Tag: فزکس

  • بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کائنات میں بکھرے ہوئے وہ عجیب و غریب ستارے ہیں جن سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی، یہاں تک کے روشنی بھی نہیں، اس لیے ان کو براہ راست دیکھ پانا ناممکن ہے، اس دقت کے باوجود ماہرین کو یقین ہے کہ کائنات میں بہت سارے بلیک ہول موجود ہیں، اسی وجہ سے سن 2020 کے فزکس نوبل انعام سے ان کی دریافت اور ان سے متعلق اہم تحقیقات پر تین سائنس دانوں: راجر پنروز (انگلستان)، رائنہارڈ گنزل (جرمنی) اور اندرے گیز (امریکا) کو نوازا گیا۔

    بلیک ہول کا خیال 18 ویں صدی میں سائنسی حلقوں میں آیا۔ نیوٹن کے دیے ہوئے مقولوں کو استمال کرکے ایک انگریز پادری سائنسدان جان مائیکل اور عظیم فرانسیسی ریاضی داں سائمن لاپلاس نے بلیک ہول کے وژن اور اس کے سائز کا فارمولا حاصل کرلیا۔

    غور کریں کہ اگر کسی راکٹ کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے سے کم ہو تو وہ زمینی کشش سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ وہ زمین کی طرف واپس آجائے گا۔ یہ رفتار اسکیپ رفتار کہلاتی ہے اور یہ زمین کے وزن اور اس کے سائز پر منحصر کرتی ہے۔ اگر پوری زمیں سکڑتے ہوئے ایک شیشے کی چھوٹی گولی کے برابر ہو جائے تو اسکیپ رفتار بڑھتے بڑھتے یعنی روشنی کی رفتار (ایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ) کے برابر ہو جائے گی اور تب زمین سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پائے گی۔ یعنی ہماری زمین ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جانے گی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کائنات میں بکھرے ہوئے بلیک ہولز کو ڈھونڈ پانا ایک مشکل کام ہے۔

    سنہ 1915 میں آئن سٹائن نے زمینی کشش کو سمجھنے کے لیے انوکھا طریقہ کار پیش کیا جس کے مطابق مادہ اپنے چاروں طرف کائنات میں گھماؤ پیدا کر دیتا ہے اور جتنا زیادہ مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ گھماؤ ہوگا۔ دوسری اور تمام چیزیں جو اس بڑے مادے کے نزدیک آئیں گیں وہ اسی گھماؤ دار راستے پر چلیں گیں۔

    جرمن سائنسدان کارل شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کے مقالوں کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کے وزن اور اس کے سائز میں تقریباً وہی رشتہ ہے جو بہت پہلے مائیکل اور لاپلاس حاصل کر چکے ہیں۔ بلیک ہول کے چاروں طرف وہ حد جہاں جا کر کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی، وہ شوارزچائلڈ حد کہلاتی ہے۔

    چندرشیکھر کی اہم تحقیقات اور پھر امریکی ایٹم بم سے منسلک مشہور سائنسداں اوپن ہائمر نے یہ محسوس کیا کہ اگر مردہ ستاروں میں بہت زیادہ مادہ ہو تو وہ کشش کی وجہ سے حد درجہ سکڑنے پر بلیک ہول بن سکتے ہیں۔ اس سمجھ کے ساتھ یہ مشکل مسئلہ تھا کے ستارے کے حد درجہ سکڑ نے کی وجہ سے اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائے گا اور پھر فزکس کے تمام اصول وہاں پر ناقص ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے بلیک ہول میں سائنسدانوں کی دلچسپی صرف ریاضیات کی حد تک رہ گئی ہے۔ خود آئن سٹائن کو بلیک ہول کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔

    سنہ 1960 کے آس پاس فلکیاتی سائنسدانوں نے ایک بہت ہی حیرت انگیز ستارہ دریافت کیا۔ اس کو کواسار کہتے ہیں۔ اس دریافت نے تمام فلکیاتی سائنسدانوں میں بلیک ہول سے دلچسپی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ کواسار وہ ستارے ہیں جن سے بے انتہا روشنی نکلتی ہے جو ہماری کہکشاں یا انڈرومیدہ کہکشاں کے کروڑوں ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے۔ کسی ستاروں کے جھرمٹ یا کسی ستارے کے پھٹنے سے اتنی روشنی نہیں نکل سکتی۔ صرف ایک ہی بات ممکن ہے کے کسی بڑے بلیک ہول کی وجہ سے آس پاس کا مادہ کائنات میں گھماؤ کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ بلیک ہول میں گر رہا ہو اور وہ تیز رفتاری کی وجہ سے بے حد گرم ہوکر بے پناہ روشنی پیدا کر رہا ہے۔ اس سمجھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید بلیک ہول کواسار ایک حقیقت ہیں۔

    کوا سار کی دریافت سے متاثر ہوکر راجر پنروز نے ریاضیات کے استمال سے بلیک ہول کی دریافت کو حقیقت کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑا مردہ ستارہ بغیر کسی روک ٹوک کے سکڑنا شروع ہوگا تو بالآخر اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائۓ گا۔ اس ستارے کے باہر گولائی کی ایک حد ہوگی جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی۔ یہ وہی حد ہے جس کا ذکر اوپن ہائمر اور شوارز چائلڈ پہلے کر چکے ہیں۔

    یہ ایسی حد ہے جس کے بعد صرف مستقبل ہے اور پھر بلیک ہول کے سینٹر پر وقت ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔ وقت کے خاتمے جیسی انوکھی بات کو سمجھنے کے لیے شاید فزکس کے نئے مقولوں کی ضرورت ہوگی لیکن بلیک ہول کے چاروں طرف کی حد اس کے اندر کی لامحدودیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ اس سمجھ نے سائنسدانوں میں بلیک ہول کی لامحدودیت کی وجہ سے تکلف کو ختم کر دیا۔ ان دلائل کے بعد بلیک ہول کو دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کے اب ہم صرف بلیک ہول کے آس پاس ان ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بلیک ہول میں ہضم ہوتے جا رہیں ہیں۔ اس سمجھ نے بلیک ہول کی دریافت کی دوڑ کو تیز کر دیا۔

    سنہ 1990 کے آس پاس گینزل اور ان کے فلکیاتی ساتھیوں نے انفراریڈ روشنی کا استمال کرکے بلیک ہول کی تلاش میں ساری توجہ اپنی کہکشاں کے سینٹر پر مرکوز کر دی جہاں پر ایک بڑے بلیک ہول کے ہونے کے بہت امکانات تھے۔ انفراریڈ روشنی کا استمال اس لئے کیا گیا کے آس پاس کی کائناتی دھول کی وجہ سے ٹیلی اسکوپ کے مشاہدات میں رکاوٹ نہ آسکے۔ دوسری دقت یہ تھی کہ ہماری زمین کے چاروں طرف پھیلی ہوا کے وجہ سے ستارے جگ مگ کرتے ہیں اس لئے ان کی تصویر دھندلی ہو جاتی ہے اور پھر ان ستاروں کی صحیح رفتار معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لئے گیز نے کیک کے بہت طاقتور ٹیلی اسکوپ کو استمال کیا تاکہ بہت کم وقت میں اچھی تصویر لی جا سکے۔

    چند ہی سالوں میں باریکی سے مشاہدات کے بعد دونوں تجرباتی تحقیقاتی گروپ ہماری کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے چاروں طرف تیزی سے چلتے ہوئے تاروں کے گھماؤ دار راستوں کو باریکی سے ناپنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشادات نے یہ ثابت کر دیا کے ہماری کہکشاں کے سینٹر پرایک بڑا بلیک ہول ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس حیرت انگیز دریافت کی اہمیت کی وجہ سے ان سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس بات کا بہت ذکر ہوا کے ان تینوں انعام یافتہ سائنسدانوں میں گیز، نوبل انعام کی 120 سال کی تاریخ میں صرف چوتھی خاتون ہیں۔

    فزکس ایسا مضمون ہے، جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے، جو بنا کسی تفریق کے اچھے دماغوں کو نوازتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ سائنسدان عورت ہے یا مرد۔ لیکن فزکس کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست اس بات کی گواہی دیتی ہے کے شاید سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پہلی خاتون سائنسدان مادام کیوری کو شروع ہی میں 103 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے 60 سال کے بعد دوسری خاتون سائنسدان ماریا جیوپورٹ میر کو 1963 میں اور تیسری خاتون ڈونا اسٹرکٹ کو 2018 میں نوبلے انعام ملا۔ ایسی بہت ساری خاتون سائنسدان رہی ہیں جن کی مایہ ناز تحقیقات نوبل انعام کی مستحق ہونے کے باوجود اس انعام سے محروم رہیں۔ ان میں خاص نام ہیں: لیز مایٹنر، چین شنگ وو، ویرا ربن اور ہندوستان کی بیبھا چودھری جن کے نام سے ایک ستارہ بھی منسوب ہے۔

    گیز نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کی بڑے ہوتے ہوئے ہر منزل پر یہ سننا پڑا کہ تم یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم لڑکی ہو، تمہارا داخلہ کیل ٹیک جیسی مشہور جگہ نہیں ہو سکتا۔ کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہر پڑھنے لکھنے والی لڑکی کو سننا پڑتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گیز نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے کام کو ان تمام لڑکیوں کے نام منسوب کیا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود تحقیقات کے کام میں اچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    فزکس کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کے ریسرچ کرنے کی سہولتیں ٹیکس دینے والوں کی عنایت ہے۔ ساری کامیابیاں اسی عنایت کی دین ہے اور اس لیے ہر ناانصافی کو ختم کرنا ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کوئی دباؤ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے تاکہ ریسرچ کے لیے بہتر ماحول بنے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کے پچھلے دو سالوں میں دو خواتین کو نوبل انعام ملا۔ کیا یہ اس بات کی نشان دہی ہے کے آنے والے وقت میں لڑکیوں کے لیے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا آسان ہوجائے گا؟ کیا فزکس میں لڑکیوں کے لیے رکاوٹیں کم ہو جائیں گی؟

  • پانی سے بھرے گلاس پینڈولم کی طرح کیسے گھومے؟

    پانی سے بھرے گلاس پینڈولم کی طرح کیسے گھومے؟

    سوشل میڈیا پر ایک شخص کی پانی سے بھرے 2 گلاسوں کو پینڈولم کی طرح حرکت دینے کی ویڈیو بے حد وائرل ہورہی ہے۔

    مذکورہ ویڈیو میں ایک شخص پانی سے بھرے 2 گلاسوں کو پلیٹ پر رکھتا ہے، دونوں پلیٹیں ایک رسی سے منسلک ہیں۔ اس کے بعد وہ اس رسی کو اپنے سر کے گرد گھمانا شروع کردیتا ہے۔

    اس دوران گلاسوں میں سے ایک قطرہ بھی پانی نہیں گرنے پاتا۔

    ٹویٹر پر فزکس اینڈ آسٹرو نامی زون صفحے نے یہ ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فزکس کا شاندار مظاہرہ ہے۔

    ٹویٹر صارفین نے اس ویڈیو پر بے حد حیرانی اور خوشی کا اظہار کیا۔ ایک شخص نے لکھا کہ یہ غیر معمولی ہے۔

    ایک اور ٹویٹر صارف کا کہنا تھا کہ پریکٹس انسان کو کامل بنا دیتی ہے، یہ اس کی بہترین مثال ہے۔

  • فزکس کےعلم میں انسان کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے، عارف علوی

    فزکس کےعلم میں انسان کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے، عارف علوی

    اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کا کہنا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھرپورتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل نتھیاگلی سمرکالج تقریب سے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تحقیق انتہائی اہم ہے۔

    ڈاکٹرعارف علوی نے کہا کہ تحقیق سے سیکھنے کا عمل مکمل ہوتا ہے، فزکس کےعلم میں انسان کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ توانائی اورصحت کے شعبے میں استعداد کار بڑٖھانے کی ضرورت ہے، توانائی کے حصول کے لیے متبادل ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ انسانی وسائل کی ترقی پربھی بھرپورتوجہ دینے کی ضرورت ہے، مصنوعی ذہانت کا شعبہ روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

    فواد چوہدری نے ٹیکنالوجی یا کاروبارکا آئیڈیا رکھنے والوں کو خوشخبری سنا دی

    یاد رہے کہ رواں سال 15 مئی کو فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے پاس ٹیکنالوجی یا کاروبارکا آئیڈیا ہے تو جولائی میں اپنا آئیڈیا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں رجسٹرکروائیں، ماہرین آئیڈیا سے متاثر ہوئے تو ستر سے سو فیصد تک سرمایہ دیں گے۔

    اس سے قبل فواد چوہدری کا کہنا تھا پاکستان کا پہلا سائنس میلہ اگست میں اسلام آبادمیں ہوگا، سائنس میلے کے لیے انٹرویز یکم جولائی سے لی جائیں گی، اگرآپ نے کچھ مختلف اورنیا کیا ہے، جوآپ پاکستان کو دکھانا چاہتے ہیں توتیارہوجائیں۔

  • وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت وہ ستون ہے جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کا دماغ دیگر انسانوں کی نسبت بڑا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    تاہم وہ کیا چیز تھی جس نے آئن اسٹائن کو دنیا کا عظیم سائنسداں بنایا؟ اسی بات کو جاننے کے لیے جب آئن اسٹائن کی موت کے بعد ان کے دماغ پر تحقیق کی گئی تو اس میں دنگ کردینے والے حقائق سامنے آئے۔

    آئن اسٹائن سنہ 1955 کی ایک صبح 76 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد ایک ڈاکٹر تھامس ہاروے کو ان کا چیک اپ کرنے کے لیے بلایا گیا جنہوں نے آئن اسٹائن کی موت کی تصدیق کی۔

    گو کہ آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں کہہ دیا تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفن کیا جائے اور ان کا جسم سائنسدانوں کو مختلف تجربات کے لیے نہ دیا جائے تاہم ماہرین کم از کم ان کے دماغ کی جانچ کرنا چاہتے تھے اسی لیے ان کی موت کے ساڑھے 7 گھنٹے بعد ان کے دماغ کو جسم سے علیحدہ کرلیا گیا۔

    ایسے میں آئن اسٹائن کے ڈاکٹر تھامس نے موقع دیکھ کر ان کا دماغ چرا لیا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔

    تھامس نے اس عظیم دماغ کو 240 ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف جارز میں ڈال دیا اور اسے 40 برس تک اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپائے رکھا۔

    بالآخر 40 برس بعد تھامس اس دماغ کو منظر عام پر لے آیا اور تحقیق کے لیے اسے سائنسدانوں کے حوالے کردیا۔

    سائنسدانوں نے اس دماغ کی جانچ پڑتال کی تو نہایت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ماہرین نے دیکھا کہ آئن اسٹائن کے دماغ کی ایک جھلی پیرائٹل اوپرکیولم غائب تھی۔

    دماغ کو ایک حد میں رکھنے والی اس جھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئن اسٹائن کے دماغ کا یہ حصہ عام دماغ سے 20 فیصد بڑا ہوگیا تھا۔

    دماغ کی اس غیر معمولی نشونما کی وجہ سے آئن اسٹائن میں ریاضی کو سمجھنے اور مختلف تصورات قائم کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ آئن اسٹائن کے دماغ میں عام دماغ کی نسبت 17 فیصد زیادہ نیورونز موجود تھے۔ ان اضافی نیورونز نے آئن اسٹائن کی دماغی کارکردگی میں اضافہ کردیا تھا جبکہ وہ اپنے تصورات کو تعمیری صورت میں ڈھالنے پر بھی قادر ہوگئے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام کیفیات ایک غیر معمولی دماغ کی نشانی ہیں جنہیں ’ابنارمل‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ آئن اسٹائن خوش قسمت تھے کہ ان کی ’ابنارملٹی‘ نے انہیں دنیا کا عظیم سائنسداں بنا دیا۔

    آئن اسٹائن کہا کرتے تھے، ’دنیا کا ہر شخص ذہین ہوتا ہے، لیکن اگر آپ کسی مچھلی کی صلاحیتوں کا اندازہ اس کے درخت پر چڑھنے سے لگانا چاہیں تو وہ ساری عمر اپنے آپ کو نالائق گردانتی رہے گی‘۔

    آپ اس عظیم سائنسداں کی بات سے کتنے متفق ہیں؟

  • نصف صدی کا انتظار ختم ہوا، ایک خاتون نے فزکس کا نوبیل انعام اپنے نام کر لیا

    نصف صدی کا انتظار ختم ہوا، ایک خاتون نے فزکس کا نوبیل انعام اپنے نام کر لیا

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ڈونا سٹرکلینڈ نے فزکس کے شعبے میں نوبیل انعام اپنے نام کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق 2018 کا نوبیل انعام  اپنے نام کرنے والے ڈونا سٹرکلینڈ نوبیل کی تاریخ میں فقط تیسری خاتون ہیں، جس نے فزکس کے شعبے میں یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    پہلی بار یہ اہم ترین اعزاز 1903 میں میری کری کے حصے میں آیا تھا، دوسری باری 1963 میں ماریا جیوپورٹ میئر کو  یہ ایوارڈ دیا گیا، مگر پھر  ایک طویل عرصے خاموشی چھائی رہی۔

    سالانہ بنیادوں پر ہونے والے اس معتبر ایوارڈ پر اگلے 55 برس مردوں کی برتری رہی، آخر کار 2018 میں ڈونا سٹرکلینڈ نے ایوارڈ اپنے نام کیا۔ انھیں یہ انعام لیزر فزکس کے شعبے میں دیا گیا۔

    یاد رہے کہ اس برس ڈاکٹر سٹرکلینڈ کے ساتھ امریکا کے آرتھر آشکن اور فرانس کے جیرارڈ موروو کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ 

    واضح رہے کہ فزکس کو مردوں کا شعبہ تصویر کیا جاتا ہے اور نوبیل کی دیگر کیٹیگریز کے مقابلے میں خواتین انعام یافتگان کی شرح یہاں سب سے کم ہے۔


    مزید پڑھیں: نوبیل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    اس انعام کی مالیت 998618 ڈالر ہے اور یہ ادب، امن، حیاتیات سمیت مختلف کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے۔ 

    ڈاکٹر سٹرکلینڈ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک زبردست واقعہ ہے، البتہ انسان ہمیشہ یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ واقعی سچ ہے۔

    واضح رہے کہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس داں میری کیوری وہ پہلی خاتون تھیں، جنھوں نے نوبیل انعام حاصل کیا۔ اس عظیم خاتون سائنس داں نے ریڈیم دریافت کیا تھا۔