Tag: فروری وفیات

  • امتیاز علی خاں عرشی:‌ بلند پایہ محقق اور ماہرِ غالبیات

    امتیاز علی خاں عرشی:‌ بلند پایہ محقق اور ماہرِ غالبیات

    امتیاز علی خاں عرشی کو اردو کے صفِ اوّل کے چند محققین میں شمار کیا جاتا ہے، جن کی ساری زندگی زبان و ادب میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں بسر ہوئی۔ اس میدان میں ان کے کارنامے نہایت اہم ہیں۔ امتیاز علی خاں عرشی کو ماہرِ غالبیات کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    محقق و مصنّف امتیاز علی خاں عرشی کا وطن رام پور ہے۔ ان کی پیدائش کا سال 1904ء ہے اور رام پور، بھارت ہی میں‌ 25 فروری 1981ء کو عرشی انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ زندگی بھر رام پور کے ایک عظیم علمی ادارے رضا لائبریری سے وابستہ رہے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔ عرشی نہ صرف خود اس ذخیرے سے خود فیض یاب ہوئے بلکہ جہانِ علم و ادب کو بھی اپنے علم اور مطالعہ سے خوب فیض پہنچایا۔ عرشی صاحب کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں ان کی تصانیف بھی نہایت اہم ہیں۔

    یہ درست ہے کہ تحقیق و تدوین کا کام جس دیدہ ریزی اور جگر کاوی کا مطالبہ کرتا ہے امتیاز علی خاں عرشی اس پر پورا اترتے ہیں۔ عرشی صاحب نے تصنیف و تالیف کی ابتدا اپنی تعلیم کے زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں کی۔ بعد میں رام پور ریاست کی عظیم الشان رضا لائبریری سے وابستہ ہو گئے۔ وہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اسی وصف کے سبب تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دے سکے۔خاص طور پر انھوں نے غالبیات کے ضمن میں بڑے وقیع و مستند اضافے کیے۔ عرشی صاحب نے 1947 میں ’’فرہنگ غالب‘‘ شائع کی اور ’’دیوان غالب نسخۂ عرشی‘‘ میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا۔ انشاء اللہ خان انشاء کی مختصر کہانی سلک گہر کو بھی عرشی صاحب نے اپنے دیباچے کے ساتھ 1948 میں اسٹیٹ پریس رام پور سے چھپوایا۔ محاورات کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں بیگمات کے محاوروں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی عربی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا جب کہ شاعروں اور ادیبوں سے متعلق متعدد مقالات بھی لکھے جو بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    امتیاز علی خاں عرشی کی تحقیقی کاوشوں اور ان کی بصیرت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی ہے کہ ان کی تحریروں پر بعض ناقدین نے اعتراض کرتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کی ہے مگر آج بھی عرشی کا نام اردو تحقیق کے چند بڑے ستونوں میں شامل ہے۔

  • جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    جان کیٹس: نوجوانی میں موت سے ہم آغوش ہونے والا عظیم رومانوی شاعر

    بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جانے والے جان کیٹس کو اس کی موت کے بعد بطور رومانوی شاعر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ جان کیٹس ایسا جوانِ رعنا تھا جس کی زندگی نے ابھی اترانا سیکھا ہی تھا اور جو اپنے خوابوں کو شاعری میں جگہ دے رہا تھا۔ وہ 26 برس زندہ رہ سکا۔ جان کیٹس آج ہی کے روز 1821ء میں‌ چل بسا تھا۔

    لندن کے ایک علاقہ میں جان کیٹس نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 31 اکتوبر 1795ء کو پیدا ہونے والے کیٹس کا باپ مقامی شراب خانے میں ساقیا تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس نے خراب مالی حالات کے باوجود طب کے مضمون میں سند حاصل کی۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد اس کی زندگی میں آیا۔ کلارک نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے پر اکسایا اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے واقف کرایا۔ ایک روز غربت زدہ کنبے کا سربراہ یعنی کیٹس کا باپ گھوڑے سے گِر کر ہلاک ہوگیا۔ یوں اس گھر کے افراد معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگئے۔ چند ماہ بعد کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر دوسرا شوہر ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ جان کیٹس کی ماں نے اس سے طلاق لے لی اور بچّوں کے ساتھ ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند ماہ گزرے تھے کہ بچّے اپنی ماں کے سائے سے بھی محروم ہوگئے۔ اس کے بعد کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اسے خاندان کے ایک شناسا سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے جانا پڑا۔ کیٹس نے 1814 سے 1816 تک وہاں‌ ادویات اور سرجری کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر ایک اسپتال میں معمولی نوکری مل گئی۔ اس نے اسپتال میں‌ سرجری کی کلاسیں‌ لینا شروع کردیا اور اسی عرصہ میں شاعری بھی کرنے لگا۔ اس کی لگن اور طلبِ علم کی شدید خواہش نے 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری میں سند یافتہ بنا دیا۔ جان کیٹس اس پیشے میں اب آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر میں اپنا زیادہ وقت شاعری کرتے ہوئے گزارنے لگا۔

    جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں اس وقت کے ایک اہم شاعر لی ہنٹ نے ایک رسالہ نکالا اور نئے لکھنے والوں کو اس میں جگہ دی۔ جان کیٹس کی نظمیں بھی ہنٹ کے رسالے میں شایع ہوئیں اور جلد ہی جان کیٹس کی نظموں کا پہلا مجموعہ بھی منظرِعام پر آ گیا۔ برطانیہ میں ادب کے قارئین جان کیٹس کو پہچاننے لگے، لیکن مستحکم ادبی حلقوں اور ان کے رسائل میں دوسروں کے ساتھ کیٹس پر بھی بے جا تنقید شروع کردی گئی اور یہ تک لکھا گیا کہ جان کیٹس کو شاعری ترک کر کے ادویہ سازی پر توجہ دینا چاہیے۔ جان کیسٹس جیسے حساس اور زود رنج شاعر کے لیے یہ تنقید ناقابل برداشت تھی۔ جان کیٹس بدقسمتی سے ٹی بی جیسے مرض کا شکار ہوچکا تھا جو اس دور میں‌ ناقابل علاج اور مہلک مرض تھا۔ دراصل جان کیٹس کو یہ مرض اپنے ٹی بی کا شکار بھائی سے منتقل ہوا تھا۔ وہ تنقید کے ساتھ ٹی بی کی شدت بھی سہہ رہا تھا۔ اگرچہ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے وہ شاعر اور ادیب تھے جنھیں جان کیٹس سے ہمدردی بھی تھی اور وہ اس کی شاعری کے معترف بھی تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ساتھ جان کیٹس کو ضرور نصیب تھا، مگر ٹی بی نے اسے مزید حساس بنا دیا تھا اور وہ خود پر کڑی تنقید برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔

    بات صرف یہی نہیں‌ تھی بلکہ جان کیٹس عشق کا روگ بھی لگا بیٹھا تھا۔ یہ لڑکی اس کی پڑوسی فینی بران تھی۔ کہتے ہیں کہ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت اور دیکھ بھال نے ہی جان کیٹس کو بہت سہارا دے رکھا تھا ورنہ بیماری اسے تیزی سے موت کی طرف لے جارہی تھی۔ جان کیٹس نے اپنی مشہور نظم برائٹ اسٹار اسی لڑکی فینی سے ایک ملاقات کے دوران لکھی تھی۔ ان میں پیامات کا تبادلہ بھی ہوتا تھا اور یہ خطوط بعد میں بے مثال رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ کر لیے گئے۔

    نوجوان شاعر جان کیٹس نے اپنی نظموں‌ میں‌ حسن و عشق اور جذبات کو اپنے تخیل میں اس طرح‌ سمویا کہ بعد میں اس کی شاعری کو ایک دبستان قرار دیا گیا۔ مختصر زندگی میں غربت اور جسمانی تکلیف کے ساتھ نام نہاد ادبی نقادوں کی دل آزار باتوں اور عشق نے جان کیٹس کو ایک بے مثال شاعر بنا دیا۔ کیٹس کی شاعری لازوال ثابت ہوئی۔ انگریزی ادب کے ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے رنج و غم، اس پر بے جا تنقید اور فینی کی محبت نے ہی اسے بطور شاعر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کرداروں کا ذکر جا بجا اس کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

    اٹلی کے مشہور شہر روم میں‌ قیام کے دوران ٹی بی کے مرض کی شدت کے سبب جان کیٹس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم انگریز رومانوی شاعر کی تدفین بھی روم ہی میں کی گئی۔

  • مائیکل انجلو:‌ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا آرٹسٹ

    مائیکل انجلو:‌ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا آرٹسٹ

    مائیکل انجلو کو دنیا اطالوی مصور اور مجسمہ ساز کے طور پر پہچانتی ہے جس کے فن پارے بڑی بڑی آرٹ گیلریوں کی زینت ہیں۔ مائیکل انجلو کے فن اور شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں‌ اور ناقدین نے اس کے فن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

    پروفیسر احمد عقیل روبی کو ہم بحیثیت قلم کار جہاں متعدد حیثیتوں میں جانتے ہیں، وہیں وہ ایک ایسے سوانح نگار اور مضمون نویس بھی تھے جس نے مشاہیرِ عالم پر کئی معلومات افزا مضامین رقم کیے اور ان کے حالاتِ‌ زندگی ترجمہ کرتے ہوئے نہایت اسے اپنے دل چسپ اور پُرلطف اسلوب میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔ مائیکل اینجلو کو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مؤرخین نے اس کی تاریخِ وفات 18 فروری 1564ء لکھی ہے۔ آج اس مصور اور مجسمہ ساز کے یومِ‌ وفات کی مناسبت سے احمد عقیل روبی کی یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    پادری دوست نے ایک بار اس سے بڑے افسوس ناک لہجے میں کہا:’’کاش تم نے شادی کی ہوتی، تمہارے بھی دو چار بچے ہوتے۔‘‘

    اس نے پوچھا:’’ تو پھر کیا ہوتا؟‘‘

    ’’کم از کم آنے والی نسلوں تک تمہارا نام تو پہنچتا۔ تمہاری نسل تو پھلتی پھولتی۔‘‘

    ’’یہ دونوں چیزیں میرے فن میں موجود ہیں جو ہر پل مجھے سرگرمِ عمل رکھتی ہیں۔ میں جو فن چھوڑ کر جاؤں گا، یہی میرے بچّے ہیں۔ اگرچہ یہ فن اس قابل نہیں لیکن میں اسی حوالے سے آنے والی نسلوں میں زندہ رہوں گا۔‘‘

    اس نے اپنے فن کے بارے میں کم اندازہ لگایا۔ وہ اپنے اس عظیم فنی ورثے کے حوالے سے آج بھی زندہ ہے اور جب تک فنی باریکیوں کو سمجھنے والے زندہ ہیں وہ زندہ رہے گا۔ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا یہ شخص مائیکل اینجلو ہے جو 1475ء میں کیپرس (Caprese) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ اس قصبے کا مشیر تھا جسے پوڈیسٹا کہا جاتا تھا۔ مائیکل ابھی سات سال کا ہی تھا کہ اس کی ماں فوت ہوگئی۔ مائیکل اینجلو کو ایک سنگ تراش اور اس کی بیوی کے ساتھ رہنا پڑا جہاں اس کے باپ کی پتھر کی فیکٹری تھی۔ اس کے والد نے 13 سال کی عمر میں اسے پڑھنے کے لئے فلورنس بھیجا مگر اسے پڑھائی لکھائی سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس نے تحریر کے مقابلے میں ڈرائنگ، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کو اہمیت دی اور مصوری سے اسے بہتر تصور کیا۔

    مائیکل اینجلو کی نظر میں فطرت نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ بڑے بڑے اعلیٰ شاہکار پتھروں میں قید کر دیے ہیں، اس کے نزدیک مجسمہ ساز کا یہ کام ہے کہ وہ انہیں تراش کے پتھروں کی قید سے رہائی دلائے۔ اس کا خیال تھا کہ ہر پتھر میں ایک مجسمہ ہے۔ مجسمہ ساز غیر ضروری پتھر الگ کر کے نقش و نگار نمایاں کرتا ہے۔

    سقراط نے برسوں پہلے یہی بات کہی تھی کہ پتھر میں ایک شکل موجود ہوتی ہے۔ مجسمہ ساز اسے پتھر سے باہر نکالتا ہے۔ مائیکل اینجلو نے اسی بات کی تائید کی ہے۔ اردو کا ایک نامعلوم شاعر اس بات کو اپنے شعر میں کچھ یوں لکھتا ہے:

    جب کسی سنگ سے ٹھوکر کھائی
    نا تراشیدہ ضنم یاد آئے

    ( احمد عقیل روبی کی کتاب ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے اقتباس)

  • سلویا پلاتھ: موت کے بعد بے مثال شہرت پانے والی شاعرہ اور ناول نگار

    سلویا پلاتھ: موت کے بعد بے مثال شہرت پانے والی شاعرہ اور ناول نگار

    سلویا پلاتھ کی وجہِ شہرت اور شاعری میں انفرادیت یہ ہے کہ اس نے اپنی نظموں میں گویا اپنی ذات اور اپنے احساسات کا غیرمعمولی شدت سے اظہار کیا۔ جب کہ اس دور میں ہم عصر شعرا‌ کے ہاں ایسی کیفیت اور اظہار دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سلویا پلاتھ شاعرہ ہی نہیں بطور ناول نگار بھی مشہور ہوئی۔ اور اس کے سوانحی ناول کو بہت سراہا گیا۔ شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ نے صرف 31 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اس کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ اسے پولیس نے حادثہ قرار دیا تھا۔

    سلویا پلاتھ اوائلِ عمری میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی جس کے کئی اسباب سامنے آئے۔ وہ شروع ہی سے حساس طبع تھی اور والد کی موت نے اسے شدید ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ سلویا پلاتھ نے ڈپریشن کا علاج بھی کروایا۔ لیکن فائدہ نہیں‌ ہوا۔ اس نے نوجوانی میں تین مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش کی۔ ماہرِ نفسیات اسے ذہنی دباؤ سے آزاد نہیں کرواسکے اور پھر سلویا کی خود کشی کی چوتھی کوشش کام یاب ہوگئی۔ اس نے اوون میں اپنا منہ رکھ کر تکلیف دہ طریقے سے زندگی ختم کی۔ 11 فروری 1963ء کو سلویا پلاتھ اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ کچھ لوگوں نے اسے قتل کی واردات کہا، کیوں کہ وہ جس کمرے میں مردہ پائی گئی تھی، اس کا دروازہ مقفل تھا اور عام طور پر وہ اپنا کمرہ لاک نہیں کرتی تھی۔

    موت کے بعد اسے بے حد شہرت نصیب ہوئی اور اس کی شاعری کو ادبِ عالیہ تسلیم کیا گیا۔ 27 اکتوبر 1932ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ شاعرہ سلویا پلاتھ جب آٹھ برس کی تھی تو اس کے والد فوت ہو گئے تھے۔ سلویا پر ان کی موت کا گہرا نفسیاتی اثر ہوا اور وہ بہت دکھی رہی اور یہ دکھ ڈپریشن کا روپ دھارنے لگا تھا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکی تھی اور 18 سال کی عمر میں اس کی پہلی نظم ایک مقامی اخبار میں شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ سلویا نے ایک نیم سوانحی ناول دی بیل جار لکھا جو بہت مقبول ہوا۔

    1955 میں سلویا پلاتھ نے دوستوفسکی کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر اسمتھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ذہین اور قابل لڑکی تھی اور اسی ذہانت کی وجہ سے انگلستان کا فل برائٹ اسکالر شپ حاصل کرکے انگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی۔ اس کی ملاقات اپنے وقت کے مشہور شاعر ٹیڈ ہیوز سے 1956 میں ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو گئے، چند ماہ بعد انھوں نے شادی کرلی لیکن جلد ہی رومانس دم توڑ گیا اور سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے کا شکار ہوکر بکھر گئی۔ اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، مگر ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا، اور پھر حساس طبع سلویا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلویا پلاتھ کے مشہور ناول کے چند ابواب دراصل اس کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔

    سلویا پلاتھ کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا اور الم ناک موت کے بعد اس کی دیگر نظمیں‌ کتابی شکل میں‌ شایع ہوئیں۔ اس کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ اس کے لیے پلٹزر پرائز کا اعلان کیا گیا۔

  • رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

    رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

    فلسفیانہ خیالات کی ترسیل اور وضاحت سے اس کا بیان ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے اکثر بڑے بڑے فلاسفہ اور مفکر بے بس نظر آئے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے فلسفیانہ خیالات کی دوسروں کے لیے وضاحت کریں‌ کہ ہر ایک پر ان کی بات کھل جائے اور وہ اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔ لیکن رینے ڈیکارٹ وہ نام ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو بڑی آسانی سے بیان کیا اور ان کی مکمل تفہیم کرنے میں کام یاب رہا ہے۔

    رینے ڈیکارٹ کو تاریخ ایک سائنس داں، فلسفی اور ریاضی کے ماہر کے طور پر پہچانتی ہے جس نے فلسفہ اور جیومیٹری میں بہت کام کیا۔ اس نے ”خطوط مرتبہ جیومیٹری“ ایجاد کر کے جیومیٹری میں ایک بڑا اضافہ کیا۔

    دوسری طرف ناقدین اسے تضاد کا شکار یا دہری شخصیت کا حامل شخص بھی بتاتے ہیں اور شخصیت کا یہی دہرا پن اس کے فلسفے میں بھی ظاہر ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا دو قسم کی اشیاء ذہن اور مادّہ سے مل کر بنی ہے۔ اب ذہن ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ توسیع شے تصور کیا جاتا ہے جب کہ مادّہ قابلِ تقسیم اور قابلِ توسیع ہے تو پھر ذہن اس جسم کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے جو سائنس کے میکانکی اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے؟ ڈیکارٹ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ ایک بار اس نے کہا کہ ذہن اور جسم دماغ کے نچلے حصے میں موجود ’’پائی نی ایل گلینڈ‘‘ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے ڈیکارٹ نے اصل سوال کو نظر انداز کر دیا۔ سوال یہ نہیں تھا کہ کہاں تعامل کرتے ہیں؟ سوال تو یہ تھا کہ کس طرح تعامل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈیکارٹ کی کام یابی اور اس کے حاصلات سے انکار ناممکن ہے کیوں کہ ڈیکارٹ کا فلسفہ اور اس کا بیانیہ مؤثر ثابت ہوا اور وہ بڑی حد تک اپنی بات کی تفہیم کرتا ہے۔

    فلسفہ کے طالبِ علموں کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ڈیکارٹ وہ فلسفی تھا جس خود کو اس بات پر قائل کیا کہ ایک مضبوط فلسفے کی بنیاد رکھنے کے لیے اسے ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔ اس کے مطابق سب سے کم قابلِ شک اصول و قواعد ریاضی اور جیومیٹری کے ہیں، جیسا کہ دو جمع دو چار یا ایک مربع کے پہلوؤں کی گنتی۔ وہ فلسفے کو بھی ایسے ہی اصول و قواعد کی بنیادوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔

    اس کے مطابق، ہم ریاضی میں مسلمہ اصولوں سے آغاز کر کے اگلے مرحلے کے قوانین یا مسئلوں پر پہنچتے ہیں، جو مکمل طور پر پچھلے مرحلے کے مسلمہ اصولوں سے اخذ شدہ قرار دیے جاتے ہیں۔ ہم اسی طرز پر مرحلہ وار آگے بڑھتے جاتے ہیں اور مزید پیچیدہ مسئلوں تک پہنچتے ہیں جن کو بھی مسلمہ ہی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرحلے میں ہمارا انحصار صرف مسلمہ اصولوں پر ہی رہا۔

    رینے ڈیکارٹ نے اپنی کتابوں ’’طریقہ کار کا بیان‘‘ (discourse on Method) اور ’’غور و فکر‘‘ (Meditations) میں اپنے فلسفے کی بنیاد ’’شک‘‘ پر رکھی ہے مگر یہ سوفسطائیوں والی تشکیک نہیں تھی بلکہ اس تشکیک کی بنیاد ڈیکارٹ نے سائنس کے اصولوں پر رکھی تھی کہ ہمیں خیال کی دنیا میں سوالیہ ذہن کے ساتھ داخل ہونا چاہیے۔ اسی خیال کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے رینے ڈیکارٹ نے ایک شہرۂ آفاق مقولہ دیا ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔“ اس مقولے کی تفہیم میں وہ کہتا ہے کہ جب میں ہر شے پر شک کر رہا ہوں تو کم از کم میں اس بات پر تو شک نہیں کر سکتا کہ میں شک کر رہا ہوں۔ شک کی وجہ سے جب دنیا کی ہر شے غیر یقینی لگ رہی ہو تو ایک ’شک‘ ہی بچتا ہے جس پر یقین کیا جا سکے۔ شک کرنا سوچ کا مظہر ہے۔ لہٰذا میں سوچ رہا ہوں، اور سوچ میں تبھی رہا ہوں جب میں واقعی ہوں۔ یہ سوچ ہی میرے وجود کی دلیل ہے۔ اگر سوچ نہ رہے تو وجود کی دلیل بھی نہ رہے گی۔ لہٰذا میری کل فطرت یا روح کا انحصار سوچ پر ہے اور اس روح کو کسی جگہ یا مادّی شے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے روح جسم سے الگ ہے اور یہ اس وقت بھی رہے گی جب جسم نہ بھی رہے۔ اسی دوران ڈیکارٹ کو ادراک ہوا کہ ایک ایسی شے موجود ہے جس پر شک کی گنجائش نہیں ہے اور وہ اس کا اپنا وجود ہے۔ اسی خیال کے ساتھ اس نے جو نتیجہ اخذ کیا اس پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی اور خدا کے وجود کو بھی نہ صرف ثابت کرنے کی کوشش کی بلکہ خدا پر پختہ یقین کا اظہار کیا مگر اسی کو ناقدین نے کلیسا کو خوش کرنے کوشش بتایا ہے۔

    اوپر یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ڈیکارٹ کئی جگہ تضاد کا شکار اور دہری شخصیت نظر آیا اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس نے خدا پر پختہ یقین کے باوجود اپنے مسودات چھپنے سے پہلے چرچ سے وابستہ ایک دوست مرسینے کو اس نیت سے بھیجے کہ وہ اسے جانچ پرکھ کر بتائے کہ اس کے یہ خیالات کہیں چرچ کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں۔ تماشا یہ بھی ہے کہ بعد میں اسی شخص پر الحاد (Atheism) کا الزام لگا دیا گیا۔ اسے بدعتی کہا گیا اور یہ مشہور ہو گیا کہ رینے ڈیکارٹ مروجہ عقیدوں کے خلاف ہے جو مذہب پرستوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ تاہم کسی طرح یہ معاملہ رفع دفع ہوا۔

    ڈیکارٹ 1596ء میں فرانس میں پیدا ہوا تھا۔ اسے جدید فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے جس نے اس دور میں فلسفے کی از سر نو تشکیل کا بیڑا اٹھایا اور اس میں‌‌ اپنی برتری منوانے میں کام یاب رہا۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا اور کلیسا کا تعلق خوش گوار رکھنے کے لیے کوشاں رہا۔ مگر پھر بھی بدعتی اور ملحد قرار پایا اور اس پر حملے بھی ہوئے۔

    ڈیکارٹ کی شہرت پورے یورپ میں پھیل چکی تھی۔ وہ تعلیم یافتہ اور دانشور حلقوں کے ساتھ شاہی خاندان کے افراد میں ایک فلسفی اور مصنّف کے طور پر پڑھا جانے لگا تھا۔ انہی میں سے ایک سویڈن کی ملکہ بھی تھی۔ وہ ایمسٹرڈیم سے بیس میل دور شمال میں سمندر کے کنارے’’ایگمنڈ بینن‘‘ کی چھوٹی سی اسٹیٹ میں مزے کی زندگی گزار رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ پیرس کا چکر بھی لگا آتا اور اپنے پرانے دوستوں پاسکل اور ہابس سے تبادلہ خیال کرکے واپس لوٹتا۔ انہی دنوں سویڈن کی ملکہ کرٹینا اس کی ایک کتاب پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے ڈیکارٹ کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس سے فلسفے کے باقاعدہ اسباق لے سکے۔ ڈیکارٹ دیر تک سونے کا عادی تھا۔ وہ سہل پسند اور بے فکرا تھا جس کے لیے اسٹاک ہوم کا لمبا سفر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس نے کئی بار معذرت کی اور ملکہ کی بے جا تعریف کرتے ہوئے کئی خوشامدانہ خط بھی لکھے مگر دھن کی پکی ملکہ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور اس نے اپنے ایڈمرل کو بحری بیڑے سمیت ڈیکارٹ کو لانے کے لیے بھیج دیا۔

    آخر وہ ملکہ تک پہنچا اور وہ جنوری کا مہینہ تھا جب اسے بتایا گیا کہ ملکہ ہفتے میں تین روز اس سے فلسفے کی تعلیم حاصل کریں گی، مگر اسے صبح سویرے انھیں پڑھانا ہوگا۔ شدید سردی کے دنوں میں رینے ڈیکارٹ کو علی الصبح اٹھ کر محل پہنچنا پڑا اور دو ہی ہفتے کے اندر ڈیکارٹ پر موسم کی سختی نے برا اثر ڈالا اور اسے نمونیہ ہوگیا۔ 11 فروری 1650ء میں رینے ڈیکارٹ چل بسا۔ سویڈن میں تدفین کے کچھ عرصہ بعد اس کی لاش کو پیرس لایا گیا اور یہاں اس کی تدفین کی گئی۔

  • نادر بیگ مرزا:‌ سندھی ادب کا اہم نام

    نادر بیگ مرزا:‌ سندھی ادب کا اہم نام

    سندھی زبان کے افسانہ نگاروں‌ میں ایک قابلِ ذکر نام نادر بیگ مرزا کا ہے جو شاعر بھی تھے۔ وہ شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ کے بیٹے تھے جنھیں سندھی ادب کا معمار بھی کہا جاتا تھا۔ نادر بیگ نے ادب کے ساتھ بحیثیت قانون داں بھی مقام و مرتبہ بنایا۔

    نادر بیگ مرزا 16 مارچ 1891ء کوسندھ کے شہر کوٹری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا قلیچ بیگ مختار کار کی حیثیت سے کوٹری میں مقیم تھے۔ نادر بیگ کی ابتدائی تعلیم کوٹری، حیدرآباد اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں ہوئی۔ 1906ء میں وہ اعلیٰ‌ تعلیم کے لیے لندن گئے اور 1912ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے لوٹے۔ نادر بیگ مرزا نے لاڑکانہ میں اپنی عملی زندگی زندگی شروع کی اور وکالت کرنے لگے۔ بعد میں جوڈیشل سروس میں شمولیت اختیار کی اورسندھ کے مختلف شہروں میں مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔

    نادر بیگ مرزا کو ادبی ذوق اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔ انھیں اوّلین سندھی افسانہ نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ نادر بیگ مرزا کا قلم سماجی موضوعات پر حقیقت نگاری کے لیے پہچانا گیا۔ گو کہ ان کا تخلیقی سرمایہ بہت نہیں ہے مگر سندھی افسانے کے حوالے سے اس کا ایک حلقۂ اثر ضرور رہا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے ماہنامہ ادبی جریدے ’’سندھو‘‘ میں شائع ہوتے تھے۔

    نادر بیگ کے افسانوں کا ایک مختصر مجموعہ 1991ء میں انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی جامشورو سے شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانوں میں طنز بھی ہے اور حقیقت کی گہرائی بھی۔ ان کی تحریروں میں زیادہ تر ہندو اور کہیں کہیں پارسی معاشرے کی کہانیاں ملتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں اچھوت، مس رستم جی، موہنی جی ڈائری، عینک کی آواز اور بھاوج نمایاں ہیں۔ نادر بیگ مرزا انگریزی میں شاعری بھی کرتے تھے۔ سندھی زبان کے اس افسانہ نگار کا انتقال 3 فروری 1940ء کو کراچی میں ہوا۔ نادر بیگ مرزا ٹنڈو ٹھوڑو میں اپنے آبائی قبرستان بلند شاہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • نور محمد لاشاری: دل نواز شخصیت، باکمال اداکار

    نور محمد لاشاری: دل نواز شخصیت، باکمال اداکار

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اور منجھے ہوئے اداکاروں میں سے ایک نور محمد لاشاری آج ہم میں نہیں، لیکن ان کا شیریں لہجہ، محبّت بھرا انداز اور وہ کردار انھیں زندہ رکھے ہوئے ہیں جو پی ٹی وی کے ڈراموں‌ میں لاشاری صاحب نے نبھائے۔ یکم فروری 1997ء کو نور محمد لاشاری انتقال کرگئے تھے۔

    نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے محکمہ تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

    نور محمد لاشاری نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستہ رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے صدا کاری کے میدان میں‌ خود کو منوایا اور سامعین میں مقبول ہوئے۔

    ملک میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے کراچی اسٹیشن کے لیے انھوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ نور محمد لاشاری نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں‌ لازوال کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ دو درجن سندھی اور اردو فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کا مکالموں کی ادائیگی کا مخصوص انداز، لب و لہجہ اور ایک خاص ٹھہراؤ ان کے کرداروں‌ میں‌ ایسی جان ڈال دیتا تھا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا۔

    جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی جیسے پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں نور محمد لاشاری نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ 1993ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار نور محمد لاشاری سے متعلق ہم لیاقت راجپر کے ایک کالم سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو مرحوم کی شخصیت ہمارے سامنے لاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ریڈیو پر لاشاری صاحب کی زیادہ دوستی نیوز کاسٹر کامران بھٹی اور رشید صابر مرحوم سے تھی جس کا گھر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع تھا۔

    اس سے ملنے کے لیے لاشاری اکثر جایا کرتے تھے اور فلیٹ کے نیچے ففٹی سی سی موٹر سائیکل کھڑی کر کے سب سے پہلے صابر کو آواز دیتے۔ اگر وہ ہوتا تو پھر اس سے چائے کی فرمائش کرتے۔

    ایک مرتبہ لاشاری صاحب ایک کلو جلیبی لے آئے اور اسے پلیٹ میں رکھ کر کھا گئے۔ پھر کہا کہ انھیں چائے کی پیالی دی جائے جو چینی کے بغیر ہو، کیوں کہ انھیں شوگر ہے۔

    ان کی زندگی کا ایک سچا واقعہ جو وہ خود سناتے تھے کہ ایک مرتبہ کسی فلم کا ایک سین حقیقت میں بدل رہا تھا اور وہ مرتے مرتے بچے۔ انھیں پھانسی دی جارہی تھی۔

    جب سین ریکارڈ ہونے لگا تو پھندے کو روکنے والی رسی کھل گئی اور پھندا لاشاری صاحب کے گلے میں آنا شروع ہوا۔ ان کی سانس رک رہی تھی اور ڈائریکٹر اور دوسرا عملہ تالیاں بجا رہا تھا کہ کیا پرفارمنس دی ہے، مگر جب ان کی حالت خراب ہوتی دیکھی تو بھاگے اور انھیں اٹھایا۔ وہ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

    لاشاری جب جنگل شاہی میں ٹیچر تھے تو ایک ٹھیکے دار کے پاس منشی کا کام بھی کرتے تھے۔ مچھلی کے اس ٹھیکے دار کے پاس کام کرنے سے انھیں مچھیروں سے ملنا پڑتا تھا اور پھر سیہون کے قریب منچھر جھیل جا کر مچھیروں سے ملتے تھے۔ ان کا مچھلی کا شکار، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، ان کے طور طریقے، رسم و رواج سب دیکھ چکے تھے جو مچھیرے کا کردار ادا کرنے میں بڑے کام آئے۔

    یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ لاشاری فوج میں بھی گئے تھے جہاں سے بھاگ آنے پر تھوڑی سزا پانے کے بعد انھیں معاف کر دیا گیا تھا۔

    نور محمد لاشاری کو منگھو پیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہ لانے والے ابوالکلام آزاد کا تذکرہ

    گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہ لانے والے ابوالکلام آزاد کا تذکرہ

    ہندوستان کے مسلمان ابوالکلام آزاد کو ’امامُ الہند‘ کہتے تھے۔ وہ برطانوی دور میں‌ ہندوستان کی سیاست میں‌ نام وَر ہوئے اور صرف ایک سیاست داں ہی نہیں بلکہ صاحبِ طرز ادیب، جیّد صحافی اور ایک مصلح اور مدرس کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔

    مولانا کو ہندوستان کی نادرِ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے جہاں علمی و تحقیقی مقالات، انشائیہ نگاری کے ساتھ شاعری کی، وہیں قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ انھوں نے مسلمانانِ ہند کی سیاسی، سماجی اور دینی تربیت اور راہ نمائی کرتے رہے۔

    آزاد سنہ 1888 میں مکّہ مکرّمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام غلام محی الدّین تھا۔ ان کی مادری زبان عربی تھی اور والد مولانا خیر الدّین ایک مذہبی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مصر کی مشہور درس گاہ جامعہ ازہر سے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔ غور و فکر کے عادی اور علم و تحقیق کے رسیا ابوالکلام چودہ برس کے تھے جب ان کی تحریریں اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونا شروع ہو گئیں اور 1912 میں جب وہ پچیس سال کے تھے، ایک سیاسی رسالے ’الہلال‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ سنہ 1920 کے لگ بھگ انھوں نے عملی سیاست میں‌ قدم رکھا اور 33 سال کی عمر میں تحریکِ خلافت، تحریکِ ترک موالات اور عدم تعاون کے روح رواں بن گئے۔

    مسلمانوں میں ان کا درجہ اتنا بڑھا کہ انھیں ’امام الہند‘ کہا جانے لگا۔ سیاسی میدان میں ان کی لیاقت اور فہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1923 میں 35 برس کے تھے جب انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب کر لیے گئے۔ دوسری بار صدر منتخب ہوئے اور 1946 تک یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔ آزاد نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ساتھ ہی علمی و ادبی کاموں میں‌ مشغول رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کے ان مسلمان اکابرین میں سے تھے جو تقسیم کے بڑے مخالف رہے اور ان کی کوشش تھی کہ ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھتے ہوئے متحدہ قومیت، ملی جلی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔

    مولانا عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے تو کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا اور یہیں ان کی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ یہیں سے ’الہلال‘ جیسا ہفتہ وار اخبار نکالا جو پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا۔ اس اخبار میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے جس پر اسے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا اور اس کے ذریعے انگریزوں کی مخالفت جاری رکھی۔ مولانا آزاد نے اپنے اخبارات اور تحریروں کے ذریعے قومی، وطنی جذبات کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’پیغام‘ اور’لسانُ الصّدق‘جیسے اخبارات و رسائل بھی شائع کیے اور مختلف اخبارات سے بھی ان کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابلِ ذکر ہیں۔

    اس عرصے میں‌ وہ سیاسی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے’تحریکِ عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑ دو‘ جیسی تحریکوں‌ میں بھی حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران کے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم رہے۔ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے وہ بہت متاثر تھے اور ان کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔

    اس زمانے میں جب قائدِ اعظم اپنے رفقا کے ساتھ حصول پاکستان کے جدوجہد میں مصروف تھے، مولانا آزاد بھی ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے میدانِ عمل میں تھے اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ تاہم وہ تقسیم کی مخالفت کرتے تھے۔ اگرچہ وہ پاکستان کے قیام کے مخالف تھے مگر مسلمانوں کی بہتری اور بہبود ہمیشہ ان کا نصب العین رہی تھی۔

    22 فروری 1958 کو مولانا آزاد وفات پاگئے تھے۔ انھیں آزادی کے بعد مولانا بھارت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ اس حیثیت میں انھوں نے کئی اہم کارنامے انجام دیے اور شعبۂ تعلیم کے لیے قابلِ‌ ذکر اقدامات کیے۔

    ملاّ واحد مولانا کی متاثر کن شخصیت اور ان کے خوش خصائل ہونے سے متعلق ایک واقعہ ان الفاظ میں‌ نقل کیا ہے:

    مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظامُ المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہوگئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔

    مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔

    وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔

    مولانا ابو الکلام کو تو اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابو الکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔

    مولانا ابو الکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔

    مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیرمعمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابو الکلام اپنی مشہور ’’انا‘‘ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔

    مولانا ابو الکلام کی ’’انا‘‘ مغروروں اور متکبّروں کی سی ’’انا‘‘ نہیں تھی۔ وہ بس اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابلِ ستائش ’’انا‘‘ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینیس۔

    مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910 میں تھے 1947 تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔

  • روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش کی لافانی موسیقی کا سب سے نمایاں وصف وہ شوخ ردھم اور جدّت ہے جس نے کئی گیتوں کو امر کر دیا۔ اخلاق احمد کی آواز میں ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی یہ نغمہ ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ آج بھی مقبول ہے۔

    1977ء کی فلم آئینہ سے اپنے فنی کریئر کی معراج پر نظر آنے والے روبن گھوش 13 فروری 2016ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں ان کی لازوال موسیقی کا بھی بڑا کردار رہا۔ مہدی حسن کی آواز میں ’کبھی میں سوچتا ہوں…،‘، ’مجھے دل سے نہ بھلانا،‘ نیّرہ نور کا گایا ہوا ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا… وہ گیت تھے جنھیں پاک و ہند میں‌ مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی ان کی سحر انگیزی برقرار ہے۔

    روبن گھوش کے کئی مقبول گیت ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر ہوئے جن میں ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘، ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کا شمار برصغیر کے نام ور موسیقاروں میں کیا جاتا ہے۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ روبن گھوش پاکستان کی مشہور فلمی اداکارہ شبنم کے شوہر تھے اور یہ جوڑی 1996ء میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئی تھی۔ روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور 10 سال بعد مقبول فلم ’چندا‘ سے اردو فلموں میں شمولیت اختیار کی۔ روبن گھوش نے پاکستان میں آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ کی موسیقی ترتیب دی تھی۔

    انھوں نے پاکستان میں فلمی دنیا کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ چھے مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔

  • علم کا شیدائی، تدریس کا ماہر برٹرینڈ رسل جسے پابندِ سلاسل کیا گیا

    علم کا شیدائی، تدریس کا ماہر برٹرینڈ رسل جسے پابندِ سلاسل کیا گیا

    برٹرینڈ رسل ایک معلّم، مؤرخ، فلسفی، ادیب اور ماہرِ منطق تھے جو 2 فروری 1970ء کو برطانیہ میں وفات پا گئے تھے۔ برٹرینڈ رسل کی وجہِ شہرت ان کا وہ فلسفہ تھا جس کے مطابق وہ روایتی تعلیم کے بجائے طالبِ علموں کو اختراع اور ایجاد کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے ہیں۔

    وہ تدریسی و تعلیمی نظام میں جدّت اور آزادیٔ اظہار کو اہمیت اور فروغ دینے کے قائل تھے جس کے ذریعے ان کی نظر میں ننھّے ذہنوں میں تخیّل اور اختراع کو بلا رکاوٹ پنپنے کا موقع دیا جاسکتا تھا۔

    علم کے شیدائی اور تدریس کے اس ماہر کا اوّلین عشق ریاضی کا مضمون تھا۔ تعلیمی میدان میں‌ ان کی مہارت صرف اسی مضمون تک محدود نہ تھی بلکہ وہ متعدد علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ برٹرینڈ رسل نے 18 مئی 1876ء انگلستان کے مشہور علاقے ویلز میں آنکھ کھولی۔ وہ کسی معمولی خاندان کا فرد نہیں‌ تھے بلکہ ان کے والد سر جان رسل انگلستان کے وزیرِ اعظم رہے ہیں۔ ان کا گھرانہ کٹّر مذہبی اور طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ویلز سے ہی حاصل کی۔ دولت مند والدین کی زندگی مصروف تھی جس نے انھیں بچپن میں خاصا وقت تنہائی میں‌ کھیل کود کے ساتھ غور و فکر اور سیکھنے سمجھنے کا موقع دیا۔ ان کی ذاتی زندگی کچھ تلخ یادوں اور مشکلات سے بھی گزری، مگر اس نے ان میں‌ وہ شوق اور لگن بھر دی جس کے باعث وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    وہ بچپن سے ہی نہایت ذہین طالب علم تھے۔ 1890ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ پھر اسی یونیورسٹی میں مدرّس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس کے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف پیکنگ (چین)، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریسی مشغلہ ساری عمر رہا۔

    برٹرینڈ رسل کی علمی، ادبی اور فلسفیانہ خدمات کی بات کی جائے تو ان کے غور و فکر، مشاہدات اور تجربات نے ان سے فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشرت، جنگ، امن، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق کئی کتب اور مضامین تحریر کروائے جو آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے مفید اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز تھے جنھوں نے ویتنام کی جنگ میں واشگاف الفاظ میں امریکا کو مطعون کیا۔ انھیں اپنی انسان دوستی کی پاداش میں‌ پابندِ سلاسل بھی رہنا پڑا۔

    برٹرینڈ رسل کو 1950ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ 1967ء میں ان کی آپ بیتی شائع ہوئی جس کا شمار دنیا کی مقبول آپ بیتیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 1970ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کی مخالفت کی اور اسے غاصب قرار دیتے ہوئے مغرب میں انسانیت کا پرچار کرنے والوں میں شمار کیے گئے۔

    وہ دمِ آخر تک لکھنے لکھانے اور اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے میں‌ مصروف رہے۔ وہ کہانی کار بھی تھے، جن کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔