جو اس کردار کے ساتھ گویا کھیل کود اور تعلیم و تربیت کے عمل سے گزری اور جوان ہوئی۔ یہ کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ صوفی تبّسم نے اپنی شاعری میں ٹوٹ بٹوٹ کو اس خوب صورتی سے پیش کیا کہ اسے بچّوں نے اپنا ساتھی اور دوست سمجھ لیا۔ ان کی یہ نظمیں نہایت ذوق و شوق سے پڑھی گئیں اور آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ بچّوں کی تربیت اور ان کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے مشق اور دماغ سوزی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے پہیلیاں، کہاوتیں، شگوفے تخلیق کیے۔ مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جنھیں‌ بہت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا جب کہ حکومتِ ایران نے انھیں نشانِ سپاس عطا کیا تھا۔

    صوفی غلام مصطفٰی تبسّم لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: سریلی اور سدا بہار دھنیں ایم اشرف کی یاد دلاتی رہیں گی

    یومِ وفات: سریلی اور سدا بہار دھنیں ایم اشرف کی یاد دلاتی رہیں گی

    سریلی دھنوں اور سدا بہار موسیقی کے خالق، ایم اشرف کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2007ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے کئی نغمات کی موسیقی ترتیب دی جو بہت مقبول ہوئے اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    یہ گیت تو آپ نے ضرور سنا ہوگا، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں، ساری عمر بِتا دوں۔ ایم اشرف ہی اس خوب صورت گیت کے موسیقار تھے۔

    یکم فروری 1938ء کو پیدا ہونے والے ایم اشرف نے موسیقار اختر حسین سے فنِ موسیقی کی تربیت حاصل کی اور اپنی محنت اور لگن کے سبب فلم نگری تک پہنچے جہاں انھوں نے اپنے دور کے دیگر موسیقاروں کے درمیان اپنی جگہ بنائی۔ وہ مشہور فن کار ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے تھے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک فن کار گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں شروع ہی سے ساز اور سُر کا شوق تھا اور بڑے ہوئے تو فنِ موسیقی ہی کو اپنا کر نام و مقام پیدا کیا۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر انھوں نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کرتے رہے۔ ایم اشرف نے اپنے کیریئر میں 400 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ ان کی بدولت متعدد گلوکار بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے جن میں ناہید اختر، نیرّہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ ایم اشرف 1960ء سے 70ء تک دو عشرے انڈسٹری میں مصروف رہے۔

    پاکستان کے اس مشہور موسیقار کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے مقبولِ عام بنایا اور فلمیں‌ بھی اپنے گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ آج بھی ان کے گیتوں کو نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    ملکۂ ترنّم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سیّد، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے ان کی مرتب کردہ دھنوں میں گیت گائے۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ اپنے نام کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • یومِ وفات:‌ ملکہ پکھراج کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا

    یومِ وفات:‌ ملکہ پکھراج کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا

    برصغیر کی مشہور مغنّیہ ملکہ پکھراج 2004ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جو بھی وہ گنگناتیں ذہنوں پر نقش ہو جاتا۔ وہ کلاسیکی گائیکی اور راگ راگنیوں کی ماہر تھیں اور اُن چند پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جن کو پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی اس مغنّیہ نے پاکستان میں اپنے ہم عصر گلوکاروں میں‌ اپنی آواز اور مخصوص انداز کے سبب نمایاں‌ پہچان بنائی۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل اور بھجن کے ساتھ کئی اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور ماہر موسیقاروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے جن کا ایک ناول جھوک سیال بہت مشہور ہے۔ ملکہ پکھراج نے کم عمری ہی میں گانا شروع کردیا تھا اور وہ نو سال کی تھیں جب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تاج پوشی کا موقع آیا تو انھیں تقریب میں گانے کا موقع ملا اور وہاں ملکہ پکھراج کے سامعین میں والیٔ ریاست، وزرا اور امرا کے ساتھ عوام بھی ان کے مداح ہوگئے۔ انھوں نے مہاراجہ اور اعلیٰ‌ درباری منصب داروں کو اتنا متاثر کیاکہ انھیں دربار ہی سے وابستہ کر لیا گیا اور وہ اگلے نو سال تک وہیں مقیم رہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔

    لاہور میں وفات پانے والی اس مشہور مغنّیہ کو شاہ جمال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف اداکار خیّام سرحدی کا تذکرہ

    معروف اداکار خیّام سرحدی کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار اور سینئر فن کار خیّام سرحدی 3 فروری 2011ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ٹی وی اداکار خیام سرحدی کے والد اپنے زمانے کے نام ور اور باکمال ہدایت کار تھے جنھوں‌ نے ”ہم لوگ” اور ”فٹ پاتھ” جیسی شاہ کار فلمیں بنائی تھیں۔ انہی کی بدولت خیّام سرحدی فن اور آرٹ کی دنیا کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ شوق گویا انھیں ورثے میں ملا تھا۔

    ان کا شمار منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا تھا۔ حکومت نے انھیں فنی خدمات کے اعتراف میں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا تھا۔

    خیّام سرحدی ممبئی میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد فلمی صنعت میں‌ اپنی قسمت آزمائی کے لیے مقیم تھے۔ بعد میں ان کا خاندان ہجرت کے لاہور آگیا اور یہاں سے وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    وارث، ریزہ ریزہ، من چلے کا سودا، دہلیز، لازوال، سورج کے ساتھ ساتھ اور کئی دوسرے ڈراموں میں خیّام سرحدی نے اپنے کرداروں کو حقیقت کا رنگ دے کر ناظرین سے داد وصول کی۔ ان کے کردار بہت مقبول ہوئے۔ اداکار نے تین فلموں ’’اک سی ڈاکو‘‘،’’بوبی‘‘ اور ’’مہک‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے اس معروف اداکار نے امریکا سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ستّر کے دہائی میں ڈرامہ ’ْایک تھی مینا‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ خیّام سرحدی نے تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں اور قائدِ اعظم کی زندگی پر بننے والی ایک دستاویزی فلم میں مسلمانوں کے مقبول راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا کردار بھی ادا کیا تھا۔