Tag: فلسطین

  • بھارت کا دوغلا کھیل: فلسطین پر انصاف کی تبلیغ، منافقت پر عمل

    بھارت کا دوغلا کھیل: فلسطین پر انصاف کی تبلیغ، منافقت پر عمل

    اسٹینلی جونی (دی ہندو کے بین الاقوامی امور کے ایڈیٹر) نے اپنی کتاب ’اوریجنل سِن‘ میں فلسطین کے مسئلے اور بھارت-اسرائیل تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو عملی طور پر ختم شدہ قرار دیا ہے۔ ایک بڑے میڈیا ادارے کی جانب سے دو ریاستی حل کو ختم شدہ قرار دینا مشرق وسطیٰ/خلیجی خطے میں ہندوتوا نظریے کی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، جو اسرائیل کو بھارتی IIOJK اقدام کی تقلید کے لیے اکسا رہا ہے۔

    بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی:

    کتاب میں اسرائیل کے فلسطینی ریاست کے بارے میں مؤقف اور بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو تاریخی طور پر فلسطین کی حمایت اور بدلتے ہوئے ملکی سیاسی فریم ورک کے تحت اسرائیل کے ساتھ قربت دونوں کو شامل کرتی ہے۔

    مصنف نے خطے میں اسرائیل کے مؤقف اور اسرائیلی-فلسطینی تنازع پر بین الاقوامی توجہ کے درمیان بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا ہے۔

    دو ریاستی حل پر تضادات:

    اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل کی سرکاری حمایت کے باوجود، بھارت کے اقدامات، جیسے اسرائیل کے ساتھ مضبوط دفاعی تعاون اور اس کی جابرانہ پالیسیوں پر خاموشی، فلسطینی خودمختاری کے لیے اس کے دعوے جو جھٹلاتے ہیں۔

    خلیجی ریاستوں کے جذبات کی نظراندازی

    توانائی اور ترسیلات زر کے لیے خلیجی ممالک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، بھارت بے شرمی سے اسرائیل کی طرف جھکتا ہے اور اپنے عرب اتحادیوں کے جذبات کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ موقع پرستی پر مبنی سفارت کاری اخلاقی ذمہ داریوں پر اسٹریٹجک فوائد کو ترجیح دینے کو ظاہر کرتی ہے۔

    حساس اسٹوری پر کام کرنے والے لاپتا بھارتی صحافی کی لاش سیپٹک ٹینک سے مل گئی

    فلسطینیوں پر جبر کو قانونی حیثیت دینا:

    اسرائیل کے سخت گیر مؤقف اور فوجی-صنعتی کمپلیکس کے ساتھ اتحاد کر کے، بھارت فلسطینی علاقوں پر قبضے اور فلسطینی عوام پر منظم جبر کو خاموشی سے قانونی حیثیت فراہم کرتا ہے، جو عالمی سیاست میں انصاف کے علم بردار کی حیثیت سے اس کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔

    زائنسٹ اور ہندوتوا کا غیر مقدس اتحاد:

    اسرائیل کی صہیونیت اور بی جے پی کے ہندوتوا نظریاتی اتحاد میں اقلیتوں کے حاشیے پر دھکیلنے اور ان پر ظلم کرنے والی اکثریتی قوتوں کا غیر مقدس اتحاد ظاہر ہوتا ہے، جو عالمی ناانصافیوں کو مزید بڑھاتا ہے۔

    اسلاموفوبک بیانیہ:

    بی جے پی کی اسلاموفوبک بیان بازی اور گھریلو پالیسیاں بیرون ملک اسرائیل کی حمایت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، مسلمانوں کو، چاہے وہ فلسطینی ہوں، بھارتی مسلمان یا مظلوم کشمیری، خطرے کے طور پر پیش کرتی ہیں، جنھیں انصاف اور مساوات کے مستحق برادریوں کے بجائے قابو میں رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

    ریاستی دہشت گردی پر خاموشی:

    دہشت گردی کی مذمت اور فلسطین میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کو نظر انداز کرنا بھارت کے دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے، جو جغرافیائی سیاسی سہولت کے لیے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کو کمزور کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔

    فلسطینی کاز کو ترک کرنا:

    فلسطینی کاز کو چھوڑ کر اور اسرائیل کے قریب ہو کر، بھارت جنوبی ممالک کے رہنما اور مظلوموں کی آواز کے طور پر اپنی طویل عرصے سے قائم شبیہ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

    عرب دنیا کو بھارت سے تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت:

    یہ منافقت نہ صرف عرب ممالک کو بیگانہ کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے اخلاقی وقار کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ لہٰذا، عرب ریاستوں کو خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے لیے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

  • اسموک بم پھٹنے کے بعد فلسطینی کے جسم کے اندر سے دھواں نکلنے کی ہولناک ویڈیو

    اسموک بم پھٹنے کے بعد فلسطینی کے جسم کے اندر سے دھواں نکلنے کی ہولناک ویڈیو

    غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بربریت کی نئی مثالیں قائم ہو رہی ہیں، دنیا جنھیں دیکھ کر ششدر ہے، لیکن عالمی طاقتیں اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر شمالی غزہ کے علاقے بیت لاھیا کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جو ایک ایسے ہولناک منظر پر مبنی ہے جس میں ایک نوجوان زمین پر پڑا ہے اور اس کے بدن کے دو حصوں سے بہت تیزی کے ساتھ دھواں خارج ہو رہا ہے۔

    اسموک بم کی اس ویڈیو نے آن لائن غم و غصے کو جنم دیا ہے، اس کی تصدیق الجزیرہ کے سند نے کی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک فلسطینی فوٹوگرافر نے پوسٹ کی تھی۔

    حماس نے یرغمالی کی ویڈیو جاری کر کے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا، وائٹ ہاؤس کا اہم بیان

    کئی فلسطینی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ فوٹیج میں ایک نوجوان فلسطینی شخص کے جسم کے اندر ’’دھوئیں کے بم‘‘ کے پھٹنے کے نتیجے میں دھواں نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ اسموک بم نوجوان کے جسم کے اندر جا کر پھٹ گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی، یہ بم صہیونی فورسز کا نیا ہتھیار ہے جسے وہ فلسطینیوں پر آزما رہی ہیں۔

  • 2024 میں فلسطین کو کن ممالک نے تسلیم کیا؟

    2024 میں فلسطین کو کن ممالک نے تسلیم کیا؟

    غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے دوران 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 44,382 فلسطینی مارے اور 105,142 زخمی ہو چکے ہیں۔

    ایک طرف جہاں غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری تھی، وہاں دوسری طرف رد عمل میں سال 2024 کے دوران متعدد ممالک نے فسلطین کو بہ طور ریاست تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔

    الجزیرہ کے مطابق رواں برس غزہ پر اسرائیل کی جاری جارحیت کے درمیان 9 ممالک – آرمینیا، سلووینیا، آئرلینڈ، ناروے، اسپین، بہاماس، ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس – نے فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا، جس سے فلسطین کے لیے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کی عکاسی ہوتی ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ ریاست فلسطین کو اب 146 ممالک نے ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کر لیا ہے، ان ممالک میں اقوام متحدہ کے 75 فی صد رکن ممالک شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ اسرائیل غزہ کو تین ذیلی حصوں میں تقسیم کر رہا ہے تاکہ اس پٹی کو بتدریج اسرائیلی خودمختاری سے جوڑنا شروع کر دیا جائے، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا منصوبہ ہے کہ جنگ کے بعد کے عرصے میں آباد کاری کی سرگرمیوں کو تیز کرے اور شمالی غزہ کی پٹی کا اسرائیل کے ساتھ الحاق کرے۔

    اسرائیل اس وقت شمالی غزہ کی پٹی پر نزاریم کوریڈور تک اپنے کنٹرول کو مکمل کرنے اور اس علاقے کو بتدریج آباد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے۔

  • اسرائیلی فوجی فلسطین میں جنگ کے لیے جانے سے کترانے لگے

    اسرائیلی فوجی فلسطین میں جنگ کے لیے جانے سے کترانے لگے

    امریکی اخبار واشگنٹن پوسٹ کے مطابق اسرائیلی ریزرو فوجی فلسطین میں جنگ کے لیے جانے سے کترانے لگے ہیں۔

    امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطین میں پیچھے ہٹنے لگی ہے، اسرائیلی فوجی ایک سال سے زائد عرصے کے بعد بڑھتی تھکاوٹ سے دوچار ہیں۔

    فوجی خدمات کے لیے بلائے گئے اسرائیلی فوجی بھی جوائننگ نہیں دے رہے۔

    رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اکتوبر سے ریزرو فوجیوں کی تعداد میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

    دوسری جانب اسرائیل اور حزب اللہ جنگ بندی پر ابتدائی طور پر رضامند ہو گئے ہیں۔

    اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی کی صورت میں حزب اللہ دریائے لیطانی سے شمال تک پیچھے ہٹ جائے گا جبکہ اسرائیل جنوبی لبنان سے انخلاء کرےگا۔

    امریکا کی نگرانی میں جنگ بندی کی نگران فورس کام کرےگی، لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی حدبندی پر مذاکرات ہوں گے۔

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاہدے کی موجودہ تفصیلات اسرائیل کے حق میں ہیں، اسرائیل جنوبی لبنان پر زمینی کارروائی کے دو اہم اہداف حاصل کرلےگا۔

  • فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا، سی این این کی رپورٹ

    فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا، سی این این کی رپورٹ

    فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا ہو گئے ہیں، اس حوالے سے سی این این کی ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی اہلکار شدید ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگے ہیں، غزہ میں کیے گئے مظالم واپس جانے والے صہیونی فوجیوں کے اعصاب پر طاری ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق نہتے فلسطینی بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والے صہیونی فوجیوں کو احساسِ جرم نے گھیر لیا ہے، اور وہ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، اور خود کشی کرنے لگے ہیں، یہ فوجی غزہ سے تو نکل آئے لیکن غزہ ان کے ذہنوں سے نہیں نکل سکا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے واپس گھروں کو جانے والے اسرائیلی فوجیوں میں خود کشیوں کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے، اور وہ دوبارہ غزہ جانے کے لیے کسی قیمت تیار نہیں ہیں، واپس آنے والے ان فوجیوں میں ایک تہائی سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق احساسِ جرم اُن کے دل و دماغ کو گھیرے ہوئے ہے، نہتے شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی شہادت کا کریڈٹ لینا اب انھیں سوہانِ روح محسوس ہو رہا ہے۔

    حزب اللہ کی اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب پر بمباری، شہر میں‌ ایمرجنسی نافذ

    سی این این کے مطابق 40 سالہ ایلیران مزرہی چار بچوں کا باپ تھا، جو حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں تعینات ہوا، جب چھ ماہ بعد وہ لوٹا تو اس کے خاندان کے مطابق وہ ’پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD)‘ کا شکار ہو گیا، اسے دوبارہ غزہ بھیجا جا رہا تھا لیکن اس نے خود کشی کر لی۔ اس کی ماں جینی مزرہی نے کہا ’’وہ غزہ سے نکل آیا، لیکن غزہ اس سے نہیں نکلا، اور وہ بعد از جنگ کے صدمے سے مر گیا۔‘‘

    اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ ان ہزاروں فوجیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے، جو جنگ کے دوران صدمے کی وجہ سے پی ٹی ایس ڈی یا ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کتنے لوگ اپنی جانیں لے چکے ہیں، کیوں کہ اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) نے کوئی سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے ہیں۔

    واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کے حملوں کے بعد ایک سال کے عرصے میں غزہ میں 42,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے، اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

    اسرائیل نے اب جنگ لبنان تک پھیلا دی ہے، اور اسرائیلی فوجی مزید خوف زدہ ہو گئے ہیں، غزہ میں چار ماہ تک خدمات انجام دینے والے ایک IDF طبیب نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے سی این این کو بتایا ’’ہم میں سے بہت سے لوگ لبنان میں دوبارہ جنگ کے لیے بھیجے جانے سے بہت خوف زدہ ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے۔‘‘

    اسرائیلی فوج نے غزہ کو صحافیوں کے لیے بند کر رکھا ہے، لیکن وہاں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں نے CNN کو بتایا کہ انھوں نے ایسی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے، جسے بیرونی دنیا کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتی۔

  • فلسطین اور لبنان کے لیے 200 ٹن امدادی اشیا بھیجنے کے لیے چارٹر پروازوں کی پیشکش طلب

    فلسطین اور لبنان کے لیے 200 ٹن امدادی اشیا بھیجنے کے لیے چارٹر پروازوں کی پیشکش طلب

    کراچی: پاکستان فلسطین اور لبنان کے لیے 200 ٹن امدادی اشیا بھیجے گا، جس کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے چارٹر پروازوں کی پیشکش طلب کر لی ہے۔

    فلسطین اور لبنان کے لیے پاکستان کی انسانی امداد کے لیے کارگو ایئرکرافٹ کمپنیوں سے چارٹر پروازوں کی ضرورت ہے، این ڈی ایم اے نے فلسطین اور لبنان میں امداد کی نقل و حمل کے لیے 02x چارٹر پروازوں کے لیے معروف ایئر کارگو کمپنیوں سے بولی طلب کی ہے۔

    ہر طیارے میں 100 ٹن کے لگ بھگ امدادی سامان کی فراہمی کی جائے گی، شرط یہ رکھی گئی ہے کہ دل چسپی رکھنے والی ایئر کارگو کمپنیاں لازمی طور پر انکم اور سیلز ٹیکس کے محکموں میں رجسٹرڈ ہوں۔

    بولی میں شریک ہونے کے درخواست فارم این ڈی ایم اے اور پیپرا کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں، بولی کی دستاویزات، ہدایات/شرائط و ضوابط کے ساتھ 13 اکتوبر تک جمع کروائے جا سکتی ہیں، اور درخواستیں بولی دہندگان کی موجودگی میں اسی روز کھولی جائیں گی۔

    واضح رہے کہ لبنان کی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 2,229 لبنانی مارے جا چکے ہیں، جب کہ اب تک 10,380 زخمی ہو چکے ہیں۔ کرائسس ریسپانس یونٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کی مدت میں اسرائیلی فوج نے 57 ہوائی حملے کیے، یہ حملے زیادہ تر جنوبی لبنان، بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں اور وادی بیکا میں کیے گئے۔

    دوسری طرف غزہ پر بھی اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، شمالی غزہ میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اسرائیلی حملے میں کم از کم 22 افراد مارے گئے جسے ایک عینی شاہد نے ’زوردار زلزلہ‘ جیسا قرار دیا تھا۔ غزہ میں اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 42,126 افراد شہید اور 98,117 زخمی ہو چکے ہیں۔

  • پی ٹی آئی کا فلسطین پر حکومتی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

    پی ٹی آئی کا فلسطین پر حکومتی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے فلسطین پر حکومت کی بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی کو حکومت کی طرف سے دعوت نامہ مل گیا تھا، تاہم پارٹی قیادت کی اکثریت نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کی رائے دی ہے۔

    ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ حالیہ سیاسی صورت حال کو مدنظر رکھ کر پارٹی قیادت کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔

    اس سے قبل بیرسٹر گوہر نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے انھیں دعوت نامہ موصول ہو گیا ہے، اور اے پی سی میں شرکت سے متعلق پارٹی قیادت سے مشاورت ہو رہی ہے۔

    واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آج 7 اکتوبر کو یوم یکجہتئ فلسطین کے طور پر منانے اور آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

    یہ فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جماعت اسلامی (جے آئی) کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیا گیا تھا۔ آج 7 اکتوبر کو ہونے والی تقریبات اور سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ کمیٹی میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، شیری رحمان، سعد رفیق اور نیئر بخاری شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز جماعت اسلامی حیدر آباد کے تحت آل پارٹیز فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے شرکت کی، اور سربراہ حماس اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے لیڈر حسن نصر اللہ، شہداے فلسطین و لبنان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

  • خطے کو جہنم میں دھکیلنے والے اسرائیل نے غزہ میں مزید 51 فلسطینی شہید کر دیے

    خطے کو جہنم میں دھکیلنے والے اسرائیل نے غزہ میں مزید 51 فلسطینی شہید کر دیے

    غزہ: مشرق وسطیٰ کے خطے کو جہنم میں دھکیلنے والے اسرائیل نے غزہ میں مزید 51 فلسطینی شہید کر دیے۔

    الجزیرہ کے مطابق غزہ میں صہیونی فوج کے نہتے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم جاری ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں 51 فلسطینی شہید اور 82 زخمی ہو گئے۔

    اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک یتیم خانہ سمیت پناہ گاہوں اور اسکولوں پر الگ الگ حملوں میں درجنوں فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں، وسطی غزہ میں خان یونس میں قابض اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں 25 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے، 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی بربریت میں اب تک 41 ہزار 889 شہید اور 96 ہزار 625 زخمی ہو چکے ہیں۔

    غزہ میں پولیو مہم کا دوسرا مرحلہ، اسرائیلی بمباری کے دوران سال بھر میں 44 ہزار بچوں کی پیدائش

    اسرائیلی فوج زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کی راہ میں بھی مسلسل رکاوٹ ڈال رہے ہیں، گزشتہ روز بھی صہیونی فوجیوں نے پیرا میڈکس اور سول ڈیفنس کے عملے کو بمباری کی جگہ جانے سے روک دیا، جہاں زخمی تڑپ رہے تھے۔

  • ایڈورڈ سعید:‌ فلسطین کے حق میں بلند ہونے والی ایک توانا آواز

    ایڈورڈ سعید:‌ فلسطین کے حق میں بلند ہونے والی ایک توانا آواز

    فلسطین کی آزادی کے لیے سیاسی اور قانونی میدان میں‌ جہدوجہد جاری رکھتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم کے خلاف قلم کے سہارے لڑنے والے ایڈورڈ سعید کو دنیا ایک دانش وَر کے طور پر جانتی ہے۔ وہ فلسطینی عربوں کی مؤثر آواز تھے۔

    ایڈورڈ سعید ایک سیاسی کارکن، ماہرِ تعلیم اور علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں اس وقت امریکا منتقل ہونا پڑا جب فلسطینیوں کو جبراً ان کی زمین سے بے دخل کیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ان کی جگہ یہودیوں کی آباد کاری کے لیے ظلم و ستم توڑے گئے۔

    وہ یروشلم کے باسی تھے۔ پروفیسر ایڈورڈ سعید 1935ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں پناہ گزیں کی حیثیت سے امریکا چلے گئے۔ ایڈورڈ سعید انگریزی زبان میں لکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ان کے نظریات اور افکار زیادہ تیزی سے پھیلے اور ان کی پہچان بنے۔ ان کا تعلق یروشلم کے امیر اور کاروباری گھرانے سے تھا۔ ایڈورڈ سعید نے اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں پڑھا اور بعد میں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے والے ایڈورڈ سعید نے بعدازاں اسی زبان میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا میں تعلیم مکمل کر کے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ وہ اپنے ادبی ذوق اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی کے مطابق بھی کام کرتے رہے۔ ایڈورڈ سعید نے متعدد کتابیں اور مقالے لکھے لیکن ان کی وجہ شہرت اورینٹل ازم ہے جس کا شرق شناسی کے نام سے اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرستانہ اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔

    ایڈورڈ سعید آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے قلمی اور عملی طور پر ساری زندگی کوشاں رہے۔ ان کے مباحث نے اس ضمن میں یورپی نقطۂ نظر کو بدلا۔ وہ ایسے کھرے اور بے باک دانش ور تھے جنھوں نے امریکا میں رہنے کے باوجود فلسطین سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ بالعموم مشرق اور بالخصوص فلسطین سے متعلق یورپی دانش وروں کے تقریر اور تحریر کا عالمانہ تجزیہ کیا اور اس کا مدلّل اور مؤثر جواب دیا۔

    فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڈورڈ سعید کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1977ء میں انھیں ’فلسطین نیشنل کونسل‘ کی رکنیت دی گئی، جو 1991ء تک برقرار رہی۔ ایڈورڈ سعید مذاکرات کو فلسطین میں قیامِ امن اور اس مسئلے کے تصفیے کا حل سمجھتے تھے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر فلسطینی عوام کی بے جا حمایت جنگ کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا اور فلسطین کے پُرامن تصفیے کی ہر کوشش کو برباد کیا گیا۔

    ایڈورڈ سعید نے نہ صرف سیاست بلکہ ادب میں بھی اپنی بصیرت اور نظریہ سازی کی بنیاد پر نام و مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریریں رجحان ساز ثابت ہوئیں۔ مشرق آپ کی تنقید و تحقیق کا بنیادی موضوع رہا۔ انھوں نے پہلی بار مکمل صراحت کے ساتھ ادب پر کالونیاتی اثرات کا جائزہ بھی لیا اور اسے بہت اہم اور وقیع کاوش مانا جاتا ہے۔

    ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر نقد و نظر تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا تھا۔ جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ پر بھی ایڈورڈ سعید نے مقالے لکھے۔ ان کی مشرقیت سے متعلق بیسویں صدی کی انتہائی متاثر کن کتاب میں ہمیں مشرقی دنیا اور خاص کر عرب ملکوں سے متعلق مغربی علما کی رائے کا تجزیہ ملتا ہے۔ وہ 1977ء سے 1991ء تک فلسطین نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی، تاہم 1993ء میں کونسل کی رکنیت سے کچھ اختلافات کے سبب مستعفی ہوگئے تھے۔ ایڈورڈ سعید کی جانب سے اسرائیل کے ظلم و بربریت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اور بعض مذہبی معاملات پر کڑی تنقید کے بعد امریکا میں ان سے مخاصمانہ رویہ اپنا لیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے اپنے بے لاگ تبصروں اور راست گوئی کا سلسلہ بند نہیں‌ کیا۔ اسرائیل کی مخالفت اور عربوں‌ حمایت سے باز رکھنے کے لیے ان پر بہت دباؤ ڈالا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں، لیکن وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے۔

    وہ موسیقی سے شغف ہی نہیں بلکہ اس کا خوب علم بھی رکھتے تھے جس کی مثال وہ چار کتابیں ہیں جو ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر لکھی تھیں۔ ایڈورڈ سعید کو ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ماہر تعلیم کے طور پر انھیں بیس کے قریب یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں جب کہ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’Out of Place‘ نے تین ایوارڈ جیتے۔

    25 ستمبر 2003ء کو فلسطین کی حمایت اور آزادی کے لیے بلند ہونے والی یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔

  • جرمن پولیس بچے کا تعاقب کرتے ہوئے، شرمناک ویڈیو وائرل

    جرمن پولیس بچے کا تعاقب کرتے ہوئے، شرمناک ویڈیو وائرل

    برلن: مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرنے پر جرمن پولیس نے ایک 10 سالہ بچے کو بھی گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں فلسطینیوں سے اظہارِ یک جہتی کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کے دوران دس سالہ بچے کو بھی حراست میں لے لیا۔

    کریک ڈاؤن کے دوران فلسطینی پرچم لہراتا خوف زدہ بچہ کافی دیر تک پولیس سے بچنے کی کوشش کرتا رہا، بچے نے کافی دیر پولیس سے بچنے کی کوشش کی لیکن آخرکار پولیس اہل کاروں کی گرفت میں آ گیا۔

    بچے کے پیچھے پولیس اہلکاروں کے دوڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اہلکار فلسطینی پرچم تھامے ایک بچے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور وہ بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    جرمن پولیس کے اہلکاروں نے جب بچے کو پکڑ لیا تو وہاں موجود شہریوں نے پولیس اہلکاروں سے جھگڑا شروع کر دیا، اور اہلکار کو دھکے بھی دیے، لیکن ’بہادر‘ اہلکاروں نے بچے کے گرد گھیرا ڈال کر اسے چھڑانے کی کوششیں ناکام بنا دیں۔

    سوشل میڈیا پر جرمن پولیس کے اس عمل نے زبردست رد عمل پیدا کر دیا ہے، صارفین نے اس عمل کو 2024 کے جرمنی کے لیے مایوس کن اور شرمناک قرار دیا۔

    ایک صارف نے طنزیہ پوسٹ میں لکھا کہ ’’برلن کی بہادر پولیس نے شہر کے خطرناک ترین بچے کو گرفتار کر لیا۔ وہ وفاقی حکومت کا تختہ الٹنے اور فلسطینی ریاست کا اعلان کرنے کے لیے اپنا پرچم استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔‘‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Muslim (@muslim)