Tag: فلسفہ خودی

  • ’مردِ کامل‘ اور ’مردِ مومن‘

    ’مردِ کامل‘ اور ’مردِ مومن‘

    شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کے فکری مآخذ کے متعلق مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ ان کی حیات میں شروع ہو گیا تھا جو ابھی تک تھما نہیں ہے۔

    خصوصاً ان کے شہرۂ آفاق اور معراجِ انسانیت فلسفۂ خودی کے متعلق مختلف نقّادوں نے مختلف یورپی علمی شخصیات کے نام لیے ہیں۔ زیادہ تر کی تان فرانسیسی فلسفی نطشے پر ٹوٹی ہے جس نے’مردِ کامل‘ کے نام سے عظمتِ انسانی کا فلسفہ پیش کیا تھا۔

    ابھی کل ہی میں جوشؔ ملیح آبادی کی کتاب ’یادوں کی بارات‘ پڑھ رہا تھا، اُنہوں نے بھی اقبالؒ پر طنز کے تیر برساتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے نطشے کے مردِ کامل کو مسلمان کر کے مردِ مومن بنا دیا ہے۔ خیر جوش صاحب نے تو اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جس میں اپنے تئیس معاشقوں، اپنی بادہ خوری، شب و روز کی عیاشیوں، قیامِ پاکستان کی مخالفت اور پھر اسی پاکستان میں سرکاری مراعات سے استفادہ اور پھر پاکستان چھوڑ کر ہندوستان لوٹ جانے تک، ان کوئی کل سیدھی دکھائی نہیں دی۔

    حقیقت یہ ہے کہ اقبال ؒ مشرق اور مغرب دونوں بحرِ علم کے غواص تھے۔ کارل ماکس، گوئٹے، ارسطو، ابن ِ خلدون، رازی، رومی، نطشے، آئن سٹائن، بائرن، پٹوفی، ہیگل، مزدک سمیت علم و ہنر کے کتنے ہی تابندہ چراغ تھے جن سے اقبالؒ نے اکتسابِ فیض کیا۔ تاہم ان تمام حکما سے علامہ نے اپنے نظریات کو خلط ملط نہیں ہونے دیا، بلکہ ایک بلند پایہ مفکّر اور فلسفی کی حیثیت سے اپنی سوچ اور اپنا نظریہ منفرد اور جداگانہ رکھا۔

    کہاں نطشے کا مردِ کامل جو بے روح مشین کی طرح ہے اور کہاں اقبال کا مردِ مومن جس کی خودی کا سرّ نہاں لا ا لہ الا اللہ ہے۔ ویسے بھی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی فکر اور فلسفہ تہذیبِ مشرق کا عکاس ہے جو عمومی طور پر مغربی فکر کے برعکس ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

    کھول آنکھ، زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
    مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

    علامہ ؒ کے فکر و نظر میں بُو علی اور رازی کا انداز اور رومی کا سوز و ساز ان کے کلام کو الہامی بنا دیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ رومی جیسے مردِ عارف کے مدّاح تھے جس کی فکر میں سوز ہے۔ وہ انہیں پیرِ رومی کہتے تھے اور خود کو مریدِ ہندی۔ انہوں نے بُو علی کو عقل و دانش اور رومی کو عشق و مستی کا استعارہ قرار دیا۔ اقبال فرماتے ہیں:

    اِسی کشمکش میں گزری مری زندگی کی راتیں
    کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تاب رازی

    یورپ سے لوٹنے کے بعد اقبالؒ کے اندر ایسی انقلابی تبدیلیاں آئیں کہ انہوں نے وطنیت اور قومیت کا جال توڑ کر اسلام کا علم تھام لیا۔ وہ مفکر اسلام، حکیم الامت اور ترجمانُ القرآن بن کر احیائے اسلام اور نشاۃِ اسلامیہ کے علمبردار بن کر نمایاں ہوئے۔ چنانچہ اگلے تیس برس جو ان کی زندگی کے تھے وہ انہوں نے اسلام کے نظامِ فکر، فلسفۂ اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شخصیت اور پیغام کو عام کرنے میں صرف کیے۔ اس کے بعد انہوں نے قرآن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے جیسے خود وقف کر دیا۔

    آغاز ہی سے اقبال کے کلام اور پیام میں قومی اور ملّی شعور نمایاں تھا۔ انہوں نے تاریخِ اسلام، اسلامی علم و فلسفہ، فقہی مباحث اور قرآن و سنت کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ تاریخِ اسلام سے ان کی فکر کو جلا ملی۔ اس علمی آگہی کی وجہ سے ملّتِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کے زوال، اس کی زبوں حالی، بیشتر مسلمان ملکوں کی غلامی، جہالت اور یورپ کی غاصبانہ نوآبادیاتی پالیسی نے اقبال ؒ کے عقل و شعور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مسلمانوں کے علمی ورثے، اسلامی تاریخ، مسلم مفکرین، علما، حکما کے کارنامے اسلام کے سنہری اصول، مسلمانوں کی فکری تحریکوں اور مغرب کے فلسفے کے عمیق مطالعے نے اقبالؒ کو اپنی بنیاد یعنی سیرت النبیﷺ اور قرآن کے قریب کر دیا۔ قرآن کریم ان کے شعور سے تحت الشعور تک سرایت کرتا چلا گیا۔ انہیں بیشتر مسائل کا حل اس الہامی کتاب میں دکھائی دینے لگا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن سے ان کا رشتہ گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ قرآن اور صاحبِ قرآن ان کے فکر و فلسفہ کا محور بن گئے۔چنانچہ اقبالؒ قرآن کے ایسے مفسر اور شارح بن کر سامنے آئے جنہوں نے اس الہامی پیغام کو شعری اسلوب میں ڈھال کر نیا رنگ و آہنگ دیا جو تاقیامت اہلِ ایمان کے قلب و ذہن کو گرماتا رہے گا۔ علامہ ؒ کے کلام میں قرآنی پیام بھی ہے اور شعری حسن بھی ہے اور انتہائی موثر پیرایہ بھی جس سے کوئی بھی حساس قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔:

    فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
    آہنگ میں یکتا، صفتِ سورۂ رحمٰن

    جہاں تک عقلی خیالات کا تعلق ہے، اقبالؒ کے نزدیک استدلالی اور طبیعی عقل حیوانی جذبات کے تابع ہوتی ہے اور انسان کے خیالات اور فکر و نظر میں تنگی کا باعث بنتی ہے جس سے عام قاری کو مغالطہ ہوتا ہے اور وہ ہر قسم کی عقل کو بیکار سمجھنے لگتا ہے۔ اقبالؒ عقلِ جزوی کے قائل نہیں کیونکہ یہ عقلِ ایمانی اور عقلِ نبویﷺ کی نفی کرتی ہے۔ ایسے گمراہ کن فلسفے انسان کو خدا اور خودی دونوں سے دور کر دیتے ہیں۔

    اقبالؒ نے اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے حقیقتِ حیات تک رسائی آسان بنا دی ہے جو انسان کو تختِ معراج تک پہنچا سکتی ہے۔ تاہم یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اقبال زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود وجدان پر زیادہ یقین رکھتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک صوفی ہی تھے۔ اقبال غالباً دنیا کے واحد فلسفی ہیں جو شعر کو ذریعۂ اظہار بنا کر فکر کو فن کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں شعر اور فلسفے کے فرق کا ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آپس میں مدغم ہو کر کہیں بھی تضاد پیدا نہیں کرتے۔ اسی طرح آیاتِ قرآنی بھی ان کے اشعار کی زینت بن کر ان کے نظریۂ حیات کو مزید تقویت عطا کرتی ہیں۔

    کتابُ اللہ کی آیات کو اشعار میں استعمال کرنا ایک نہایت دقیق کام ہے لیکن یہ کام علامہؒ نے نہایت مہارت اور خوبی سے کیا ہے۔ اقبالؒ کی عقل اور دانائی فکرِ انسانی تک محدود نہیں بلکہ اس کے مآخذ قرآن و سنت بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام واضح اور ابہام سے پاک ہے۔

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار اور ادبی محقق طارق مرزا کے مضمون ‘اقبالؒ کے فکری مآخذ’ سے اقتباسات)

  • سقراط کا فلسفہ اور ہمارا معاشرہ

    سقراط کا فلسفہ اور ہمارا معاشرہ

    ہر فرد اپنی استعداد اور اہلیت کے مطابق کائنات اور اپنی ذات میں غور و خوض کرتا ہے۔

    ہر مفکّر اور مدبّر زندگی اور اپنے معاشرے کے افراد سے متعلق ایک خاص نظریہ اور فلسفہ رکھتا ہے اور اپنے سلیقے ذوق اور معلومات کے مطابق خوشی و غم سے لے کر مرگ و زیست تک اپنے وجود کی تاویل و تفسیر کرتا ہے۔

    جب انسان حقائق کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کائنات کی کوئی شے بھی اس کے تخیّل کی دست رس سے باہر نہیں رہتی اور وہ سقراط بنتا ہے۔

    جہانِ فلسفہ و دنیائے معرفت کا یہ عظیم معلّم یونان میں قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں دنیا کچھ نہیں جانتی، لیکن‌ افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا ایک دانا و حکیم اور روحانی بزرگ تھا۔ وہ فطرتاً اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا جس نے مسلسل غور و فکر کے بعد آخر عمر میں دیوتاؤں کا انکار کردیا اور اسے ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں موت کی سزا سنا دی تھی۔

    سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا برداشت، یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے، سقراط اور اس کے حلقے میں شامل افراد بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے نہیں الجھتے تھے۔

    کہتے ہیں کہ سقراط کی درس گاہ کا اصول تھا کہ اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا یا دھمکی دیتا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا، اسے فوراً درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔

    سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ نہیں ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔

    بقول سقراط اختلاف، دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔

    سقراط کا مشہور قول ہے: “اور عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔”

  • مقصد کا تعین، منزل تک رسائی، مگر کیسے؟

    مقصد کا تعین، منزل تک رسائی، مگر کیسے؟

    فلاسفر مقصد یا منزل کا تعین کرتا ہے اور ماہرِ تعلیم نفسیات اور عملی تجربہ کی مدد سے اس منزل تک پہنچنے کے لیے تعلیمی طریقے ایجاد کرتا ہے۔

    ان طریقوں کی بچوں کی تعلیم کے میدان میں زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اسی پر سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ چائلڈ ایجوکیشن سے میری مراد بارہ سال تک کے بچے کی تعلیم ہے۔

    اس سلسلے میں ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ علامہ اقبال کی صورت میں ہمیں ایک بہت بڑے فلاسفر ملے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان کا فلسفہ انسانی خودی اور اس کی نشوونما کا فلسفہ ہے بلکہ یہ جملہ انسانی شخصیت کا فلسفہ ہے یا دوسرے الفاظ میں ان کا فلسفہ وہ فلسفہ ہے جو انسانی شخصیت کی کلیت پر محیط ہے جس کا مغرب کے فلاسفر اور ماہرینِ نفسیات میں فقدان ہے۔

    ان کا پیغام آفاقی ہے۔ یوں تو کوئی قوم بھی آپ کے پیغام پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہے، لیکن بالخصوص اسلامی دنیا میں اس پیغام کی خاص اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے چائلڈ ایجوکیشن میں کوئی طریقۂ تعلیم ایجاد کرنا تو در کنار کسی مروجہ طریقہ کا ہی انتخاب نہیں کیا جسے اپنا کر بچوں کی تعلیم اور شخصیت کو اقبال کے فلسفہ کے مطابق صحیح بنیادوں پر استوار کرسکتے۔

    جہاں تک میرا خیال ہے مونٹیسوری طریقۂ تعلیم اگر صحیح معنوں میں اپنایا جائے تو بچے کی شخصیت میں اکثر و بیش تر وہ خصوصیات پیدا ہوسکیں گی جو کہ اقبال کے نزدیک بجا طور پر ارفع و اعلیٰ ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں اگر اقبال کے خیالات کو چائلڈ ایجوکیشن کے میدان میں عملی جامہ پہنانا ہو تو مونٹیسوری طریقۂ تعلیم اپنانا چاہیے۔

    مجھے اقبال کی اس بات میں بہت سچائی نظر آتی ہے کہ قدرت وقت کی ضرورت کو وجدانی طور پر ادراک کرتی ہے۔

    (ڈاکٹر نذیر قیصر کے علمی و تحقیقی مضمون سے انتخاب)