Tag: فلسطینی شاعر محمود درویش

  • محمود درویش:‌ بے وطنی کا کرب سہنے والا شاعر

    محمود درویش:‌ بے وطنی کا کرب سہنے والا شاعر

    محمود درویش تمام عمر اپنی مٹی کے فراق کا دکھ سہتے رہے اور ایک روز اسی بے وطنی کی حالت میں زندگی کے بوجھ سے آزاد ہوگئے۔ آج محمود درویش کی برسی ہے۔

    محمود درویش ارضِ فلسطین کا نوحہ اور مظلوم فلسطینیوں‌ کی زندگی اور شہادتوں کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنانے کی وجہ سے ایک طرف تو فلسطینی عوام کے محبوب شاعر تھے اور دوسری طرف انھیں اپنے توانا جذبۂ اظہار، اپنی فکر و دانش اور منفرد تخلیقات کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت اور پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایسے تخلیق کار تھے جس نے فلسطینی علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے شاعری کی اور جدودجہد میں اپنا حصّہ ڈالا۔ محمود درویش ایک مزاحمتی شاعر کی حیثیت سے فلسطین کی آواز بنے۔

    لبنان اور مصر کے درمیان واقع علاقہ مئی 1948ء میں قیامِ اسرائیل کے اعلان سے قبل صرف فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارُالحکومت بیتُ المقدس تھا۔ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل اور یہی شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس ہے۔ 1967ء میں اس شہر کو بھی اسرائیل کے قبضہ میں دے دیا گیا۔ محمود درویش نے اسی ارضِ فلسطین سے اپنی دوری کا دکھ اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھیں عصرِ حاضر کے عربی ادب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ تتلی کا بوجھ ان کے ایک شعری مجموعے کا عنوان تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ ایک استعارہ ہے جو انھوں ارضِ فلسطین کے لیے برتا تھا۔

    محمود درویش کو ناقدین بیسویں صدی کا ایک معتبر نام تسلیم کرتے ہیں‌ جن کی نظموں کا گویا ہر مصرع غم و اندوہ کی عکاسی اور مظلوم فلسطینیوں‌ کے کرب کا دردانگیزی سے احاطہ کرتا ہے۔ محمود درویش نے اپنی شاعری میں‌ اپنی وطن سے دوری کے ساتھ اپنے لوگوں کے لٹنے اور برباد ہوجانے، اسرائیل کے ظلم و ستم، جبر کے ماحول کی نہایت اثرانگیز جھلک پیش کی ہے۔

    اس شاعر کے لگ بھگ تیس مجموعے بازار میں آئے اور ہر کتاب مقبوضہ فلسطین کا نوحہ ہے۔ اِسی مناسبت سے محمود درویش کو فلسطین کی سانس کہا جاتا ہے۔ ان کے تخلیقی وفور کا اندازہ ان کے شعری مجموعوں کے نام سے بھی ہوتا جو نہایت مؤثر استعارہ ہیں۔ بے بال و پَر پرندے، زیتون کے پتے، انجامِ شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مَر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر وغیرہ وہ نام ہیں جو فلسطینیوں‌ کے حزن و ملال، محرومیوں کی ایک تصویر سی بنا دیتے ہیں۔ محمود درویش 19 سال کے تھے جب اپنا پہلا مجموعہ شایع کروانے کے بعد انھیں لبنان اور پھر سوویت یونین جانا پڑا، جہاں ایک سال ماسکو یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد مصر چلے گئے اور مشہور اخبار الاہرام میں ملازم بھی رہے۔ بعد میں یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او میں شمولیت اختیار کی۔

    محمود درویش نے شاعری عربی زبان میں کی جب کہ انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی بڑی روانی سے بولتے تھے۔ کئی ادبی انعامات سے نوازے گئے محمود درویش کے شعری مجموعوں‌ کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

    محمود درویش فلسطین کے قومی شاعر ہونے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر جانے اور چاہے جاتے تھے۔ وہ 1941ء میں گلیلی نامی علاقے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ فلسطین سے دور گزرا جس کا انھیں‌ بہت ملال رہا۔ ان کا خاندان بھی 1948ء میں‌ کئی عرب فلسطینیوں‌ کی طرح لبنان اور دیگر عرب ممالک فرار ہوجانے پر مجبور ہو گیا تھا اور اس کی وجہ قابض اسرائیلیوں‌ کا عالمی طاقتوں کی حمایت سے فلسطین کی سرزمین پر اپنے قدم جمانے کے لیے وہاں کے مسلمانوں پر مظالم اور ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا، بعد میں‌ وہ یہاں‌ لوٹے تو مقبوضہ فلسطین میں‌ اسرائیل کی انتظامیہ نام نہاد دستاویز اور قانونی کاغذات نہ ہونے کی آڑ میں‌ ہر فلسطینی کی طرح ان کی نگرانی اور آنے جانے کے لیے اجازت نامے طلب کرتی تھی اور جبر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے انھیں ملک سے دور رہنے پر مجبور کردیا۔

    9 اگست 2008ء میں محمود درویش امریکہ میں‌ انتقال کرگئے تھے۔

  • فلسطینی شاعر محمود درویش اور "تتلی کا بوجھ”

    فلسطینی شاعر محمود درویش اور "تتلی کا بوجھ”

    لبنان اور مصر کے درمیان واقع علاقہ مئی 1948ء میں قیامِ اسرائیل کے اعلان سے قبل فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارُالحکومت بیتُ المقدس تھا۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اوّل موجود ہے اور یہی شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔

    محمود درویش نے اسی ارضِ فلسطین کا دکھ اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ انھیں عصرِ حاضر کے عربی ادب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ تتلی کا بوجھ ان کے ایک شعری مجموعے کا عنوان تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ ایک استعارہ ہے جو انھوں ارضِ فلسطین کے لیے برتا۔

    ناقدین کے نزدیک وہ بیسویں صدی کا ایک معتبر نام ہیں جن کی نظموں کا گویا ہر مصرع اپنی سرزمین کا دکھ اور اپنے لوگوں کا کرب بیان کرتا ہے۔ وہ 1941ء میں شمالی اسرائیل کے علاقے گلیلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ فلسطین سے دور گزرا جس کا انھیں‌ بہت ملال رہا۔

    محمود درویش اپنے سیاسی نظریات اور ہر معاملے میں اپنے مخصوص نقطۂ نظر کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔

    اس شاعر کے 30 مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آئے جن میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و بربریت کے خلاف محمود درویش نے فلسطینیوں کے جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان شعری مجموعوں کے نام ہی سے عیاں ہے کہ ان کے دل میں‌ مادرِ گیتی کا غم کس شدّت اور انتہا پر ہے۔ انھوں نے بے بال و پر پرندے، انجامِ شب، بندوق کی روشنی میں لکھنا، گلیلی میں پرندے مر رہے ہیں، دور کی خزاں میں اترنے والی ہلکی بارش، اجنبیوں کا بستر اور وہ ایک جنت تھی کے نام سے مجموعے شایع کروائے تھے۔

    بے وطنی کا کرب تمام عمر اُن کے ساتھ رہا۔ وہ امریکا میں مقیم تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ 19 سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا مجموعہ اسرائیلی شہر حیفہ سے شایع کروانے کے بعد وہ لبنان چلے گئے اور پھر روس پہنچے اور وہاں بھی دل نہ لگا تو مصر میں سکونت اختیار کرلی۔ محمود درویش انگریزی، فرانسیسی اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    انھوں نے کئی ادبی اعزازات اپنے نام کیے جب کہ ان کے کلام کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو زبان میں بھی ان کی نظموں کا ترجمہ ہوا اور محمود درویش کو علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی۔ انھوں نے 9 اگست 2008 کو امریکہ میں‌ اپنی آخری سانس لی تھی۔