Tag: فلمی شاعری

  • سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    بطور شاعر مشیر کاظمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی لازوال گیت تخلیق کیے، جنھیں پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور آج بھی ان کے فلمی گیت بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    مشیر کاظمی اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 1975ء میں‌ وفات پانے والے مشیر کاظمی کا تعلق انبالہ سے تھا۔ وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیا، پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور آ گئے جہاں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لاجواب گیت تخلیق کیے۔

    فلمی دنیا میں بطور نغمہ نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا اور کام یاب نغمہ نگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی نے چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی کام کیا۔ایک ایسی ہی مشہور فلم بشیرا تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اس موقع پر معاون اداکار مشیر کاظمی کے ساتھ ہیرو کے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فلم بینوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدابہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت ان کی پہلی کام یاب ترین فلم دوپٹہ میں شامل ہوا جو 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ ملّی نغمات اور افواجِ پاکستان سے یکجہتی کے لیے کی گئی مشیر کاظمی کی شاعری ان کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ہے۔

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    3 جولائی 2006ء کو ملک رحیم خان المعروف سکّے دار وفات پاگئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت فلم جبرو تھی جسے برطانوی راج پر ایک رجحان ساز فلم مانا جاتا ہے۔ اس فلم کے مکالمے اور منظر نامہ سکّے دار کا تحریر کردہ تھا۔

    ملک رحیم خان 1927ء کو لاہور کے قریب گاؤں نیاز بیگ میں پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے فلم نگری میں کہانی کار اور مکالمہ نویس کے طور پر نام بنایا اور اداکار و نغمہ نگار کے طور پر بھی کام یاب ہوئے۔ ایک فلم میں انھوں‌ نے ہندو بنیے کا کردار نبھا کر ناقدین سے خوب داد پائی۔ رحیم سکّے دار کو مکالموں‌ کی ادائیگی میں کمال حاصل تھا۔ ان کے لکھے ہوئے مکالمے اور فلموں کا اسکرپٹ جان دار ہوتا تھا۔

    رحیم سکّے دار چند کتابوں‌ کے مصنّف بھی تھے جو فلم نگری سے وابستہ شخصیات اور ان کے فن پر معلومات کا خزانہ ہیں۔ ان میں مشہور فلمی شاعر تنویر نقوی پر لکھی گئی کتاب بھی شامل ہے۔

    آج بہت کم لوگ رحیم سکّے دار کے نام اور ان کے کام سے واقف ہیں۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ لکھا۔ ان کا پنجابی شاعری پر مشتمل مجموعہ الاپ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    رحیم سکّے دار کی فلمیں‌ 60 اور 70 کی دہائی میں‌ خاصی مقبول ہوئیں۔

  • معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    18 جون 1998ء کو معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی وفات پاگئے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان کے اُن تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آجانے کے باوجود ان کا نام اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھارتی فلم انڈسٹری میں تذکرہ ہوتا رہا۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا جیسے مقبول گیت دیے تھے۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔