Tag: فصل

  • پنجاب کے مختلف شہروں میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ متوقع

    پنجاب کے مختلف شہروں میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ متوقع

    لاہور: صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں آج سے گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ متوقع ہے، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے فصلوں کے حوالے سے کسانوں کو ہدایات جاری کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافے کا امکان ہے، پنجاب کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت میں 7 سے 8 سینٹی گریڈ تک اضافہ متوقع ہے۔

    پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہر 26 اپریل سے 2 مئی تک متوقع ہے۔

    پی ڈی ایم اے کے مطابق اس دوران لوگ گھروں میں رہیں اور غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں، کسان فصلوں کو پانی دیں تاکہ فصلوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔

    متوقع گرم موسم کے پیش نظر متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں۔

  • جھلستے ہاتھ، لڑکھڑاتی سانسیں: کنری کی مرچ منڈی کے محنت کشوں کا احوال

    جھلستے ہاتھ، لڑکھڑاتی سانسیں: کنری کی مرچ منڈی کے محنت کشوں کا احوال

    کنری، سندھ: 28 سالہ شاد بی بی فصل سے مرچیں توڑنے میں مصروف ہیں، ان کے ساتھ ایک کمسن بچی، ایک شیر خوار بچے کو گود میں لیے موجود ہے۔ شیر خوار بچے نے رونا شروع کیا تو کچھ دیر بعد شاد بی بی نے مرچوں والے ہاتھوں سے ہی بچے کو اٹھایا اور اسے دودھ پلانے لگیں۔

    ماں کے مرچ والے ہاتھ بچے کے چہرے پر لگے تو اس کے رونے میں اضافہ ہوگیا، تاہم تھوڑی دیر بعد وہ دودھ پیتے ہوئے چپ ہوچکا تھا، اس کی سرخ جلد جلن اور سوزش کا پتہ دے رہی تھی۔

    یہ ایک معمول کا منظر ہے جو کنری کی مرچوں کی فصلوں میں نظر آتا ہے، یہاں مرچ توڑنے والی خواتین کی جلد اور آنکھوں کی جلن اور دیگر مسائل عام ہیں۔

    بچے بھی اس سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں، پورے شہر کی فضا میں مرچوں کی دھانس ہے جو یہاں رہنے والوں کا سانس لینا دو بھر کیے ہوئے ہے۔


    صوبہ سندھ کا علاقہ کنری سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے اور یہاں لگنے والی منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے، تاہم مرچ کے کھیتوں اور منڈی میں کام کرنے والے کاشت کاروں اور تاجروں کی زندگی اتنی آسان نہیں۔

    سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور کنری، ضلع عمر کوٹ میں ہے جو ملک بھر میں فراہم کی جانے والی مرچ کا 85 فیصد پیدا کرتا ہے، یہ منافع بخش فصل سندھ کے دیگر مختلف علاقوں اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی اگائی جاتی ہے تاہم کنری کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق کنری میں 80 سے 90 ہزار ایکڑ رقبے پر مرچ کاشت کی جاتی ہے

    ایک زمانے میں کنری میں لگنے والی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، یہاں لگنے والی فصل ملک کی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کی حصے دار ہے۔

    سرخ مرچ کی فصل اگست سے تیار ہونا شروع ہوتی ہے اور اکتوبر تک یہ سرخ ہو کر مکمل طور پر تیار ہوجاتی ہے۔ کھیتوں سے چنائی کے بعد اسے منڈی لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی نیلامی اور فروخت ہوتی ہے، یہ سلسلہ جنوری یا فروری تک جاری رہتا ہے۔

    اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں کنری کی مرچ کی طلب زیادہ ہے

    کنری کی مرچ اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور اسی تیکھے پن کی وجہ سے اس کی طلب اور قیمت دیگر علاقوں میں اگنے والی مرچ سے زیادہ ہے، تاہم اس کی وہ قیمت نگاہوں سے اوجھل ہے جو اس فصل کے کاشت کاروں اور محنت کشوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

    میرپور خاص اور کنری میں سرگرم عمل سماجی کارکن واجد لغاری بتاتے ہیں کہ مرچوں کی چنائی اور اس کی تجارت محنت کشوں کی صحت پر نہایت سخت اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ان کے مطابق کھیتوں سے مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، یہ محنت کش خواتین کھیتوں میں آتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے آتی ہیں جن میں شیر خوار اور بڑی عمر کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔

    فصلوں سے اتارنے کے بعد مرچوں کو سکھایا جاتا ہے

    بچوں کی نازک جلد مرچوں کا تیکھا پن برداشت نہیں کر پاتی لہٰذا بچے مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، عموماً ان کی جلد پر زخم بن جاتے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

    مرچیں توڑنے والی خواتین بھی مختلف طبی مسائل کا شکار ہوتی ہیں جن میں ہاتھوں اور چہرے پر جلن، خراشیں اور پھر ان کا زخم بن جانا، کھانسی اور گلے کی خراش عام مسائل ہیں۔

    شہر کے وسط میں واقع مرچ منڈی

    چنائی کے بعد مرچیں نیلامی اور فروخت کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہیں جو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر نہال دیپ کا کہنا ہے کہ آج سے 4 دہائیاں قبل جب یہ منڈی قائم کی گئی اس وقت کنری شہر میں اتنی آبادی نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی جس کے بعد اب یہ منڈی شہر اور آبادی کے وسط میں آچکی ہے۔

    واجد لغاری بتاتے ہیں کہ منڈی میں لائے جانے کے بعد جیسے جیسے مرچیں سوکھتی جاتی ہیں ویسے ویسے ان کا تیکھا پن شدید اور نقصانات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، پورے شہر کی فضا میں تیکھا پن اور دھانس موجود ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔

    کنری کی مرچ منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے

    ان کے مطابق جن دنوں مرچ کی فصل عروج پر ہو ان دنوں اس کی دھانس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ آس پاس کے دکاندار اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں جبکہ شہریوں کا سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ نہ صرف منڈی کے آس پاس کی آبادیاں بلکہ پورا شہر ہی مجموعی طور پر مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    واجد لغاری کا کہنا ہے کہ اس کاروبار سے منسلک محنت کشوں کو مختلف سانس کے اور جلدی مسائل عام ہیں، سانس کی نالیوں میں زخم ہو جانا، کھانسی، پھیپھڑوں کی خرابی، دمہ، جلد پر جلن، خراشیں اور زخموں کا بن جانا عام امراض ہیں۔

    تمام امراض کے علاج کے لیے ایک اسپیشلسٹ

    کنری تعلقہ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر مبارک علی درس کہتے ہیں کہ مرچ کی چنائی کے سیزن میں شہر بھر میں مختلف امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان دنوں پورے شہر کی فضا میں مرچ کی دھانس ہوتی ہے اور خصوصاً منڈی کے قریب رہنے والے افراد نہایت تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ڈاکٹر مبارک کے مطابق ان دنوں بزرگ، بچے اور ایسے افراد جو پہلے ہی سانس کے مسائل کا شکار ہوں ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جنہیں سانس کے مسائل، کھانسی اور آنکھوں اور جلد پر جلن کی شکایات ہوں۔ اسی طرح مرچ کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی جسم پر زخموں کی تکلیف کے ساتھ کنری کے واحد سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی تمام طبی مسائل چھوٹے بچوں کو بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے وہ زیادہ شدت سے ان کا شکار ہوتے ہیں۔

    مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں

    ڈاکٹر مبارک کے مطابق کنری میں صرف ایک ہی چیسٹ اسپیشلسٹ موجود ہے جو ضلعے کی تمام آبادی کے لیے ناکافی ہے، ان کے علاوہ علاقے میں آنکھوں یا جلد کا کوئی اسپیشلسٹ موجود نہیں۔

    ایم ایس کا کہنا تھا کہ مرچوں کی دھانس سے متاثرہ مریض جب اسپتال آتے ہیں تو انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ خرابی طبیعت کی شدت سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور مرچوں کا کام کرنے والے دستانے ضرور پہنیں، ’لوگ سن کر اس پر ایک دو دن عمل کرتے ہیں، اس کے بعد تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں‘۔

    نئی منڈی جو 14 سال سے زیر تعمیر ہے

    کنری کے رہائشی اور مرچ کے کاروبار سے منسلک عظیم میمن بتاتے ہیں کہ سنہ 2007 میں کنری شہر سے باہر نئی مرچ منڈی کی تعمیر کی منظوری دی گئی جس کے لیے فنڈ بھی جاری کیے گئے اور فوری طور پر تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔

    لیکن 14 برس گزر چکے ہیں اس منڈی کی تعمیر کا کام تاحال ادھورا ہے، یہ منصوبہ میگا کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔

    اس منڈی کی تعمیر کا ابتدائی مجموعی تخمینہ 16 کروڑ روپے تھا جو فوراً جاری کردیے گئے تھے، تاہم اس وقت منڈی کی تعمیر میں نہایت ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ہر کچھ عرصے بعد منڈی کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کے فنڈز جاری کیے جاتے رہے۔

    سنہ 2017 میں نیب کراچی کے حکام نے منڈی کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا اور متعلقہ افسران سے پوچھ گچھ شروع کردی۔

    عظیم میمن کا کہنا ہے کہ ان 14 سالوں میں منڈی کی تعمیر کے لیے 60 سے 70 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور تاحال اس کی تعمیر مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس دوران بنائی گئی چند دکانیں ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوچکی ہیں۔

    ان کے مطابق مرچ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی سے شہریوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے گی اور شہر میں پھیلے مختلف امراض میں بھی کمی آئے گی۔ لیکن اس کا انحصار نئی منڈی کی تعمیر پر ہے، ’ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ جلد سے جلد اس منڈی کی تعمیر مکمل ہو اور ہم سکون کا سانس لے سکیں‘۔

  • بھارتی کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنا شروع کردیں

    بھارتی کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنا شروع کردیں

    نئی دہلی: متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی کسانوں نے اپنی فصلیں بھی تباہ کرنا شروع کردیں، بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام نہ اٹھائیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق زرعی قوانین کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج کرنے والے کسانوں نے اب اپنی فصلوں کو بھی تباہ کرنا شروع کردیا، اب تک 4 کسان اپنے کھیتوں پر کھڑی فصل تباہ کرچکے ہیں۔

    بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) ان واقعات پر دلگرفتہ ہے اور اس نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام نہ اٹھائیں۔

    اس سے قبل بھارتیہ کسان یونین کے ہی ترجمان راکیش ٹکیت نے اتر پردیش کے کسانوں سے گزارش کی تھی کہ وہ تحریک میں پہنچنے کے لیے چاہے اپنی کھڑی فصل کو تباہ کر دیں، لیکن مظاہرے میں ضرور شامل ہوں۔

    اس اپیل کے بعد کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنی شروع کردی ہیں تاہم اب یونین تشویش کا شکار ہے۔

    ایک موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کسان یونین کے میڈیا انچارج دھرمیندر ملک نے کہا کہ اب تک 4 مقامات سے فصل تباہ کرنے کی خبر آئی ہے، ہم نے ان سے ذاتی طور پر بات بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی کسان کو فصل برباد کرنے کے لیے نہیں کہا گیا، بلکہ یہ کہا گیا کہ اگر ایسی بھی نوبت آئی تو کسانوں کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ابھی ایسے حالات نہیں آئے کہ فصلوں کو تباہ کیا جائے۔ ہم نے اپریل تک کے لیے کہا تھا کہ اگر حکومت ہم پر دباؤ ڈالے گی تو ہم ایسا اقدام کرنے کا سوچیں گے، کسانوں سے گزارش ہے کہ اس طرح کا قدم نہ اٹھائیں۔

    اس حوالے سے جب ترجمان راکیش ٹکیت سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کسانوں نے خود کہا تھا کہ تحریک میں اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی فصل کی قربانی بھی دیں گے لیکن فی الحال اس کی ضرورت نہیں پڑی۔

    انہوں نے عندیہ دیا کہ اس طرح کا وقت اپریل میں آئے گا جب فصلوں کی کٹائی ہوگی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فصلوں کے حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا وہ متفقہ طور پر 20 اپریل کے آس پاس کیا جائے گا۔

  • ملک میں کپاس کی قیمت 11 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

    ملک میں کپاس کی قیمت 11 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھر میں روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، کاٹن جینرز ایسوسی ایشن پاکستان کا کہنا ہے کہ رواں برس ملک میں روئی کی قیمت 11 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کاٹن جینرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں روئی کی قیمت میں 200 روپے فی من اضافہ ہوگیا ہے۔

    احسان الحق کا کہنا ہے کہ روئی کی قیمت 11 سال کی بلند ترین سطح 11 ہزار 500 روپے فی من تک پہنچ گئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ امریکا میں بھی روئی کی قیمتیں پچھلے 3 سال کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

    احسان الحق کا کہنا تھا کہ سندھ کے ساحلی شہروں میں کپاس کی بوائی شروع ہوگئی ہے، وفاق نے سفید مکھی کے خاتمے کے لیے کسانوں کو 12 سو روپے فی ایکڑ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کے باعث کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

    احسان الحق کے مطابق نہری پانی کی دستیابی کے باعث کپاس کی ریکارڈ کاشت ہونے کا امکان تھا، تاہم ٹڈی دل کے حملے کے باعث رواں سال پاکستان میں روئی کی صرف 1 کروڑ 50 لاکھ بیلز پیدا ہوئیں۔

  • سندھ کی زراعت میں اضافے کے لیے اہم اقدامات

    سندھ کی زراعت میں اضافے کے لیے اہم اقدامات

    کراچی: صوبہ سندھ کی زراعت میں اضافے کے لیے اہم اقدامات کرتے ہوئے مختلف اجناس کے 17 نئے بیجوں کی کاشت کاری کی اجازت دے دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کی زیر صدارت سندھ سیڈ کونسل کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں سیکریٹری زراعت، ڈی جیز، سندھ آباد گار بورڈ کے زین العابدین شاہ، ندیم شاہ جاموٹ اور بیج کمپنیوں کے نمائندگان اور دیگر افسران نے شرکت کی۔

    اجلاس میں کپاس، چاول، گندم، کیلا، آم اور آئل سیڈز سمیت 8 نئی اقسام کی منظوری دی گئی۔

    صوبائی وزیر اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ اجناس کے 17 نئے بیجوں کی سندھ میں کاشت کاری کی اجازت دے دی گئی ہے، 11 بیجوں کو مستقل رجسٹرڈ کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ 6 اقسام کو ایک سال کے لیے آزمائشی طور پر مشروط اجازت دی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سندھ میں پنجاب کی کاٹن کی 5 نئی اقسام کے لیے 1، 1 سال کی منظوری دی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کے کیلے کی، اور کاٹن کی 2 اقسام کی رجسٹریشن کی منظوری دی گئی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کیلے کی 2 نئی اقسام چین سے منگوائی گئیں جس کے بہترین نتائج ملے۔

    انہوں نے کہا کہ زراعت کو سنگین بحرانوں کا سامنا ہے جن میں بیج سرفہرست ہے، سندھ حکومت معیاری بیجوں کی دستیابی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔

  • کیا بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے؟

    کیا بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے؟

    کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7.7 ارب تک پہنچ چکی ہے جس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں بنجر زمینوں پر پائے جانے والے نباتات کا استعمال اہم ضرورت بن رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی میں آن لائن بین الاقومی سمپوزیم منعقد ہوا جس کا مقصد سائنس کے طلبا، نوجوان سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کے درمیان ہیلو فائٹس یا شور زدہ زمین پر پائے جانے والے نباتات کے بطور غیر روایتی فصلوں کے استعمال کے ذریعے مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔

    سمپوزیم سے آسٹریلیا کی تسمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سر جے شابالا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7.7 ارب تک پہنچ چکی ہے اور مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصلوں کی پیداوار میں نمایاں اضافے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ 50 برسوں میں فی کس زرعی زمینوں میں ماحولیاتی تغیرات اور غیر معیاری کاشت کاری کے باعث دو گنا کمی واقع ہوئی ہے۔

    سعودی عرب کی کنگ عبد اللہ یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارک ٹیسٹر نے جینیات کے ذریعے ہیلو فائٹس کو قابل کاشت بنانے کے بارے میں ہونے والی سائنسی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہیلو فائٹس کی غذائیت خصوصیات میں اضافہ ممکن ہے، جو مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرے گا۔

    چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ڈاکٹر شاؤ جنگ لیو نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شور زدہ زمینیں بیکار نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ان بنجر زمینوں کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ فضائی آلودگی کے تدارک میں بھی معاونت ہوگی۔

    جرمنی کی گیسن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہانس ورنرکوئیرو نے گرین سائنس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ایک مسلمہ حقیقت ہیں جن کے اثرات پوری دنیا میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک بشمول پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والی خشک سالی کی زد میں ہیں، جس کا براہ راست اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کاشت کے غیر روایتی طریقوں کو اپنایا جائے جو مستقبل کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم ہیں۔

  • موسم سرما میں اسموگ کا خدشہ، روک تھام کے لیے کارروائیاں

    موسم سرما میں اسموگ کا خدشہ، روک تھام کے لیے کارروائیاں

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر ڈسکہ میں فصل کی باقیات جلانے پر 2 افراد کو گرفتار کرلیا گیا، کارروائی اسموگ کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے تحت کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ڈسکہ میں دھان کی فصل کی باقیات جلانے پر 2 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف اسموگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، کارروائی اسموگ کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے تحت کی گئی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ دو برسوں سے زہریلی دھند یعنی اسموگ کا مسئلہ نہایت شدت اختیار کرگیا ہے، اسموگ موسم سرما میں صوبہ پنجاب کو خاص طور پر متاثر کر رہی ہے۔

    اسموگ کی وجہ سے سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے جبکہ شہریوں کی بڑی تعداد سانس کی بیماری سمیت مختلف طبی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

    اسموگ کی بڑی وجہ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے اور فصلوں کی باقیات کو جلانا قرار دیا گیا تھا جس کے باعث گزشتہ برس صوبے بھر میں قائم اینٹوں کے بھٹوں کو عارضی طور پر بند کردیا گیا تھا۔

    علاوہ ازیں اسموگ مانیٹرنگ سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جو فصلوں کو جلانے، فیکٹریوں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی مانیٹرنگ کرے گی۔

    اسموگ کی روک تھام کے اقدامات کے تحت فیکٹری مالکان کو بھی اینٹی سموگ پالیسی پر عمل درآمد کا پابند بنایا جارہا ہے، مقامی حکومت نے فصلوں کو جلانے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانوں اور گرفتاریوں کی وارننگ دے دی ہے۔

  • چین میں سائنس کے طالب علم کسانوں کی مدد کرنے لگے

    چین میں سائنس کے طالب علم کسانوں کی مدد کرنے لگے

    بیجنگ: چین کی ایک یونیورسٹی میں سائنس کے طالب علموں کو کسانوں کے پاس رہنے کے لیے بھیجا گیا جس کے نتائج نے زراعت کی صنعت کو حیران کردیا۔

    چین میں کیے گئے اس تجربے میں سائنس کے طلبا نے نئی تکنیکوں کے ذریعے کسانوں کی رہنمائی کی جس سے فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوگیا۔

    ان طلبا نے کھیتوں کی مٹی اور وہاں کے موسم کا بھی جائزہ لیا اور اسی مناسبت سے کسانوں کو بیج بونے کا کہا، ساتھ ہی انہیں ہل چلانے اور موزوں فرٹیلائزر کے بارے میں بھی بتایا۔

    ابتدا میں کسانوں نے ان طلبا کی معلومات پر بھروسہ نہیں کیا اور اپنے روایتی طریقوں سے ہی زراعت کرنے پر مصر رہے، تاہم جن کسانوں نے ان طلبا کے ساتھ مل کر کام کیا ان کی فصلوں میں نمایاں بہتری اور اضافہ دیکھا گیا۔

    اس تجربے سے نہ صرف مجموعی طور پر زراعت میں اضافہ دیکھا گیا بلکہ طلبا کو بھی تجربہ حاصل ہوا کہ دور طالب علمی میں پڑھائی جانے والی تکنیکوں کو عملی طور پر کیسے استعمال کیا جائے۔

  • مصوری کے شاہکار جیسے چاول کے کھیت

    مصوری کے شاہکار جیسے چاول کے کھیت

    دنیا کی اہم معاشی طاقت چین میں چاول سب سے اہم زرعی فصل ہے۔ چین کے نصف زرعی رقبے پر چاول اگایا جاتا ہے اور یہ مقدار دنیا بھر میں اگائے جانے والے چاولوں کا 30 فیصد حصہ ہے۔

    دنیا میں چاول کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والے چین میں سالانہ 207 ملین ٹن چاول اگائے جاتے ہیں۔

    جن علاقوں میں چاول اگائے جاتے ہیں وہاں کا موسم مرطوب ہے اور بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں۔ بعض مقامات پر موسمی و جغرافیائی حالات اس قدر موافق ہیں کہ ایک ہی زمین کے کھیت میں دو موسموں کی فصل اگائی جاسکتی ہے۔

    تاہم چاولوں کی یہ فصل معمولی فصل نہیں۔ اگر آپ ان کھیتوں کا فضائی جائزہ لیں تو آپ کو لگے گا کہ آپ کسی وسیع و عریض فن مصوری کے شاہکار کو دیکھ رہے ہیں۔

    دراصل چین کے دہقان چاولوں کو مختلف انداز اور رنگوں سے مزین کر کے پیٹرنز کی شکل میں بوتے ہیں، اس کے بعد جب چاولوں کی فصل تیار ہوتی ہے تب یہ آرٹ کے کسی شاہکار کی طرح لگتے ہیں۔

    ان پیٹرنز میں زیادہ تر قدیم چین کے بہادر جنگجوؤں، تاریخی کرداروں، مذہبی دیوتاؤں اور خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔

    مختلف رنگوں اور تصاویر سے مزین یہ کھیت دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جو چین کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔