Tag: فضائی آلودگی

  • لاہور فضائی آلودگی کا گڑھ بن گیا، آج بھی  دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست

    لاہور فضائی آلودگی کا گڑھ بن گیا، آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست

    لاہور : پنجاب کا دارلحکومت لاہور آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر ہے ، شہر کا مجموعی ایئر کوالٹی انڈیکس 523 تک پہنچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورفضائی آلودگی کاگڑھ بن گیا ، بھارت کے مشرقی علاقے سے چلنے والی آلودہ ہوا کے منفی اثرات کے باعث لاہور کے ایئرکوالٹی انڈیکس میں پھر سے غیر معمولی اضافہ ہوا۔

    عالمی ویب سائٹ نے بتایا کہ شہر کا مجموعی ائیر کوالٹی انڈیکس523کو چھونے لگا، جس کے باعث دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور سب سے آگے ہیں۔

    سیکریٹری تحفظ ماحول راجہ جہانگیر انور کا کہنا ہے کہ 1کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے ہوالاہور کی جانب چل رہی ہے، عوام سے درخواست ہےماسک کااستعمال لازمی کریں۔

    راجہ جہانگیر انور نے کہا کہ لاہورکےشہریوں نے10دن سےاسموگ کےخاتمے کیلئےعملی کردار ادا کیا، کوڑے کو اگ لگانے،گاڑیوں کے دھویں میں خاصی کمی آئی ، 28دن میں 2500دھواں چھوڑنےوالی گاڑیوں کوروکا گیا جبکہ 469فیکٹریاں سیل ،بھٹےمسمار،318ایف آئی آرز درج کی گئیں۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے 2 دن تک بارش کے امکانات موجود نہیں۔

    دوسری جانب لاہور میں بغیر ترپال اور حفاظتی تدابیر کے ٹریکٹر ٹرالیوں کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔

    سی ٹی او عمارہ اطہر نے بتایا ہیوی ٹریفک کومقررہ اوقات سے قبل شہرمیں داخلےکی اجازت نہیں، رواں ماہ دھواں چھوڑنے والی سات سواسی گاڑیاں بند کی گئیں جبکہ ریت، مٹی اوردیگرماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی پانچ ہزار سے زائد گاڑیوں کا چالان کیا گیا۔

  • آج سے اسکولوں کے اوقات تبدیل، اب کتنے بجے اسکول پہنچنا ہوگا؟

    آج سے اسکولوں کے اوقات تبدیل، اب کتنے بجے اسکول پہنچنا ہوگا؟

    لاہور : اسکولوں کے آج سے اوقات کار تبدیل کردیئے گئے ، اب صبح ساڑھے سات بجے کے بجائے کتنے بجے اسکول پہنچنا ہوگا؟

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں اسموگ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے پیش نظر اسکولوں کے نئے اوقات کار نافذ کر دیے گئے ہیں۔

    لاہور میں فضائی آلودگی کے باعث اسکول کے اوقات تبدیل کر دیئے گئے، اب صبح ساڑھے سات بجے لگنے والے اسکول آج سے پونے نو بجے لگیں گے۔

    بچوں کی اسمبلی کلاسوں میں ہوگی اور آؤٹ ڈور سرگرمیاں معطل رہیں گی، سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسکول کے تبدیل شدہ اوقات اکتیس جنوری 2025 تک نافذ العمل رہیں گے۔

    Currency Rates in Pakistan Today- پاکستان میں آج ڈالر کی قیمت

    اسکول میں ہر قسم کی آؤٹ ڈور سرگرمیاں معطل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ لاہورمیں 31 جنوری 2025 تک ہر قسم کی آتشبازی پر بھی سخت پابندی ہوگی۔

    خیال رہے لاہور میں صبح سویرے اسموگ کے بادل سموگ کے باعث ائیر کوالٹی انڈیکس چھ سو سے تجاوز کر گیا ہے۔

    محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کی جانب سےضروری اقدامات کیلئےہدایات کی گئی ہیں، جس میں کہا گیا کہ عوام اسموگ سے بچنے کیلئے ماسک اوردیگر حفاظتی تدابیر اختیار کریں، گھروں کی کھڑکیاں، دروازے بند رکھیں اور زیادہ دیر کھلی جگہوں پر نہ رہیں۔

  • کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں۔ اور پاکستان، جس کا حصہ فضائی آلودگی میں بہت ہی کم ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں سرفہرست ہے۔

    تقریباً ہر سال ہی سیلاب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں تباہی مچاتے ہیں۔ مگر سال 2022 میں سندھ میں کلاوڈ برسٹ کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو تاحال آباد نہیں کیا جاسکا ہے۔

    ان تباہ کن بارشوں کے بعد اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتھونی نے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔ دورے کے اختتام پر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کی جانے والی میڈیا ٹاک کو بطور صحافی راقم نے براہِ راست کور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ جو کچھ دیکھ کر آئے ہیں، بہت ہی تباہ کن ہے۔ مگر جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، اس میں پاکستان ذمہ دار نہیں ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری مغربی ملکوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ترقی کے نام پر فضا کو بہت زیادہ آلودہ کردیا ہے۔ اور اب مغرب کو اس تباہی سے ہونے والے گھروں کے انفرااسٹرکچر کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    اسی سال موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بھارت کے مرکزی بینک کے سابق گورنر رکھو رام راجن نے جیکبسن لیکچر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ منطقۂ حرارہ جنوبی کے ملکوں کے پاس جس میں ایشیائی اور افریقی ملک شامل ہیں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹ سکیں اور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ لوگ ان ملکوں سے مغرب کی جانب ہجرت شروع کر دیں، ایسے مہاجرین کو کلائمٹ ریفوجی کہا جاتا ہے۔ اس لئے مغرب کو ان افراد اور حکومتوں کی مدد کرنا ہوگی جو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

    انتھک سفارتی کاوشوں کے بعد پاکستان نے سال 2023 میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ سال 2022 میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب تعمیر نو کے لئے فنڈز مہیا کرے۔ پاکستان نے عالمی بینک اور دیگر امداد دینے والے غیر ملکی اداروں کے اشتراک سے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالر لگایا ہے۔ جس میں سے پاکستان 8 ارب ڈالر اپنے وسائل سے خرچ کرے گا جبکہ 8 ارب ڈالر کی معاونت عالمی برادری سے طلب کی گئی ہے اور کلائمٹ ریزیلینٹ فنڈز کے ذریعے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر فراہمی کا وعدہ کیا مگر یہ رقم تاحال موصول نہیں ہوسکی ہے۔

    شدید بارشوں اور سیلاب کے علاوہ پاکستان میں موسم کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ شدید سردیاں اور گرمی کے مہینوں‌ میں بلند درجہ حرارت، بے وقت بارشیں اور سیلاب جیسے چند مسائل ہیں جن کا سامنا پاکستان کر رہا ہے۔ سخت موسمی حالات کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری عمل، محنت کشوں اور مصنوعات کی بروقت نقل و حرکت میں خلل، افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت میں کمی، بیماریوں اور اموات کی وجہ سے بھی معاشی نقصان بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سالانہ 4 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سالانہ معاونت سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

    موسمی تبدیلیاں ہو کیوں رہی ہیں۔ اس کا جواب سائنس دان یوں دیتے ہیں کہ مغربی ملکوں کی صنعتوں سے ماضی میں اور اس وقت بھی ایسی گیسوں کا اخراج جاری ہے جس سے کرۂ ارض میں موجود ہوا آلودہ ہوگئی ہے۔ اور اس آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گیسوں، گاڑیوں اور ڈیری کے جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں جن میں آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اوزون ون، نائٹرو آکسائیڈ اور اس جیسی دیگر گیسیں شامل ہیں، بہت زیادہ مقدار میں فضا میں شامل ہوگئی ہیں، فضا میں ان گیسوں کے جمع ہونے سے موسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورج کی تپش سے فضا یا یہ گیسیں بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں جس سے مجموعی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق میتھین گیس کا ایک مالیکیول چالیس سال تک فضا میں موجود رہتا ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ اگر مغرب فضاؤں کو آلودہ کررہا ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان جیسے ملکوں کی معاونت کو تیار بھی نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے تو پاکستان مغربی کمپنیوں سے سالانہ کم از کم فوری طور پر ایک ارب ڈالر کاربن کریڈٹس کی رضا کارانہ مارکیٹ میں فروخت سے کما سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ ڈالر مالیت کے کاربن کریڈٹس کے چھ منصوبے چل رہے ہیں۔ دنیا میں کاربن کریڈٹ مارکیٹ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ مارکیٹ 950 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ مارکیٹ مذید بڑھ سکتی ہے۔

    جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کی صنعتیں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کر رہی ہیں۔ اب ان کمپنیوں کو حکومت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جتنی گیس وہ فضا میں چھوڑ رہی ہیں اس کے مساوی کاربن کریڈٹ کو خرید لیں اور اس کا جمع تفریق صفر ہو۔ یعنی کاربن کا اخراج اور کاربن کریڈٹس یعنی فضا سے کاربن کم کرنا ہے۔ کاربن کریڈٹ یا فضا سے کاربن اخراج کو صفر رکھنے کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں ایمیشن ٹریڈنگ، کاربن کیپ ٹریڈنگ، کم کاربن کا اخراج کرنے والی ٹیکنالوجیز، متبادل توانائی میں سرمایہ کاری اور مستحکم ترقی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

    اگر ایک درخت لگانے سے ایسے طریقوں سے کاشت کرنے جس سے زیادہ سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز فضا سے ختم ہوں۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے اگر ایک ٹن کاربن ڈآئی آکسائیڈ گیس فضا سے ختم ہو تو اس کو ایک کاربن کریڈٹ کہتے ہیں۔ ہر ملک میں کاربن کریڈٹ کی قیمت مخلتف ہے۔ یورپی یونین کے کسی ملک میں اگر ایک کاربن کریڈٹ دستیاب ہو تو اس کی قیمت 30 سے 50 یورو کے درمیان ہو گی۔ جبکہ پاکستان میں ایک ٹن کاربن کے اخراج کو جذب کرنے پر 10 سے 15 ڈالر کا ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

    کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اگر آپ کے پاس ایک قطع زمین موجود ہے تو آپ کو کاربن کریڈٹ کی رپورٹ تیار کرنے والی کسی کنسلٹنٹ کمپنی سے رابطہ کرنا ہوگا جس کی شہرت کاربن کریڈٹ مارکیٹ میں اچھی ہو۔ یہ کنسلٹنٹ آپ کے لئے کاربن کریڈٹ رپورٹ تیار کرے گا۔ جس کے کئی مراحل ہیں جیسا کہ ڈیٹا جمع کرنا، تجزیہ کرنا، زمین کی ساخت، موسمی حالات کے حوالے سے موضوع درخت کی قسم، درختوں کی تعداد جیسی معلومات پر مبنی رپورٹ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایک تیسری پارٹی اس کا جائزہ لیتی ہے۔ اور سرٹیفکٹ جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں چند ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک اخراجات ہوسکتے ہیں۔ یہ اخراجات اس پر منحصر ہیں کہ رپورٹ کی پیچیدگی کتنی ہے۔ رپورٹ کاربن کریڈٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دس فیصد تک ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کی تیاری اور تصدیق کے بعد کریڈٹس کو فروخت کر لئے مارکیٹ میں بروکرز کمپنیاں موجود ہیں انہیں فروخت کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جو کہ 10 سے 15 فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ یعنی ایک کاربن کریڈٹ کے باغبانی اور زراعت کے منصوبے میں رپورٹ کی تیاری اور فروخت پر 25 فیصد تک اخراجات فیس کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک کاربن کریڈٹ 10 ڈالر کا ہے تو اس میں سے 2.5 ڈالر رپورٹ کی تیاری اور فروخت کے کمیشن کی نذر ہوجائیں گے۔ اور آپ کو 7.5 ڈالر ملیں گے۔

    کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ میں فروخت کو پاکستان اپنے لئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا موقع بنا سکتا ہے۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پاس 7 کروڑ 96 لاکھ ہیکٹر زمین زراعت کے لیے دستیاب ہے۔ جس میں سے 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر زیر کاشت ہے اور حکومت کے پاس 91 لاکھ ہیکٹر زمین بے آباد پڑی ہے۔ اور اسی بے آباد زمین میں سے 48 لاکھ ہیکٹر پاکستان گرین انیشیٹو کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ زمین پر کاربن کریڈٹس کے لئے درخت لگا کر مقامی ماحولیات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پھل دار درختوں کے ذریعے مقامی خوارک اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جبکہ اسی کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے سالانہ کم از کم ایک ارب ڈالر بھی کمائے جاسکتے ہیں۔

  • ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    جب رومینہ خورشید عالم نے اپریل 2024 میں عہدہ سنبھالا تو وہ اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھیں۔ سینیٹر شیری رحمان کی کوپ 27 میں ترقی پذیر ممالک کے لئے نقصان اور تباہی فنڈ قائم کرنے سے متعلق مذاکرات کی تاریخی قیادت اور دیگر پیشروؤں کی اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ اس عہدے سے وابستہ توقعات کافی زیادہ ہیں۔ رحمان سے پہلے، سابق وزیر ماحولیات اور معروف موسمیاتی وکیل، ملک امین اسلم، پہلے ہی پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کو عالمی سطح پر پیش کرچکے ہیں۔

    پاکستان نقصان اور تباہی فنڈ کے معاوضے کا منتظر ہے، اس دوران موسمیاتی رابطہ کار رومینہ خورشید عالم نے ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ملک کے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور کوپ 29 کے حوالے سے تیاری کے بارے میں اپنے وژن پر گفتگو کی

    رومینہ خورشید عالم اپنے پیشروؤں کی طرف سے رکھی گئی بنیادوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی جانتی ہیں کہ آگے ایک طویل سفر ہے۔ نمایاں پیش رفت کے باوجود، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار مملک میں سے ایک ہے۔ شدید اور متواتر موسمی واقعات کے ساتھ، قوم کو ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ اگرچہ حالیہ مالیاتی بجٹ میں مالی سال 2024-25 کے لئے موسمی طور پر حساس علاقوں کے لئے مختص کئے گئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن بہت سے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور ملک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے احتیاط سے منصوبہ بند پالیسیوں اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔

    ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی رابطہ کار (کلائمیٹ کوآرڈینیٹر) رومینہ خورشید عالم نے اپنے پیشروؤں کو سراہا اور اپنے کیریئر کے سفراوراہداف کا خاکہ پیش کیا۔ وہ اپنا تعارف بطور ایک پر عزم موسمیاتی کارکن کراتی ہیں جوکہ پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے کا جذبہ رکھتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا، ” میرا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے، میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 2005 میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سے کیا۔ 2008 تک میں مسلم لیگ ن کے گوجرانوالہ چیپٹر کی سیکرٹری جنرل رہی۔ بطور مسیحی اور بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی پارٹی سے میری وابستگی برقرار رہی‘‘۔

    انہوں نے اپنے عہدے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا، “ وزیر اعظم میرے باس ہیں؛ مجھے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کی تعریف اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ میں اپنے اہداف کو جارحانہ طریقے سے حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہوں، میرے نزدیک غیر فعالیت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔”

    ڈائیلاگ ارتھ: آپ نے آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے کی بات کی ہے۔ اپنے موجودہ کردار میں آپ کے پاس کس قسم کا اختیار ہے؟ آپ اصل میں کتنی طاقت رکھتی ہیں؟

    رومینہ خورشید عالم: موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن پر وزیر اعظم کی رابطہ کار کی حیثیت سے، میں نے پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کی قیادت کی ہے۔ میرے کام میں موسمیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا، ماحولیاتی نظم و نسق کو بڑھانا، اور لچکدار منصوبوں کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا شامل ہے۔ میری توجہ پلاسٹک کے فضلے، پانی کے تحفظ، اور قابل تجدید توانائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے پر بھی مرکوز ہے۔

    تاہم، میرا کردار مشاورت اور سہولت کار کا ہے، ایگزیکٹو نہیں ہے۔ میں اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہوں اور رابطے وضع کرسکتی ہوں لیکن پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم کے لئے وزارتوں اور محکموں پر انحصار کرتی ہوں۔

    آپ کی توجہ اس وقت کن اہم مسائل پر مرکوز ہے اور کون سے بڑے اقدامات پائپ لائن میں ہیں؟

    ہماری توجہ فعال صوبائی تعاون کے ساتھ، موسمیاتی اثرات کے مقابلے میں پاکستان کی مطابقت بڑھانے کے لئے نیشنل اڈاپٹیشن پلان پر عملدرآمد کی قیادت پرمرکوز ہے۔ کوششوں میں پائیدار ترقی کے لئے موسمیاتی مالیات کو متحرک اور استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا اور کاربن ٹریڈنگ کے لئے ایک فریم ورک کو حتمی شکل دینا شامل ہے تاکہ اخراج کو کم کیا جا سکے اور گرین ماحول دوست ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ آلودگی کو روکنے کے لئے پلاسٹک پر پابندی کے ضوابط کو نافذ کرنا بھی ایک ترجیح ہے۔ مزید برآں، ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانا جو ماحولیاتی پائیداری کو صنعتی کاموں میں ضم کریں اور عوامی بیداری بڑھانے اور اسٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی اقدامات میں شامل کرنے کے لئے میڈیا کی حکمت عملی تیار کرنا اہم اقدامات ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور پاکستان کا اس پر کافی انحصار ہے۔ سربراہی اجلاس کے لئے ملک کے بنیادی اہداف کیا ہیں اور آپ انہیں پیش کرنے کی کیا تیاری کررہی ہیں؟

    کوپ 29 کے لئے پاکستان کے اہداف میں موسمیاتی مالیات میں اضافہ یقینی بنانا ہے، خاص طور پر کمزور خطوں میں موافقت اور لچک کے منصوبوں کے لئے۔ ملک کا مقصد اپنے نیشنل اڈاپٹیشن پلان کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا ازالہ کرنا اور پائیدار منصوبوں میں سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے کاربن مارکیٹ کی پالیسی کو حتمی شکل دینا ہے۔ ہم محدود افرادی قوت کے باوجود فنڈنگ ​​کی منظوری اور اربوں ڈالرز کے لئے 25 سے 30 پروجیکٹس تیار کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط بنانا اور موسمیاتی انصاف کی وکالت، بشمول مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ سلوک بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔

    تیاری میں وزارتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ، موسمیاتی اثرات پر ڈیٹا اور تحقیق کو مرتب کرنا، اعلیٰ سطح کی سفارت کاری، اور کوپ 29 میں پاکستان کے اہداف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کےلئے ایک جامع مواصلاتی حکمت عملی تیار کرنا شامل ہے۔

    سابقہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان نے 2022 کے سیلاب کے بعد نقصان اور تباہی کے فنڈ کی وکالت میں اہم پیش رفت کی۔ کیا پاکستان کو اس اقدام سے کوئی مالی مدد ملی ہے اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟

    پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد، سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کوپ 27 میں نقصان اور تباہی کے فنڈ کے قیام کی پرزور اپیل کی۔ اس فنڈ کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنا تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہیں۔

    کوپ 27 کے دوران نقصان اور نقصان کے فنڈ پر باضابطہ طور پر اتفاق کیا گیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ تاہم، فنڈ کو فعالیت کی رفتار سست ہے ،اس کی ساخت، حکمرانی، اور فنڈز تک رسائی کے معیار کے حوالے بات چیت جاری ہے۔ پاکستان، اس پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے ان مذاکرات میں فعال طور پر شامل رہا ہے، تاکہ کمزور ممالک کو بروقت امداد مل سکے۔

    پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ حکومت موسمیاتی خدشات کو اپنی وسیع تر توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں کیسے ضم کر رہی ہے؟

    پاکستان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود بتدریج آب و ہوا کے مسائل کو اپنی توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں ضم کر رہا ہے۔ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی (2019) کا مقصد 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی حاصل کرنا ہے، جس میں شمسی، ہوا اور پن بجلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ نیشنل الیکٹرک وہیکلز (ای وی) پالیسی فضائی آلودگی اور معدنی ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کے لئے الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کو فروغ دیتی ہے۔ گرین فنانسنگ کے اقدامات، جیسے قابل تجدید توانائی کی فنانسنگ اسکیم اور پاکستان کے پہلے گرین بانڈ کا اجراء ، پائیدار توانائی کی سرمایہ کاری کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    اقتصادی منصوبہ بندی میں بشمول موسمیاتی کارروائی (ایس ڈی جی 13)، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز شامل ہیں، اور کمزور گروہوں پر موسمیاتی اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے، ساتھ ہی نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی ) اور موسمیاتی لچکدار زراعت کے اقدامات ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔ احساس پروگرام جیسے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز میں موسمیاتی اثرات سے پیدا ہونے والی غربت کو کم کرنے پر ہیں۔ محدود وسائل اور نفاذ کے مسائل سمیت چیلنجز برقرار ہیں، لیکن جامع اور مساوی آب و ہوا کی پالیسیوں کے لئے عزم بھی برقرار ہے۔

    فضائی آلودگی سے متعلق پاکستان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کتنا اہم ہے اور اس تعاون کو فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟

    ماحولیاتی چیلنجوں جیسے فضائی آلودگی، ہمالیائی ماحولیاتی نظام کے انتظام، اور آبی وسائل کے مسائل سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔

    فضائی آلودگی پورے جنوبی ایشیائی خطے کو متاثر کرتی ہے، جس کی نگرانی، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور اخراج کے معیارات میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمالیائی ماحولیاتی نظام کا انتظام، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لئے اہم ہے، اور مشترکہ تحقیق اور تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ قلت اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ پانی کے وسائل کا انتظام ضروری ہے۔

    پاکستان علاقائی اقدامات میں فعال طور پر مصروف ہے جیسے ماحولیاتی انتظام کے لئے ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) میں شرکت، انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت کے ساتھ بات چیت کا انعقاد کررہا ہے، اور تحقیق اور تعاون کے لئے ہمالین یونیورسٹی کنسورشیم (ایچ یو سی) کا رکن ہے۔ دو طرفہ اور کثیر الجہتی معاہدے بھی ماحولیاتی مسائل میں مددگار ہیں۔ ان تعاون پر مبنی کوششوں کو مضبوط بنانا خطے میں پائیداری اورمطابقت کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔

    (یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)

  • موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    اس ہفتے، سنگاپور ایئر لائنز کی ایک پرواز کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث میں فضا میں شدید انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ طیارے میں سوار ایک مسافر جنہیں دل کا عارضہ تھا، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ فضائی انتشار اور ہوا بازی کو لاحق خطرات کے حوالے سے پے در پے ہونے والے واقعات کے تسلسل میں تازہ ترین تھا جن کے باعث اب دنیا بھر کی توجہ موسمیاتی تبدیلی اور ان کے نتیجے میں فضا میں بڑھنے والے انتشار پر مرکوز ہوگئی ہے۔

    ماہرین بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، کاربن کے اخراج اور فضا میں بڑھتے ہوئے انتشار کے درمیان موجود روابط کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی اگر شدید ہوتو اس کا نتیجہ طیاروں میں سوار افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

    یکم مئی 2022 کو، ممبئی سے کولکتہ جانے والی اسپائس جیٹ کی پرواز کو بھی فضا میں اسی طرح کا انتشار، ہنگامہ آرائی یا بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ کئی مہینے بعد اس پرواز میں زخمی ہونے والے ایک مسافر کی موت بھی واقع ہو گئی۔ ہیمل دوشی، جو اس اسپائس جیٹ کی پرواز میں سوار تھیں، نے اپنی زندگی کے اس بھیانک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا، “اچانک جھٹکے نے ہم سب کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو پکڑ لیا تاکہ وہ اپنی سیٹ سے گرنے سے بچ سکیں۔“

    اسی طرح، 11 جون 2022 کو، پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی سے پشاور جانے والی ایئر بلیو کی پرواز کو بھی غیر متوقع طور پر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جہاز کو لگنے والے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ تمام مسافر دہشت زدہ ہو گئے۔ جہاز میں سوار ایک مسافر نسرین پاشا نے بتایا کہ شدید افراتفری کے عالم میں تمام مسافر باآواز بلند تلاوت اور دعا کر رہے تھے اور گرنے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔ نسرین پاشا نے بتایا، “سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم ہموار پرواز اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ لیکن اچانک، پرواز ناہموار اور شدید جھٹکوں کا شکار ہوگئی۔”

    فضائی انتشار کی سائنسی توجیہ اور اثرات
    اسلام آباد میں مقیم ایک سائنس داں محمد عمر علوی کے مطابق، غیر محفوظ آسمانوں کا سبب انسانوں کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ “اوسط درجۂ حرارت میں اضافے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر فضا میں طیاروں کو ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گر۔” ڈاکٹر عمر علوی نے تفصیل سے بتایا۔

    عالمی سطح پر کیے گئے ایک مطالعے، جس کے نتائج 2019 میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محکمہ موسمیات کی طرف سے شائع کیے گئے تھے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فضا ئی ٹریفک کو بدترین اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔طیاروں کو فضا میں فضائی انتشار یا (clear-air turbulence (CAT) کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس قسم کی شدید فضائی ہنگامہ خیزی بادلوں کے بغیر علاقوں میں واقع ہوتی ہے اور مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات کا سبب بنتی ہے، لیکن بادلوں کی عدم موجودی کی وجہ سے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس مطالعے نے یہ بھی واضح کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے فضا میں گرم ہوا کے دھاروں کی شدت بڑھتی ہے، جس سے عالمی سطح پر ہوائی ٹریفک کے لیے بے ترتیبی (clear-air turbulence (CAT)) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شمالی بحر اوقیانوس جیسی مصروف فضائی حدود متاثر ہو رہی ہے، جہاں 1979 سے 2020 تک شدید فضائی انتشارمیں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار سردار سرفراز خان نے کہا، “یہ پیش گوئی (فضائی انتشار) بالائی ماحول یعنی (85 کلومیٹر سے 600 کلومیٹرتک) ہوا کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو ریڈیو سونڈ نامی آلے سے حاصل ہوتے ہیں، جو فضا میں 100 گرام کے غبارے کے ساتھ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔

    عام طور پر 30,000 فٹ سے اوپر کی سطح پر بہت تیز ہوا کے ساتھ جیٹ اسٹریم جہازوں کے لیے انتشار کا باعث بنتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی دراصل صرف حرکت پذیر ہوا ہوتی ہے۔ اور ہوا ریڈار میں استعمال ہونے والی الٹرا ہائی فریکوئنسی ریڈیو لہروں سے شفاف ہے۔ لہذا ریڈار پر اس ہوا کی کوئی بازگشت یا نشان دہی نہیں ہوسکتی ہے۔”

    موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق
    سائنس داں، جیسے کہ رگھو مرتگوڈے، جو IIT بمبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نصاب کے پروفیسر اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی اورفضا میں بڑھتی ہوئی ہنگامہ خیزی کے درمیان تعلق کو اجاگر رہے ہیں۔ “گلوبل وارمنگ کے ساتھ، عمودی درجۂ حرارت (بڑھتی ہوئی بلندی کے ساتھ درجہ ءحرارت میں کمی) اور ونڈ پروفائلز (مختلف بلند سطح پر ہوا کی رفتار کے درمیان تعلق) کیونکہ زمین اضافی توانائی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے جو گرین ہاﺅس گیسوں کی وجہ سے زمین پر موجود ہے۔ فضا میں تیز اوپر اور نیچے کی طرف حرکت اور درجۂ حرارت کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے فضا میں انتشار یا (Clear-air turbulence) تشکیل پاتا ہے۔”

    IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں سطح پرموجود ہوا کے درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نتیجتاً، شدید موسمی واقعات بھی متواتر اور تباہ کن طور پر رونما ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ عالمی سطح پر ہوا کے درجۂ حرارت میں ہر فی سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ شمالی نصف کرہ کے موسم بہار اور سرما میں معتدل CAT واقعات میں تقریباً % 9 اور خزاں اور گرما میں % 14 اضافہ ہو جائے گا۔ اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو CAT واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System) کو بہتر بنانے اور ہوائی جہازوں میں ایسے آلات نصب کرنے پر زور دیا جو ایسے واقعات کا اندازہ لگاسکیں ۔ آئی آئی ٹی بمبئی میں ان موضوعات پر تحقیق جاری ہے۔

    ہندوستان کی ارتھ سائنسز کی وزارت کے سابق سکریٹری مادھون نیر راجیون نے کہا کہ مسافروں کو ہوشیار رہنا ہو گا، “فضائی بے ترتیبی میں اضافہ اور اس سے متعلقہ خطرات، جیسے کہ شدید موسمی واقعات وغیرہ، مسافروں کے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب کہ ہوا بازی کے شعبے کا کردار اہم ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کو قبول کیا جاتا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش بہت اہم ہے، پروازوں کی منسوخی کی مالی لاگت بھی فضائی سفر پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

    پاکستانی موسمیاتی سائنس داں محمد ایوب خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی صنعت کو متعدد طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ “انتہائی گرمی طیاروں کو گراؤنڈ رکھ سکتی ہے، جب کہ بڑھتی ہوئی حرارت جیٹ اسٹریمز میں تبدیلی کرسکتی ہے جس سے فضا میں مزید بے ترتیبی اور انتشار ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کے کارکنوں کی صحت کے لیے خطرات اور ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”

    جنوبی ایشیا میں ہوا بازی کی پھلتی پھولتی صنعت اور خطرات
    یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہوائی سفر کی صنعت خاص طور پر جنوبی ایشیا میں نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت پاکستان کی قومی جی ڈی پی میں 2 ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کے خرچ سے ملک کے جی ڈی پی میں مزید 1.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، جو کل 3.3 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

    رپورٹ میں “موجودہ رجحانات” کے منظر نامے کے تحت اگلے 20 سالوں میں پاکستان میں ہوائی نقل و حمل میں 184 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 2038 تک اضافی 22.8 ملین فضائی مسافروں کی آمد و رفت بڑھے گی۔ اگر بہتر انتظام کے ذریعے اس بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھایا گیا تو جی ڈی پی میں تقریباً 9.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ملک کے لیے تقریباً 786,300 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

    ہندوستان میں، IATA نے اگلے 20 سالوں میں% 262 ترقی کی پیش گوئی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے نتیجے میں 2037 تک 370.3 ملین مسافروں کے اضافی سفر ہوں گے۔ اگر اس طلب کو پورا کیا جائے، تو اس بڑھتی ہوئی مانگ سے GDP میں تقریباً 126.7 بلین امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوگا اور تقریباً 9.1 ملین ملازمتیں شامل ہوں گی۔

    ماحول دوست ہوا بازی کی صنعت
    ہوا بازی کی صنعت کو برسوں سے اس کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات، خاص طور پر فضا میں کاربن کا اخراج جو فضا میں حرارت میں اضافہ کرتا ہے، کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جرمن ایرو اسپیس سینٹر کے ایک محقق، برنڈ کرچر کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کا ایک اور ضمنی پروڈکٹ – دھوئیں کی وہ سفید دھاریاں(Contrails) جو وہ آسمان پر پینٹ کرتے ہیں – کی گرمی کا اثر اور بھی شدید ہے، جو 2050 تک تین گنا ہو جائے گا۔

    اس تحقیق میں کہا گیا ہے، “طیارے شفاف، ٹھنڈی ہوا میں اونچے اڑتے ہی اپنے مسحور کن دھاریوں کا اخراج کرتے ہیں جن پر دیکھنے میں خوبصورت بادلوں کا گماں ہوتا ہے ۔ پانی کے بخارات ہوائی جہاز سے اخراج کے بعد ارد گرد ٹھنڈی فضا میں تیزی سے گاڑھے ہونے لگتے ہیں اور ایسے بادلوں کی شکل میں جم جاتے ہیں جن میں برف کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں، جو منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ یہ اونچے اڑنے والے بادل بہت زیادہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے لیے پتلے ہونے کے باعث ناموزوں ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر موجود برف کے کرسٹل گرمی کو ٹریپ کر لیتے ہیں۔ نچلے درجے کے بادلوں کے برعکس جو خالص ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں، یہ متضاد بادل آب و ہوا کو گرم کرتے ہیں۔

    ہوا بازی کے کچھ ماہرین جہازوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سبز ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجربہ کر رہے ہیں، اگراس حوالے سے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ فضا میں طیاروں کو لاحق خطرات (CAT) میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جو دراصل کاربن کے اخراج سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

    سارہ قریشی، ایک پاکستانی پائلٹ اور ایروناٹیکل انجینئر ہیں، جن کا مقصد طیاروں کے پرواز کے دوران خارج ہونے والے سفید دھوئیں (Contrails) کی آلودگی کو کم کرنا اور ہوا بازی کی صنعت کو سر سبز بنانا ہے۔

    سارہ قریشی نے برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی (Canfield University) سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، انہوں نے ہوائی جہاز کے ماحول دوست انجن بنانے کے لیے ایک ایرو انجن کرافٹ کمپنی قائم کی ہے۔یہ انجن ہوائی جہاز سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس لیے یہ آبی بخارات خارج ہونے کے بجائے پانی کی شکل میں جہاز میں جمع ہوتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اس پانی کو خشک سالی والے علاقوں میں بارش کے طور پر چھڑکا جا سکتا ہے۔

    پاکستان سے ہوا بازی کے ماہر محمد حیدر ہارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، “پائیدار ہوا بازی کے ایندھن کی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائیڈروجن اور بیٹری/ بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز 2030 کی دہائی کے آخر میں عالمی ہوا بازی کو زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کرنے والے ہوائی جہازوں کو عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ایئر لائنز میں شامل کیا جانا چاہیے۔“ ہارون کے مطابق، اپ گریڈ شدہ انجن، بہتر ایرو ڈائنامکس، ہلکے کمپوزٹ میٹریل اور بائیو بیسڈ پائیدار ایوی ایشن فیول سبز ہوابازی کی صنعت کے حل میں سے ایک ہے اور یہ اقدامات ہوا بازی کی صنعت میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔

    سارہ قریشی نے کہا کہ”جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں صرف ایک صنعت کام کرتی ہے۔ ہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ ہم سے ایک کلومیٹر اوپر فضا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہوا بازی کی آلودگی ایک کمبل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ زمین کی سطح کو ڈھانپ رہا ہے، اور گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔“

    یہ تحقیقی رپورٹنگ پروجیکٹ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام ”سرحدوں کے آر پار ٹریننگ ورکشاپ“ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ مسائل پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

    (چندرانی سنہا، شبینہ فراز کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • لاہور میں فضائی آلودگی میں کمی

    لاہور میں فضائی آلودگی میں کمی

    صوبۂ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور کی فضائی آلودگی میں کمی آئی ہے۔ عالمی ویب سائٹ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور کا دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آج چوتھے نمبر پر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبۂ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور کی فضائی آلودگی میں کمی آئی ہے، آلودگی کے اعتبار سے لاہور دنیا میں چوتھے نمبر پر آگیا، شہر میں اسموگ کی اوسط شرح 238 ریکارڈ کی گئی۔

    دوسری جانب ترجمان موٹر وے پولیس کے مطابق موٹر وے ایم ٹو لاہور سے شیخوپورہ تک، موٹر وے ایم تھری فیض پور سے درخانہ اور لاہور سیالکوٹ موٹر وے کو دھند کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔

    ترجمان کا بتانا ہے کہ  موٹر وے ایم فور عبدالحکیم سے فیصل آباد تک، موٹر وے ایم فائیو شیر شاہ سے روہڑی تک اور موٹر وے ایم ون پشاور سے رشاکئی تک دھند کی وجہ سے بند کر دی گئی ہے۔

    ترجمان موٹر وے پولیس کا کہنا تھا کہ شہری گاڑیوں کے آگے اور پیچھے دھند والی لائٹس کا استعمال کر یں، ڈرائیور تیز رفتاری سے پرہیز اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔

    اس کے علاوہ لاہور میں سردی بڑھ گئی، شہر میں کم سے کم درجہ حرارت 10، زیادہ سے زیادہ 21 سینٹی گریڈ جانیکا امکان ہے تاہم بارش کا امکان نہیں ہے۔

  • کراچی کی فضا انتہائی مضر صحت ہو گئی، دنیا میں آلودگی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر

    کراچی کی فضا انتہائی مضر صحت ہو گئی، دنیا میں آلودگی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر

    کراچی: شہر قائد کی فضائیں انتہائی مضر صحت ہو گئیں، جس کی وجہ سے کراچی آلودگی کے اعتبار سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آ گیا۔

    ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق کراچی میں فضائی آلودگی کی شرح 187 پرٹیکیولیٹ میٹر ریکارڈ کی گئی جس کے بعد کراچی آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں  دوسرے نمبر پر ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ 3 روز تک موسم خشک، صبح، رات میں ٹھنڈی ہوا چلے گی، کراچی کا موجودہ درجہ حرارت 18 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق شمال مشرقی سمت سے چلنے والی ہوا 11 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چل رہی ہے، ہوا میں نمی کا تناسب 64 فیصد ہے۔

  • دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج بھی سرفہرست

    دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج بھی سرفہرست

    لاہور : صوبائی دارلحکومت لاہور فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں آج بھی سرفہرست ہے ، جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 415 تک جا پہنچا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے باوجود لاہور میں اسموگ کم نہ ہوئی، وسطی پنجاب میں اسموگ کا راج آج بھی برقرار ہے اور آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج بھی سرفہرست ہے۔

    صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پرٹیکولیٹ میٹرز کی اوسط سطح 415 ریکار ڈ کی گئی جبکہ لاہور کے اپر مال کی فضائی آلودگی 508 میٹرز ریکارڈ کی گئی ہے۔

    محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمنٹل سائنسز میں ایئر کوالٹی انڈکس 250 ریکارڈ کی گئی۔

    محکمۂ تحفظِ ماحول پنجاب کا یہ بھی کہنا ہے کہ راولپنڈی میں شالے ویلی رینج روڈ پر فضائی آلودگی 194پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ ہوئی ہے۔

    دوسری جانب نئی دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں  دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 325 ریکارڈ کیا گیا ہے۔

  • دہلی میں فضائی آلودگی، کانگریس نے مودی حکومت کو ذمہ دار قرار دیدیا

    دہلی میں فضائی آلودگی، کانگریس نے مودی حکومت کو ذمہ دار قرار دیدیا

    نئی دہلی میں فضائی آلودگی کے سبب عوام کا جینا دو بھر ہوچکا ہے، جبکہ بدترین فضائی آلودگی پر قابو پانے میں حکومت ناکام نظر آرہی ہے، ایسے میں کانگریس کی جانب سے حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق موجودہ صورتحال کے پیش نظر کانگریس لگاتار حکومت پر حملہ آور نظر آ رہی ہے۔ آج دہلی کانگریس صدر اروندر سنگھ لولی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مرکزی اور دہلی حکومت راجدھانی میں آلودگی کنٹرول کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔

    غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب کانگریس کی حکومت تھی تو اسے گرین سٹی کا ایوارڈ امریکہ سے ملا تھا۔

    راجدھانی میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 22 نومبر کو جاری فہرست میں دہلی دنیا کے آلودہ شہروں میں دوسرے مقام پر پہنچ گیا۔دونوں حکومتیں آلودگی ختم کرنے کی جگہ بارش ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔

    اروندر سنگھ لولی کا کہنا تھا کہ دہلی حکومت اور مرکزی حکومت نے زہریلی ہوا کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں اُٹھایا، جبکہ سپریم کورٹ نے فضائی آلودگی کو روکنے میں بے حسی دکھانے پر حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔

    اروندر سنگھ لولی نے کہا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے فضائی آلودگی خطرناک سطح پر ہے۔ پھیپھڑے، قلب اور آنکھوں کی بیماریاں لوگوں کو پریشان کر رہی ہیں اور اسپتالوں میں بڑی تعداد میں مریض آ رہے ہیں۔

    اروندر لولی نے کہا کہ حکومت عوام کو مشورہ دے رہی ہے، لیکن آلودگی کو پوری طرح سے ختم کرنے کے لیے کارگر قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ آج دنیا میں دہلی کی پہچان دَم گھونٹو آلودگی والے شہر کی شکل میں ہو رہی ہے۔

    دہلی کانگریس صدر کا کہنا ہے کہ دَم گھونٹو خطرناک آلودگی کی وجہ سے دہلی کے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔ سانس، دمہ، پھیپھڑے کی تکلیف والے مریضوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

  • دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج بھی سرفہرست

    دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج بھی سرفہرست

    لاہور : صوبائی دارلحکومت لاہور فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں آج بھی سرفہرست ہے ، جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 455 تک جا پہنچا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وسطی پنجاب میں اسموگ کا راج برقرار ہے اور آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج بھی سرفہرست ہے۔

    صوبائی دارلحکومت لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پرٹیکولیٹ میٹرز کی تعداد چارسو پچپن ریکار ڈ کی گئی۔

    فیصل آباد میں بھی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی جہاں کی فضا میں آلودگی چارسو اٹھارہ پرٹیکولیٹ میٹرز ریکارڈ ہوئی ہے۔

    ملتان میں پرٹیکولیٹ میٹرز کی تعداد تین سو چورانوے ،گجرانوالہ میں تین سو چھتیس اور راولپنڈی میں تین سو ریکارڈ کی گئی۔

    ماہرینِ صحت کی لوگوں کو ماسک کا لازمی استعمال اورگھرسےکم سے کم باہرنکلنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔

    دوسری جانب اسموگ کے تدارک کیلئے لاہورسمیت پنجاب کے دس اضلاع میں اسمارٹ لاک ڈاون نافذ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے آج اورکل بند رہیں گے۔

    کاروباری مراکز اور مارکیٹیں سہ پہرتین بجے کے بعد کھولنے کی اجازت ہوگی جبکہ اتوارکو تمام مارکیٹیں مکمل بند رہیں گی۔