Tag: فلمی شاعر

  • ابراہیم اشک: مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ابراہیم اشک: مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ابراہیم اشک کو بولی وڈ فلم فلم ’کہو نہ پیا ر ہے‘ سے بطور گیت نگار بے مثال شہرت ملی۔ بولی وڈ کی اس کام یاب فلم میں اداکار ریتھک روشن پہلی مرتبہ بطور ہیرو اسکرین پر نظر آئے تھے۔ فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور ابراہیم اشک کا بولی وڈ میں سفر اسی فلم کی بدولت آگے بڑھا۔

    ابراہیم اشک بھارت کے ان شاعروں اور اہلِ‌ قلم میں‌ سے ایک تھے جنھوں نے اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھا۔ وہ 16 جنوری 2022ء کو ممبئی میں کورونا کی وبا میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی تیسری برسی ہے۔ ابراہیم اشک کو ممبئی کے نواح میں قائم ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ ہفتہ بھر زیر علاج رہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    شاعری کے ساتھ ابراہیم اشک نے کہانیاں اور ٹی وی ڈراموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کا پیشہ صحافت تھا۔ وہ ہندوستان کے متعدد اردو اخبارات سے منسلک رہے۔ ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، وہ بھارت کے معروف شعرا میں سے ایک تھے۔ ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے علاوہ ادبی تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ابراہیم اشک کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا ثبوت ہیں۔

    مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک کا تعلق اجین، مدھیہ پردیش سے تھا جہاں وہ 20 جولائی 1951ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی مکمل ہوئی، بعد میں ابراہیم اشک نے ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔

    وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئے تو اشک تخلّص اختیار کیا۔ بولی وڈ کی فلموں کہو نہ پیار ہے کے علاوہ کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے وہ فلمیں تھیں جن کے گیت ابراہیم اشک نے تحریر کیے اور ان فلموں کے گیت مقبول ہوئے۔ بھارتی فلم انڈسٹری اور گائیکی کی دنیا کے معروف ناموں نے ان کے تحریر کردہ نغمات گائے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    فلم کہو نہ پیار ہے، جس نے بطور نغمہ نگار ابراہیم اشک کو مقبولیت دی، اس کے گیتوں کو شاعر کی کام یابی میں اوّلین اور سرفہرست کہا جاسکتا ہے۔ اس فلم کی ہدایات ریتھک روشن کے والد راکیش روشن نے دی تھیں۔ فلم میں ریتھک روشن کے مقابل امیشا پٹیل ہیروئن کے طور پر جلوہ گر ہوئی تھیں۔ فلم کے دوسرے کرداروں میں انوپم کھیر، جونی لیور اور فریدہ جلال شامل تھیں۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد یہ بات فلم بینوں کے لیے دل چسپی سے خالی نہ تھی کہ ہیروئن کا کردار بولی وڈ اداکارہ کرینہ کپور کو آفر کیا گیا تھا لیکن ان کے انکار کے بعد امیشا پٹیل نے اس فلم میں کام کیا۔ فلم نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے تھے۔ اس سال فلم کہو نہ پیار ہے کی ریلیز کو 25 سال مکمل ہوگئے ہیں۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    بطور شاعر مشیر کاظمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی لازوال گیت تخلیق کیے، جنھیں پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور آج بھی ان کے فلمی گیت بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    مشیر کاظمی اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 1975ء میں‌ وفات پانے والے مشیر کاظمی کا تعلق انبالہ سے تھا۔ وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیا، پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور آ گئے جہاں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لاجواب گیت تخلیق کیے۔

    فلمی دنیا میں بطور نغمہ نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا اور کام یاب نغمہ نگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی نے چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی کام کیا۔ایک ایسی ہی مشہور فلم بشیرا تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اس موقع پر معاون اداکار مشیر کاظمی کے ساتھ ہیرو کے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فلم بینوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدابہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت ان کی پہلی کام یاب ترین فلم دوپٹہ میں شامل ہوا جو 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ ملّی نغمات اور افواجِ پاکستان سے یکجہتی کے لیے کی گئی مشیر کاظمی کی شاعری ان کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ہے۔

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا۔‘‘ یہ گیت آپ نے بھی شاید سنا ہو، جو محبّت بھرے اور بے قرار دل کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ گیت تسلیم فاضلی کی یاد دلاتا ہے جو 1982ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں سے ایک ہیں‌ جنھیں‌ نوجوانی ہی میں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد شہرت اور مقبولیت مل گئی۔ 17 اگست کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرجانے والے اس شاعر نے دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ تسلیم فاضلی اردو کے مشہور شاعر دعا ڈبائیوی کے فرزند تھے۔ یوں ادبی ذوق انھیں‌ ورثے میں ملا اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے اور فلمی دنیا میں‌ اپنی خوب صورت شاعری کی بدولت نام بنایا۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور کئی کام یاب فلموں کے لیے انھوں نے خوب صورت گیت لکھے۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے نغمات تحریر کرنے پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ اپنے زمانۂ عروج میں تسلیم فاضلی نے اس وقت کی معروف اداکارہ اور مقبول ہیروئن نشو سے شادی کی تھی۔

    فلم انڈسٹری کے اس باکمال تخلیق کار نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور ایسے گیت لکھے جو دلوں کو چُھو گئے اور پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی بہت مقبول ہوئے۔ ان کی مشہور غزل فلم زینت میں شامل کی گئی جس کا مطلع یہ ہے۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ وہ گیت ہے جو آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور اسے بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اسی گیت نے تسلیم فاضلی پر شہرت کے دَر وا کیے تھے جس کے بعد انھیں بطور شاعر کئی فلموں کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا اور وہ صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے متعدد گیت لازوال ثابت ہوئے جن کے بول ہیں، یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، کہانی محبت کی زندہ رہے گی، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی۔

    یہ نغمات فلمی شاعری میں‌ کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور تسلیم فاضلی کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف شاعر مسرور انور یکم اپریل 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ فلمی گیتوں کے علاوہ مسرور انور کئی لازوال اور یادگار قومی نغمات کے بھی خالق ہیں۔

    مسرور انور کا اصل نام انور علی تھا۔ 6 جنوری 1944ء کو شملہ میں پیدا ہونے والے انور علی نے قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں سے میٹرک کے بعد انھوں نے پی آئی اے میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن ادبی رجحان اور شاعری کا شوق انھیں ریڈیو پاکستان لے آیا جہاں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    ریڈیو پاکستان پر معروف اداکار اور صداکار ابراہیم نفیس کے توسط سے انھیں فلم ساز اور ہدایت کار اقبال شہزاد سے ملاقات کا موقع ملا جنھوں نے مسرور انور کو فلم بنجارن کے نغمات لکھنے کی پیش کش کی۔ یہ فلم کام یاب رہی اور مسرور انور کا فلمی شاعر کی حیثیت سے سفر شروع ہوا، بعد میں انھوں نے فلم شرارت اور بدنام کے گیت لکھے۔ فلم انڈسٹری میں‌ ان سے ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان اور دوراہا جیسی فلموں کے نغمات لکھوائے گئے جنھوں نے مسرور انور کو بھی شہرت دی۔ ان کام یابیوں کے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں نثار بزمی کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی۔

    مسرور انور نے شاعری کے ساتھ متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے اور چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ ایسی ہی فلم سوغات ہے جو پاکستان کی شاہ کار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے، اپنی جاں نذر کروں، وطن کی مٹّی گواہ رہنا، جگ جگ جیے مرا پیارا وطن اور ہم سب لہریں، کنارا پاکستان مسرور انور ہی کے تخلیق کردہ قومی نغمات ہیں۔ انھیں سات نگار ایوارڈز ملے جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • شاعر ساحر لدھیانوی کو بچھڑے 37 برس گزر گئے

    شاعر ساحر لدھیانوی کو بچھڑے 37 برس گزر گئے

    کراچی: اپنی شاعری سے اہل ذوق پر سحر طاری کردینے والے شاعر ساحر لدھیانوی کو گزرے 37 برس گزر گئے لیکن ان کے گیت، غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں۔

    رومان اور انقلاب کے حسین امتزاج کے شاعر ساحد لدھیانوی 8 مارچ 1921ء کو بھارتی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے، ان کا حقیقی نام عبدالحئی تھا لیکن وہ ساحر کے نام سے مشہور ہوئے، انہوں نے بیک وقت ہندی اور اردو میں شاعری کی اور فلمی گیت لکھے۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا اور اسی دور سے شاعری شروع کردی، کالج میں ان کے ساتھ امریتا پریتم بھی تھیں اور ان ہی کے عشق کی پاداش میں ساحر کو کالج سے نکال دیا گیا۔

    انہیں اصل شہرت اس وقت ملی جب ان کے گیت بالی ووڈ انڈسٹری میں شامل ہوئے اور متعدد لیجنڈ اداکاروں پر فلمائے گئے، انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں پر بھی قلم اٹھایا اور اس موضوع کا حق ادا کردیا۔

    ان کا انتقال بام عروج پر 25 اکتوبر 1980 کو 59 سال کی عمر میں ممبئی میں ہوا اور ان کی تدفین وہیں ہوئی۔

    ان کے معروف گیتوں میں ’’ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘، ’’ میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘، ’’ گاتا جائے بنجارا‘‘، ’’گیت گاتا چل‘‘ شامل ہیں۔