Tag: فلسطین

  • مائیکروسافٹ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر ملازمین کا فلسطین کے حق میں احتجاج

    مائیکروسافٹ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر ملازمین کا فلسطین کے حق میں احتجاج

    مائیکروسافٹ کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر مائیکروسافٹ کی انجینئر إبتال ابو سعد نے فلسطین کے حق میں احتجاج کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق مائیکروسافٹ کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر مائیکروسافٹ کی انجینئر إبتال ابو سعد نے کمپنی پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیلی فوج کو اے آئی ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں تاکہ اسے غزہ پر جارحیت میں استعمال کیا جا سکے۔

    تقریب کے دوران معاملات اُس وقت کشیدہ ہوئے جب مائیکروسافٹ اے آئی کے سربراہ مصطفیٰ سلیمان کمپنی کے نئے AI اسسٹنٹ ’Copilot‘ کی اپڈیٹس اور مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈال رہے تھے۔

    اسی دوران مائیکروسوفٹ کی ایک خاتون ملازم ابتال ابوسعید نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ مصطفیٰ تمہیں شرم آنی چاہیے، تم اے آئی کو  بہتری کے لیے استعمال کرنے کی بات کرتے ہو، جبکہ مائیکروسافٹ اسرائیلی فوج کو مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی مہیا کر رہا ہے۔

    اس احتجاج پر مصطفیٰ سلیمان نے مختصر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے احتجاج کا شکریہ میں نے آپ کی بات سن لی ہے مگر ابتال نے جواب میں کہا کہ آپ کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، پورا مائیکروسافٹ خون آلود ہے۔

    ذرائع کے مطابق جس وقت یہ احتجاج کیا گیا اس وقت  مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اور سابق سی ای او اسٹیو بالمر بھی موجود تھے، جنہوں نے یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

  • کیا فلسطینی خاتون سے شادی جرم ہے؟ امریکا میں گرفتار استاد بدر خان سوری کے والد کا سوال

    کیا فلسطینی خاتون سے شادی جرم ہے؟ امریکا میں گرفتار استاد بدر خان سوری کے والد کا سوال

    ورجینیا: شمالی ورجینیا میں پیر کے روز گرفتار ہونے والے بھارتی استاد بدر خان سوری کے والد شمشاد علی نے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیٹے کا جرم یہ ہے کہ اس نے ایک فلسطینی خاتون سے شادی کی ہے۔

    ڈاکٹر بدر سوری بھارت سے پوسٹ پی ایچ ڈی کے لیے امریکا میں مقیم ہیں، وہ امریکی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے الولید بن طلال مرکز میں ’مسلم کرسچن انڈر اسٹینڈنگ ان واشنگٹن‘ سے بہ طور استاد وابستہ ہیں۔ انھیں امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی ایجنٹوں نے ان کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔

    ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک اسسٹنٹ سیکریٹری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ بدر سوری امریکا میں حماس کے پروپیگنڈے میں مصروف تھے اور یہود دشمنی میں سرگرم تھے، ان کے حماس کے مشتبہ دہشت گرد سے بھی تعلقات تھے۔

    ان الزامات پر بدر سوری کے والد شمشاد علی کا کہنا ہے کہ بدر سوری کی شادی غزہ کی ایسی فلسطینی خاتون سے ہوئی ہے جس کے والد سابق فلسطینی وزیر اعظم کا سیاسی مشیر رہ چکے ہیں، بدر سوری کے سسر فلسطینی کاز کے حامی ہیں، اس ’جرم‘ میں میرے بیٹے کو گرفتار کیا گیا ہے۔


    ٹرمپ نے امریکا میں لاکھوں تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کر دی


    انھوں نے کہا ’’میں پوچھتا ہوں کیا فلسطین کے ایشو پر بات کرنا یا کسی فلسطینی سے شادی کرنا جرم ہے؟ میرے بیٹے نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، اس کی رہائی کے لیے بھارتی حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔‘‘

    شمشاد علی خان سوری نے بتایا کہ ان کی بہو نے امریکا میں بھارتی سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے تاکہ بھارتی سفارت خانے کی اس معاملے میں مدد مل سکے۔

    واضح رہے کہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی انتطامیہ بھی امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے الزامات کی مسلسل تردید کر رہی ہے، امریکی ڈسٹرکٹ جج ورجینیا نے بدر سوری کے دلائل کے بعد امریکی انتظامیہ کے بدر سوری کو جبری ڈی پورٹ کرنے کی تیاری روک دی ہے، تاہم وہ ابھی زیر حراست ہیں۔

  • علامہ اقبال اور مغربی ممالک کے مسلمانوں سے وعدے

    علامہ اقبال اور مغربی ممالک کے مسلمانوں سے وعدے

    اقبال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا اور اسرائیل ۱۹۴۸ء میں وجود میں آیا لیکن اس سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں پر اقبال گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ مغربی ممالک ان تمام وعدوں کو روندتے ہوئے، جو انھوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں سے مذاکرات میں کیے تھے، یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں دینے پر تلے ہوئے تھے۔

    بشیر احمد ڈار نے اپنی کتاب ’’انوارِ اقبال‘‘ میں لکھا ہے کہ لاہور کے موچی دروازے پر ۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو ایک جلسہ ہوا جس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اقبال نے یہ قرارداد پڑھ کر سنائی اور جس میں برطانوی حکومت کو یاد دلایا گیا تھا کہ اس نے سلطنتِ عثمانیہ اور ترکی سے متعلق مسلمانوں سے وعدے کیے تھے لیکن پیرس کی صلح کانفرنس میں ان سے متعلق کیے گئے فیصلے قابلِ اطمینان نہیں ہیں۔ اس قراداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’سلطنتِ عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارۃً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب پیرس صلح کانفرنس منعقد ہوئی تو عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے نام سے ۱۹۲۰ء میں ایک تنظیم بنائی گئی۔

    یہ تنظیم ایک طرح سے اقوامِ متحدہ کی پیش رو تھی۔ لیکن افسوس کہ اس تنظیم پر بڑے ملکوں کی اجارہ داری تھی اور لیگ آف نیشنز وہ کچھ کرنے کی حقیقی قوت نہیں رکھتی تھی جس کے لیے وہ وجود میں لائی گئی تھی۔ طاقت ور ملکوں کے سامنے وہ بے بس تھی۔

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس پر اقبال بڑے مایوس ہوئے۔ بلکہ لیگ آف نیشنز کی تخلیق کو بھی وہ استعماری قوتوں کی سازش سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ تنظیم انگریزوں اور فرانسیسیوں نے محض مسلمان ملکوں کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹنے کے لیے بنائی ہے۔ اس تنظیم پر اقبال نے ’’پیام ِ مشرق‘‘ میں ’’جمیعتُ الاقوم‘‘ کے عنوان سے طنزیہ کہا:

    برفتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن
    دردمندانِ جہاں طرحِ نو انداختہ اند
    من ازیں بیش ندانم کہ کفن دُزدے چند
    بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند

    گویا اقبال کے خیال میں لیگ آف نیشنز کفن چوروں کی انجمن تھی جو قبروں کی تقسیم کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔ لیگ آف نیشنز کا مرکزی دفتر جنیوا (سوئٹزر لینڈ) میں تھا اور برطانیہ یہودیوں کی حمایت کررہا تھا۔ چنانچہ اقبال نے ضربِ کلیم میں شامل اپنی نظم ’’فلسطینی عرب سے ‘‘میں فلسطینیوں سے اشارۃً کہا:

    تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
    فرنگ کی رگ ِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

    اقبال برطانیہ کی یہود نوازی کے سخت مخالف تھے۔ محمد رفیق افضل نے اپنی کتاب ’’ گفتارِ اقبال‘‘ میں اخبار ’’انقلاب ‘‘کے شمارہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں ایک جلسہ بیرونِ دہلی دروازہ منعقد ہوا جس میں فلسطین کے بارے میں برطانیہ کی یہود نواز حکمتِ عملی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ اقبال نے اس جلسے کی صدارت کی اور اپنی تقریر میں کہا: ’’یہودی یورپ کی تمام سلطنتوں میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔

    یہودیوں کی خواہش پر انھیں مخصوص اوقات میں دیوارِ براق کے ساتھ کھڑے ہو کر گریہ و بکا کرنے کی اجازت عطا کی۔ اسی وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں دیوارِ گریہ مشہور ہوگیا۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے مسجدِ اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے۔ جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہرگز نہیں پہنچتا۔ سوائے اس کے کہ ترکوں نے انھیں گریہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‘‘

    علامہ اقبال نے لندن ۱۹۳۱ء میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اُنھیِں دنوں یروشلم میں موتمرِ عالمِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ایک کانگریس کا انعقاد ہو رہا تھا تا کہ صیہونی خطرے پر غور کیا جاسکے۔ اقبال لندن کی گول میز کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر یروشلم چلے گئے تاکہ اس کانگریس میں شریک ہوسکیں۔

    نومبر ۱۹۳۲ء میں اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔وہاں ان کی ملاقات مس مارگریٹ فرکہرسن (Miss Margerate Farquharson) سے ہوئی۔ مس فرکہرسن ایک تنظیم نیشنل لیگ کی رہنما تھیں۔ اس تنظیم کا ایک مقصد برعظیم پاک و ہند اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کو انصاف کے حصول میں مدد دینا بھی تھا۔ اس تنظیم کو فلسطینیوں سے بھی ہمدردی تھی۔ مس فرکہرسن نے لندن میں ۲۴؍ نومبر ۱۹۳۲ء کو اقبال کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔ اس موقعے پر اقبال نے کہا کہ برطانیہ کو چاہیے کہ عالمِ اسلام کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ فلسطین سے برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے عربوں کے حوالے کر دیا جائے۔ مس فرکہرسن کے نام اپنے ایک انگریزی میں لکھے گئے خط بتاریخ ۲۰؍ جولائی ۱۹۳۷ء میں اقبال نے بعض اہم باتیں لکھیں۔ شیخ عطاء اللہ نے ’’اقبال نامہ‘‘ میں اس خط کا اردو ترجمہ درج کیا ہے۔ اس میں سے کچھ اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال آخرِ عمر میں بھی باوجود بیماری کے مسلمانوں، فلسطین اور عالمِ اسلام کے معاملات و مسائل کے بارے میں کتنے متفکر رہتے تھے۔ لکھتے ہیں:

    ’’میں بدستور بیمار ہوں، اس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب و غریب خیالات اور احساسات جو اُس نے ہندستانی مسلمانوں کے دلوں میں بالخصوص اور ایشیائی مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کر سکتی ہے تفصیل سے تحریر نہیں کرسکتا۔

    میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ نیشنل لیگ آف انگلینڈ وقت شناسی کا ثبوت دے اور اہلِ برطانیہ کو عربوں کے خلاف جن سے برطانوی سیاست دانوں نے اہلِ برطانیہ کے نام سے حتمی وعدے کیے تھے ناانصافی کے ارتکاب سے بچا لے۔‘‘

    اسی خط میں آگے چل کر اقبال نے لیگ آف نیشنز یا جمیعتُ الاقوام کے بارے میں وہ بھی لکھا جو وہ’’ پیامِ مشرق‘‘ میں بزبانِ شعر کہہ چکے تھے۔ لکھتے ہیں: ’’ہمیں یہ کبھی بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ فلسطین، انگلستان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کا کوئی بھی حق نہیں۔ یہودیوں نے تو اس ملک کو رضامندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔‘‘

    (ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • سعودی عرب، یو اے ای، کویت نے نیتن یاہو کا بیان سختی سے مسترد کر دیا

    سعودی عرب، یو اے ای، کویت نے نیتن یاہو کا بیان سختی سے مسترد کر دیا

    ریاض: سعودی عرب میں فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔

    سعود ی وزارت خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کے بعد کہا ہے کہ فلسطینی عوام کا اپنی سرزمین پر حق ہے، وہ تارکین وطن نہیں ہیں، جنھیں اسرائیل غاصبانہ قبضہ کر کے بے دخل کر سکتا ہے۔

    سعودی وزارت خارجہ نے کہا دو ریاستی حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن قائم نہیں کیا جا سکتا، فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی تعلقات ممکن ہیں۔ یو اے ای نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بیان کو قابل مذمت اور اشتعال انگیز قرار دیا۔ اردن، عراق اور کویت کی جانب سے بھی نیتن یاہو کے بیان کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

    مصر نے بھی نتین یاہو کی تجویز کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر ذمے دارانہ قرار دیا، مصر کی وزارتِ خارجہ نے کہا نیتن یاہو کی تجویز سعودی عرب کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور مملکت کی سیکیورٹی مصر کے لیے سرخ لکیر ہے، مصر نے عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

    حماس کی بڑی فتح، اسرائیلی فوج غزہ کے نیٹزارم کوریڈور سے سے نکل گئی

    گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست بنانے کا بیان دیا تھا، امریکا میں ایک چینل کو انٹرویو میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، سعودی عرب فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتا ہے، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے، اس لیے اسے اپنے ملک کے اندر فلسطینی ریاست بنانی چاہیے۔

  • فلسطین پر قائد اعظم کے دور سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہے، ترجمان دفتر خارجہ

    فلسطین پر قائد اعظم کے دور سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہے، ترجمان دفتر خارجہ

    اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین پر قائد اعظم کے دور سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہے۔

    ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ ہم نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سمیت متعدد امریکی حکام کے غزہ پر بیانات دیکھے ہیں، غزہ پر ہمارا اپنا ایک مؤقف ہے۔

    ترجمان نے کہا غزہ ہماری بریفنگ کا باقاعدہ حصہ رہا ہے، قائد اعظم کے دور سے ہماری پوزیشن فلسطین پر واضح ہے، پاکستان فلسطینیوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔

    انھوں نے کہا غزہ کے عوام کی منتقلی نامنصفانہ، تکلیف دہ اور تشویش ناک ہے، غزہ سے قیدیوں کی منتقلی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی تجویز نہیں آئی، فلسطینیوں کی خواہش کے مطابق دو ریاستی حل کے حامی ہیں، فلسطینی جو چاہتے ہیں ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال پر کہا کہ بلاول بھٹو کا امریکا کا دورہ دفتر خارجہ کے ذریعے طے نہیں ہوا ہے، ان کے دورے کے حوالے سے ان کی جماعت کے ترجمان بہتر بتا سکتے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے متعلق فی الحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، ایک سوال پر کہا غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کی واپسی غیر قانونی نہیں ہے، راولپنڈی اور اسلام آباد میں تمام 20 لاکھ افغان مقیم نہیں ہیں۔

    فرینکفرٹ میں قونصل خانے پر حملے کے حوالے سے ترجمان نے کہا قومی جھنڈے کی بے حرمتی اہم معاملہ ہے، فرینکفرٹ واقعے سے پاکستانیوں کو دلی تکلیف ہوئی، ہم جرمن حکومت اور جرمنی سفارت خانہ سے اس سلسلے میں رابطے میں ہیں۔

  • اقوام متحدہ نے ٹرمپ کو غزہ سے متعلق خبردار کردیا

    اقوام متحدہ نے ٹرمپ کو غزہ سے متعلق خبردار کردیا

    امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی پٹی پر طویل عرصے تک قبضے کے اعلان پر دنیا بھر سے شدید رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی توثیق کرتے ہیں۔

    سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ نسل کشی کی کسی بھی قسم سے گریز کرکے بین الاقوامی قانون پر قائم رہنا ضروری ہے، غزہ تنازع کے حل کی تلاش میں ہمیں مسائل بدتر نہیں کرنے چاہییں۔

    ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ غزہ پر ٹرمپ کا بیان بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ صدر ٹرمپ کے قبضے کا بیان اشتعال انگیز اور شرمناک ہے۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ مقبوضہ علاقے سے فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنا جنگی جرم ہے۔

    دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ کے گزشتہ روز غزہ پر قبضے کے بیان کے بعد چین کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق چین سے جاری بیان میں چینی وزارت خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر ردعمل دیا ہے۔

    چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کی مخالفت کرتے ہیں۔ فلسطین پر فلسطینیوں کی حکمرانی بنیادی اصول ہے، غزہ کے باشندوں کی جبری منتقلی کے مخالف ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر سخت پابندیاں عائد کریں گے تاکہ وہ کبھی ایٹمی قوت نہ بن سکے۔

    اپنے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے سے خونریزی ختم ہوجائے گی۔

    خواتین کھلاڑیوں کے حقوق کیلئے جاری جنگ آج ختم ہوگئی، ٹرمپ کا بڑا اعلان

    ٹرمپ کا کہنا تھاکہ ہم غزہ کے لوگوں کیلئے ملازمتیں دیں گے، شہروں کو بسائیں گے، غزہ کو دوبارہ تعمیر کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کا عمل ان لوگوں کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے۔

  • اسرائیلی فورسز کی طوباس میں بمباری، قلقیلیہ میں مکان اڑا دیا

    اسرائیلی فورسز کی طوباس میں بمباری، قلقیلیہ میں مکان اڑا دیا

    اسرائیل کی فورسز نے مغربی کناے کے فلسطینی شہر طوباس میں بمباری کی ہے، جس میں 10 فلسطینی شہید ہو گئے۔

    غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فورسز کی مغربی کنارے میں قتل و غارت گری جاری ہے، صہیونی فورسز نے طوباس کے علاقے میں بمباری کی جس میں دس فلسطینی شہید ہوئے۔

    اسرائیل کی فوج نے ایک اور شہر قلقیلیہ میں بھی ایک مکان کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔ فورسز گزشتہ رات مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر قلقیلیہ میں ایک مقتول فلسطینی کے گھر کو اڑانے کی تیاری کر رہی تھیں، مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوج نے اب اس گھر کو مسمار کر دیا ہے، جو فلسطینی شہری جمال ابو ہنیہ کا تھا۔

    اسرائیلی فورسز نے جنین سمیت تلکرم میں بھی پرتشدد کارروائیاں شروع کر دی ہیں، تلکرم میں ایک گودام کو تباہ کر دیا گیا، اسرائیلی وزیر دفاع کی ڈھٹائی بھی برقرار ہے، انھوں نے کہ فورسز جنین میں ہی رہیں گی جب تک آپریشن مکمل نہیں ہو جاتا۔

    اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کا تیسرا تبادلہ آج ہوگا

    دوسری جانب آج حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا تیسرا دور ہوگا، حماس 8 یر غمالی رہا کرے گا، جس کے بدلے میں اسرائیلی فورسز 110 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔

  • موت سے بچنا کوئی فتح نہیں، فلسطینی نرس نے دل کھول کر رکھ دیا

    موت سے بچنا کوئی فتح نہیں، فلسطینی نرس نے دل کھول کر رکھ دیا

    غزہ میں فتح و شکست کے حوالے سے غزہ میں مقیم ایک نرس اور مصنفہ حدیل عواد نے اپنا دل کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق حدیل عواد نے لکھا ’’آخر کار جنگ بندی ہو گئی، 15 ماہ کی مسلسل نسل کشی کی جنگ کے بعد، ہم آخر کار راحت کی سانس لینے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے قابل بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کیا بچا ہے۔‘‘

    انھوں نے لکھا ’’ایسے وقت جب ہم بموں سے محفوظ وقت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دنیا اس بارے میں ایک شدید بحث میں مصروف دکھائی دیتی ہے کہ کون جیتا ہے۔ کیا اسرائیل فاتح ہے؟ یا وہ حماس ہے جو اپنی فتح کا اعلان کر سکتی ہے؟ یا بہادر فلسطینی عوام فاتح ہیں؟‘‘

    حدیل عواد نے کہا ’’میں ایک نرس ہوں، کوئی ماہر جنگ نہیں، اس لیے میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے، لیکن میں آپ کو بتاتی چلوں کہ دنیا کو اس دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کہ ہم بچ گئے، غزہ میں زندہ رہنا بہادری کے مترادف نہیں ہے، موت سے بچنا کوئی فتح نہیں ہے، ہم بہ مشکل ہی موت سے بچے ہیں لیکن دسیوں ہزار فلسطینی نہیں بچ سکے۔‘‘

    اسرائیل نے انروا کو 48 گھنٹوں کا وقت دے دیا، امریکا نے پابندی کی حمایت کر دی

    انھوں نے لکھا ’’نسل کشی کی جنگ نے وقت کو ایک دائرے میں بند کر دیا ہے، نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا، نہ کوئی منزل جس کی طرف ہم بڑھ رہے تھے، ہم صرف ایک دائرے میں چلتے رہے، ہر روز، آغاز کی طرف لوٹتے۔‘‘

    حدیل عواد نے بتایا ’’ہر روز، ہر خاندان کو پینے اور دھونے کے پانی، کھانے اور آگ لگانے کے لیے کچھ چیزوں کی تلاش میں نکلنا پڑتا تھا، یہ بالکل بنیادی چیزیں ہیں، اگر یہ ملتے بھی تو ان سب کو حاصل کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے، روٹی جیسے بنیادی حق کی تلاش ایک بڑی جدوجہد بن گئی تھی، لوگوں کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے، اور امدادی تنظیموں کے پاس راشن ختم ہو گیا تھا۔‘‘ عواد نے دل دہلا دینے والے بات بتائی کہ ’’یہاں تک کہ وہ آٹا جس میں کیڑے پڑ گئے تھے، اور ایکسپائر ڈبہ بند کھانا بھی عیش و آرام کی چیز بن گیا تھا۔‘‘

    ان کا کہنا تھا کہ اس تکلیف دہ دائرے کو صرف موت توڑتا تھا، جب لوگ اپنے پیاروں کو دفنانے اور ان کا غم منانے کے لیے معمول کو توڑ دیتے تھے۔ بیرونی دنیا نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کی پرتشدد ہلاکتوں کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز دیکھے، لیکن انھوں نے مستقل بیمار یا قابل علاج بیماریوں سے متاثرہ افراد کی خاموش، دردناک موت کو نہیں دیکھا۔

    عواد نے کہا ’’ہمارے ہاں انفیکشن والے لوگ اینٹی بائیوٹک کی عدم موجودگی کی وجہ سے مر جاتے تھے، ہمارے ہاں گردے کے مسائل والے لوگ مر جاتے تھے، کیوں کہ ڈائیلاسز کبھی کبھی ہی دستیاب ہوتا تھا، ان اموات کو سرکاری طور پر نسل کشی سے مرنے والوں کی تعداد میں شامل نہیں کیا گیا، ان میں سے بہت سی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔

    انھوں نے لکھا کہ کیمپوں کی گلیوں میں آپ کو جگہ جگہ کوئی غم زدہ زندہ بچ جانے والے، روتے یا خاموش بیٹھے ملیں گے، یہ موت سے تو بچ گئے لیکن یہ وقت کے دائرے میں قید ہو چکے ہیں۔ اتنے مہینوں کے اجتماعی نقصان، جبر اور تڑپ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت سے فرار کے لیے دل میں مزید گنجائش نہیں رہی ہے۔

    حدیل عواد نے یہ دردناک بات بھی لکھی کہ ’’میں بھی دوسرے بہت سے فلسطینیوں کی طرح خوفناک حد تک پرسکون اور بے حس ہو گئی ہوں، ہمارے کچھ خواب تھے، کبھی ہنستے گاتے تھے لیکن اب ہم خود کو بھی نہیں پہچان پا رہے، ہم ہم نہیں رہے، ہم جیسے تھے ویسے نہیں رہے۔‘‘

    تاہم انھوں نے امید کا بھی اظہار کیا اور لکھا کہ بے شک، ہم اب ہم نہیں ہیں، لیکن ہم مردہ بھی نہیں ہیں، ہمارا یہ نیا ورژن جدوجہد کو جاری رکھنے، اور مزید جینے کے لیے بنایا گیا ہے۔

  • غزہ میں ملبے کی صفائی کے دوران فلسطینی کہاں جائیں؟ ٹرمپ کی انوکھی تجویز یا نسلی تطہیر کا منصوبہ؟

    غزہ میں ملبے کی صفائی کے دوران فلسطینی کہاں جائیں؟ ٹرمپ کی انوکھی تجویز یا نسلی تطہیر کا منصوبہ؟

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وحشت و بربریت کے ہاتھوں تباہ شدہ غزہ میں ملبے کی صفائی کے دوران فلسطینیوں کو انوکھا مشورہ دیا ہے کہ وہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک چلے جائیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ اس وقت تباہ حال ہے، لوگ مر رہے ہیں، رہنے کے لیے مکان نہیں ہیں، عرب ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے لیے گھر تعمیر کیے جا سکتے ہیں جہاں وہ امن سے رہ سکیں۔

    امریکی صدر نے فلسطینیوں کے امن سے رہنے کی بات ایسے وقت کی ہے جب فلسطینی اپنی رہائش گاہیں مکمل طور پر کھو چکے ہیں اور ہزاروں شہری مارے جا چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

    دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن دور کے احکامات واپس لے کر اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے، اور ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو جلد وہ بم فراہم کیے جائیں گے جس کی انھوں نے ادائیگی کی ہے۔

    بے حسی کی مثال قائم کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا وہ غزہ کو ’بس صاف‘ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے مصر اور اردن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ساحلی علاقوں سے مزید فلسطینیوں کو لے جائیں۔ ہفتے کے روز ایئر فورس ون میں موجود صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کا اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ایک دن پہلے فون پر بات ہوئی ہے، اور اتوار کو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی بات کریں گے۔

    اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے سے روک رہی ہے، حماس

    الجزیرہ نے ٹرمپ کے اس بیان پر فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نقل مکانی عارضی یا طویل مدتی ہو سکتی ہے، جب کہ انھوں نے اسرائیل کے لیے 2000 پاؤنڈ کے بموں پر سے روک اٹھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

    فلسطینی اسلامی جہاد نے امریکی صدر کی تجویز کی مذمت کرتے ہوئے اسے جنگی جرائم کی حوصلہ افزائی قرار دیا۔ اور کہا کہ یہ تجویز انتہائی صہیونی دائیں بازو کے بدترین ایجنڈے کے مطابق اور فلسطینی عوام کے وجود، ان کی مرضی اور ان کے حقوق سے انکار کی پالیسی کا تسلسل ہے، تنظیم نے مصر اور اردن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس منصوبے کو مسترد کر دیں۔

    قطر کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر عبداللہ العریان نے الجزیرہ کو بتایا کہ امریکی صدر کے ریمارکس کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کیوں کہ ہم نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ مخصوص مطالبہ دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے ’’جنگ کے آغاز ہی میں‘‘ فلسطینی سرزمین کے زیادہ سے زیادہ حصے کو ’’نسلی طور پر پاک‘‘ کرنے کا اشارہ دیا تھا۔

  • غزہ میں اب تک ڈاکٹروں نے زخمیوں کے کتنے ہزار ہاتھ پیر کاٹے؟

    غزہ میں اب تک ڈاکٹروں نے زخمیوں کے کتنے ہزار ہاتھ پیر کاٹے؟

    غزہ: غزہ کی وزارت صحت کے ایک اہلکار نے جمعہ کے روز یہ دردناک انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے مسلسل 16 ویں مہینے تک نسل کشی کے دوران ہاتھ اور پیر کاٹے جانے کے 4,500 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

    ہیلتھ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ظہور الواحد نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 2024 کے آخر تک ساڑھے چار ہزار ہاتھ پیر کاٹے ہیں۔‘‘

    ڈائریکٹر نے بتایا کہ تقریباً 800 فلسطینی بچوں کے کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں، جو کہ ریکارڈ شدہ قطع اعضا کے کیسز کی کل تعداد کا 18 فی صد ہیں، ان کیسز میں 540 خواتین بھی شامل ہیں جو کل تعداد کا 12 فی صد ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس دردناک اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ فلسطینی شہری کس تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، بالخصوص سب سے زیادہ کمزور گروہ یعنی بچے اور خواتین۔ دوسری طرف ڈاکٹر اور حکومتی عہدیدار اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ قطع اعضا کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ غزہ کی صورت حال کے پیش نظر درست اعداد و شمار پیش کرنا مشکل ہے۔

    اسرائیلی فوج کے میجر پر یہودیوں کے حملے کی ویڈیو وائرل

    واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے بعد سے، اسرائیلی فوج نے غزہ میں صحت کے مراکز کو نشانہ بنایا، اسپتالوں کو بمباری سے تباہ کیا اور محاصرے میں لیے، انھیں خالی کرنے کی دھمکیاں دیں، اور طبی سامان کے داخلے کو روکا۔

    انھوں نے کہا کہ صحت کے شعبے کو بڑھتے ہوئے بحران سے بچانے کے لیے طبی اور انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔