Tag: فرینک میکورٹ

  • فرینک میکورٹ:‌ وہ مصنّف جن کی پہلی کتاب ہی شاہکار ثابت ہوئی

    فرینک میکورٹ:‌ وہ مصنّف جن کی پہلی کتاب ہی شاہکار ثابت ہوئی

    فرینک میکورٹ ایسے خوش نصیب قلم کار ہیں‌ جن کی پہلی تخلیقی کاوش ہی شاہکار قرار پائی۔ وہ صرف ’بیسٹ سیلر‘ نہیں ثابت ہوئی بلکہ اس پر فرینک میکورٹ کو پلٹزر انعام بھی دیا گیا۔

    ایک مصنّف کی حیثیت سے فرینک میکورٹ کا نام دنیا بھر میں ان کی کتاب ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) کی وجہ سے آج بھی لیا جاتا ہے جو دراصل ان کے بچپن کے واقعات اور یادوں پر مبنی ہے۔ میکورٹ کی یہ تصنیف امریکہ میں اشاعت کے بعد قارئین کی دل چسپی اور توجہ کا مرکز بن گئی اور پھر اسے آئرلینڈ سے شایع کیا گیا اور وہاں بھی ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ اس زبردست پذیرائی نے نہ صرف میکورٹ کو شادمانی اور مسرت سے ہمکنار کیا بلکہ ان کی شہرت عالمی ادب میں ہونے لگی۔

    امریکی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں فرینک میکورٹ نے 19 اگست 1930ء کو آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا اور وہاں عوام کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میکورٹ کا خاندان آئرلینڈ منتقل ہوگیا۔ وہیں فرینک میکورٹ نے اپنی کتاب لکھی جس میں امریکہ کے اقتصادی بحران اور اپنی ہجرت کے واقعات کو دردمندی سے بیان کرتے ہوئے انھوں‌ نے ایک نئی سرزمین پر اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے کے دنوں کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ فرینک میکورٹ 19 جولائی 2009ء کو چل بسے تھے۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    امریکہ چھوڑنے کے بعد فرینک کا خاندان آئرلینڈ کی ایک بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں ان کے والدین کو غربت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اپنے والدین کی زندگی اور جسم و روح کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھنے والے فرینک کو وہ دن خوب یاد رہے۔ انجلاز ایشز میں انہی دنوں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ کرکے انھوں‌ نے ایک ایسی کہانی لکھی جو متاثر کن تھی۔ فرینک میکورٹ کو ان کی اس کاوش کی بدولت ایک قابل اور باصلاحیت رائٹر کے طور پر پہچان ملی اور پلٹزر پرائز کے ساتھ انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ نیویارک لوٹ آئے جہاں وہ 30 سال تک ایک اسکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیتے رہے۔ اس وقت کوئی انھیں نہیں‌ جانتا تھا اور وہ ایک عام اسکول ٹیچر کے طور پر اپنے شب و روز بسر کررہے تھے۔ بعد میں ان کی کتاب شایع ہوئی اور لوگوں‌ نے ان کا ایک الگ روپ دیکھا۔

    آئرلینڈ میں میکورٹ کی اس کتاب کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ انھیں 1996ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا۔ فرینک میکورٹ کے اس سوانحی ناول پر 1999ء میں ہالی وڈ نے فلم بھی بنائی تھی۔ اس تصنیف کو بعد میں آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا گیا۔ اس مصنّف نے بعد میں ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں اپنی زندگی کو بھی کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا۔

    ادب کی دنیا کے اس خوش قسمت اور کام یاب رائٹر نے 78 سال کی عمر پائی۔

  • فرینک میکورٹ: ایک خوش قسمت قلم کار

    فرینک میکورٹ: ایک خوش قسمت قلم کار

    فرینک میکورٹ ایسے خوش نصیب تھے جس نے گویا راتوں رات شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کرلیے اور ان کی اوّلین تخلیقی کاوش ہی شاہکار تسلیم کی گئی۔ اس قلم کار کی پہلی تصنیف نہ صرف ’بیسٹ سیلر‘ ثابت ہوئی بلکہ فرینک میکورٹ پلٹزر انعام کے حق دار بھی ٹھہرے۔

    عالمی شہرت یافتہ مصنّف فرینک میکورٹ کی اس کتاب کا نام ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) ہے جو دراصل ان کے بچپن کے واقعات اور یادوں پر مبنی ہے۔ میکورٹ وہ خوش نصیب تھے جن کی یہ روداد امریکی قارئین کی دل چسپی اور توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کام یاب رہی اور بالخصوص امریکہ اور آئرلینڈ میں‌ اشاعت کے بعد فرینک میکورٹ کی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔

    فرینک میکورٹ نے 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا اور وہاں عوام کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میکورٹ کا خاندان آئرلینڈ منتقل ہوگیا۔ وہیں فرینک میکورٹ نے یہ کتاب لکھی جس میں امریکہ کے اقتصادی بحران اور اپنی ہجرت کے واقعات کو دردمندی سے بیان کیا اور ساتھ ہی ایک نئی سرزمین پر اپنی نوعمری کے دنوں کی منظر کشی نہایت خوب صورتی سے کی۔ 19 جولائی 2009ء کو انتقال کرنے والے فرینک میکورٹ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے۔

    فرینک کا خاندان آئرلینڈ کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا اور فرینک نے وہاں اپنے والدین کو غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ والدین کی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی جدوجہد اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے بھاگ دوڑ نے فرینک کو بہت متأثر کیا اور وہ دن انھیں خوب یاد رہے۔ انجلاز ایشز کے اس مصنّف نے انہی دنوں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ کیا اور ایک کہانی لکھ ڈالی۔ وہ اپنی اس کاوش کی بدولت ایک قابل اور باصلاحیت رائٹر کے طور پر پہچانے گئے اور ادبی اعزازات اپنے نام کیے۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا لوٹ آئے۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ انھیں 1996ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔ فرینک میکورٹ کی اس تصنیف پر مبنی ایک فلم 1999ء میں ہالی وڈ بنائی گئی تھی۔ میکورٹ کی اس تصنیف کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔ مصنّف نے بعد میں ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے امریکہ کے مشہور شہر نیویارک میں گزرے ہوئے اپنے روز و شب کو بھی کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا تھا۔

    فرینک میکورٹ اپنے ہم عصروں میں شہرت اور مقبولیت کے اعتبار سے زیادہ خوش قسمت اور کام یاب قلم کار تصوّر کیے جاتے ہیں۔ وہ 78 سال کی عمر میں‌ چل بسے تھے۔

  • فرینک میکورٹ: ایک "خوش نصیب” قلم کار

    فرینک میکورٹ: ایک "خوش نصیب” قلم کار

    فنونِ لطفیہ کے مختلف شعبہ جات میں نام و مقام بنانے والی بعض فن کار ایسے ہیں جنھوں نے گویا راتوں‌ رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھو لیا اور ان کی اوّلین کاوش ہی شاہ کار قرار پائی۔ فرینک میکورٹ ایسا ہی ایک نام ہے۔ اس خوش نصیب قلم کار کی پہلی تصنیف ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور فرینک میکورٹ پلٹزر پرائز کے حق دار ٹھہرے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کا احاطہ کرتی ہے۔ یادداشتوں پر مشتمل ان کی اس کتاب میں درج واقعات نے ہر قاری کی دل چسپی اور توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔ یہ کتاب امریکہ اور آئرلینڈ میں‌ فرینک میکورٹ کی مقبولیت کا باعث بنی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں‌ امریکہ شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ چلا گیا۔ وہیں فرینک میکورٹ نے یہ کتاب لکھی جس میں امریکہ کے اقتصادی بحران اور وہاں‌ سے ہجرت کے بارے میں‌ لکھتے ہوئے انھوں نے ایک نئی سرزمین پر اپنے بچپن اور نوعمری کے دنوں کی لفظی منظر کشی کی۔ فرینک میکورٹ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے اور 19 جولائی 2009ء میں چل بسے۔

    فرینک کا خاندان امریکہ سے نکل کر آئر لینڈ پہنچا تو یہاں ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا اور فرینک نے وہاں اپنے والدین کو غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ والدین کی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی جدوجہد اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے بھاگ دوڑ نے فرینک کو بہت متأثر کیا اور وہ دن انھیں خوب یاد رہے۔ انجلاز ایشز کے اس مصنّف نے انہی دنوں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ کیا اور ایک کہانی لکھ ڈالی۔ ان کی یادداشتوں کو امریکہ اور بعد میں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ وہ اپنی اس کاوش کی بدولت ایک قابل اور باصلاحیت رائٹر کے طور پر پہچانے گئے اور ادبی اعزازات اپنے نام کیے۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ انھیں 1996ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔

    یادداشتوں پر مبنی فرینک میکورٹ کی کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ان کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔ مصنّف نے بعد میں ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے امریکہ کے مشہور شہر نیویارک میں گزرے ہوئے اپنے روز و شب کو بھی کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا تھا۔

    اپنے ہم عصروں میں شہرت اور مقبولیت کے اعتبار سے زیادہ خوش قسمت اور کام یاب تصوّر کیے جانے والے اس قلم کار نے 78 سال کی عمر میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

  • فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ ان خوش نصیب قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی اوّلین تصنیف ہی ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور انھیں‌ پلٹزر پرائز کا حق دار ٹھہرایا۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا فرینک میکورٹ 2009ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں‌ امریکا شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ جا بسا۔ فرینک میکورٹ نے انہی دنوں کو اپنی کتاب میں‌ پیش کیا تھا۔

    فرینک کا خاندان آئر لینڈ کے شہر کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں انتہائی غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے ان کے والدین نے زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع کی۔ مصنّف نے کئی برس بعد ان دنوں کو اپنے حافظے سے نکال کر لفظی منظر کشی کی اور اسے کتابی شکل میں‌ شایع کروایا جو دنیا بھر میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے، کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور 1996ء میں انھیں پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    اس کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ فرینک میکورٹ کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔

    بعد میں‌ مصنّف نے ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں گزرے ہوئے ایّام کو محفوظ کیا تھا۔

    وفات کے وقت اس آئرش نژاد امریکی مصنّف کی عمر 78 سال تھی۔