Tag: فضائی آلودگی

  • فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی جہاں ایک طرف تو انسانی جسم اور صحت کے لیے بے شمار نقصانات کھڑے کرسکتی ہے وہیں کئی بار تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ دماغی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ محض چند ہفتے کی فضائی آلودگی ہھی دماغی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے تاہم تحقیق کے مطابق منفی اثرات کی شدت کو اسپرین جیسی ورم کش ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس میں مختصر المدت فضائی آلودگی اور ورم کش ادویات کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع تحقیق میں مختلف ایونٹس جیسے جنگلات میں آتشزدگی، اسموگ، سگریٹ کے دھویں، کوئلے پر کھانا پکانے سے اٹھنے والے دھویں اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے فضائی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے بوسٹن سے تعلق رکھنے والے 954 معمر افراد کی دماغی کارکردگی اور ہوا میں موجود ننھے ذرات پی ایم 2.5 اور سیاہ کاربن جیسی آلودگی کے اثرات کا موازنہ کیا۔ اس کے علاوہ تحقیق میں ورم کش ادویات کے استعمال سے مرتب اثرات کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی ایم 2.5 کی اوسط سطح میں اضافہ 28 دن تک برقرار رہنے سے ذہنی آزمائش کے ٹیسٹوں میں رضا کاروں کے اسکور کم ہوئے۔ تاہم جو افراد ورم کش ادویات استعمال کر رہے تھے ان میں فضائی آلودگی سے دماغی کارکردگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی شرح دیگر سے کم تھی۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اسپرین کا استعمال اعصابی ورم کو معتدل رکھتا ہے یا دماغ کی جانب خون کے بہاؤ میں تبدیلیاں لاتا ہے جس سے فضائی آلودگی کے منفی اثرات کا کم سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ مختصرمدت کے لیے فضائی آلودگی بھی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اسپرین یا دیگر ورم کش ادویات کے استعمال سے ان کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس: صنعتیں بند ہونے کے نئے اثرت سے ماحولیاتی ماہرین پریشان

    کرونا وائرس: صنعتیں بند ہونے کے نئے اثرت سے ماحولیاتی ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤنز نے کاروباری و صنعتی زندگی کو معطل کردیا تو زمین کی فضا خاصی حد تک صاف ہوگئی تاہم ایک نئی تحقیق نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران مختلف ممالک میں حیران کن طور پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گزشتہ سال موسم بہار میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نتیجے میں مختلف حصوں میں درجہ حرارت میں 0.1 سے 0.3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا جو بظاہر بہت معمولی ہے۔

    نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک ریسرچ (این سی اے آر) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 کے دوران کئی ماہ تک لاک ڈاؤنز اور سماجی سرگرمیوں میں کمی کے نتیجے میں زہریلی گیسوں کا اخراج کم ہوا، جس کے نتیجے میں موسم معمولی گرم ہوگیا۔

    تحقیق کے نتائج حیران کن ہیں کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ آلودگی کے ہوائی ذرات یا ایروسول سورج کی روشنی کو بلاک کرتے ہیں، گشتہ سال ان کے اخراج میں کمی آئی جس کے نتیجے میں سورج کی زیادہ تپش ہمارے سیارے تک پہنچنے لگی، بالخصوص بڑے صنعتی ممالک جیسے امریکا، روس اور چین میں۔

    انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں سے گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کے نتیجے میں درجہ حرارت میں مختصر المدت اثرات مرتب ہوئے، آلودگی زمین کو ٹھنڈا کرتی ہے، تو یہ قابل فہم ہے کہ آلودگی کی شرح میں کمی نے ہمارے سیارے کو زیادہ گرم کردیا۔

    یہ اثر ان خطوں میں زیادہ نمایاں تھا جہاں آلودہ گیسوں کے ہوائی ذرات کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، وہاں درجہ حرارت میں 0.37 سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    ایروسول سورج کی تپش کو واپس پلٹانے والی آلودگی کی قسم ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز اس سے الٹ کام کرتی ہیں، وہ تپش کو سیارے کی سطح کے قریب قید کرلیتی ہیں اور درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

    درجہ حرارت میں مختصر المدت اضافے کے باوجود محققین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے طویل المعیاد بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کی شرح میں بس معمولی کمی آئے گی، کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسز فضا میں دہائیوں تک موجود رہتی ہیں جبکہ ایروسولز بہت جلد ختم ہوتے ہیں۔

  • اسموگ میں کمی کے لیے سرکاری افسران سائیکل پر دفتر آنے لگے

    اسموگ میں کمی کے لیے سرکاری افسران سائیکل پر دفتر آنے لگے

    لاہور: صوبہ پنجاب کی واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کے افسران سائیکل پر سوار ہو کر دفتر پہنچنے لگے، مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد عزیز کا کہنا ہے کہ لاہور میں اسموگ کے پیش نظر واسا نے یہ اقدام کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسموگ میں کمی کے اقدامات کے تحت واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کا عملہ سائیکلوں پر دفتر پہنچنے لگا، واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد عزیز کی قیادت میں افسران نے سائیکلوں پر سفر کیا۔

    زاہد عزیز کا کہنا ہے کہ لاہور میں اسموگ کے پیش نظر واسا نے یہ اقدام کیا ہے۔

    ایم ڈی واسا نے چند دن قبل اسموگ میں کمی کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت 31 اکتوبر کے بعد سے ہر ہفتے کے روز افسران سائیکل پر دفتر آئیں گے۔

    علاوہ ازیں 31 اکتوبر سے رواں سال کے آخر تک افسران دفاتر تک اکیلے گاڑی چلا کر نہیں آسکیں گے، ایک گاڑی کم از کم 2 افسران استعمال کریں گے، صرف خواتین افسران کو اس سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔

    واسا نے اعلان کیا تھا کہ 16 اکتوبر کے بعد سے تمام ہیوی مشنری 2 ماہ کے لیے بند رکھی جائے گی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ دو برسوں سے زہریلی دھند یعنی اسموگ کا مسئلہ نہایت شدت اختیار کرگیا ہے، اسموگ موسم سرما میں صوبہ پنجاب کو خاص طور پر متاثر کر رہی ہے۔

    اسموگ کی وجہ سے سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے جبکہ شہریوں کی بڑی تعداد سانس کی بیماری سمیت مختلف طبی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

    اسموگ کی بڑی وجہ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے اور فصلوں کی باقیات کو جلانا قرار دیا گیا تھا جس کے باعث گزشتہ برس صوبے بھر میں قائم اینٹوں کے بھٹوں کو عارضی طور پر بند کردیا گیا تھا۔

    رواں برس بھی پنجاب میں اکتوبر سے دسمبر تک اینٹوں کے بھٹے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، شہر میں اسموگ کی آمد سے قبل اداروں کی مشترکہ ٹیمیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    چیئرمین جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرمینٹل کمیشن جسٹس (ر) علی اکبر قریشی کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے والی گاڑیوں کے چالان یقینی بنائے جائیں اور فٹنس سرٹیفکیٹ کے اجرا تک انہیں بند رکھا جائے۔

  • آگرہ اور تاج محل دھول مٹی سے اَٹ گئے

    آگرہ اور تاج محل دھول مٹی سے اَٹ گئے

    بھارت کے شہر آگرہ کا تاج محل کل کی طرح‌ آج بھی دیدنی ہے اور ‌مغل شہنشاہ شاہ جہاں‌ کی ممتاز محل سے محبت کی کہانی شاید رہتی دنیا تک دہرائی جاتی رہے، لیکن اس عظیم الشان عمارت کے حُسن اور اس کی آب و تاب کے لیے فضائی آلودگی ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

    بھارت کے شہر آگرہ میں لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کے چند دنوں بعد ہی تاج محل کی عمارت دھول مٹی سے اَٹ گئی اور اس کا سفید سنگِ مرمر خراب ہونے لگا جس کا سبب مختلف اقسام کی زہریلی گیسیں اور تاج محل کے قریب جاری تعمیراتی کام ہے۔

    آگرہ میں فضائی آلودگی کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے اور مقامی شہری سانس کی مختلف تکالیف، سینے کے امراض، آنکھ اور مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن شہریوں‌ کا کہنا ہے کہ حکومت یا انتظامیہ کی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی کوشش نظر نہیں‌ آرہی۔ مقامی شہریوں‌ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھول مٹی سے تاج محل کی عمارت ہی متاثر نہیں‌ ہورہی بلکہ اس فضا میں‌ سانس لینے والے ہر شخص کی صحّت کو خطرہ ہے۔

    جہاں‌ تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک ہے، وہیں آگرہ کا بھارت کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کی فہرست میں‌ نواں‌ نمبر ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس شہر میں‌ مختلف چھوٹے کارخانوں اور ہر قسم کے ٹریفک کے علاوہ تعمیرات کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے جس کے سبب فضا میں دھول مٹی اور ہوا میں مختلف کثافتیں بڑھ گئی ہیں۔

    بھارت کی تاریخی اور اہم یادگاروں کی حفاظت اور دیکھ بھال سے متعلق قائم کردہ کمیٹی کے چیئرمین سید منور علی کا کہنا ہے کہ تاج محل کی عمارت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سے ملحق راستوں پر 100 الیکٹرانک بسیں‌ چلائی جائیں‌ گی اور یہ ان گیسوں کے اخراج کا باعث نہیں‌ بنیں‌ گی جن کی وجہ سے تاج محل کا سفید سنگِ مرمر خراب ہو رہا ہے۔

  • اوزون تہہ کا سب سے بڑا شگاف بھر گیا

    اوزون تہہ کا سب سے بڑا شگاف بھر گیا

    کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کا سب سے بڑا شگاف بھر گیا، 11 میل طویل یہ شگاف قطب شمالی کے اوپر تھا۔

    کوپرینکس ایٹموسفرک مانیٹرنگ سروس کے مطابق آرکٹک کے اوپر بننے والا یہ شگاف رواں برس کے آغاز میں بنا تھا اور مارچ تک یہ 11 میل تک پھیل گیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق آرکٹک کے اوپر اوزون میں شگاف پڑنا معمول کا عمل ہے تاہم یہ شگاف اب تک کا ریکارڈڈ سب سے بڑا شگاف تھا، اور جتنی جلدی یہ تشکیل پایا اتنی ہی جلدی یہ رفو بھی ہوگیا۔

    مانیٹرنگ سروس کا کہنا ہے کہ یہ شگاف پولر وورٹیکس کی وجہ سے بنا۔ اس عمل میں موسم سرما کے دوران بلند و بالا کرنٹ کی لہریں وسیع بھنور کی صورت گھومنے لگتی ہیں جس کے بعد برفانی خطے کی ٹھنڈی ہوائیں بھی بھنور کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

    اس کے بعد جب درجہ حرارت بالکل نیچے چلا جاتا ہے تو ایسے بادل بنتے ہیں جن سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے۔

    اس سے قبل کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران فضائی آلودگی میں کمی کی وجہ سے اوزون کے شگاف بھرنا شروع ہوگئے تھے اور حالیہ شگاف کی رفو گری کو بھی اسی سے جوڑا جارہا ہے تاہم ماہرین نے اس خیال کو مسترد کیا ہے۔

    ان کے مطابق جس طرح پولر وورٹیکس کی وجہ سے آرکٹک کے مذکورہ حصے کا موسم غیر معمولی طور پر سرد ہوا اسی طرح اس ٹھنڈک میں کمی بھی آگئی جس کے بعد مختلف گیسوں کے ردعمل سے اوزون کا شگاف بھر گیا۔

    اوزون تہہ کی حفاظت کے لیے آج سے 3 دہائیاں قبل سنہ 1987 میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔

    اس معاہدے میں اوزون کے لیے نقصان دہ گیسز کے کم استعمال کا عزم کیا گیا، اب 3 دہائیوں بعد اس معاہدے کے 99 فیصد اہداف کو حاصل کرلیا گیا ہے۔

  • کرونا اور لاک ڈاؤن سے جڑے ہوئے پھیپھڑوں کی کہانی

    کرونا اور لاک ڈاؤن سے جڑے ہوئے پھیپھڑوں کی کہانی

    تروتازہ اور صاف ہوا ہماری صحت اور تن درستی کے لیے نہایت ضروری ہے جو پھیپھڑوں کے ذریعے ہمارے جسم میں پہنچتی ہے۔

    اگر ہمارے جسم میں موجود پھیپھڑے خراب یا ناکارہ ہوجائیں تو ہم سانس نہیں لے سکیں جس کے نتیجے میں موت یقینی ہے۔ آلودہ ہوا میں سانس لینے کے دوران مختلف زہریلے مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔

    کرونا وائرس بھی ہمارے جسم میں داخل ہوکر اسی اہم ترین عضو کو متاثر کرتا ہے اور جب جسم اس وائرس کا مقابلے کرنے اور پھیپھڑے اپنا کام انجام دینے میں ناکام ہو جائیں تو انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    اسی کرونا کی وجہ سے دنیا کے مختلف شہروں میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے جس کے دوران ایئر انڈیکس جائزے سے معلوم ہوا کہ مختلف ملکوں کے شہروں میں آب و ہوا صاف ہوئی ہے اور ماحول میں بہتری آرہی ہے اور گیسوں، دھویں، مخلتف زہریلے اور کثیف مادوں سے صاف ہوا کا کچھ تو فائدہ اٹھایا ہی جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کھلی فضا اور تازہ ہوا میں سانس لینے سے آپ سانس کی مختلف طبی مسائل اور بیماریوں کے خطرے سے محفوظ رہتے ہیں۔

    لمبی اور گہری سانس لینے سے دل کو صحیح مقدار میں آکسیجن ملتی ہے جب کہ اس سے پھیپھڑے بھی مضبوط ہوتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‌۔

    طبی ماہرین کے مطابق گہرے سانس لینے سے مدافعتی نظام تن درست رہتا ہے جس سے ہمارے بیمار ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    کرونا سے بچنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے آپ تازہ اور پہلے کے مقابلے میں قدرے صاف ہوا میں لمبے اور گہرے سانس لے کر آپ جہاں بیماریوں کے خطرات کم کرسکتے ہیں، وہیں ڈپریشن، گھبراہٹ اور بیزاری کی کیفیت سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

    محققین اور ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ لمبے اور گہرے سانس لینے سے دماغی حالت پر مثبت اثر پڑتا ہے اور یہ عمل خاص طور ڈپریشن سے نجات دلاتا ہے۔

    صاف ستھری ہوا جہاں پھیپھڑوں کو طاقت دیتی ہے، وہیں دل کو مضبوط کرتی ہے جو خون کی گردش بہتر بناتا ہے۔

    دنیا بھر میں‌ فضائی آلودگی سنگین مسئلہ بن چکی ہے اور انسان طرح طرح کے جسمانی اور ذہنی امراض سمیت مختلف قسم کی معذوریوں کا شکار ہورہا ہے، ان حالات میں میسر قدرے صاف ہوا پھیپھڑوں کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہی ہے۔

  • پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا

    پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا

    لاہور: کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ایک اچھی خبر آئی ہے کہ پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ملک کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن جاری ہے، جس کے باعث فیکٹریوں اور سڑکوں پر گاڑیوں کا دھواں کم ہونے سے پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا ہے۔

    کرونا سے بچنے کی تدابیر کے اثرات شہروں کی فضا پر بھی مرتب ہونے لگے ہیں، کئی شہروں میں اس وقت لاک ڈاؤن ہے، سڑکوں پر پیٹرول اڑاتی گاڑیاں اور دھواں چھوڑتی فیکٹریاں اور بھٹے چند دن کے لیے بند ہونے باعث لاہور کی ہوا صاف شفاف ہونے لگی۔

    ڈی جی ماحولیات پنجاب تنویر وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر سڑکوں پر ٹریفک کو مستقل بنیادوں پر اسی سمت میں کنٹرول کیا جائے تو ہمیں سانس لینے کو شفاف فضا مل سکتی ہے، سموگ کے دنوں میں 400 کراس کر جانے والا پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس گزشتہ دس دن میں بہتر ہو کر 100 تک آ گیا ہے۔

    لاہور کی لبرٹی مارکیٹ لاک ڈاؤن کے باعث بند ہے

    کرونا وائرس: نقصانات کے ساتھ فوائد بھی سامنے آگئے

    خیال رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے متعدد بڑے ممالک میں پیداواری صنعتوں کو بند کیا جا چکا ہے، شاہراہوں پر ٹریفک پر بھی پابندی ہے، سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہے۔ جس کے باعث حال ہی میں موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے نے کچھ تصاویر جاری کی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آلودہ شہروں کا ایئر کوالٹی انڈیکس بھی کافی بہتر ہوا۔

  • کرونا وائرس: لاک ڈاؤن فضائی آلودگی میں کمی کا سبب بن گیا

    کرونا وائرس: لاک ڈاؤن فضائی آلودگی میں کمی کا سبب بن گیا

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف ممالک میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد فضائی آلودگی میں کمی آئی ہے جبکہ ہوا کا معیار بہتر ہوا، ایسا انسانی و صنعتی اور ٹریفک کی آمد و رفت سرگرمیاں کم ہونے سے ہوا۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ فروری کے مہینے میں چین کے شہر ووہان کے فضا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں واضح کمی ہوئی۔ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیس کا ہوا میں اخراج زیادہ تر گاڑیوں، صنعتی یونٹوں اور تھرمل بجلی گھروں سے ہوتا ہے۔

    تاہم اب جب چین میں کرونا وائرس کے بحران میں کمی ہوئی ہے تو یورپی خلائی ایجنسی کی تصاویر میں چین میں نائٹروجن گیس کے اخراج میں پھر سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب شمالی اٹلی میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں قابل ذکر کمی ریکارڈ کی گئی ہے، اٹلی میں ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے۔

    اسی طرح کی تبدیلی اسپین کے شہروں بارسلونا اور میڈرڈ میں بھی ریکارڈ کی ہے جہاں حکام نے مارچ کے وسط میں کرونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کے احکامات دیے تھے۔

    یورپ کے ارتھ سرویلنس پروگرام سے وابستہ وینسٹ ہنری پیوچ کا کہا ہے کہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ مختصر مدت کے لیے آلودگی پیدا کرنے والی گیس ہے جو ایک دن تک فضا میں رہتی ہے۔

    دوسرے ممالک جیسے ارجنٹائن، بیلجیئم، کیلیفورنیا، فرانس اور تیونس میں، جہاں حکام نے لاک ڈاؤن کے تحت لوگوں کو گھروں کے اندر محدود ہونے کا کہا ہے، ہوا کی کوالٹی کے لیے ڈیٹا چیک کیا جارہا ہے۔

  • فضائی آلودگی عالمی رپورٹ: بھارت کے 21 شہر بدترین قرار

    فضائی آلودگی عالمی رپورٹ: بھارت کے 21 شہر بدترین قرار

    نئی دہلی: عالمی سطح پر بھارت کو ایک اور دھچکا لگ گیا، دنیا کے 30 بدترین فضائی آلودگی والے شہروں کی فہرست میں بھارت کے 21 شہر شامل ہوگئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہر سال فضائی آلودگی کے حوالے سے رپورٹ جاری کرنے والے سوئٹزرلینڈ و امریکی ادارے ایئرکوالٹی (آئی کیو) نے تازہ رپورٹ شایع کی جس کے تحت دنیا بھر میں 30 بدترین فضائی آلودگی والے شہروں کی فہرست میں بھارت کے 21 شہر شامل ہیں۔

    آئی کیو ایئر کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سمیت دیگر ماحولیاتی ایجنسیوں کا بھی تعاون حاصل ہے، جن کی مدد سے مذکورہ نوعیت کی رپورٹ ہر سال تیار کی جاتی ہے۔

    افغانستان میں فضائی آلودگی، 8 ہزار سے زائد افراد متاثر

    رپورٹ کے مطابق بدترین فضائی آلودگی والے دارالحکومت کی فہرست میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پہلے نمبر پر ہے۔ جبکہ فضائی آلودگی والے بڑے شہروں میں بنگلادیش کا دارالحکومت ڈھاکا پہلے نمبر پر ہے۔

    خیال رہے کہ بھارت کے فضائی آلودگی والے شہروں میں نئی دہلی، ممبئی، غازی آباد، کولکتا، بنگلورو اور پونے جیسے شہر شامل ہیں اور مجموعی طور پر بدترین فضائی آلودگی والے 30 میں سے 21 شہر بھارت کے ہیں۔

  • کیا کراچی کی ہوا خطرناک حد تک آلودہ ہو چکی ہے؟

    کیا کراچی کی ہوا خطرناک حد تک آلودہ ہو چکی ہے؟

    ہم جس فضا میں سانس لے رہے ہیں، وہ گرد و غبار، کثیف ذرات اور دھویں سے آلودہ رہتی ہے۔ ہمارے ماحول میں مختلف گیسوں کا اخراج بھی جاری رہتا ہے جس کی تعداد اور مقدار کو جاننے، ناپنے اور سمجھنے کے مختلف طریقے اور معیار ہیں۔

    زمین پر ہر قسم کی حیات کے لیے ناگزیر عنصر یعنی ہوا دراصل مختلف گیسوں کا امتزاج ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بے شمار دیگر چھوٹے مادّے بھی موجود ہیں۔

    صنعتی ترقی کے ساتھ فضا میں ایسے مادّے اور مختلف ذرات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور انسان کی صحت اور زندگی پر اس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گاڑیوں، انجنوں، فیکٹریوں سے خارج ہونے والی گیسوں اور دیگر فضلے کی وجہ سے ہوا میں ایسے ذرات اور چھوٹے مادّوں کی تعداد اور مقدار بڑھ جاتی ہے جو خاص حد سے تجاوز کرجائیں تو ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔

    ہوا میں ان مادّوں کے تناسب کی سائنسی اور معیاری طریقے سے جانچ کے بعد ہی فضائی آلودگی کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔

    ہوا میں کثیف مادّوں کے ساتھ گیسوں کی بڑی مقدار آلودگی کا سبب بنتی ہے جسے ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کے مطابق جانچا جاتا ہے۔

    یہ ایک ایسا آلہ ہے جو تھرما میٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ اس میں پیمائش کے درجے صفر سے پانچ سو ڈگری تک ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہوا کے جائزے کے دوران صفر سے پچاس ڈگری تک نتیجہ سامنے آئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہوا یا ہماری فضا میں گیسوں کا تناسب بالکل درست ہے۔

    اگر یہ درجہ پچاس سے سو کی حد تک جائے تو کہا جائے گا کہ گیسوں کی مقدار نارمل سے زیادہ ہے، لیکن یہ زمین پر موجود جانداروں کی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوا میں گیسوں کا تناسب سو سے ڈیڑھ سو کی حد تک جائے تو ان لوگوں کے لیے مسئلہ بنتا ہے جو کسی بھی قسم کی الرجی اور جسمانی کم زوری کا شکار ہوتے ہیں، اسی طرح بچوں اور عمر رسیدہ لوگ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

    اگر یہی مقدار 150 سے 200 تک ہو تو اسے ماہرین خطرہ مانتے ہیں۔

    کراچی کے علاقے کیماڑی میں پُراسرار زہریلی گیس سے ہوا کے آلودہ ہونے کے باعث اموات نے شہریوں کو خوف زدہ کر دیا ہے اور سوشل میڈیا سمیت ذرایع ابلاغ میں اس پر مباحث جاری ہیں۔

    اسی دوران یو ایس ایئر کوالٹی انڈیکس کی ایک رپورٹ کا چرچا بھی ہوا جس کے مطابق شہر میں چلنے والی گرد آلود ہواؤں سے فضا میں زہریلے ذرات کی مقدار 190 تک پہنچ گئی ہے اور اس ادارے نے کراچی کو دس آلودہ ترین شہروں میں شامل رکھا ہے۔

    ہم آپ کو اوپر بتا چکے ہیں کہ ہوا کے اس درجہ آلودہ ہونے کو ماہرین انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیتے ہیں۔ تاہم محکمۂ موسمیات نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے اعداد و شمار کو امکانات اور مفروضے کی بنیاد پر جاری کردہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ کراچی کا حتمی طور پر دس آلودہ شہروں میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔