Tag: فروری وفیات

  • مرزا غالب کے بڑے مخالف یگانہ چنگیزی کا تذکرہ

    مرزا غالب کے بڑے مخالف یگانہ چنگیزی کا تذکرہ

    یگانہ چنگیزی یوں تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، لیکن مرزا غالب کی مخالفت کی وجہ سے انھیں‌ خاص شہرت حاصل ہوئی۔ وہ ایک قادرُ الکلام شاعر تھے جس نے اپنے زمانے کے رائج ادبی تصوّرات اور شعری روایات کو مسترد کردیا اور جدید غزل کے لیے راستہ ہموار کیا۔

    بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں‌ پیش کرنے والے یگانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ وہ 17 اکتوبر 1884ء کو صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو ابتدائی زمانے میں یاس تخلّص رکھا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچان بنائی۔ متعدد شہروں میں قیام رہا اور پھر 1904ء میں وہ لکھنؤ ہجرت کرگئے جہاں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    اس دور میں لکھنؤ میں مشاعروں اور ادبی محافل کا انعقاد عام تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ وہ مرزا غالب جیسے مشہور شاعر پر بھی اعتراض اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ تاہم اس سے یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن کی اہمیت کم نہیں‌ ہوتی۔ وہ اردو زبان کے ایسے شاعر ہیں جس نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں تجربات کیے اور اسے نیا راستہ دکھایا۔

    یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    یگانہ لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

    ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

    مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
    ہمیں سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

  • سندھی زبان و ادب کے محقّق ڈاکٹر چندگر بخشانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محقّق ڈاکٹر چندگر بخشانی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کی ہزاروں سال قدیم تہذیب، ثقافت اور اس دھرتی پر علم و ادب کے حوالے سے سرمائے کو اکٹھا کرکے، اپنی تحقیق کے بعد محنت اور لگن سے اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت ایک بڑا کارنامہ ہے جسے انجام دینے والوں میں سے ایک معتبر نام ڈاکٹر ہوت چندگر بخشانی کا بھی ہے۔

    ان کا ایک بڑا کارنامہ سندھ کے عظیم صوفی اور شاعر شاہ عبدُ اللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت یکجا کرنا ہے۔

    ڈاکٹر بخشانی نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت میں جمع کر کے محققانہ چھان بین کے بعد اس طرح مرتّب کیا ہے کہ اب ان کی دی ہوئی ترتیب ہی مستند قرار پائی ہے۔

    ڈاکٹر چندگر بخشانی نے شاہ جو رسالو کی تین جلدیں مرتب کرکے شائع کیں لیکن چوتھی جلد ان کی وفات کی وجہ سے اشاعت پذیر نہ ہوسکی، جسے بعد میں مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مکمل کیا ۔

    ڈاکٹر چندگر بخشانی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ’’لواری جا لال‘‘ نامی کتاب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دراصل سوانحی کتاب ہے جس میں ڈاکٹر گربخشانی نے لواری سلسلے کی بعض شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر گربخشانی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر گربخشانی کو سندھی تنقید کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی 8 مارچ 1884ء کو سندھ کے تاریخی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ 1900ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا اور 1905ء میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ایم اے کے لیے ولسن کالج بمبئی میں داخل ہوئے۔

    1907ء میں ایم اے کرنے کے بعد اسی کالج میں انگریزی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور ایک ہی سال بعد ڈی جے کالج کراچی میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے۔

    یہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔

    1928ء میں ڈاکٹر گربخشانی لندن یونیورسٹی چلے گئے، جہاں Mysticism in the Early 19th Century Poetry of England (انگلستان کی ابتدائی انیسویں صدی کی شاعری میں تصوف) کے عنوان سے مقالہ لکھا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ بعد ازاں ڈاکٹر گربخشانی کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے بھارت سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔

    ڈاکٹر ہوت چند گربخشانی نے ہر چند سندھی ادب میں متنوع اضافے کیے ہیں اور سندھی فکشن میں اپنے کام کی بنیاد پر بھی اپنے ہم عصروں میں انفرادیت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ تحقیق کے آدمی تھے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں نور جہاں، مقدمۂ لطیفی اور روح رھان شامل ہیں۔ انھوں نے سندھی تنقید نگاری کو اپنے اظہار کے لیے ایک خاص زبان اور اسلوب بخشا اور اپنی تخلیقات سے سندھی زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    وہ 11 فروری 1947ء میں حیدرآباد، سندھ میں وفات پا گئے۔

    (محمد عارف سومرو کے مضمون سے)

  • معروف شاعر، لغت نویس اور صحافی نسیم امروہوی کی برسی

    معروف شاعر، لغت نویس اور صحافی نسیم امروہوی کی برسی

    اردو کے معروف شاعر، ماہرِ لسانیات اور صحافی نسیم امروہوی 28 فروری 1987ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق امروہہ سے تھا۔

    نسیم امروہوی کا خاندانی نام سیّد قائم رضا نقوی تھا۔ وہ 24 اگست 1908ء کو ایک علمی اور مذہبی حوالے سے معروف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نسیم امروہوی نے عربی اور فارسی کے علاوہ منطق، فلسفہ، فقہ، علمُ الکلام، تفسیر، حدیث کی تعلیم حاصل کی اور ادب میں مرثیہ گوئی کے لیے مشہور ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ہجرت کرکے آنے والے نسیم امروہوی نے خیر پور کے بعد کراچی میں اقامت اختیار کی اور علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ مشغول ہوگئے۔ انھوں نے غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، گیت اور نظم سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی اصل شناخت مرثیہ نگاری ہے۔ ان کے کہے ہوئے مراثی کی تعداد 200 سے زائد ہے۔

    نسیم امروہوی لسانیات پر مکمل عبور رکھتے تھے، وہ ترقی اردو بورڈ میں اردو لغت کے مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور نسیمُ اللّغات اور فرہنگِ اقبال مرتب کیں۔

    نسیم امروہوی کا ایک مشہور شعر ہے

    یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری
    کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری

  • معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    میجر آفتاب حسن کو سائنسی موضوعات پر اردو زبان کے مصنّف، محقّق اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے علمِ سائنس کے مختلف شعبوں کے حوالے سے مضامین اور تحقیقی کام کا اردو ترجمہ اور سائنسی اصطلاحات سازی میں‌ اہم کردار ادا کیا۔ آج میجر آفتاب حسن کی برسی ہے۔

    میجر آفتاب حسن بازید پور (بہار) میں 16 ستمبر 1909ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں سائنسی شعبے کے سربراہ رہے، بعدازاں اردو سائنس کالج، کراچی کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔

    1960ء سے 1972ء تک جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے سربراہ رہے۔ اس دوران انھوں نے اردو زبان میں سائنسی اصطلاحات سازی اور سائنس و تحقیق کے موضوعات پر کتب کی اشاعت کے لیے نہایت اہم اور قابلِ ذکر کام کیا اور اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    وہ مقتدرہ قومی زبان کے پہلے معتمد بھی تھے۔ میجر آفتاب حسن 26 فروری 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    آج نام وَر نقاد، افسانہ اور ناول نگار ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 26 فروری 1978ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 22 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع پی ایچ ڈی کے لیے چنا اور یوں تعلیمی میدان میں مزید آگے بڑھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے تھے۔

    پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے۔ وہ انگریزی ادب کے ایک مستند استاد ہونے کے علاوہ بلند پایہ ادیب اور نقّاد تھے۔ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا جب کہ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر وں میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے جن میں ان کے فکر کا تنوع اور گہرائی دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کی بات کی جائے تو ان کا شمار صفِ اوّل کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں انھوں نے اپنی جو کتب یادگار چھوڑی ہیں‌، ان میں اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخ انگریزی ادب سرفہرست ہیں۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    کوئٹہ میں وفات پانے والے ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کو کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی

    کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی

    آج پاکستان کی مشہور مغنیہ اور کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی ہے۔ وہ 25 فروری 1982ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ مختار بیگم ہندوستانی شیکسپیئر کہلانے والے ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر کاشمیری کی شریکِ حیات تھیں۔ گلوکاری کے میدان میں ان کے شاگردوں میں فریدہ خانم، نسیم بیگم کے علاوہ اداکارہ رانی بھی شامل تھیں۔

    مختار بیگم 1911ء میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد غلام محمد موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے اور خود بھی بہت اچھا ہارمونیم بجاتے تھے۔ انہوں نے مختار بیگم کو کلاسیکی موسیقی کی تربیت دلوانے کے لیے پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار استاد عاشق علی خان کی شاگردی میں دے دیا۔ بعدازاں مختار بیگم نے استاد اللہ دیا خان مہربان، استاد فتو خان، پنڈت شمبھو مہاراج اور پنڈت مچھو مہاراج سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔

    مختار بیگم ٹھمری، دادرا اور غزل گائیکی پر یکساں عبور رکھتی تھیں۔ ان کے فن کی معترف اور عقیدت مندوں میں ملکہ ترنم نور جہاں بھی شامل تھیں۔

    مختار بیگم کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • صاحبُ السیف والقلم خوش حال خان خٹک کا یومِ وفات

    صاحبُ السیف والقلم خوش حال خان خٹک کا یومِ وفات

    پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار زنی اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک جنگجو اور آزادی کے متوالے کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ پانچ صدی قبل 25 فروری 1689ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے، لیکن اپنی شاعری اور جذبہ حریّت کے سبب آج بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے پشتو ادب میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ اسی سبب وہ صاحبُ السّیف والقلم بھی کہلائے۔

    خوش حال خان خٹک 1613ء میں پشاور کے نزدیک ایک گائوں اکوڑہ میں پیدا ہوئے۔ اوائلِ عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے۔ مغل دور میں شاہ جہاں نے ان کا حقِ سرداری قبول کیا، مگر اورنگزیب نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے اس کے خلاف علمِ حرّیت بلند کیا جس کے بعد وہ گرفتار کیے گئے اور قید کاٹی۔

    رہائی کے بعد انھوں نے جھڑپوں اور لڑائیوں کے دوران مغل فوج کو متعدد بار شکست سے دوچار کیا۔ اس پر اورنگزیب خود ان کی سرکوبی کے لیے آیا اور اس موقع پر انھیں شکست ہوئی۔

    خوش حال خان خٹک نے تقریباً چالیس ہزار اشعار یادگار چھوڑے جن میں تغزل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ غالب ہے۔ بیش تَر کلام رجزیہ ہیں۔ ان کے اشعار میں جوش و ولولہ، آزادی کا موضوع اور مغلوں کی مخالفت پڑھنے کو ملتی ہے۔ خوش حال خان خٹک پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات نے بہت کچھ لکھا اور ان کی شاعری اور فکر و نظریہ پر تحقیق کے بعد کئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ پشتو کے اس مشہور شاعر کا مدفن اکوڑہ خٹک میں ہے۔

  • مشہور ناول نگار اے آر خاتون کا یومِ وفات

    مشہور ناول نگار اے آر خاتون کا یومِ وفات

    24 فروری 1965ء کو اردو کی نام وَر ناول نگار اے آر خاتون اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ ان کا اصل نام امت الرّحمٰن خاتون تھا۔ اے آر خاتون کے متعدد ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا جو بے حد مقبول ہوئے۔

    اے آر خاتون کا تعلق دہلی سے تھا جہاں‌ وہ 1900ء میں پیدا ہوئیں۔ انھیں ابتدائی عمر ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور گھر پر اپنی تعلیم مکمل کرنے والی اے آر خاتون نے اپنے شوق اور ادب میں دل چسپی کو مضمون نگاری کی شکل میں دوسروں کے سامنے رکھا۔ اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر ان کے مضامین معروف رسالہ عصمت میں شایع ہونے لگے۔

    1929ء میں ان کا پہلا ناول شمع منظرِ عام پر آیا جسے برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور اقدار کے پس منظر میں‌ اور اس کے طرزِ تحریر کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔ اسی ناول کی مقبولیت نے انھیں مزید لکھنے پر آمادہ کیا اور پھر ایک ناول تصویر شایع ہوا جو قارئین میں مقبول ہوا۔ اس کے بعد اے آر خاتون نے افشاں، چشمہ، ہالا جیسے ناول لکھے جنھوں نے ہر سطح پر مقبولیت حاصل کی اور ان کا خوب چرچا ہوا۔

    اے آر خاتون نے برصغیر کے مسلمان معاشرے کی جھلکیاں اور تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے بناؤ اور بگاڑ کو خاندانوں اور معاشرے کے مختلف کرداروں کے ذریعے اپنے قارئین کے سامنے رکھا اور یہی ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور یہاں‌ بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پی ٹی وی نے اے آر خاتون کے ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جنھیں ہر خاص و عام اور ہر طبقے کے ناظرین نے نہایت پسند کیا اور یہ کہانیاں مقبول ثابت ہوئیں۔

  • ’ٹو کِل اے ماکنگ برڈ‘ کی خالق ہارپر لی آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئی تھیں

    ’ٹو کِل اے ماکنگ برڈ‘ کی خالق ہارپر لی آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئی تھیں

    ’ٹو کل اے ماکنگ برڈ‘ وہ مشہور ناول ہے جس کی مصنف ہارپر لی 55 سال تک دنیائے ادب میں اپنے اسی ناول کے سبب پہچانی جاتی رہیں اور خوب پذیرائی حاصل کی۔ 19 فروری 2016ء کو اس امریکی ناول نگار نے 89 سال کی عمر میں‌ یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ’ٹو کِل اے موکنگ برڈ‘ جدید ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے 1961ء میں ادب کا پلٹزر پرائز بھی ملا اور اس کے اب تک چار کروڑ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ ہارپر لی کے اس ناول پر فلم بنائی گئی جس نے 1962ء میں تین آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    عالمی شہرت یافتہ ہارپر لی کی زندگی اکثر لوگوں‌ کے لیے معمہ رہی ہے۔ وہ بہت کم منظرِ عام پر آئیں۔ انھیں‌ ادبی تقریبات میں‌ دیکھا گیا اور نہ ہی انھوں‌ نے ملکی یا غیر ملکی ادبی جرائد یا میڈیا پر ان کا انٹرویو پڑھا گیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس شہرت اور بے حد پذیرائی کے باوجود پہلے کی ناول کی اشاعت کے 55 سال بعد تک ان کی کوئی کتاب سامنے نہیں‌ آئی تھی، اور پھر اپنی وفات سے ایک سال قبل انھوں نے اپنے نئے ناول ’گو سیٹ اے واچ مین‘ کی اشاعت کا اعلان کیا۔

    ہارپر لی کا ناول ’ٹو کل اے ماکنگ برڈ‘ وہ تصنیف ہے جو امریکا میں‌ اسکول میں، ادب کے شعبے میں اور مسلسل ان کتابوں کی فہرست میں شامل رہی ہے جو مطالعے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہیں۔

    ان کا پورا نام نیل ہارپر لی تھا، وہ امریکی ریاست الاباما کے شہر مونروویل میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک اخبار کے مدیر اور پروپرائٹر تھے۔

    ہارپر لی نے یونیورسٹی آف الاباما سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ 2006ء میں انھیں ناٹرڈیم یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جب کہ اس کے ایک سال بعد امریکا میں‌ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدراتی ایوراڈ آف فریڈم سے نوازا گیا۔

  • جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    آج جہانِ سخن میں ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات ہے جو زود گو اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے والے ان شعرا میں‌ سے ہیں‌ جنھوں‌ نے غزل کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر نہایت خوب صورت نظمیں کہیں اور ادب میں بڑا نام پیدا کیا۔

    صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ شعروسخن کی طرف مائل ہوئے۔

    صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمہ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے حمد و نعت کے علاوہ غزل، نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ انھیں پاکستانی ادب کے معماروں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    صہبا اختر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    اس نام وَر شاعر کو کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔