Tag: فروری وفیات

  • برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    آج برصغیر کی مشہور مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا تھا۔ کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے اور جو بھی وہ گنگناتیں، ذہنوں میں نقش ہو جاتا۔ ملکہ پکھراج ان پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جنھیں پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔ وہ پاکستان میں پہاڑی راگ گانے کے حوالے سے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ نمایاں‌ تھیں۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل، بھجن اور لوک گیتوں میں‌ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور خاص طور پر فنِ موسیقی اور ساز و آواز کے ماہروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے اور اردو کے مشہور ناول جھوک سیال کے خالق تھے۔ ان کی صاحب زادی طاہرہ سیّد بھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ ہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔

  • مقبول و معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی برسی

    مقبول و معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی برسی

    آج اردو کی معروف ناول نگار، افسانہ اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے۔ راجہ گدھ ان کا وہ ناول ہے جس کا شمار اردو کے مقبول ترین نالوں میں ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بھی متعدد ڈرامے لکھے جنھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو زبان کی معروف ادیب بانو قدسیہ کا تعلق مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے تھا جہاں انھوں نے 28 نومبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ انھوں نے کنیئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وہ پاکستان کے مشہور و معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں۔

    بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری کے طور پر جانی جاتی ہیں جنھوں نے 1981 میں ’راجہ گدھ‘ لکھا تھا۔ اس مقبولِ عام ناول کے چودہ سے زائد ایڈیشن شایع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو درجن سے زیادہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جن میں ناول، افسانے، مضامین اور سوانح شامل ہیں۔ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل اور حاصل گھاٹ جیسی کہانیاں ان کی پہچان بنیں۔ بانو قدسیہ نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘, ’خانہ بدوش‘, ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔

    ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے بانو قدسیہ کو تمغۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ وہ چار فروری 2017ء کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔

  • اُمِّ کلثوم کی برسی جنھیں صوۃُ العرب اور بنتِ نیل کہا جاتا ہے

    اُمِّ کلثوم کی برسی جنھیں صوۃُ العرب اور بنتِ نیل کہا جاتا ہے

    مشرقِ وسطیٰ میں گلوکارہ اُمِّ کلثوم کو لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ انھیں ‘بنتِ نیل’، ‘کوکبِ مشرق’، ‘بلبلِ صحرا’ اور ‘صوۃُ العرب’ جیسے خطابات اور متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ 3 فروری 1975ء کو اس عظیم گلوکارہ نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اُمِّ کلثوم کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق مصر سے تھا جہاں انھوں نے 31 دسمبر 1898ء کو ایک کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے موسیقی اور گلوکاری کا شوق رکھتی تھیں۔ انھوں‌ نے عرب کلاسیکی موسیقی میں مہارت حاصل کی اور 1920ء کی دہائی میں ان کی آواز کو پہچانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ عرب دنیا کی مقبول گلوکارہ بن گئیں۔ 1934ء میں ریڈیو قاہرہ سے ایک پروگرام نشر ہوا اور اس کے بعد ان کی آواز عرب دنیا میں گونجنے لگی۔

    امِّ کلثوم نے بدوئوں اور دیہاتیوں کے لوک گیت اور کہانیاں سنی تھیں، ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تھا اور ثقافت سے آشنا تھیں۔ انھوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں عرب کلاسیکی موسیقی کا انتخاب کیا اور قدیم اور کلاسیکی راگوں میں لوک گیتوں کو اپنی آواز میں‌ یوں پیش کیا کہ وہ امر ہوگئے۔

    امِّ کلثوم نے ان گیتوں کی بدولت لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے مداحوں میں مصر ہی نہیں عرب دنیا کے خاص و عام اور ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔ اس گلوکارہ کو مصر کا سب سے بڑا اعزاز ‘الکمال’ عطا کیا گیا اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    اس گلوکارہ نے علامہ اقبال کی نظموں شکوہ، جوابِ شکوہ کا عربی ترجمہ بھی گایا تھا جس پر حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اس عظیم گلوکارہ کے جنازے میں‌ لاکھوں افراد شریک ہوئے۔

  • پاک و ہند کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا خان کی برسی

    پاک و ہند کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا خان کی برسی

    3 فروری 2000ء کو پاک و ہند کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا خان قریشی وفات پاگئے تھے۔ استاد اللہ رکھا خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں کی سنگت میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    استاد اللہ رکھا خان 29 اپریل 1919ء کو جمّوں میں پیدا ہوئے تھے۔ 12 برس کی عمر میں طبلہ بجانے کی تربیت کا آغاز کیا۔ وہ نام ور طبلہ نواز میاں قادر بخش کے شاگرد تھے۔

    استاد اللہ رکھا خان نے اپنے اس فن کے پیشہ ورانہ مظاہرے کا آغاز آل انڈیا ریڈیو، لاہور اسٹیشن سے کیا تاہم بعد میں بمبئی اسٹیشن میں بطور اسٹاف آرٹسٹ ملازم ہوگئے۔ 1943ء سے 1948ء کے دوران وہ فلمی دنیا سے بھی منسلک رہے اور بعد میں مشہور موسیقاروں کی سنگت شروع کی۔ استاد اللہ رکھا خان نے نام ور موسیقاروں جن میں استاد بڑے غلام علی خان، استاد علاء الدین خان، استاد وسنت رائے اور نام ور ستار نواز استاد روی شنکر شامل ہیں، کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    طبلہ نوازی کے فن کو مقبول بنانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے صاحب زادے استاد ذاکر خان بھی اس فن میں‌ طاق ہوئے اور ان کا شمار مقبول طبلہ نوازوں میں ہوا۔

    استاد اللہ رکھا خان نے ممبئی میں‌ وفات پائی۔

  • لفظ ‘پاکستان’ کے خالق چودھری رحمت علی کا یومِ وفات

    لفظ ‘پاکستان’ کے خالق چودھری رحمت علی کا یومِ وفات

    لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی 3 فروری 1951ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    چودھری رحمت علی 16 نومبر 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلی مرتبہ 1915ء میں انھوں‌ نے اسلامیہ کالج لاہور میں بزمِ شبلی کے افتتاحی اجلاس کے دوران ہندوستان کے شمالی علاقوں کو مسلم ریاست میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

    وہ ہندوستان کے نہایت متحرک اور فعال سیاست دان اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ تھے جو اپنے قول و فعل، قانون اور قلم کے میدان میں آزادی کا نعرہ بلند کیا اور اس حوالے سے ہر فورم پر متحرک رہے۔

    28 جنوری 1933ء کو چودھری رحمت علی کا مشہور کتابچہ لندن میں شایع ہوا جس کا عنوان Now or never (اب یا کبھی نہیں) تھا اور اس میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گویا اسی روز برِّصغیر کے مسلمان اور ہندوستان میں‌ بسنے والی دیگر اقوام بھی لفظ “پاکستان” سے آشنا ہوئے۔ یہ چار صفحات پر مشتمل کتابچہ تھا۔

    برطانیہ اور ہندوستان کے طول و عرض میں اس کتابچے کا بہت چرچا ہوا اور پھر 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو ان کے خواب کی تعبیر پاکستان کی شکل میں مل گئی، لیکن چودھری رحمت علی اس کی جغرافیائی حیثیت سے مطمئن نہ تھے۔ وہ پاکستان آئے مگر یہاں سیاسی اور نظریاتی بنیاد پر اختلافات اور بعض باتوں سے مایوس ہو کر انگلستان لوٹ گئے جہاں 1951ء میں بیمار ہوئے اور انتقال کیا۔

  • اردو کے ممتاز محقّق اور مضمون نگار ابو سلمان شاہ جہاں پوری انتقال کرگئے

    اردو کے ممتاز محقّق اور مضمون نگار ابو سلمان شاہ جہاں پوری انتقال کرگئے

    اردو زبان کے نام وَر محقّق، مضمون نگار، سوانح و تذکرہ نگار ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری آج کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 80 برس تھی۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا اور وہ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور ان کے علمی و ادبی کارناموں پر سند مانے جاتے ہیں جو اس حوالے سے اپنی تصانیف کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔ آپ نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی اس نابغہ روزگار شخصیت کی زندگی اور تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر اتنا وقیع کام کیا جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔

    ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں آپ پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد سے بہت متاثر تھے اور انھیں‌ اپنی تحقیق کا موضوع بنائے رکھا جس کی بنا پر آپ کو ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔

    آپ 1940ء میں شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی) میں محمد حسین خان کے ہاں پیدا ہوئے، جنھوں‌ نے آپ کا نام تصدق حسین خان رکھا اور جب آپ نے قلمی سفر شروع کیا تو ابو سلمان الہندی کے نام سے خود کو متعارف کروایا۔ آپ نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

    پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔

    1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

  • اردو زبان کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات

    اردو زبان کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات

    2 فروری 2002ء اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات ہے۔ ناول، افسانہ، سفر نامے کے علاوہ انھوں نے مزاح نگاری میں نام و مقام بنایا۔ محمد خالد اختر کو ان کے ناول ‘چاکیواڑہ میں وصال’ سے بہت شہرت ملی۔

    23 جنوری 1920ء کو الہ آباد تحصیل لیاقت پور، ضلع بہاولپور میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کے چند مضامین پہلی مرتبہ ایک ماہنامہ میں شایع ہوئے تھے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یوں انھوں نے باقاعدہ ادبی سفر کا آغاز کیا۔

    ان کی تصانیف میں ان کا ناول چاکیواڑہ میں وصال سرِفہرست ہے جسے اس کے اسلوب کے باعث نام ور شاعر فیض احمد فیض نے اردو کا اہم ترین ناول قرار دیا تھا۔

    محمد خالد اختر کی تصانیف میں کھویا ہوا افق، مکاتبِ خضر، چچا عبدالباقی، لالٹین اور دوسری کہانیاں سمیت سفر نامے، مضامین اور ترجمے شامل ہیں۔ 2001ء میں انہیں دوحہ قطر میں عالمی اردو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    جلیل قدوائی کو دنیائے ادب میں شاعر، افسانہ نگار، محقّق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔

    آج اس معروف ادیب و شاعر کا یومِ‌ وفات ہے۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید بھی لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر لازوال کردار نبھانے والے ظہور احمد کی برسی

    اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر لازوال کردار نبھانے والے ظہور احمد کی برسی

    پاکستان میں اسٹیج اور ریڈیو کے معروف فن کار اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی شان دار اداکاری کے سبب شہرت حاصل کرنے والے ظہور احمد یکم فروری 2009ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ظہور احمد 1934ء کو ناگ پور، ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تھیٹر پر اپنی شان دار پرفارمنس سے پہچان بنائی اور اسٹیج ڈراموں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور جب پی ٹی وی کا قیام عمل میں آیا تو 60 اور 70 کی دہائی میں ان کا شمار اس میڈیم کے مصروف اداکاروں میں‌ ہونے لگا۔

    انھوں نے مشہور ڈراما سیریز خدا کی بستی کا وہ اہم کردار ادا کیا جو ان کی شناخت بن گیا۔ اس ڈرامے میں انھوں نے نیاز کباڑیے کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ ناظرین اسے آج تک فراموش نہیں‌ کرسکے۔ ظہور احمد نے نظام سقّہ اور نور الدین زنگی کے کرداروں سے بھی خوب شہرت حاصل کی۔ ڈراما آخری چٹان اور چنگیز خان میں انھوں نے اعلیٰ درجے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں تاریخی کھیل تھے جنھیں ناظرین نے بہت پسند کیا اور ظہور احمد کو زبردست پذیرائی ملی۔

    ظہور احمد کے پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈراموں میں دیواریں، پردیس اور آہن بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس باکمال اداکار نے بعد میں چند فلمیں بھی کیں جن میں ہیرا اور پتھر، ارمان، بادل اور بجلی، شہر اور سائے، مسافر شامل ہیں۔

    ظہور احمد اسلام آباد میں مدفون ہیں۔

  • معروف اداکار نور محمد لاشاری کی برسی

    معروف اداکار نور محمد لاشاری کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار نور محمد لاشاری یکم فروری 1997ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا شمار پی ٹی وی کے سینئر اداکاروں‌ میں‌ ہوتا تھا۔ انھوں نے کئی ڈراموں میں‌ بے مثال اداکاری کی اور ان کے نبھائے ہوئے کردار پی ٹی وی کی تاریخ میں لازوال اور یادگار ثابت ہوئے۔

    نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے محکمہ تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

    نور محمد لاشاری نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستہ رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے صدا کاری کے میدان میں‌ خود کو منوایا اور سامعین میں مقبول ہوئے۔

    ملک میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے کراچی اسٹیشن کے لیے انھوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے چھوٹی اسکرین پر اداکاری کا آغاز کیا۔ نور محمد لاشاری نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں‌ لازوال کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ دو درجن سندھی اور اردو فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کا مکالموں کی ادائیگی کا مخصوص انداز، لب و لہجہ اور ایک خاص ٹھہراؤ ان کے کرداروں‌ میں‌ ایسی جان ڈال دیتا تھا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا۔

    جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی جیسے پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں نور محمد لاشاری نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ 1993ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    نور محمد لاشاری کی آخری آرام گاہ منگھو پیر قبرستان میں ہے۔