Tag: فلسطین

  • گریٹا تھنبرگ کو ڈنمارک پولیس نے گرفتار کر لیا

    گریٹا تھنبرگ کو ڈنمارک پولیس نے گرفتار کر لیا

    کوپن ہیگن: سویڈن کی معروف سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ کو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مختلف ممالک میں احتجاج جاری ہے، ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں احتجاج کے دوران سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ کو گرفتار کر لیا گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں 20 افراد نے عمارت کا راستہ بند کر دیا تھا اور تین اندر داخل ہو گئے تھے، جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی۔

    دوسری طرف روئٹرز کے مطابق مظاہرے کے منتظمین کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بدھ کے روز ڈنمارک کی پولیس نے سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ کو غزہ میں جنگ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مظاہرے پر حراست میں لیا گیا۔

    ڈنمارک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق گریٹا تھنبرگ کو بعد میں رہا کر دیا گیا، اور میڈیا نے پولیس اسٹیشن سے ان کے باہر نکلنے کی ویڈیو فوٹیج بھی دکھائی۔ گریٹا تھنبرگ دراصل موسمیاتی تبدیلی کے خلاف دنیا بھر میں زبردست احتجاج کے لیے مشہور ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی ساختہ ہے، اسے ختم کیا جائے۔

    سویڈن میں پیدا ہونے والی تھنبرگ نے فلسطینی کاز کو بھی شدت و مد سے اٹھایا، اور مئی میں انھوں نے کہا کہ اس طرح کے احتجاج ’’ہر جگہ ہونے چاہئیں۔‘‘

    فلسطینیوں کے حامی طلبہ گروپ ’اسٹوڈنٹس اگینسٹ دی آکوپیشن‘ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں پولیس اہلکار تھنبرگ اور دیگر حراست میں لیے گئے افراد کو ہتھکڑیاں لگا کر پولیس وین میں بٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ گریٹا تھنبرگ نے اپنے کندھوں کے گرد فلسطین کی قوم پرستی کی علامت چیک دار سیاہ اور سفید اسکارف لپیٹا ہوا ہے۔ گرفتاری کے وقت مظاہرین نعرے لگا رہے تھے ’’گریٹا تم تنہا نہیں ہو۔‘‘

  • غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مزید 70 فلسطینی شہید، الاقصیٰ اسپتال کا علاقہ خالی کرنے کا حکم جاری

    غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مزید 70 فلسطینی شہید، الاقصیٰ اسپتال کا علاقہ خالی کرنے کا حکم جاری

    غزہ میں اسرائیل کی بربریت جاری ہے، صہیونی فوج نے چوبیس گھنٹوں میں وسطی غزہ میں بمباری کر کے مزید 70 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔

    الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 212 افراد زخمی ہو گئے ہیں، اسرائیلی حملوں میں اب تک 40 ہزار 405 فلسطینی شہید اور 93 ہزار 468 زخمی ہو چکے ہیں۔

    الجزیرہ عربی کی تازہ ترین اطلاع کے مطابق نصیرات پناہ گزین کیمپ کے شمال میں بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے والے اسکول ’’العز بن عبدالسلام ‘‘ پر اسرائیلی حملے میں متعدد شہری مارے گئے ہیں۔ وفا نیوز ایجنسی نے بھی اس حملے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہید اور زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

    دوسری طرف اسرائیل نے شمالی غزہ میں الاقصیٰ اسپتال کے اطراف کے علاقے کو خالی کرنے کے نئے احکامات جاری کر دیے ہیں، فلسطینی بار بار بے گھری کے عذاب سے گزر رہے ہیں، اسرائیل نے ان کی زندگیوں کو دنیا کا ایک بے مثال المیہ بنا دیا ہے۔ اتوار کے روز الاقصی شہدا اسپتال سے انخلا کرنے والے ایک فلسطینی اسماعیل عبدالرحمٰن صیام نے بتایا کہ انھیں اپنی زخمی بھانجی ویام کو وہیل چیئر پر دھکیل کر لے جانا پڑتا ہے اور وہ شدید بے بسی محسوس کرتے ہیں۔

    ایک اور فلسطینی راسم العتاب نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ آنے والے دنوں میں وہ اور اس کا بیمار بیٹا کہاں سوئیں گے۔ ’’سڑک پر! تصور کریں، میں اپنے 6 بچوں کے ساتھ سڑکوں پر ہوں۔‘‘ انھوں نے بتایا ’’ہم چار بار شمالی غزہ سے، خان یونس سے، دیر البلح سے بے گھر ہوئے، ہمارا کوئی پرسان حال نہیں، لوگ ایک عام زندگی گزارنا چاہتے ہیں، لوگ پیسے کی تلاش میں ہیں، اور اس کی بجائے وہ سڑکوں پر مر جاتے ہیں۔‘‘

    حماس چیف یحییٰ سنوار کی تلاش کے لیے اسرائیل امریکا کی خفیہ کوششیں امریکی اخبار نے افشا کر دیں

    دوسری جانب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں حماس اسرائیل جنگ بندی مذاکرات بغیر معاہدے کے ختم ہو گئے ہیں، مصری سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس اور اسرائیل نے قاہرہ میں سمجھوتے کی تجاویز کو ٹھکرا دیا۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ حماس اور اسرائیل نے اتوار کو قاہرہ میں ہونے والے جنگ بندی مذاکرات میں ثالثوں کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز پر سمجھوتہ کرنے پر اتفاق نہیں کیا۔

  • ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں فلسطین اور غزہ شہدا کا ذکر گونجتا رہا، اندرونی احوال

    ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں فلسطین اور غزہ شہدا کا ذکر گونجتا رہا، اندرونی احوال

    شکاگو: ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں دوسرے روز فلسطین اور غزہ شہدا کا ذکر گونجتا رہا، کنونشن میں لوگوں نے غزہ میں شہید افراد کے ناموں کے پوسٹرز لہرائے اور سینئیر سینیٹر برنی سینڈرز نے کنونشن میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، جس پر شرکا نے ان کی پذیرائی کی۔

    ترقی پسند امریکی قانون ساز نے شکاگو میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں تقریر کے دوران غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بارے میں مختصر خطاب کرتے ہوئے سامعین سے تالیاں اور پذیرائی وصول کی۔

    برنی سینڈرز نے کنونشن کی دوسری رات کہا ’’ہمیں غزہ میں اس خوفناک جنگ کو ختم کرنا چاہیے، یرغمالیوں کو بھی گھر پہنچائیں اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کریں۔‘‘

    کنونشن میں کسی فلسطینی امریکی رہنما کو اسٹیج پر تقریر کے لیے مدعو نہیں کیا گیا، دی گارڈین کے مطابق ہال میں اندر موجود ’غیر پابند‘ مندوبین کی جانب سے اس کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ پچھلے ہفتے مینیسوٹا کے ڈیموکریٹک صدارتی پرائمری میں جو ووٹ ڈالے گئے تھے ان میں پانچواں حصہ ’’غیر پابند‘‘ نشان والے ووٹوں پر مشتمل تھا، یہ ووٹرز دراصل غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

    شکاگو میں اسرائیلی ایمبیسی کے باہر بڑا مظاہرہ کیا گیا، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔

    غزہ جنگ بندی مذاکرات، قطر کے تجزیہ کار نے امریکی چال بازیاں بے نقاب کر دیں

    دریں اثنا، ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے دوسرے روز ڈیمورکریٹس نے نائب امریکی صدر کاملا ہیرس کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا، سابق صدر بارک اوباما اور مشل اوباما نے بھی خطاب کیا۔

    اوباما نے کہا ’’ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، ہمیں مزید چار سال کی بوکھلاہٹ، ہنگامہ آرائی اور افراتفری کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے وہ فلم پہلے دیکھ رکھی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ سیکوئل عام طور پر بدتر ہوتا ہے۔ امریکا ایک نئے باب کے لیے تیار ہے۔ ایک نئی کہانی کے لیے۔ ہم صدر کاملا ہیرس کے لیے تیار ہیں۔‘‘

  • میرے بچے سارا دن گرمی سے روتے ہیں، فلسطینی ماں نے اپنا دکھ  بیان کر دیا

    میرے بچے سارا دن گرمی سے روتے ہیں، فلسطینی ماں نے اپنا دکھ بیان کر دیا

    ابھی چند ماہ قبل جب بارشوں اور شدید سردیوں کا موسم تھا اور فلسطین کے شہری صہیونی فوج کی وحشیانہ بمباریوں کے سبب کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، تو اس موسم سے ان کی تکالیف میں ایک نئی قسم کی تکلیف کا اضافہ ہو گیا تھا۔

    اور اب بار بار نقل مکانی پر مجبور کیے جانے والے فلسطین کے شہریوں کو کھلے اور آگ اگلتے آسمان کے نیچے گرم موسم کی تکلیف کا سامنا ہے، ایسے میں الجزیرہ نے فلسطین کی ایک ماں کے دکھ کو زبان دی ہے، جو بڑے درد سے کہتی ہیں کہ ’’میرے بچے سارا دن گرمی سے روتے ہیں۔‘‘

    الجزیرہ نے اس خاتون کی کہانی سنائی ہے، جسے پڑھ کر درد مند دل تڑپ تڑپ جاتے ہیں، جہاں ایک طرف چند ماہ کے اندر اندر ہزاروں فلسطینی بچوں کو درد ناک طریقے سے ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا، وہاں زندہ بچے در بہ در زندگی اور موسموں کی سختیاں بھی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

    الجزیرہ نے لکھا: شام کے تقریباً 7:30 بجے ہیں اور سورج غروب ہو رہا ہے، ایسے میں نیمہ ایلیان اور ان کے 4 چھوٹے بچے گھر لوٹ رہے ہیں – گھر؟ وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح میں ایک عارضی کیمپ میں خاکستری رنگ کا خیمہ – یہ بچے اب تک گرمی سے بچنے کے لیے ساحل سمندر پر وقت گزار رہے تھے۔

    ’’دنیا اور نہ آخرت، کہیں بھی آپ کو معاف نہیں کروں گی‘‘، بلکتی فلسطینی بچی کا دل سوز ویڈیو پیغام

    بچے ساحل سمندر سے لوٹے تو ماں اسفنج اور پانی کی ایک بالٹی لے کر اپنے 7 سال سے کم عمر کے بچوں کو نہلانے لگیں، اس دوران 45 سالہ نیمہ ایلیان نے بتایا ’’گرمیوں میں خیمہ جہنم ہو جاتا ہے، ہم دن میں 5 منٹ بھی خیمے کے اندر نہیں رہ سکتے، یہ گرمی بالکل ناقابل برداشت ہے۔‘‘

    سمندر ان سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، جب دن کے وقت موسم بہت زیادہ گرم ہوتا ہے تو اس شدید گرمی سے بچنے کے لیے وہ نیمہ ایلیان اپنے بچوں کو لے کر سمندر چلی جاتی ہیں، تاکہ بچے پانی میں تیریں۔

    انھوں نے بتایا ’’میرے بچے سارا دن گرمی سے روتے ہیں‘‘ انھوں نے وضاحت کی کہ ایک طرف پانی کی شدید قلت ہے، دوسری طرف سورج سے بچنے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے اور حفظان صحت کی مصنوعات بھی دستیاب نہیں، اس لیے ان کے بچوں کی جلد سورج کی تپش میں مسلسل رہنے کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔

    نیمہ ایلیان کی ایک سالہ پوتی بھی ہے جو ان کی 21 سالہ بیٹی نہلہ کی جان ہے، نیمہ نے بتایا کہ پہلے انھیں اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی اور اب انھیں خیموں سے بھی بار بار نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے، اور انھیں ایسی گرمی کا سامنا ہے جس نے بچوں کے بدن پر برے اثرات ڈالے۔ نیمہ نے اپنی پوتی کا بدن دکھایا جس پر دھبے اور زخم بن گئے تھے۔

    نہلہ نے بتایا ’’میری بیٹی کو بیکٹیریل ریش ہو گیا ہے، اور یہ اب اس کے پورے جسم میں پھیل گیا ہے، اور طبی مرہموں سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، میں اسے الاقصیٰ شہدا اسپتال بھی لے گئی جہاں مشورہ دیا گیا کہ ٹھنڈے پانی سے اسے دھوئیں اور نہلائیں، لیکن یہاں پانی کی بہت قلت ہے۔‘‘

    الجزیرہ کے مطابق نیمہ ایلیان کی رہائش فلسطین کے شہر غزہ کے محلے نصر میں تھی، مارچ کے اوائل میں انھیں چھوٹے بچوں کے ساتھ دیر البلح کی طرف نقل مکانی کرنی پڑی کیوں کہ وہاں اقوام متحدہ کے مطابق وہ قحط کا شکار ہونے کو تھے، تاہم ان کے شوہر اور دو بڑے بیٹوں نے اپنا گھر نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اور وہ شمال میں ہی رہے۔ 9 بچوں کی ماں کہتی ہیں کہ انھوں نے 5 ماہ تک خطرناک حالات اور بمباری کا سامنا کیا، اور ہر تکلیف برداشت کر لی لیکن شکر ہے کہ وہ بھوک کے عذاب سے بچ گئے۔

  • غزہ میں اسرائیلی فوج کی اسکول پر بمباری، 100 فلسطینی شہید

    غزہ میں اسرائیلی فوج کی اسکول پر بمباری، 100 فلسطینی شہید

    غزہ: اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک اسکول پر وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے 100 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔

    الجزیرہ عربی کی رپورٹ کے مطابق غزہ شہر کے علاقے الدرج میں التبین اسکول پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔

    صہیونی فورسز نے حملہ صبح فجر کے وقت کیا، جب لوگ نماز پڑھ رہے تھے، بمباری کے باعث اسکول کے مختلف حصوں میں آگ لگ گئی، رپورٹس کے مطابق اسکول میں بے گھر افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔

    ایران نے بحری بیڑے میں ہزاروں جدید کروز میزائل نصب کر دیے

    دیر البلح سے الجزیرہ کے رپورٹر نے بتایا کہ اس حملے ویڈیو سے واضح ہو جاتا ہے کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، اور یہ ایک جان بوجھ کر کیا گیا حملہ تھا، نہ صرف عام شہریوں کے خلاف بلکہ مذہبی حقوق کی بھی خلاف ورزی تھی، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اسرائیلی فوج کو اپنے حملے جاری رکھنے سے روک سکے۔

    دوسری طرف طبی ذرائع نے الجزیرہ عربی کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر بھی متعدد تباہ کن حملے کیے گئے ہیں، جس میں کم از کم 35 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خان یونس میں 19 شہید شامل ہیں۔ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں ابو خلیفہ خاندان کے گھر پر اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 6 فلسطینی شہید اور 15 زخمی ہوئے۔

    وسطی غزہ میں دیر البلح کے مشرق میں المزرعہ اسکول کے قریب ایک خیمے پر اسرائیلی فوج کی بمباری میں 3 بچوں سمیت 4 فلسطینی شہید ہوئے۔ وسطی غزہ میں نصیرات پناہ گزین کیمپ میں حمدا خاندان کے گھر پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم 4 فلسطینی شہید ہوئے۔

  • اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ بھی مادرِ‌ گیتی پر نثار ہو گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کفایہ پر مزاحمت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اب یحیٰی السنوار سامنے آئے ہیں جنھیں اکثر خان یونس کے قصاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    اسماعیل ہنیہ نے آزادی کے راستے میں اپنی جان ہی نہیں‌ گنوائی ہے بلکہ وہ اپنا گھر بار، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں بھی دے چکے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کا اجلاس ہوا اور نئے سربراہ کے طور پر یحیٰی السنوار کا نام سامنے آیا۔ ایک طرف اسرائیل کی غزہ اور دیگر علاقوں میں فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے اور دوسری جانب حماس کے حالیہ فیصلے نے گویا شاخِ زیتون کی چمک اور اس کے روغن کی آب و تاب مزید بڑھا دی ہے۔ یحیٰی السنوار کا انتخاب اس عزم کا اعادہ بھی ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت تیز ہوگی اور حماس کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے بعد صیہونی فوج نے فلسطینیوں پر گولہ بارود برسانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تاحال جاری ہے۔ امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں اسماعیل ہنیہ سے قبل بھی حماس کے متعدد راہ نما اور کارکن مارے جا چکے ہیں اور اب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یحییٰ سنوار کو بھی نشانہ بنائے گا۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تو ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ انھیں مسعود پزشکیان کی بطور صدر تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا تھا اور وہیں تہران میں ایک فضائی حملہ میں انھیں شہید کردیا گیا۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جارہا ہے، لیکن اسرائیل نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے جب کہ ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اب مشرقِ وسطیٰ‌ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

    ارضِ فلسطین پر صیہونی ریاست کا قیام اور اس کے لیے صدیوں سے وہاں بسے ہوئے عرب مسلمانوں‌ کی جبراً بے دخلی اس دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ننگ اور غضب ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح‌ نہتے فلسطینیوں اور محدود وسائل اور صلاحیت کے حامل حماس اور دوسرے مزاحمتی گروہوں سے اپنی تربیت یافتہ اور باقاعدہ فوج کے ذریعے جنگ لڑتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو روند رہا ہے، لیکن‌ اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ غزہ میں انسانی آبادیوں، گھروں اور اسپتالوں پر بمباری، فلسطینیوں کو ڈھال بنا کر حماس کے خلاف کارروائی، طبّی امداد اور خوراک پہچانے والی تنظیموں کے رضا کاروں کو نشانہ بنانا اور گولہ بارود کی زد پر رکھنا اسرائیل کے نزدیک اگر جنگ ہے، تو حماس اور دوسر ے مزاحمتی گروہ یہ جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جب تک ایک بھی رکن زندہ ہے۔

    دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی جنگوں‌ اور خوں ریز واقعات کی بنیاد جبر اور وہ ناانصافی تھی جس سے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ اقوام یا مختلف خطّوں میں لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے دشمن کو انتقام کی آگ میں پھونک دیا۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جن بچّوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین، بہن بھائی مارے جارہے ہیں، وہ بڑے ہو کر اسرائیل کا وجود تسلیم کرلیں‌ گے یا موقع ملنے پر اپنی زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ باقی ماندہ زندگی وہاں عافیت سے بسر کرسکیں؟ فلسطین یا کسی بھی سرزمین سے اس قوم کا وجود مٹانا آسان نہیں‌ جو صدیوں سے وہاں بسی ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم میں بدنام اور دہشت گرد اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ صیہونی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اس کا یہ قتلِ عام اور تشدد ہر فلسطینی بچّے میں جذبۂ حریّت اور انتقام کو مہمیز دے رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ اور دیگر علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ فلسطینی مسلمانوں‌ کی نسل کُشی کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس بات کو تقویت ملتی ہے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان سے جس میں وہ دنیا سے شیطانی قوت (حماس) کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے عہدنامۂ عتیق (تورات) سے ایک پیرا کا حوالہ دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دانش ور اور انسان دوست شخصیات نے نیتن یاہو کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے سفاک اور جنونی کہا ہے۔

    آج اسرائیل کی آبادی لگ بھگ 98 لاکھ بتائی جاتی ہے جس میں یہودی اور وہ فلسطینی شامل ہیں جو اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس میں‌ غربِ اردن اور غزہ شامل ہیں اور وہاں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔ لیکن 1948ء سے قبل صورتِ حال مختلف تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے یک دم نکال کر ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسی سال اقوامِ متحدہ نے ایک قرار میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور فلسطینیوں کی زمین حیلے بہانوں اور طاقت کے بل پر ہتھیانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عرب مسلمانوں کو اسرائیل کی حدود میں جانے کے لیے توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں جہاں تلاشی اور کاغذات دیکھنے کے بہانے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر قیدی کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصۂ حیات اس وقت مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا۔ جب کہ غیر یہودیوں کو اس ایکٹ کے ذریعے باضابطہ طور پر درجہ دوم کا شہری بنا دیا گیا۔

    فلسطین میں‌ اترنے والے صیہونیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کی بے دخلی کے ساتھ ان کے تاریخی محلّے اور عمارتیں مسمار کرکے وہاں جدید تعمیرات کی ہیں۔ قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے اور اپنے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دیا کہ جو تاریخی حقائق کو مسخ اور لسانی و ثقافتی اقدار کو یکسر مٹا کر نئی ریاست کی سیاسی، مذہبی، تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرے اور نئی نسل اسے قبول کرلے۔ اسرائیلی حکومت نے کتب خانوں اور بلدیہ کی عمارتوں کو اس لیے اڑا دیا کہ کہیں کئی سو سال پرانا ریکارڈ، شہر کی تاریخ اور فلسطین کی اصل شناخت سے متعلق نادر دستاویز موجود ہوں تو باقی نہ رہیں تاکہ ازسرِ‌ نو مرضی کا ریکارڈ بنا کر خطّے میں اپنی شناخت کو قائم کیا جاسکے۔

    فلسطینی شہری فوجی قوانین کے تحت محدود نقل و حرکت کے ساتھ کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ 1966ء میں اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو فوجی قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ریاست نے قانونی شہری تو تسلیم کیا مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ ان سے صحت، تعلیم و روزگار اور رہائش سمیت ہر شعبے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور وہ گویا ایک قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی سزا دی جاسکتی ہے۔

    اسرائیلی فوج دنیا کی ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحے اور جنگی ساز و سامان سے لیس طاقت وَر فوج ہے۔ اسرائیلی فوج اور عرب ممالک سے اس کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے متحد عرب افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، اور آج اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اب صرف حماس کی بات کریں تو وہ اپنی مالی اور دفاعی ضروریات کے لیے بالخصوص ایران کی طرف دیکھتا ہے جب کہ لبنان، شام اردن، عراق اور دوسرے عرب ممالک سے امداد کا خواہاں رہتا ہے۔ ادھر اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے اور اسی کی بدولت اسماعیل ہنیہ یا دوسرے حماس اور حزب اللہ کے بڑے راہ نماؤں کو اسرائیل اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ زمینی فوج کے علاوہ اسرائیل کی فضائیہ نے بھی قتلِ عام میں اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    یہ درست ہے کہ حماس، حزب اللہ اور ایران یا دیگر عرب ممالک کے حمایت یافتہ گروہ اسرائیل کو معمولی نقصان پہنچا پاتے ہیں، لیکن اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں فلسطینیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حالیہ جنگ بھی حماس کی ایک ایسی ہی کارروائی کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔ لیکن کیا ایک نادارِ زمانہ، ستم رسیدہ اور درماندہ قوم کو اسرائیل کے آگے سَر جھکا دینا چاہیے تاکہ ان کا گھر بار اور ان سب کی زندگی محفوظ رہے؟ محکوم اقوام کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ فلسطین بالخصوص غزہ اور دوسرے علاقے وہاں کے باشندوں کے لیے قید خانے سے کم نہیں اور وہ روزانہ جس اذّیت، کرب اور مقبوضہ علاقے میں داخلے پر جس ذلّت اور توہین کا سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اور وہاں زندگی اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔ لیکن ان حالات میں‌ فلسطین کا مسلمان عالمی ادارۂ انصاف، خاص طور پر اسلامی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو اسے کس قدر رنج اور مایوسی ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ اسے خود ہی لڑنی ہے اور امّتِ مسلمہ کی طرف دیکھنا بے سود ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں حماس کو دھچکا پہنچایا وہیں ایران کو عالمی سطح پر خفّت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ اس کے ملک میں ایک مہمان شخصیت کو نہایت آسانی سے قتل کردیا گیا اور اب تک ایران کچھ نہیں کرسکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکے گا اور صرف دھمکیوں تک محدود رہے گا۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر جنگ مسلّط کرنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ مگر شاید فلسطینی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں‌ اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کو اپنی جنگ لڑتے رہنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا تھا، ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔‘

  • غزہ جنگ: اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے؟

    غزہ جنگ: اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے؟

    شریکی سنگھ سندھو

    چند روز قبل ایک تصویر نظر سے گزری جس میں ایک باپ اپنے بیٹے کو منہدم غسل خانے میں صابن لگا کر نہلا رہا ہے۔ دیار اجڑ گیا لیکن دیارِ دل اب بھی روشن ہے۔

    ایسی کئی تصویریں اور ویڈیوز ہر روز انٹرنیٹ پر نظر آتی ہیں۔ سہمے ہوئے بچے، ماتم کناں مائیں۔ جہاں تک نظر جاتی ہے تباہی، ویرانی، کنکریٹ کی عمارتوں کے کھنڈر۔ ساحر لدھیانوی نے خوب کہا تھا کہ میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا ہے، تانیں چیخوں کے انبار میں دب گئی ہیں، اور گیتوں کے سَر ہچکیاں بن گئے ہیں۔ اور آج کا غزہ ان الفاظ کی عکاسی کر رہا ہے۔

    اسرائیلی بم برسا رہے ہیں اور شہریوں کو مار رہے ہیں۔ فلسطینی اپنے گھروں کو چھوڑ رہے ہیں اور عارضی پناہ گاہوں سے بھی بھاگنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اور اب بھی تقریباً 7 ماہ پر محیط غزہ میں اسرائیل کی جنگ ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ راقم سمیت یہ سوال کتنے ہی ذہنوں‌ میں اٹھ رہا ہے کہ آخر اسرائیل چاہتا کیا ہے؟ کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا؟

    اسرائیل کے حکومتی بیانیے کے لحاظ سے اس خون خرابے کے درج ذیل مقاصد ہیں۔

    1- غزہ سے یرغمالیوں کی واپسی
    2- حماس کی فوج اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنا
    3- اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیل کے خلاف دوبارہ کبھی خطرہ نہیں بنے گا

    غزہ میں برپا اس جنگ کے تاریخی پس منظر اور حماس کی کارروائی کے تناظر میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس سے ایک کہانی یاد آتی ہے۔ جب بھیڑیے نے میمنے پر ایک الزام لگا کر کہ تم میرا پانی جھوٹھا کر رہے ہو، چیر پھاڑ دیا، جب کہ بھیڑیا بلندی پر تھا اور میمنا نیچے گھاٹی میں۔

    بعض ماہرین کے نزدیک یہ تباہی اور ہلاکتیں ہی تو اس جنگ کا مقصد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لیے اس جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ اس جنگ کے پسِ پردہ عزائم صرف فلسطینیوں‌ کو مٹانا اور بے دخل کرنا ہے۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ فوج غزہ میں حماس کو "ختم کرنے کے مرحلے” کے قریب ہے۔ ہم حماس کی دہشت گرد فوج کو جڑ سے ختم کر دیں گے اور اس کی باقیات پر حملے جاری رکھیں گے یہاں تک کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنی جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔

    پھر وہی بات کہ تم نے مجھے پچھلے سال گالی دی تھی۔ تم نے میرا پانی گدلا کیا۔

    کچھ سنا سنا لگتا ہے کہ ہم تو مشرق وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں، ہم عراق میں جمہوریت قائم کر کے واپس جائیں گے، ہم افغانستان کو طالبان کے استبداد سے نجات دلوا کر یہاں عوام دوست حکومت تشکیل دے کر جلد لوٹ جائیں گے۔ بعید نہیں کہ آئندہ سالوں میں سننا پڑے کہ ہم تو بس نیوکلیئر اثاثوں کی محفوظ امریکی مقامات پر منتقلی چاہتے ہیں۔ ورنہ پاکستان کی خود مختاری میں دخل اندازی ہمارا مقصد نہیں۔

    بہرحال مجھے کیا ، میرا تو بجلی کا بل ہی مجھے خون رلانے کو کافی ہے۔

    (یہ بلاگ/ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)
  • امریکا میں سفید فام عورت کی فلسطینی خاتون کے بچوں کو سوئمنگ پول میں ڈبونے کی کوشش

    امریکا میں سفید فام عورت کی فلسطینی خاتون کے بچوں کو سوئمنگ پول میں ڈبونے کی کوشش

    ٹیکساس: امریکا میں سفید فام عورت کی فلسطینی خاتون کے بچوں کو سوئمنگ پول میں ڈبونے کی کوشش کے کیس میں ایک مسلم ایڈوکیسی گروپ نے خاتون کے خلاف ہیٹ کرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ماہ 19 مئی کو امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر یولیس میں فلسطینی خاندان کے ساتھ اسلاموفوبیا کا واقعہ پیش آیا تھا، ایک سفید فام عورت ایلزبتھ وولف نے رہائشی اپارٹمنٹ کے سوئمنگ پول میں 2 فلسطینی بچوں کو ڈبونے کی کوشش کی تھی، حجاب پہنے فلسطینی خاتون کو دیکھ کر 42 سالہ ایلزبتھ وولف نے بچوں پر حملہ کیا۔

    فلسطینی خاتون نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی تو ملزمہ نے ان کا حجاب نوچا اور ان پر تشدد کیا، موقع پر موجود ایک افریقی شخص نے حملہ آور عورت سے فلسطینی خاندان کو بچایا، پولیس واقعے کے بعد جائے وقوعہ پہنچی تو تفتیش کے بعد وولف کو بہت زیادہ نشے کی حالت میں پبلک میں نکلنے پر گرفتار کر لیا۔

    بعد ازاں خاتون پر قتل کی کوشش اور ایک بچے کو زخمی کرنے کا الزام عائد کیا گیا، تاہم اگلے ہی دن ملزمہ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، اب مسلم کمیونٹی نے اس کی دوبارہ گرفتاری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ہفتے کو کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (CAIR-Texas) نے ریاستی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات مسلم خاندان کے خلاف ہیٹ کرائم کے طور پر کی جائے۔

    ادھر متاثرہ خاتون کے والد مصطفیٰ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی بیٹی اور اس کے بچے خوف زدہ ہیں، مسلم ایڈوکیسی گروپ نے متاثرہ خاتون کا بیان بھی جاری کیا ہے، جس میں انھوں نے کہا ’’ہم امریکی شہری ہیں، اصل میں فلسطین سے ہیں، اور مجھے نہیں معلوم کہ اپنے بچوں کے ساتھ محفوظ محسوس کرنے کے لیے کہاں جانا ہے، میرے ملک کو جنگ کا سامنا ہے، اور ہمیں یہاں اس نفرت کا سامنا ہے۔‘‘

    پاکستانی نژاد رکن ٹیکساس اسمبلی سلیمان بھوجانی نے کہا ہے کہ وہ متاثرہ خاندان کی ہر ممکن مدد کریں گے، مسلمز آف امریکا کے سربراہ ساجد تارڑ نے بھی ٹیکساس میں اسلاموفوبیا کے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

  • اہم ایشیائی ملک نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلیا

    اہم ایشیائی ملک نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلیا

    ایشیائی ملک آرمینیا نے بھی فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آرمینیا کے وزارت خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی قانون، مساوات اور خودمختاری کی تصدیق کرتے ہوئے جمہوریہ آرمینیا فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرتا ہے۔

    آرمینیا نے مزید کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں طویل مدتی امن اور استحکام کے قیام میں حقیقی طور پر دلچسپی رکھتا ہے اور ہم نے اسرائیل-فلسطینی تنازعہ کو حل کرنے کے دو ریاستی اصول کی حمایت کی ہے۔

    واضح رہے کہ ناروے، آئرلینڈ اور سپین نے 28 مئی سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    دوسری جانب برطانوی اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد ریاست فلسطین کو تسلیم کرلیں گے۔

    برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے الیکشن میں کامیابی کے بعد ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کا وعدہ کرلیا، جیرمی کوربن نے کہا کہ وہ وزیراعظم بن کر فلسطین کو ازاد ریاست کے طور پر تسلیم کریں گے۔

    جیرمی کوربن کے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کے بڑے اعلان کے بعد لیبر کانفرنس میں فلسطین کے ذکر پر حاضرین نے فلسطین کے جھنڈے لہرائے، لیبر پارٹی کے رکن نے فلسطین میں اسرائیلی بربریت کی مذمت بھی کی۔

    برطانوی اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ زمین پر مسلسل قبضے کا جاری رہنا، بڑھتی ہوئی غیرقانونی آبادکاریاں اور فلسطینیی بچوں کو جیل میں بند کرنا انتہائی افسوسناک امر ہے، نہتے فلسطینیوں پر تشدد بند کیا جائے۔

    حماس کو ختم نہیں کر سکتے، اسرائیل کا اعتراف

    جیرمی کوربن نے مزید کہا کہ فلسطینی مظاہرین پر اسرائیلی فوج کا طاقت کا استعمال ظلم ہے، برطانیہ کی جانب سے یو این ایجنسی میں فنڈنگ کو روکنا ہوگا اور برطانوی ہتھیاروں کی فروخت بھی اسرائیل کو بند کرنا ہوگی۔

  • فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    مومنہ طارق

    ہم آزاد تھے، آزاد فضا میں سانس لیتے اور رکوع و سجود کرتے تھے۔ ہمارے بچّے بے خوف ہو کر گلیوں میں کھیلتے تھے اور ہماری ماؤں، بہنوں کی عزت محفوظ تھی۔ ہمارے جوان آنکھوں میں خواب سجاتے تھے۔ اچانک 1948 میں ہم تقریباً ساڑھے سات لاکھ باسیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور دنیا ہماری بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی۔ آج 76 سال ہوگئے دنیا خاموش ہے۔ سانحہ تو یہ کہ اپنوں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ ہمیں سہارا دینے کے بجائے ہمارے گھروں کو گرانے والوں کے پیچھے چھپ گئے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر بے گھر اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمارے پاس مسکرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

    پچھلے سال 7 اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تو جس ظلم و ستم اور بربادی کا آغاز کیا گیا، لگتا تھا کہ اب روئے زمین پر فلسطینیوں کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اسرائیل کو 243 دن ہوگئے ہیں۔ کانوں میں گولیوں اور بموں کی آواز گونجتی ہے، فضا میں بارود کی بُو اس قدر ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ہر طرف خون اور چیخ و پکار، آہ و فغاں سنائی دے رہی ہے۔ ارضِ فلسطین اب تک 37 ہزار سے زائد لاشیں سمیٹ چکی ہے۔ 90 ہزار سے زائد زخمی ان اسپتالوں میں پڑے ہیں جہاں ان کے جسم سے رستے ہوئے خون کو روکنے، زخموں کو سینے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے انتظامات نہیں ہیں، ان کو بچانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اسپتال میں نہ تو طبّی آلات ہیں اور نہ ہی بجلی۔ زندگی گزارنے کے لیے کھانا تو دور کی بات بچّوں کو دو گھونٹ پانی تک میسر نہیں ہے اور وہ بھوک پیاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ مگر مہذب معاشرے، انصاف کے پرچارک اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے شاید اسی طرح اپنے ضمیر کو کہیں دفنا دیا ہے، جس طرح آج فلسطین کی مٹی میں لوگ اپنے پیاروں کو دفنا رہے ہیں۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا، مگر دنیا میں قیامِ امن کو یقینی بنانے اور انسانیت کا پرچم بلند رکھنے والے اس سب سے بڑے ادارے کو شاید خود بھی انصاف چاہیے کہ اس کے فیصلوں اور احکامات کو کم از کم سنا تو جائے۔ صرف 1967 سے 1988 تک 131 قرارداد فلسطین کے حق میں منظور ہوچکی ہیں مگر آج بھی غزہ اور رفاہ میں لاشیں بچھی ہوئی ہیں۔ دنیا تو ایک طرف مسلم ممالک بھی اس بدترین ظلم اور معصوم فلسطینیوں کے قتل پر خاموش ہے اور ‘الاقصی’ کی محبّت بھی انھیں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرسکی ہے۔

    غزہ میں صیہونی دہشت گردی کے خلاف پہلی اٹھنے والی آواز کولمبیا یونیورسٹی کے طالبِ علموں کی تھی۔ یہ اسی سپر پاور امریکا کی ایک یونیورسٹی ہے جو کھل کر غزہ میں صیہونی فوج کے قتلِ عام کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج شروع ہوا اور پاکستان کے طالبِ علم بھی جاگے۔ آج اسلام آباد کے ڈی چوک پر ان کے دھرنے کو 25 دن ہوچکے ہیں اور ان کا اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فلسطین کے حق میں عالمی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ غزہ درخواست میں فریق بنے، مگر حکومت ان پُرامن مظاہرین کی بات نہیں سن رہی۔ یہی نہیں بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ جو پاکستان میں ”غزہ بچاؤ“ مہم کی قیادت کر رہے ہیں، ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہیں۔ جب کہ جامعات کے چند طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کو معطل کر دیا گیا ہے کیوں کہ وہ اس دھرنے میں شریک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم متعدد بار اپنی جامعات کی انتظامیہ سے تحریری طور پر درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں اس مہم کا حصّہ بننے کی اجازت دی جائے اور جامعات اپنی حدود میں طلبہ پر اسرائیلی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کرے، مگر کوئی مثبت جواب نہیں دیا جا رہا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا درد رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے صیہونی ریاست کے ظلم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے جس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

    داستانِ ارضِ فلسطین جب لکھی جائے گی تو بلاشبہ جہاں کولمبیا، ہاروڈ جیسی جامعات کا نام لیا جائے گا وہیں پاکستان کے غیرت مند اور باشعور عوام اور بالخصوص طلبہ میں غزہ کا درد جگانے والی قیادت کا نام بھی سرفہرست ہو گا۔ لیکن اس وقت تو سوال یہ ہے کہ انسانیت اور حق و انصاف کا نعرہ بلند کرنے والے ممالک کی حکومتیں اور بالخصوص امّتِ مسلمہ کب جاگے گی؟ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر ہزاروں اسرائیلیوں نے فلیگ مارچ کے نام پر حملہ کیا، مگر کسی مسلم ملک کے حکم راں نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا۔

    اسرائیل اتنا طاقت ور تو کبھی نہیں تھا کہ جسے امریکا جنگ بندی کا اعلان کرنے کو کہے تو نیتن یاہو صاف انکار کر دے اور اتنے دھڑلے سے پوری دنیا کے سامنے کہے کہ حماس سے مذاکرات میدانِ جنگ ہی میں ہوں گے۔ آج کا مؤرخ یہ سب دیکھ رہا ہے اور کل جب داستانِ خونچکاں رقم ہوگی تو مؤرخ کا قلم کئی ناموں کو تاریک و باعثِ ننگ تحریر کرے گا۔