Tag: فلسطینی وزیر خارجہ

  • مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا واضح مؤقف، فلسطینی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ

    مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا واضح مؤقف، فلسطینی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ

    اسلام آباد: فلسطینی وزیر خارجہ نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے واضح، دو ٹوک اور اصولی مؤقف کو سراہتے ہوئے، علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی معاونت پر پاکستان کی قیادت اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا شکریہ ادا کیا۔

    تفصیلات کے مطابق شاہ محمود قریشی نے گزشتہ رات فلسطینی وزیر خارجہ ڈاکٹر ریاض المالکی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، دونوں وزرائے خارجہ میں فلسطین کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا، شاہ محمود نے اسرائیلی جارحیت اور مسجد اقصیٰ پر حملوں کی شدید مذمت کی، اور معصوم فلسطینیوں بالخصوص بچوں کی شہادت پر اظہار افسوس کیا۔

    شاہ محمود نے کہا پاکستان فلسطین کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھےگا، وزیر خارجہ نے فلسطینی ہم منصب کو عالمی برادری کی توجہ فلسطین میں جاری اسرائیلی فوج کی جارحیت کی طرف مبذول کروانے اور مسئلہ فلسطین کے پر امن حل کے لیے پاکستان کی سفارتی کاوشوں سے بھی آگاہ کیا۔

    وزیر خارجہ نے کہا وزیر اعظم عمران خان نے فلسطینی صدر کو فون کر کے مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے، انھوں نے اس مشکل گھڑی میں پاکستانی قوم کی جانب سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا پیغام بھی دیا۔

    فلسطینی وزیر خارجہ ڈاکٹر ریاض المالکی نے شاہ محمود کو فلسطین کی موجودہ صورت حال سے اور کشیدگی میں کمی لانے کے لیے جاری کاوشوں سے آگاہ کیا، انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے واضح، دو ٹوک اور اصولی مؤقف کو سراہتے ہوئے، علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی معاونت پر پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

    دریں اثنا، دونوں وزرائے خارجہ نے فلسطین کی کشیدہ صورت حال پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ شاہ محمود کا فلسطینی ہم منصب کے ساتھ یہ رابطہ، فلسطین کی صورت حال پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے حوالے سے اسلامی ممالک کے ساتھ استوار کیے جانے والے سفارتی روابط کی کڑی ہے۔

  • مجوزہ امریکی امن منصوبے کی شرائط قابل قبول نہیں، فلسطینی وزیر خارجہ

    مجوزہ امریکی امن منصوبے کی شرائط قابل قبول نہیں، فلسطینی وزیر خارجہ

    نیویارک : اسرائیلی بستیوں کی آباد کاری پر بحث کیلئے سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فلسطینی وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ مجوزہ امریکی امن منصوبے کی مسلط شرائط قابل قبول نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطینی اراضی میں اسرائیلی بستیوں کی آباد کاری پر بحث کے لیے مختص سلامتی کونسل کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں فلسطینیوں اور امریکیوں کے درمیان مستقبل کے اس امن منصوبے کے حوالے سے متضاد موقف سامنے آئے، جو امریکا جون میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    اجلاس میں فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ مستقبل کے لیے امریکی امن منصوبہ امن کوششوں کا ثمر نہیں ہے۔

    اس موقع پر مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر جیسن گرین بلاٹ بھی موجود تھے۔

    فلسطینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اب تک تمام باتیں اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ یہ امر امن منصوبے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ایسی شرائط سے متعلق ہے جو ہمیں قبول کرنا ہوں گی، یہ بات یاد رہے کہ کوئی بھی قیمت ان شرائط کو قابل قبول نہیں بنا سکتی ہے۔

    فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کے مطابق اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کے وقت یہودی آباد کاروں کی تعداد ایک لاکھ تھی اور آج اس معاہدے کے 25 برس بعد فلسطینی اراضی پر 6 لاکھ سے زیادہ یہودی آباد کار موجود ہیں۔

    فلسطینی وزیر نے باور کرایا کہ اب تو اسرائیل قبضے کی نیت سے بستیوں کی سرگرمیوں اور فلسطینی اراضی اپنی ریاست میں ضم کرنے کی نیت کو بھی خفیہ نہیں رکھتا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اجلاس کے بعد فلسطینی وزیر نے میڈیا کو واضح کیا کہ انہوں نے امریکی مشیر سے براہ راست بات نہیں کی۔ المالکی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بات کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی مشیر نے صرف فلسطینیوں پر نکتہ چینی کی۔

    فلسطینی وزیر کے مطابق گرین بلاٹ کا خطاب "بھلائی کی خبر نہیں دے رہا۔جواب میں امریکی مشیر جیسن گرین بلاٹ کا کہنا تھا کہ مجوزہ ویژن حقیقی اور قابل تکمیل ہو گا۔؎

    انہوں مطالبہ کیا کہ اس منصوبے کے انکشاف پر تنازع کے فریقین کی اس پر بحث کے لیے مدد کی جائے، اس موقع پر گرین بلاٹ نے اسرائیل کے موقف کے اظہار کے لیے اسے دعوت نہ دیے جانے کی مذمت کی۔

    انہوں نے اپنے خطاب کا زیادہ حصہ اس نکتہ چینی کی نذر کر دیا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف جانب داری دیکھنے میں آ رہی ہے۔

    گرین بلاٹ کا کہنا تھا کہ ہم اس دعوے سے رک جائیں کہ یہودی بستیاں ہی وہ رکاوٹ ہیں جو ایک سیاسی حل تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہیں۔ اصل مسئلہ حماس اور اسلامی جہاد تنظیمیں ہیں۔