Tag: فسادات

  • شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور مذہب کی بنیاد پر فسادات میں قتل و غارت گری پر کئی افسانے اور مضامین سپردِ‌ قلم کیے ہیں جو زمین پر لکیر کھینچے جانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس وقت کے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز اور نہایت درد ناک بھی ہیں اور بعض جگہ ان واقعات کی بدولت ایک مضحکہ خیز اور دل چسپ صورتِ حال نے جنم لیا۔

    منٹو ایک مضمون میں دو ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو اسی دور میں بلوے اور لڑائی جھگڑوں‌ کے دوران پیش آئے۔ یہ غالباً ہندوستان کے کسی شہر میں پیش آنے والے دو دل چسپ واقعات ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں:

    ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

    ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔

  • منی پور خانہ جنگی، ایک دن میں 9 ہلاک، خاتون بی جے پی وزیر کا گھر نذر آتش

    منی پور خانہ جنگی، ایک دن میں 9 ہلاک، خاتون بی جے پی وزیر کا گھر نذر آتش

    بھارتی ریاست منی پور میں خانہ جنگی شدت اختیار کر گئی، گزشتہ 24 گھنٹوں میں پرتشدد واقعات سے ایک خاتون سمیت 9 افراد ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست منی پور میں خانہ جنگی شدت اختیار کر گئی ہے، دارالحکومت امپھال میں بی جے پی کی خاتون وزیرِ صنعت کا گھر جلا دیا گیا، جب کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پر تشدد واقعات سے ایک خاتون سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک خانہ جنگی کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک جب کہ ایک لاکھ سے زائد دربدر ہو چکے ہیں، پولیس، بی ایس ایف اور فوج کے 50 ہزار اہل کار تعینات کرنے کے باوجود مودی سرکار خانہ جنگی پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

    منی پور کے عوام نے مودی سرکار پر خانہ جنگی کو دانستہ ہوا دینے کا الزام لگایا ہے، عوام کا مؤقف ہے کہ خانہ جنگی کا بہانہ بنا کر مودی منی پور کے قبائلی تشخص کو ختم اور انتہا پسند ہندو نظریہ مسلط کرنا چاہتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کا بہانہ بنا کر مودی ریاست منی پور پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے، واضح رہے کہ ریاست منی پور میں 3 مئی سے انٹرنیٹ بندش اور کرفیو نافذ ہے۔

  • 9 مئی کو جناح ہاؤس پر شرپسندوں کے حملے کی ہوش رُبا اہم تفصیلات سامنے آ گئیں

    9 مئی کو جناح ہاؤس پر شرپسندوں کے حملے کی ہوش رُبا اہم تفصیلات سامنے آ گئیں

    9 مئی کو جناح ہاؤس پر شرپسندوں کے حملے کی ہوش رُبا اہم تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق نو مئی کو دوپہر 2:35 سے لے کر 2:40 تک پرتشدد مظاہرین زمان پارک لاہور میں اکٹھے ہونا شروع ہوئے، 2:55 سے 3:20 کے دوران ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر شر پسند قائدین لبرٹی چوک پہنچے، اور سہ پہر 4:05 پر مشتعل ہجوم نے کینٹ کا رْخ کیا۔

    4:05 پر پہلے سے شرپسندوں کا ایک ٹولہ شیر پاوٴ برج پر پہنچا ہوا تھا، شام 5:15 پر پہلا دھاوا جناح ہاوٴس پر بولا گیا، جو 25-30 افراد پر مشتمل تھا لیکن اْسے واپس دھکیل دیا گیا، 5:27 پر شرپسندوں نے جناح ہاوٴس بتدریج بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ دوبارہ انٹری کی، اور 5:30 سے 6 بجے تک ان شرپسندوں نے بھرپور انداز میں جناح ہاوٴس میں شدید توڑ پھوڑ کر کے اسے شدید نقصان پہنچایا۔

    6:07 پر جناح ہاوٴس کو مکمل جلا دیا گیا، 6:10 پر فورٹریس سے شرپسندوں کی مزید کمک جناح ہاوٴس پہنچ گئی، جنھوں نے تباہ کاریوں میں اپنا کردار ادا کیا، 6:13 پر مزید ایک اور جتھا دھرم پورہ سے جناح ہاوٴس پہنچ گیا، 6:30 سے 7:55 تک تقریباََ 2 ہزار لوگوں نے اجتماعی طور پر جناح ہاوٴس کو مکمل تباہ کر دیا اور تباہی کا یہ سلسلہ رات 8 بجے تک جاری رہا ۔

    شرپسندوں نے ملٹری انجینئرنگ سروسز کے دفتر پر بھی حملہ کر کے تباہی مچائی، اس کے علاوہ ملک کے باقی علاقوں میں تقریباً 200 سے زائد جگہوں پر دو سے تین گھنٹے کے وقت میں ان شر پسندوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جو سارے پاکستان نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔

    ان ہوش رُبا انکشافات سے یہ واضح ہوتا ہے کے جناح ہاوٴس پر پوری منصوبہ بندی اور کوآرڈینیشن کے ساتھ منظم طریقے سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں چند شر پسند رہنماوٴں کی براہ راست شرکت اور راہنمائی شامل تھی۔

  • معمولی جھگڑے نے پورے گاؤں کو میدان جنگ بنا دیا، متعدد ہلاک

    معمولی جھگڑے نے پورے گاؤں کو میدان جنگ بنا دیا، متعدد ہلاک

    قازقستان کے ایک گاؤں میں معمولی جھگڑے نے خونریز فسادات کی شکل اختیار کرلی، ہولناک تصادم میں 8 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ متعدد گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فسادات قازقستان اور کرغزستان کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ہوئے۔ واقعے کا آغاز ایک معمولی جھگڑے سے ہوا جس نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    تقریباً 400 کے قریب افراد آپس میں اور پولیس سے متصادم ہوگئے، بعد ازاں درجنوں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

    موقع پر موجود چند افراد نے ویڈیوز بنا کر مختلف میسیجنگ ایپس پر شیئر کیں جو تیزی سے پھیل گئیں اور پولیس فوراً حرکت میں آئی۔ اس دوران قریبی گاؤں سے بھی کئی افراد وہاں پہنچے اور تصادم کا حصہ بنے۔

    خونریز تصادم میں اب تک 8 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ان گنت زخمی ہوگئے ہیں۔ مشتعل افراد نے درجنوں گھروں، عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جس کے بعد مذکورہ مقام میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔

    مشتعل افراد نے پولیس پر بھی حملہ کیا جبکہ کچھ افراد نے فائرنگ بھی کی جس سے 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، بعد ازاں نیشنل گارڈز کے دستوں نے موقع پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا۔

    قازقستان کے صدر نے معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داران، اور جھگڑے کو بڑھاوا دینے والے افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ واقعے میں متاثر ہونے والے، زخمیوں اور ہلاک افراد کے لواحقین کا بھرپور خیال رکھا جائے۔

  • بنگلہ دیش فسادات:اٹھائیس اضلاع میں اڑتیس پولنگ اسٹیشنز جلادیئے گئے

    بنگلہ دیش فسادات:اٹھائیس اضلاع میں اڑتیس پولنگ اسٹیشنز جلادیئے گئے

    بنگلہ دیش میں آج عام انتخابات سے پہلے فسادات کے دوران ڈھاکا سمیت اٹھائیس اضلاع میں اڑتیس پولنگ اسٹیشنز جلادیئے گئے۔۔ جبکہ تین افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔۔ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال حکومت کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔

    بنگلہ دیش میں دسویں عام انتخابات پانچ جنوری کو ہونے ہیں لیکن اٹھارہ جماعتی اپوزیشن کے بائیکاٹ نے ان پر سوالیہ نشان لگا دیا۔۔ ملک بھر میں انتخابات کیخلاف ہڑتالیں کی جارہی ہیں۔۔ عوام سڑکوں پر ہیں، املاک جل رہی ہیں۔ پرتشدد مظاہروں کے دوران مشتعل افراد دارالحکومت ڈھاکا، سلہٹ، راج شاہی، فینی، کشور گنی ،نرسنگدی سمیت اٹھائیس اضلاع میں متعدد پولنگ اسٹیشنز کو جلا کر راکھ کردیا۔

    مظاہرین نے کئی بسوں، گاڑیوں اور املاک کو بھی نذر آتش کیا۔۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے الزامات میں اپوزیشن کے سیکروں کارکنوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ملک میں عام انتخابات غیر جانبدار نگراں حکومت کے تحت کرائے جائین لیکن شیخ حسینہ حکومت نے مطالبات مسترد کردیئے ہیں۔

    اٹھارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا کو ایک ہفتے سے ڈھاکا میں ان کے گھر مین نظر بند کرکھا ہے۔۔ امریکہ، یورپی یونین اور دولتِ مشترکہ نے عام انتخابات کیلئے اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد بنگلہ دیشی حزبِ مخالف کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات قابلِ اعتبار نہیں رہے۔