Tag: فروری وفیات

  • لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے نام ور اداکار آغا طالش کی برسی ہے۔ وہ 19 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے اپنی شان دار اداکاری کی بدولت پاکستان فلم نگری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعدد طالش نے ریڈیو پشاور سینٹر سے عملی زندگی میں‌ قدم رکھا اور پھر فلم کی طرف آگئے تھے۔

    ان کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم سے قبل انھوں نے بمبئی میں بننے والی ایک فلم میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان میں آغا طالش نے بڑے پردے پر مختلف کردار نبھائے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امرائو جانِ ادا سرفہرست ہیں جو اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں۔ انھوں نے اردو زبان میں بننے والی فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں‌ نے کئی فلموں‌ میں‌ منفی کردار بھی ادا کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ باکمال اداکار لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • پشتو کے نام ور شاعر اور ادیب امیر حمزہ خاں شنواری کی برسی

    پشتو کے نام ور شاعر اور ادیب امیر حمزہ خاں شنواری کی برسی

    قومی زبان کے علاوہ پاکستان میں مقامی زبانوں میں بھی تخلیق کاروں اور اہلِ‌ قلم نے نثر و نظم دونوں اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے اس حوالے سے پشتو زبان و ادب کی بات کی جائے تو ایک اہم نام امیر حمزہ خاں شنواری کا ہے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ پشتو کے ممتاز شاعر اور ادیب تھے۔ انھوں نے 18 فروری 1994ء کو وفات پائی۔

    امیر حمزہ خاں شنواری ستمبر 1907ء میں خوگا خیل، لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان میں ادب کی مختلف اصناف پر کام کیا اور ان کی کئی نثری اور شعری کتب شایع ہوئیں‌۔ ان میں تجلیاتِ محمدیہ، وجود و شہود، جبر و اختیار، انسان اور زندگی اور نوی چپی اور شعری مجموعوں میں غزونے، پیروونے، یون، سلگی، بھیر، سپرلے پہ آئینہ کے، صدائے دل اور کلیاتِ حمزہ شامل ہیں۔ انھوں نے اردو میں‌ بھی شاعری کی ہے، لیکن جلد پشتو غزل گوئی اور دیگر اصنافِ سخن کی طرف مائل ہو گئے تھے۔

    امیر حمزہ خاں شنواری نے سفر نامے بھی تحریر کیے جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ انھوں نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال، نام ور شاعر صبا اکبر آبادی کے کلام کو پشتو میں‌ منتقل کیا اور مشہور صوفی شاعر رحمٰن بابا پر بھی مضامین اور ان کے کام کو اکٹھا کرکے پشتو میں کتابی شکل میں پیش کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے امیر حمزہ خاں شنواری کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • معروف شاعر اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی

    معروف شاعر اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب شبنم رومانی 17 فروری 2009ء کو وفات پاگئے تھے آج ان کی برسی منائی جارہی ہے

    30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور میں پیدا ہونے والے شبنم رومانی کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی تھا۔ شبنم ان کا تخلص تھا۔ بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ یہاں تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ کالم نگاری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔

    طویل عرصے تک روزنامہ مشرق میں ہائیڈ پارک کے نام سے ان کے ادبی کالم شایع ہوتے رہے تھے اور اسی نام سے کالموں کا مجموعہ بھی منظرِ عام پر آیا۔ شبنم رومانی نے 1989ء میں ادبی جریدہ اقدار جاری کیا جو ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔

    شبنم رومانی کے شعری مجموعے مثنوی سیرِ کراچی، جزیرہ، حرفِ نسبت، تہمت اور دوسرا ہمالا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ شبنم رومانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے

    غزل
    میرے پیار کا قصّہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند
    تُو کس دھن میں غلطاں پیچاں کس نشے میں چور ہے چاند

    تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا
    تُو صدیوں سے اہلِ زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

    اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہِ کامل کہتے ہیں!
    تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند

    تیرے رُخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں
    تیری منزل پاس آ پہنچی میری منزل دور ہے چاند

    کوئی نہیں ہم رازِ تمنّا کوئی نہیں دم سازِ سفر
    راہِ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

    تیری تابش سے روشن ہیں گُل بھی اور ویرانے بھی
    کیا تُو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند

  • عہد آفریں شاعر مرزا غالب کا یومِ وفات

    عہد آفریں شاعر مرزا غالب کا یومِ وفات

    آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کا یومِ وفات ہے۔ 15 فروری 1869ء کو غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    غالب نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں‌ شاعری کی اور جہاں وہ اپنے رنگِ سخن، اندازِ بیان کے سبب اپنے ہم عصر شعرا میں‌ نمایاں‌ ہوئے، وہیں ان کے اشعار ہر خاص و عام میں اس درجہ مقبول ہوئے کہ غالب آج بھی گویا زندہ ہیں۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کا سبب ان کے کلام کی وہ سادگی ہے جسے ان کے ندرتِ خیال نے نہایت دل نشیں بنایا دیا ہے۔

    غالب بحیثیت نثار بھی اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں اور خاص طور پر ان کے خطوط کا شہرہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انھوں نے نثر کو ایک نیا آہنگ اور اسلوب دیا۔ اس زمانے میں خطوط نگاری پُرتکلف القاب و آداب، مقفع اور مسجع زبان میں کی جاتی تھی، لیکن مرزا غالب نے اپنے دوستوں اور مختلف شخصیات کو لکھے گئے خطوط میں سادہ اور عام زبان کے ساتھ دل چسپ انداز اختیار کیا اور گویا ’’مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔‘‘

    مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 13 برس کی عمر میں شادی ہوئی، اولاد کی خوشیاں نصیب نہ ہوئیں جس کا بہت دکھ تھا۔ شادی کے بعد غالب دلّی چلے آئے تھے جہاں اپنی ساری عمر بسر کی۔

    غالب نے تنگ دستی اور عسرت میں گزاری، مگر نہایت خود دار تھے۔ کسی نہ کسی طرح بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی اور ان کے استاد مقرر ہوئے۔ وظیفہ پایا اور دربار سے نجم الّدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔

    غدر کے بعد والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب کا کلام اس زمانے کی ہر مشہور مغنیہ نے گایا اور بعد کے برسوں‌ کلاسیکی گائیکی سے جدید موسیقی تک غالب کی غزلیں ہر دور کے نام ور گلوکاروں
    نے گائیں۔ مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    ان کی ایک مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

    میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
    کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
    غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

    سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
    ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

    ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

    ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
    اور درویش کی صدا کیا ہے

    جان تم پر نثار کرتا ہوں
    میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

    میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
    مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

  • سندھ کے معروف لوک گلوکار محمد یوسف کی برسی

    سندھ کے معروف لوک گلوکار محمد یوسف کی برسی

    محمد یوسف سندھ دھرتی کے معروف لوک گلوکار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 14 فروری 1997ء کو وفات پاگئے تھے۔ محمد یوسف کا تعلق جس گھرانے سے تھا، اس میں‌ ان کے علاوہ بھی موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے متعدد شخصیات نے نام و مرتبہ حاصل کیا۔ خود محمد یوسف کے والد لونگ خان بھی لوک گائیکی میں‌ معروف اور استاد مشہور ہوئے۔

    محمد یوسف حیدر آباد سندھ میں‌ 14 جنوری 1940ء کو پیدا ہوئے۔ والد کے علاوہ ان کے خاندان میں‌ موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے استاد زوار بسنت بہت مشہور تھے۔ محمد یوسف بھی اس فن میں‌ دل چسپی لینے لگے اور موسیقی کی تربیت گوالیار گھرانے کے مشہور موسیقار استاد امید علی خان اور استاد منظور علی خان سے حاصل کی۔

    وہ سندھی غزل اور ہر خاص و عام میں‌ مقبول صنف کافی گانے کے لیے مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام بھی گایا اور عوامی مقبولیت کے ساتھ اپنی گائیکی پر متعدد اعزازات بھی حاصل کیے۔

    محمد یوسف کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا تھا۔ سندھ کے اس معروف لوک گلوکار کو ان کی وفات کے بعد کوٹری، ضلع دادو میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص سردار عبدالرّب نشتر کا یومِ وفات

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص سردار عبدالرّب نشتر کا یومِ وفات

    سردار عبدالرّب نشتر کا شمار مسلمانانِ ہند کے ان راہ نماؤں میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے اپنے فہم و فراست اور سیاسی سوجھ بوجھ سے آزادی کی تحریک میں‌ اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ آج اس مدبّر اور مسلمانوں‌ کے عظیم راہ نما کا یومِ وفات ہے۔

    سردار عبدالرّب نشتر مسلمانوں کا درد رکھنے والے ایک ایسے راہ نما تھے جنھیں قائدِ اعظم کی رفاقت اور ان کے قابلِ اعتماد ساتھی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی کابینہ کا حصّہ بنے اور پنجاب کے گورنر رہے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز پر ہی جان لیا تھا کہ ہندو، مسلمانوں کے ساتھ تعصب ختم نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور جدوجہدِ آزادی میں‌ عملی طور پر حصّہ لینے لگے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے ہوا، مگر ہندوؤں کے عزائم اور مسلمانوں‌ سے ان کے تعصب کو دیکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔ وہ اہم سیاسی تحریکوں اور فیصلوں کے دوران اپنے مؤقف کا بے لاگ اظہار کرتے رہے۔ 1946ء میں متحدہ ہندوستان کی عارضی حکومت میں انھوں نے وزارتِ مواصلات کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دیگر اکابرین اور راہ نماؤں کے ساتھ مل کر ذمہ داریاں‌ نبھائیں۔

    14 فروری 1958ء کو تحریکِ پاکستان کے اس عظیم راہ نما نے کراچی میں وفات پائی۔ سردار عبدالرّب نشتر قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے مزارات کے نزدیک احاطے میں‌ مدفون ہیں۔

  • دلِ احباب میں گھر رکھنے والے چکبست لکھنوی کا یومِ وفات

    دلِ احباب میں گھر رکھنے والے چکبست لکھنوی کا یومِ وفات

    12 فروری 1926ء کو اردو کے مشہور شاعر پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعری ہی نہیں‌ نثر پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعہ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    چکبست کا یہ شعر بھی مشہور ہوا۔

    زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    یہاں‌ ہم چکبست کی ایک غزل آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    میر رحیم داد خان کو جہانِ علم و ادب میں مولائی شیدائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 12 فروری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ مولائی شیدائی سندھی زبان کے معروف ادیب، مؤرخ، مترجم اور صحافی تھے۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں 1894ء میں پیدا ہونے والے رحیم داد خان لکھنے پڑھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی تھی۔ ریلوے میں ملازم ہوئے اور یوں کسبِ معاش سے بے فکر ہوگئے۔ مولائی شیدائی نے اپنے پہلے مضمون کی اشاعت کے بعد باقاعدہ قلم تھام لیا اور تصنیف کی طرف آگئے۔ ان کا پہلا مضمون 1934ء میں شایع ہوا تھا جس کا عنوان ممتاز محل تھا۔

    یہ مضمون اس زمانے کے علم و ادب میں ممتاز مولانا دین محمد وفائی کی نظر سے گزرا تو انھوں نے مولائی شیدائی کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں باقاعدہ لکھنے کے لیے کہا۔ دین محمد وفائی نے ان کی راہ نمائی اور اصلاح بھی کی۔ یوں رحیم داد خان نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔

    1939ء میں ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد مولائی شیدائی نے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور سندھی کے کئی معروف جرائد کی ادارت کی۔

    مولائی شیدائی نے کئی قابلِ ذکر اور اہم موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان میں جنّتِ سندھ، تاریخِ بلوچستان، تاریخِ تمدنِ سندھ، تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخِ بھکر، روضہ سندھ، تاریخِ قلات اور اسی نوع کی علمی و تحقیقی کتب شامل ہیں۔

  • ہاکی کے مشہور کھلاڑی تنویر ڈار کی برسی

    ہاکی کے مشہور کھلاڑی تنویر ڈار کی برسی

    تنویر ڈار کا شمار اپنے دور کے ہاکی کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ وہ 11 فروری 1998ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ کھیل کے میدان میں پنالٹی کارنر ان کی وجہِ شہرت ہیں۔

    ہاکی کے اس مشہور پاکستانی کھلاڑی کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں وہ 4 جون 1937ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اپنے بڑے بھائی منیر ڈار کی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد تنویر ڈار پاکستان کی ہاکی ٹیم کے مستقل فل بیک بن گئے۔ انھوں نے 1968ء کے اولمپکس، 1970ء کے ایشیائی کھیلوں اور 1971ء کے عالمی کپ میں زبردست کھیل کا مظاہرہ کیا۔ ان تینوں ٹورنامنٹس میں پاکستان نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔

    تنویر ڈار نے مجموعی طور پر 80 بین الاقوامی سطح کے میچ کھیلے اور 48 گول اسکور کیے۔ 1971ء کے عالمی کپ میں انھوں نے تین ہیٹ ٹرکس اسکور کیں اور ریکارڈ بنایا۔

    14 اگست 1971ء کو انھیں‌ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • معروف اداکار قاضی واجد کی تیسری برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف اداکار قاضی واجد کی تیسری برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف اداکار قاضی واجد 11 فروری 2018ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اس نام وَر اور باکمال فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔ زندگی کی 88 بہاریں دیکھنے والے قاضی واجد دل کا دورہ پڑنے کے سبب انتقال کرگئے تھے۔

    قاضی واجد نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہی نہیں فلم اور تھیٹر پر بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شائقین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا جہاں‌ بچّوں کے پروگرام سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنے کے بعد اسی میڈیم پر نشر کیے جانے والے ڈراموں میں متعدد کردار نبھائے اور شہرت حاصل کی۔ جب 60 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو قاضی واجد اس سے منسلک ہو گئے۔

    1969ء میں ٹیلی ویژن کی تاریخ کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’خدا کی بستی‘ شروع ہوا تو اس میں قاضی واجد نے راجہ نامی بدمعاش کا کردار ادا کیا جس نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی۔

    قاضی واجد نے ٹیلی ویژن پر کئی ڈراموں میں‌ مختلف قسم کے کردار ادا کیے، لیکن ان کے حصّے میں زیادہ تر منفی کردار آئے۔ سنجیدہ کرداروں کے ساتھ قاضی واجد نے بعض ڈراموں میں‌ مزاحیہ رول بھی ادا کیے۔

    1988 میں قاضی واجد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ڈراما ‘دھوپ کنارے،’ ‘تنہائیاں، ’حوّا کی بیٹی،‘ ‘خدا کی بستی’ اور ‘انار کلی’ میں انھوں نے بے مثال اور لاجواب اداکاری سے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ پاکستان بھر میں ان کی شخصیت اور فن کے مداح و معترف موجود ہیں جن کے دلوں میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔