آج کی دنیا کے فلم بینوں کو شاید یہ نام اجنبی سا لگے، مگر یہ نام وہ ہے جس میں اب سے بیسں، بائیس سال پہلے یعنی 35ء اور 37ء تک اتنی کشش تھی کہ محض اس نام پر ہی سنیماؤں کے شو کھچا کھچ بھر جایا کرتے تھے۔
اور یہ نام انڈین اسکرین کے بے حد خوب رو اور نوجوان ہیرو گل حمید کا نام تھا جس سے زیادہ حسین اور ڈیشنگ ہیرو فلمی دنیا آج تک پیدا نہیں کرسکی۔ گل حمید اتنا جاذبِ نظر اور خوبصورت ہیرو تھا کہ جسے پردۂ فلم پر دیکھ کر اندازہ ہونے لگتا تھا کہ جوانی اور مردانہ حسن اسی کو کہتے ہیں۔
لمبا تڑنگا، مگر سڈول جسم کا یہ ہیرو گل حمید پشاور کا رہنے والا تھا۔ پٹھان تھا مگر اردو اتنی شستہ اور صاف بولتا تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ لب و لہجہ غائت درجہ پُرکشش اور بے عیب تھا۔
اور یہ وہ ہیرو تھا جسے فلمی دنیا سے متعارف کرانے کا سہرہ میاں عبد الرشید کاردار کے سر ہے۔ پہلی مرتبہ وہ انھیں کی تصویر میں جلوہ گر ہوا تھا جو میاں کاردار نے لاہور میں بنائی تھی۔
سلطانہ، چندر گپت، سیتا، باغی سپاہی اور سنہرا سنسار اُس کی خاص فلمیں ہیں۔ خیبر پاس، اُس کی اپنی ڈائرکٹ کردہ فلم تھی جس میں زندگی میں پہلی بار منظر خاں نے ڈاڑھی لگا کر باپ کا رول ادا کیا تھا ۔ فلم خیبر پاس سرحدی پٹھانوں کی زندگی کا حسین مرقع تھی جس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ گل حمید کی یہ پہلی فلم تھی جسے اُس نے خود ہی لکھا تھا اور خود ہی ڈائرکٹ بھی کیا تھا۔ ہیرو بھی وہ خود ہی تھا اور اس میں مظہر خاں ولن نہیں تھے بلکہ انھوں نے ایک شفیق باپ کا رول انجام دیا تھا۔ اور اس فلم میں عبد الرحیم پہلوان تھے جو گل حمید کے رشتے کے بھائی بھی تھے۔ ہیروئن پیشنس کوپر تھی۔
اور اس فلم نے اُس زمانے میں ریلیز ہو کر ناقابلِ فراموش مقبولیت حاصل کی تھی۔ اور ایسٹ انڈیا فلم کمپنی کلکتہ نے اس پر کافی اچھا بزنس بھی کیا تھا۔
گل حمید کی زندگی نے وفا نہ کی۔ اور وہ ایک جان لیوا مرض کا شکار ہو کر مر گیا۔ سنہرا سنسار اس کی آخری فلم تھی جسے دیوکی بوس نے ڈائرکٹ کیا تھا۔
گل حمید سے میری ملاقات کلکتہ میں ہوئی تھی ۔ اور اس وقت ہوئی تھی جب کہ وہ شدید طور پر بیمار تھا۔ اور کلکتہ سے اپنے وطن واپس جا رہا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ عادل رشید صاحب مجھے معلوم ہے کہ میں مر جاؤں گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ میرے دل کی یہ سب سے بڑی آرزو بھی مر جائے گی کہ میں ہالی وڈ کی فلموں میں کام کروں۔ ہالی وڈ میری زندگی کا وہ حسین خواب ہے جس کی تعبیر سے پہلے ہی میری زندگی مجھ سے اپنا دامن چھڑا رہی ہے۔ کاش میں کچھ دن اور جی سکتا۔ اور اگر میں جی سکوں گا تو اپنے خواب کی تعبیر مجھے مل جائے گی اور پھر مر جانے میں مجھے کوئی عار نہ ہوگا۔ میں یہ نہ سمجھوں گا کہ میں ناکام و نامراد ہوں۔
مگر گل حمید کی یہ سب سے بڑی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ اور وہ اپنے وطن جاکر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اور انڈین اسکرین ایک عظیم الشان ہیرو سے محروم ہوگئی۔
گل حمید مرگیا اور اُس کے مداحوں کے دل ٹوٹ گئے۔ نازک اندام حسیناؤں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے سمندر بہہ نکلے۔ اور دو لڑکیوں نے تو گل حمید کی موت کی خبر سن کر خود کشی کر لی۔ اور اتنا بڑا مرتبہ، ہیرو پرستی کی اتنی بڑی مثال ہندوستان میں آپ کو نہ تو پہلے کبھی ملی ہے اور نہ آئندہ کبھی مل سکتی ہے۔
پارو دیوی کا یہ شخصی خاکہ اور اس سے جڑے واقعات معروف افسانہ نگار اور کہانی نویس سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلے ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب سعادت حسن منٹو ایک فلم کمپنی کے ملازم تھے اور ایک پروپیگنڈہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے کا کام انھیں سونپا گیا تھا۔ وہیں انھیں ایک روز پارو نام کی یہ لڑکی نظر آتی ہے جسے اس پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر کام دیا گیا تھا۔ منٹو لکھتے ہیں:
مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘
"دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔ ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”
"اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”
"جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔
صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”
"دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”
"پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”
"کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”
"جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”
"دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”
"پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”
"پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”
"پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”
"شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”
"ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”
متحدہ ہندوستان میں پہلی بولتی فلم بنانے والے اردشیر ایرانی تھے اور اس کی فلم کا نام تھا عالم آراء۔ یہ مارچ 1931 کی بات ہے اور پھر بمبئی، کلکتہ اور لاہور کے فلمی مراکز میں بولتی فلمیں بنانے کا گویا ایک مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس دور میں کئی نئے چہرے بھی پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے اور کام یابیاں سمیٹیں۔ ان میں دو بہنیں اندو رانی اور سروجنی بھی شامل تھیں۔
اُس دور میں انگریزی کلچر سے متأثر گھرانوں کو چھوڑ کر اکثریت خواہ مسلمان ہوں، ہندو یا سکھ اور عیسائی فلم میں کام کرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ عشرت جہاں اور اس کی بڑی بہن روشن جہاں اسی ہندوستانی معاشرے کا حصّہ تھیں جس میں لڑکوں کا بھی فلمی دنیا میں قدم رکھنا آسان نہیں تھا، اور ان حالات میں عام اور روایتی گھرانوں کی لڑکیاں تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ لیکن ان کی والدہ منور جہاں ایک ایسے گھرانے کی عورت تھیں جہاں انھیں لڑکی ہونے کے باوجود تعلیم بھی دلوائی گئی اور انھوں نے ملازمت بھی کی۔ اس کے باوجود ان کی بیٹیوں کا فلم میں کام کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ یہ اُس وقت ہوا جب والد شیخ امام الدّین کو مالی مشکلات نے گھیر لیا اور وہ مقروض ہوگئے۔ تب وہ اپنی بیٹیوں کو فلم میں کام دلوانے کی غرض سے خود پُونا لے گئے۔
شیخ صاحب کی سات اولادیں تھیں۔ وہ دہلی کے ایک متوسط گھرانے کے فرد تھے جس میں عشرت جہاں نے 1922ء میں آنکھ کھولی۔ روشن جہاں اس سے بڑی تھی۔ ان دونوں کی والدہ منوّر جہاں ہندوستان کے مشہور حاذق طبیب اور علمی شخصیت حکیم اجمل خان کے اسکول کی اوّلین طالبات میں سے ایک تھیں۔ وہ ایک معالج کی حیثیت سے دو شاہی ریاستوں میں کام کرکے اپنے کنبے کی کفالت کرتی رہیں۔ جب کہ شیخ امام الدّین کو جوا کھیلنے کا شوق منہگا پڑ گیا۔ وہ مقروض ہوگئے تھے۔
ایک روز انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی روشن جہاں نے ایک فلم اسٹوڈیو سے خط کتابت کی ہے اور انھیں مثبت جواب ملا ہے۔ ان کی بیٹی روشن جہاں نے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سرسوتی فلم اسٹوڈیو کو اپنے مکتوب کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھیجی تھی۔ وہاں سے انھیں 300 روپے ماہانہ کی نوکری کی پیشکش کی گئی۔ والد نے پہلے تو اپنی بیٹی کو اس جرأت پر خوب مارا اور بڑی درگت بنائی۔ مگر پھر خیال آیا کہ بیٹیوں کی کمائی سے وہ قرض سے نجات پاسکتے ہیں۔
وہ عشرت جہاں اور روشن جہاں کے ساتھ پونا پہنچ گئے جہاں فلم ساز ایسے خوب صورت چہروں کی تلاش میں رہتے تھے جو اردو یا ہندی روانی سے بول سکتے تھے۔ ان بہنوں کو دادا صاحب ٹورن کی کمپنی بنام سرسوتی سینیٹون میں کام مل گیا اور عشرت جہاں کو اندو رانی جب کہ اس کی بہن روشن جہاں کو سروجنی کے نام سے بڑے پردے پر متعارف کروایا گیا۔ ان کو حسبِ وعدہ ماہانہ 300 روپے تنخواہ ملنے لگی۔ والد نے کمپنی سے تین ماہ کی پیشگی رقم لی اور دہلی لوٹ گئے۔ اندو رانی اور سروجنی کو اس نئے شہر میں ان کی نانی کا سہارے چھوڑا گیا تھا۔ پونا میں قیام کے دوران ان بہنوں کے ایک فلمی اداکار وسنت راؤ پہلوان کے ساتھ اچھے مراسم ہو گئے۔ وہ اسے ’’چاچا جی‘‘ کہتی تھیں۔
بطور اداکارہ اندو رانی نے پونا میں رہتے ہوئے سب سے پہلے ساوتری نامی مراٹھی فلم میں ایک چھوٹی بہن کا معمولی کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے یہ مراٹھی فلم فلاپ ہوگئی اور دادا صاحب تورنے کا اسٹوڈیو بند ہوگیا۔ اب ان بہنوں نے بمبئی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔
وسنت راؤ پہلوان کے مشورے سے انھوں نے بمبئی میں ایک ہندو کالونی میں فلیٹ کرایہ پر لیا اور یہاں 30 کی دہائی میں اندو رانی نے فدا وطن، پرتیما، بلڈاگ اور انصاف جیسی فلموں میں کام کیا۔ اسی زمانے میں اندو رانی کو ساتھی اداکار پریم ادیب سے محبت ہوگئی۔ لیکن وہ شادی کے لیے اپنے خاندان کی مخالفت مول لینے کی ہمّت نہ کرسکا تو اداکارہ نے اس سے دوری اختیار کرلی۔ بمبئی میں قیام کے دوران کئی پروڈیوسر ان بہنوں کے پاس آئے جن میں وی شانتا رام بھی شامل تھے۔ وی شانتا رام نے اندو رانی کو 300 روپے ماہانہ پر نوکری دینے کو کہا تو اداکارہ نے اپنی بہن یعنی سروجنی اور اپنے چاچا جی کے لیے بھی کام مانگا۔ شانتا رام نے اس کی بہن سروجنی کے لیے تو رضامندی ظاہر کی لیکن وسنت راؤ پہلوان کو قبول نہ کیا۔ اس لیے یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ پہلوان اس کے فوراً بعد بمبئی سے چلے گئے۔ ایک روز نام ور فلم ساز سہراب مودی اور کیکی مودی ان کے گھر آئے۔ سہراب مودی نے اندو رانی اور اس کی بہن سروجنی کو 450 روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا اور یوں وہ ان کے اسٹوڈیو پہنچ گئیں جس کا نام منروا مووی ٹون تھا۔ ابھی یہ سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ موہن پکچرز کے رمنک لال شاہ اور ان کے دوست نانا بھائی بھٹ نے بھی ان اداکاراؤں سے رابطہ کیا۔ رمنک لال سے معاملہ 500 روپے تنخواہ پر طے پایا اور اس طرح 1938ء سے دونوں بہنیں رمنک لال شاہ کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ سروجنی نے لگ بھگ دو درجن فلموں میں کام کیا۔ اس کی چھوٹی بہن اندو رانی نے بھی مرکزی اور سائڈ ہیروئن کے رول بہت عمدگی سے نبھائے۔
1939ء میں اندو رانی نے رمنک لال شاہ سے خفیہ شادی کرلی تھی۔ وہ 17 برس کی تھی۔ جب کہ سروجنی نے موہن پکچرز کے مرکزی ہدایت کار نانو بھائی وکیل سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا۔ 1943ء کے بعد ان کا فلمی سفر جیسے تھم گیا تھا۔ 1949ء میں ان کی آخری فلم ریلیز ہوئی اور پھر ان بہنوں کو مزید کام نہیں ملا۔ لیکن جب تک وہ فلموں سے خاصا پیسا بنا چکی تھیں۔
اندو رانی اور سروجنی نے تین فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا، اور یہ جادوئی کنگن (1940)، حاتم طائی کی بیٹی اور تاج محل تھیں۔ اندو رانی نے اپنے دور کے کئی مشہور ہیروز کے ساتھ کام کیا، جن میں پریم ادیب، جینت، جیون، یعقوب، مبارک، سشیل کمار، یوسف آفندی، نذیر وغیرہ شامل ہیں۔
رمنک لال شاہ اور اندو رانی دونوں بہت فیاض اور تعاون کرنے والے انسان تھے۔ ان کے چھے بچّے تھے۔ رمنک لال شاہ کا انتقال 1973 میں ہوا۔ اندو رانی امریکا منتقل ہو گئیں اور وہیں اپنے بیٹوں کے ساتھ باقی عمر کاٹ دی۔ اندو رانی 17 فروری 2012 کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی تدفین کیلیفورنیا کے ایک قصبے میں کی گئی۔
یوں تو مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب سے متعلق بے شمار فلمیں (نجمہ، طلاق، پالکی، میرے محبوب وغیرہ) بنتی رہی ہیں لیکن ایم ایس ستھیو کی ’گرم ہوا‘ (1973ء)، بی آر چوپڑا کی ’نکاح‘ (1982ء) اور ساگر سرحدی کی ’بازار‘ (1982ء) جیسی فلموں کو ایک خاص پہلو سے مسلم معاشرے کے سیاسی، معاشرتی اور ازدواجی رخ کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کی فقید المثال کوششوں میں گِنا جاسکتا ہے۔
عصمت چغتائی کے افسانے پر مبنی ’گرم ہوا‘ میں تقسیم ہند کے فوراً بعد منقسم مسلم خاندانوں کے کرب اور بدلے حالات میں ہم وطنوں کے بدلے ہوئے رویوں کے بیچ ان کی اپنی بقا کی جدوجہد میں پریشانیاں، شمالی ہند کے ایک جوتا ساز خاندان کی کہانی کے حوالے سے اس خوبی سے پیش کی گئی ہیں کہ آپ ان موسموں کی گرم ہوا کی تپش محسوس کرسکتے ہیں۔ اچلا ناگر کی لکھی ہندی کہانی پر مبنی ’نکاح‘ میں مسلم فیوڈل کلاس میں عورت کی حیثیت اور خانگی مسائل (نکاح، طلاق اور حلالہ) کو پیش کرنے کی جرأت کی گئی ہے۔ ساگر ہی کی لکھی کہانی ’بازار‘ میں حیدرآباد(دکن) میں جوڑے اور جہیز کی بدعت کی مار جھیلتے متوسط طبقے کی کم تعلیم یافتہ بِن بیاہی لڑکیوں کی بدحالی اور جاگیر دار سماج یا عرب شیوخ کے ذریعے ان کے استحصال کی دل سوز داستان پیش کی گئی ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں، پھر بھی ان فلموں کے اہم ترین کرداروں میں بالترتیب بلراج ساہنی، سلمیٰ آغا اور سپریا پاٹھک کی بے داغ اور لاجواب اداکاری کا اعتراف ضروری ہے۔
’نکاح‘ میں غلام علی کی آواز میں گائی ہوئی حسرت کی غزل ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘، سلمیٰ آغا کی دل ربا آواز میں حسن کمال کا کلام ’’ دل کے ارماں آنسوؤں میں۔۔۔‘‘ اور ’’دل کی یہ آرزو تھی کوئی۔۔۔‘‘ شامل ہے۔ اسی طرح ’بازار‘ میں خیام کی موسیقی کے ساتھ میر، مرزا شوق، مخدوم اور بشر نواز کا کلام لتا منگیشکر، جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، طلعت عزیز اور بھوپیندر کی آوازوں میں غالباً اپنے بہترین غنائی فارم میں محفوظ ہو گیا ہے۔
(وشوناتھ طاؤس کے مضمون مسلم معاشرہ اور ہندی فلمیں سے اقتباس)
آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔
پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
برزخ کیا ہے؟
عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔
اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
مرکزی خیال/ کہانی
مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔
وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔
اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔
پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے
یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔
مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔
مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔
ہدایت کاری
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔
ڈائریکٹر عاصم عباسی
اداکاری
اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔
تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی) اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔
اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔
حرف آخر
اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔
دنیا کی سب سے مشہور اور کام یاب فلم انڈسٹری ہالی وڈ نے کئی چہروں کو وہ شہرت اور پہچان دی جو دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ یہاں ہم ہالی وڈ کے ان مرد فن کاروں کا ذکر کررہے ہیں جنھیں ان کی بے مثال اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جیک نکلسن
جیک نکلسن ہالی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہیں جنھیں تین بار اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ 12 مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے لیے فہرست میں شامل کیے گئے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق مائیکل کین کے بعد جیک نکسن وہ واحد اداکار ہیں جنھیں 1960ء سے لے کر 2000ء تک ہر دس برس بعد آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اداکار جیک نکلسن نے آسکر کے علاوہ فلمی دنیا کے کئی معتبر اور معروف ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ جیک نکسن کی بہترین فلموں میں ”شائننگ، ایز گڈ ایز اٹ گیٹس ون فلیو اور ککوز نیسٹ“ کے نام لیے جاسکتے ہیں جن میں نکسن نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
مارلن برانڈو
مارلن برانڈو کا نام ”آل ٹائم گریٹیسٹ“ اداکاروں کی فہرست میں شامل ہے۔ برانڈو نے فلم کے پردے پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور وہ وقت آیا کہ برانڈو کروڑوں فلم بینوں کو متاثر کرنے والے اداکار بن گئے۔ فلم بین ہی نہیں ہالی وڈ کے کئی اداکار بھی مارلن برانڈو سے بہت متاثر تھے۔ فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ مارلن برانڈو ایک غیر روایتی اداکار تھے جن کے لیے انگریزی میں میتھڈ ایکٹر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مارلن برانڈو نے دو آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور آٹھ مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد کیے گئے۔ اداکار کی بہترین فلموں میں ”دی گاڈ فادر، آن دی واٹر فرنٹ اور لاسٹ ٹینگو ان پیرس کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
ال پچینو
فلمی دنیا کی تاریخ میں ال پچینو وہ نام ہے جس کی فنی عظمت کو بڑے بڑے فن کار تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کئی عشروں تک فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے اور پرستاروں کے ساتھ فلمی ناقدین کو بھی متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ 70ء کی دہائی میں ال پچینو نے جن فلموں میں کام کیا ان میں بلاشبہ وہ فنِ اداکاری کے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ال پچینو آٹھ بار آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور ایک بار آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔ اداکار نے جن فلموں میں لازوال کردار نبھائے ان میں ”سینٹ آف اے وومین“، ڈوگ ڈے آفٹر نون، دی گاڈ فادر پارٹ ٹو شامل ہیں۔
رابرٹ ڈی نیرو
نیویارک سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈی نیرو کے ماں باپ بھی فن کی دنیا سے وابستہ تھے اور اس جوڑے کے گھر آنکھ کھولنے والے ڈی نیرو کو بھی عظیم ترین اداکاروں میں شمار کیا گیا۔ ڈی نیرو کو ہالی وڈ کے کئی بڑے نام اور دوسرے فن کار اپنا رول ماڈل قرار دے چکے ہیں۔ ڈی نیرو نے دو بار آسکر ایوارڈ حاصل کیا اور سات مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زدگی عمل میں آئی۔ اس اداکار نے جن فلموں میں بے مثال اداکاری کی، ان میں ”رگنگ بل“، دی ڈیئر ہنٹر اور دی گاڈ فادر (پارٹ ٹو) شامل ہیں۔
ڈینیل ڈے لیوس
اداکار ڈینیل ڈے لیوس ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ناقابلِ فراموش کردار نبھائے اور شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ ڈے لیوس کا تعلق لندن سے تھا اور ان کے والد معروف شاعر جب کہ نانا بھی ایک مشہور شخصیت تھے۔ ڈے لیوس کو فن و ثقافت سے شروع ہی سے لگاؤ تھا اور وہ ایک باصلاحیت انسان تھے جس نے آگے چل کر برطانوی سنیما کی تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ انھیں بہترین پرفارمنس کی بنیاد پر تین آسکر ایوارڈ دیے گئے۔ ڈینیل ڈے لیوس کی بہترین فلموں میں لنکن، مائی لیفٹ نٹ، اور دیئر ول بی بلڈ شامل ہیں۔
ٹام ہنکیس
فلمی دنیا میں ٹام ہینکس کو ایک زبردست اداکار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جن کے حصّے میں اپنی بہترین پرفارمنس کی وجہ سے دو آسکر ایوارڈ آئے۔ وہ پانچ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے۔ ٹام ہنکیس کی مشہور فلموں میں فاریسٹ گمپ، فلاڈیلفیا اور سیونگ پرائیویٹ ریان شامل ہیں۔
فلمی صنعت میں اپنی لاجواب ادکاری اور بے مثال پرفارمنس سے کروڑوں لوگوں کو متاثر کرنے والے ان فن کاروں کی فہرست میں کئی اور نام بھی شامل ہیں جن کا ذکر کرنے کو ایک دفتر درکار ہے۔ ان فن کاروں کے علاوہ پال نیومین، جیمز اسٹیوورٹ، پیٹر اوٹول، انتھونی کوئن، ہنری فونڈا، گیری کوپر، کرک ڈگلس کے نام بھی فلمی تاریخ کے بہترین فن کاروں میں شامل ہے۔
میری زندگی کی پہلی فلم جو میں نے اپنے ابو اور ان کے برطانیہ سے آئے کزن کے ساتھ سنیما میں دیکھی وہ فلم اولاد تھی۔
فلمی ریکارڈ کے مطابق 10 اگست 1962 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس وقت میں تقریباً آٹھ برس کا تھا۔ اتنے بڑے اسکرین پر گھپ اندھیرے میں فلم دیکھنا میرے لیے ایک انوکھا، پُراثر، دل چسپ تجربہ تھا۔ اس فلم کو سنیما میں دیکھنے کے بعد کافی عرصہ تک اس فلم کے اثرات میرے ذہن پر رہے۔
پاکستان کے نامور مزاحیہ اداکار لہری جن سے میرے بہت اچھے اور گہرے مراسم ہو گئے تھے، ایک دن گفتگو کے دوران (تقریباً فلم کی نمائش کے 40 برس سے زیادہ عرصہ بعد) فلم اولاد کا ذکر آگیا۔ لہری صاحب نے فلم اولاد سے وابستہ یادگار واقعہ سنایا کہ فلم اولاد کی تکمیل کے بعد ہدایت کار ایس ایم یوسف اور ایف ایم سردار اس کے فلم ساز بنے۔ یہ فلم اس وقت کے رائج کاروباری اصولوں کے مطابق جب فلمی تقسیم کاروں کو دکھائی گئی تو انھوں نے اس فلم کی کہانی، اداکاری اور موسیقی کی بہت تعریف کی لیکن انھوں نے فلم کے ہدایت کار اور فلم ساز کو بتایا کہ اس فلم میں بس ایک بہت بڑی کمی رہ گئی ہے، وہ ہے اداکار لہری کی۔
چوں کہ اس وقت لہری صاحب بتدریج تقریباً ہر اردو فلم کا لازمی جزو بنتے جارہے تھے، اس پریشانی اور مشکل صورت حال کے ساتھ انھوں نے لہری صاحب سے رابطہ کیا۔ لہری صاحب نے فلم دکھانے کا کہا۔ فلم دیکھنے کے بعد لہری صاحب نے خود اپنے کردار کو تخلیق کرکے ان کے سامنے پیش کیا، جو انھوں نے جوں کا توں قبول کر لیا۔
لہری صاحب نے کہا یہ ان کا پہلا اور واحد تجربہ تھا۔ ایک مکمل شدہ فلم میں اپنا کردار شامل کرنے اور نبھانے کا۔ جو کام یاب رہا اور فلم بین کو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ لہری صاحب کا کردار بعد میں شامل کیا گیا ہے۔
فلم اولاد اپنے وقت کی باکس آفس پر ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں عورت کے کردار کو ماں کے روپ میں اور ماں کے ہاتھوں بچّوں کی تعلیم و تربیت کو بہت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم نے نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ نیّر سلطانہ اور وحید مراد نے اس فلم میں اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا تھا۔
(خلیل اے شیخ نے پاکستانی فلمی صنعت کے مختلف ادوار دیکھے اور فن کاروں سے قریب رہے۔ ان کی یادوں پر مبنی ایک مضمون فلمی جریدے "مہورت” میں شایع ہوا تھا جس سے یہ اقتباس لیا گیا ہے)
متحدہ ہندوستان میں فلم سازی کی ابتدا اور ناطق فلموں کے آغاز کے بعد اس زمانے کے روزناموں اور جرائد میں فلموں اور فن کاروں سے متعلق تفریحی و معلوماتی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت مقبول ہوئے۔ یہاں ہم ایک اداکارہ کی عیّاشی، فضول خرچی کی عادت اور اس کے بدترین انجام کا قصّہ نقل کررہے ہیں جو بظاہر مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ اداکارہ کا نام تھا نازنین بیگم اور ان سے متعلق یہ قصّہ فلمی دنیا کی معلومات پر مشتمل کتاب سے لیا گیا ہے۔
برِصغیر میں فلموں کے ابتدائی دور کے بارے میں مختلف رسائل و جرائد سے نقل کردہ معلومات کو کتابی شکل دینے والوں میں الف انصاری بھی شامل ہیں۔ اپنے وقت کے مقبول ترین اداکاروں کے بعض غیرمصدقہ واقعات اور ان سے متعلق غیر مستند باتیں سستی شہرت اور مالی فائدے کے پیشِ نظر بھی قلم کاروں نے اپنے مضامین میں شامل کی ہیں اور یہی سنی سنائی باتیں اور افواہوں تحقیق کیے بغیر کتابوں کا حصّہ بنا دی گئیں۔ لیکن اداکارہ نازنین بیگم کی عیّاشی اور فضول خرچی کا قصّہ الف انصاری کی کتاب "فلمی معلومات” میں شامل ہے اور وہ ایک ذمہ دار قلم کار رہے ہیں۔ الف انصاری نے ادب، فلم اور اسپورٹس کے موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔ وہ اپنی کتاب "فلمی معلومات” سے متعلق لکھتے ہیں کہ 1980ء سے اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں بے شمار فلمی اخبارات، جرائد اور رسائل کی ورق گردانی کے دوران جو معلومات حاصل ہوتی رہیں، میں انہیں نوٹ کرتا رہا اور یوں برسوں کی تحقیق کے بعد یہ کتاب منظرِ عام پر آسکی۔
اداکارہ نازنین بیگم کے بارے میں الف انصاری کی کتاب میں لکھا ہے: نازنین بیگم بہت دولت مند ہیروئن تھیں۔ وہ ہیروں سے جڑی رسٹ واچ (گھڑی) اپنی ایڑی کے سینڈل پر باندھے رکھتی تھیں۔ جب کوئی ان سے پوچھتا کہ کیا وقت ہوا ہے تو وہ بڑی شان سے اپنا سینڈل اس کے قریب لے جاتیں۔
اداکارہ نازنین جب بہت مقبول ہوئیں اور دولت قدم چومنے لگی تو وہ ہزار کے نوٹ کو لپیٹ کر اس میں تمباکو بھر کر سگریٹ بناتی تھیں اور دن بھر میں تقریباً ایک درجن سگریٹ پی جاتی تھیں۔ لیکن ایک دن وہ صرف ایک رات میں اپنی ساری دولت جوئے میں ہار گئی۔ آخر عمر میں پاگل ہو کر مری۔
واضح رہے کہ برصغیر میں اوّلین بولتی فلم "عالم آرا” کے بعد دھڑا دھڑ فلمیں بننے لگی تھیں۔ اسی دور میں نازنین بیگم نے بھی بطور اداکارہ قسمت آزمائی تھی۔ نازنین بیگم کی بطور اداکارہ پہلی فلم "میڈم فیشن” یکم جنوری 1936 کو ریلیز کی گئی تھی۔
نازنین بیگم اس دور کے ایک امیر خاندان کی چشم و چراغ تھی۔ جدّن بائی ہندوستان میں سنیما کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک تھیں۔ وہ گلوکار، موسیقار، رقاص اور اداکار کے طور پر ہی مشہور نہیں تھیں بلکہ ان کا نام ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی فلمی تاریخ کا حصّہ ہے۔ میڈم فیشن جدّن بائی ہی کی فلم تھی جس میں نازنین کو کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ جذباتی رومانوی فلم تھی جس کی کہانی ایک رحم دل اور نیک صفت لڑکی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ لڑکی اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے محنت اور لگن سے آگے بڑھتی ہے، لیکن اس دوران اسے کئی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ ایک شخص کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے جو اس کی ہمّت بندھاتا ہے اور ہر موقع پر اس کا ساتھ دیتا ہے، لیکن بدقسمتی آڑے آجاتی ہے اور وہ لڑکی پھر بدترین موڑ پر آکھڑی ہوتی ہے۔ اس لڑکی کا نام لکشمی تھا۔
پھر جب میں نے یہ سنا کہ نرگس دت کو سلون کیٹیرنگ میموریل لے جایا جا رہا ہے (وہی اسپتال جہاں میں اپنے والد کو لے گیا تھا) تو مجھے ایک مخلص اور ضعیفُ العمر امریکی خاتون کی وہ بات یاد آ گئی جو اس نے مجھے اس وقت کہی تھی۔
میں اسپتال کے ویٹنگ روم میں کھڑا تھا جب اس خاتون نے اپنی آنسو بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھا!
"میرے بیٹے!! ایسا نہیں کہ کوئی اسپتال اچھی جگہ ہو، لیکن بالخصوص یہ اسپتال بہت منحوس جگہ ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک بار تم یہاں آ گئے تو۔۔۔۔ ” اور پھر وہ ہچکیاں لینے لگی۔
اور حقیقتاً یہ اسپتال بہت منحوس جگہ ثابت ہوئی جیسا کہ اس شریفُ النفس امریکی خاتون نے کہا تھا۔ اس موذی مرض کے بارے میں سبھی جانتے تھے جس سے مسز دَت نبرد آزما تھیں، پھر بھی ہم عیادت میں مصروف رہے، دعائیں کیں اور یہ امید باندھے رکھی کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ مسٹر دَت نے اپنی بیوی کی تیمار داری جس عقیدت اور لگن سے کی اسے دیکھتے ہوئے ہماری یہ خواہش تھی کہ معجزہ اگر ساوتری اور سیتا دن کے ساتھ ہو سکتا ہے تو اس مرتبہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہماری آرزو تھی کہ وہ بدترین حالات سے کام یاب و کامران لوٹیں مگر یہ نہ ہو سکا۔
یہ بات نہ ہو سکی اور یہ ہمارے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ صدمہ صرف ان کی موت کا نہیں کیونکہ انہیں کم از کم اذیتوں اور تکالیف سے نجات مل گئی لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہیں۔ اس سفید پوش خاتون نے اپنی زندگی میں بہت کام یابیاں حاصل کیں۔ اور صرف فلموں ہی میں نہیں، فلموں میں تو خیر وہ چند بہترین ہندوستانی اداکاراؤں میں سے ایک تھیں لیکن اس کے علاوہ وہ اپنی سرزمین کی بہترین ہندوستانی خاتون تھیں۔ انہوں نے جو بھی کام کیا خلوص، ہمدردی، محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا۔
سلون کیٹیرنگ میموریل اسپتال کے ڈاکٹر میرے والد سے کہا کرتے تھے: "جناب، آپ کو کینسر ہے۔”
اور میرے والد ہنس دیا کرتے تھے۔ امریکی ڈاکٹروں کو اس بات پر بھی تعجب تھا کہ ایک بیٹا جو خود کئی بچوں کا باپ ہے، اپنے والد کو اسپتال لے آیا اور اس کے ساتھ رہا۔ آج کی امریکی تہذیب کے لیے یہ ایک عجیب و غریب بات تھی۔ جہاں اگر ان کے والدین بیمار پڑتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ نیک خواہشات کا کارڈ بھجوا دیتے ہیں، یا پھر گلدستے روانہ کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی ان کے جذبات وہی ہوں گے جب انہوں نے مسٹر دت اور ان کے بچوں کو مسز دت کی تیمارداری کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
1920ء میں جب پرتھوی راج نے فلمی دنیا سے اپنا رشتہ جوڑا تو وہ ایک پڑھے لکھے، مہذب اور اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے اور انہوں نے فلمی دنیا کے گھٹیا اور بد کردار امیج کو اونچا کرنے کی کوشش کی تھی۔ سنیل دت نے اپنے خاندان کے تعلق سے جس پُرخلوص عقیدت کا مظاہرہ کیا، اس سے انہوں نے اس امیج کو اور زیادہ باوقار اور بلند بنایا۔ مجھے ان پر فخر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنا تن من دھن سب نچھاور کر دیا۔ وہ نرگس دت کے برابر قوت اور بہادری کے ایک ستون کی طرح کھڑے رہے۔
ہم میں سے وہ جو مسز دت کو جانتے تھے یا ان کی مصروفیات کو جانتے تھے۔ جیسے معذور بچوں کی فلاح و بہبود میں انہیں دل چسپی تھی، آج یہ عہد کریں اور مجھے امید ہے کہ وہ کریں گے کہ ان کو قائم رکھنے کے لیے ہم ان کے ادھورے خوابوں اور کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
نرگس میں جو عورت موجود تھی وہ ایک بے مثال عورت تھی۔ وہ مسلمان اور ہندو والدین کی اولاد تھیں۔ ان کی پرورش موسیقی اور رقص کے ماحول میں ہوئی تھی۔ ان کی ذات میں تمام تہذیبوں کی عمدہ باتیں موجود تھیں۔
پھر جب وہ جوان ہوئیں تو ایک مہذب، تعلیم یافتہ زندہ دل شخصیت کی طرح دنیا کے سامنے آئیں اور اپنے اطراف کے ماحول میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ اپنے اطراف کی ہر چیز سے وہ رابطہ قائم کرنا چاہتی تھیں، اپنے آپ میں اور اپنے اطراف کے ماحول میں مطابقت پیدا کرنا چاہتی تھیں، اسی لیے انہوں نے فلموں میں جو کردار ادا کیے ہیں وہ صرف فلمی کردار نہیں تھے بلکہ ایسے کردار تھے جو انہوں نے جیے تھے، اپنے پر بھگتے تھے۔
معمولی معمولی باتیں بھی ان کے لیے بہت معنی رکھتی تھیں۔ تقریبات کے دوران یا عوامی جلسوں میں وہ دور سے تماشا نہیں دیکھا کرتی تھیں۔ چاہے امیر ہو یا غریب، اونچی ذات کا ہو یا نچلی ذات کا وہ سب کے ساتھ بیٹھتیں، کھانا کھاتیں، جونیئر اداکاراؤں کے بال سنوارنے لگ جاتیں یا ان کے لباس درست کرنا شروع کر دیتیں۔ انہیں اپنے سپر اسٹار ہونے کا گھمنڈ کبھی بھی نہیں رہا۔ یہ تمام حرکتیں وہ دکھاوے کے لیے نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں ایسے صحافی نہیں ہوا کرتے تھے جو سیٹس پر آ کر تصویریں کھینچتے ہیں، ان کے برتاؤ میں سادگی تھی، ان کے سفید لباس میں سادگی تھی۔ ان میں بناوٹ ، دکھاوا یا نام نہاد اسٹار پن نہیں تھا وہ ایک انتہائی سادہ اور حقیقت پسند خاتون تھیں۔
خلوص و محبت اور بے پناہ صلاحیتیں انہیں اپنے والدین کی طرف سے ملی تھیں۔ کئی لوگ انہیں جانتے تھے، میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک جنہیں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
(نرگس کو میرا آخری سلام از راج کپور، رسالہ فن اور شخصیت (نرگس دَت نمبر) 1984ء)
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام، فلم سازی کا آغاز، اس کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں ایک نام آغا جی اے گل کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔
آغا جی اے گل نے لاہور میں ایورنیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معماروں اور سرپرستوں میں سے ایک آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983 کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔
آغا جی اے گل کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913 کو پیدا ہوئے تھے۔ بحیثیت فلم ساز انھوں نے فلم مندری سے خود کو متعارف کروایا اور اس کے بعد سنیما کو ایورنیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔
ایورنیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کرنے والے آغا جی اے گل لاہور کے ایک قبرستان میں محوِ خوابِ ابد ہیں۔