Tag: فلسفی

  • اسپین کا ناول نگار جس نے فلسفے کو داستان میں‌ سمیٹ لیا!

    اسپین کا ناول نگار جس نے فلسفے کو داستان میں‌ سمیٹ لیا!

    اسپین کے مشہور طبیب، فلسفی اور ریاضی داں کو دنیا ابنِ طفیل کے نام سے جانتی ہے، ان کا پورا نام ابو بکر محمد بن عبدالملک بن طُفیل القیسی تھا۔

    اس زمانے کے دستور کے مطابق انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد غرناطہ میں طبابت شروع کی۔ پھر صوبے کے گورنر کے ہاں ملازم ہوئے۔ کچھ عرصے بعد ایک فرماں روا ابو یعقوب یوسف کے دربار سے منسلک ہونے کا موقع ملا۔ بعد میں وزارت اور عہدۂ قضا بھی سونپ دیا گیا۔

    ابنِ طفیل کی ایک کتاب (ناول) اسرار الحکمتہ الاشراقیہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ فلسفیانہ مسائل پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی جو داستانوی انداز میں تحریر کی گئی۔ اس کا ترجمہ دُنیا کی اکثر زبانوں میں کیا گیا۔ کتاب کے مقدمہ کے بعد انھوں نے داستان کچھ اس طرح شروع کی ہے۔

    ایک شہزادی اپنے لڑکے کو جس کا کوئی باپ نہ تھا سمندر میں ڈال دیتی ہے۔ اور وہ بہتا بہتا ایک سنسان جزیرے پر پہنچ جاتا ہے۔

    اس لڑکے کو ایک ہرن لے جاتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے۔ جب یہ ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے آپ کو برہنہ اور غیر مسلح پاتا ہے۔ وہ پتوں سے اپنا جسم چھپاتا ہے اور درخت کی ایک شاخ سے چھڑی تیار کرتا ہے۔ اس طرح اسے سب سے پہلے اپنے ہاتھ کی قوت کا علم ہوتا ہے۔

    جب ہرن بوڑھا ہو کر بہت بیمار ہو جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ یہ بیماری کیا چیز ہے؟ اس کا سبب کیا ہے۔ ہرن مر جاتا ہے تب وہ ایک کوّے کو دوسرا مردہ کوّے زمین میں گاڑتے دیکھ کر ہرن کو بھی اسی طرح دفن کردیتا ہے۔

    اسی طرح وہ ذہانت سے سیکھتا ہے اور رگڑ سے آگ جلانا، مکان تیار کرنا سیکھتا ہے۔ رفتہ رفتہ نباتات اور معدنیات کا مطالعہ کرتا ہے اور غور و فکر کا عادی بنتا ہے۔

    یہ داستانوی فلسفہ دنیا بھر میں مشہور ہے اور انسان کے جہل سے علم تک کے سفر کی خوب صورت لفظی تصویر ہے۔

    ابنِ طفیل نہ صرف عربوں میں بلکہ دُنیا کے پہلے تخلیق کار مانے جاتے ہیں جس نے فلسفیانہ نظریات کو داستانوی شکل میں پیش کیا۔ ابنِ طفیل کا انتقال 1185 میں ہوا۔

    وہ علم و فن کے شائق اور باکمال لوگوں کی قدر کرتے تھے۔ کہتے ہیں انھوں نے ابنِ رشد کو بھی اپنے ساتھ دربار میں اعلیٰ مقام دلوایا اور ان کی موت کے بعد ابنِ رشد شاہی طبیب کے عہدے پر فائز ہوئے۔

  • فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    تاریخ کے اوراق الٹیں تو جہاں ہمیں بادشاہوں، سلاطین و امرا کے طرزِ حکم رانی، جنگوں اور خوں ریز معرکوں کی بابت حقائق، واقعات، حکایات اور طرح طرح کی داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں وہیں بعض بادشاہوں کے زندگی کے حالات اور دل چسپ واقعات ایسے بھی ہیں جو آج بھی ہمارے لیے عبرت آمیز اور سبق آموز ہیں۔

    اسی طرح صدیوں پہلے کی حکایات، کسی دانا و حکیم کی باتیں بھی ہمارے لیے زندگی میں راہ نما ثابت ہوتی ہیں۔ یوں تو ہم نے کئی حکایات پڑھ رکھی ہیں جنھوں نے ہمیں زندگی اور گزر بسر سے متعلق روشن اور اجلے اصولوں سے نہ صرف آشنا کیا بلکہ آج بھی ان کی اہمیت برقرار ہے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ یہ قصّے اور حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور کردار سازی کا ذریعہ ہیں۔

    تاریخ کا ایک کردار عمرولیث بھی ہے جسے ہم سب ایک حکم راں کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ عمرولیث اور اس زمانے کے ایک دانا کا یہ واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
    کسی فلسفی نے عمرولیث کو ایک عرضی کے ذریعے ایک مسئلے سے آگاہ کیا اور داد رسی چاہی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فلسفی نے عرضی کے آغاز میں شاہِ وقت کے لیے دعائیہ انداز میں لکھا کہ وہ طویل عمر پائیں، ہزاروں برس زندہ رہیں۔ کہتے ہیں عمرولیث ایک بدمزاج اور تندخو شخص تھا۔

    اس نے کاتب سے جواب لکھوایا کہ دانا لوگ ناممکن باتیں نہیں لکھا کرتے۔ تم نے عرضی کی ابتدا میں میرے لیے ہزاروں برس زندہ رہنے کی دعا کی ہے۔ میرا ہزاروں برس زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ عرضی کے باقی مندرجات کا بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔
    فلسفی اپنے فریاد نامے کا یہ حشر دیکھ کے عمرولیث کے پاس پہنچا اور بولا: ‘‘امیر اپنے فرمودات کے جواب کی اجازت دیں تو سائل کچھ عرض کرے۔’’

    اس نے بات کرنے کی اجازت دی تو فلسفی نے کہا: ‘‘انسان کی زندگی صرف جسمی نہیں ہے بلکہ ان نیکیوں سے بھی عبارت ہے جو انسان کے گزر جانے کے بعد بھی سلامت رہتی ہیں۔ نیکی کے بغیر زندگی زندگی نہیں، موت سے بدتر ہے۔

    عمرولیث کو یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے فلسفی کو شاد کام واپس کیا۔

  • علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    دنیا کے ذہین ترین ناموں میں سے ایک، عظیم ترین فلسفی سقراط کا نام کسی شخص کے لیے انجان نہیں ہے۔ اسے دنیائے فلسفہ کا عظیم ترین معلم مانا جاتا ہے۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد سے 470 سال قبل یونان میں پیدا ہونے والے سقراط نے یونانی فلسفے کو نئی جہت دی اور دنیا بھر میں فلسفی، منطق اور نظریات پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سقراط کے خیالات انقلابی تھے اور ایسے نظریات کی نفی کرتے تھے جس میں غلامی اور انسانی حقوق چھیننے کی حمایت کی جاتی ہو۔

    بے تحاشہ غور و فکر اور ہر شے کو منطقی انداز میں پرکھنے کی وجہ سے سقراط نے دیوتاؤں کے وجود سے بھی انکار کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلیل جبران کے اقوال

    سقراط کے خیالات کی وجہ سے نوجوان اس کے پاس کھنچے چلے آنے لگے جس کی وجہ سے یونان کے بر سر اقتدار طبقے کو محسوس ہوا کہ اگر سقراط کا قلع قمع نہ کیا گیا تو انہیں بہت جلد نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے اس پر مقدمہ درج کر کے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس وقت سزائے موت کے مجرم کو زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔

    زہر پینے کے بعد سقراط نے نہایت آرام و سکون سے اپنی جان دے دی۔

    وہ اپنے بارے میں کہتا تھا، ’میں کوئی دانش مند نہیں، لیکن ان احمق لوگوں کے فیصلے سے دنیا مجھے ایک دانش مند کے نام سے یاد کرے گی‘۔

    مزید پڑھیں: ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    زہر کا پیالہ پینے کے بعد اس نے کہا، ’صرف جسم مر رہا ہے، لیکن سقراط زندہ ہے‘۔

    آج ہم سقراط کے ایسے اقوال پیش کر رہے ہیں جو یقیناً آپ کے علم و دانش میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

    اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔

    خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔

    سب سے مہربانی سے ملو۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔

    میں کسی کو کچھ بھی نہیں سکھا سکتا۔ میں صرف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔

    ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔

    اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

    بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔

    علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔

    سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔

    اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

    تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔

    میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔

    حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔

    موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

    تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔

    میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

    مزید پڑھیں: عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

  • ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    کابل: افغانستان نے ایران اور ترکی کی جانب سے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو اپنا قومی ورثہ قرار دینے کی درخواست پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغان ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تہران اور انقرہ رومی کی تخلیقات کو مربوط کر رہے ہیں جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کے کتابچے ’عالمی یادیں‘ میں اپنے مشترکہ ثقافتی ورثے کی حیثیت سے جمع کروائیں گے۔

    rumi-3

    اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1997 میں اس کتابچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کتابچے کا مقصد خاص طور پر جنگ زدہ اور شورش زدہ ممالک کے ادبی ورثے کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔

    اس سلسلے میں رومی کو ’اپنا‘ ثقافتی ورثہ قرار دینے کی ترک اور ایرانی کوششوں کو افغانستان نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

    رومی بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان ثقافت و نشریات کی وزارت کے مطابق رومی ان کا فخر ہے۔

    ترجمان وزارت ہارون حکلیمی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’یونیسکو نے کبھی بھی ہم سے اس بارے میں رائے نہیں مانگی۔ لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اپنا دعویٰ ثابت کردیں گے‘۔

    rumi-4

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات کو 23 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    رومی کی زندگی پر ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے جس میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کر رہے ہیں۔

    بلخ کے گورنر جنرل عطا محمد نور نے اقوام متحدہ میں افغان نمائندے کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے اور اس پر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے، ’رومی کو صرف 2 ممالک تک محدود کرنا ناانصافی ہے۔ رومی ایک عالمی مفکر ہے اور دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں‘۔

    rumi-1
    رومی کی آرام گاہ

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    rumi-2

    افغانیوں کے مطابق رومی نے جہاں اپنے بچپن کا کچھ حصہ گزارا وہ گھر اب بھی بلخ میں موجود ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔

    رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔